سید رافع
محفلین
میری راحت کاظمی سے دو دفعہ ملاقات ہوئی۔ ایک دفعہ سن ٢٠٠۵ میں برسر راہ اختر کالونی ڈیفنس کے سگنل پر اور دوسری دفعہ حبیب یونیورسٹی میں ایک کتاب کی تقریب رونمائی کے بعد چائے وغیرہ کے ریفریشمنٹ پر۔
جب پہلی دفعہ ملاقات ہوئی تو راحت ایک سیاہ رنگ کی کلاسک اور طویل پرانی لگژری گاڑی میں بیٹھے تھے۔ میں اپنی گاڑی میں تھا۔ انہوں نے کلاسی اسٹائل میں میری طرف اشارہ کر کے کہا میاں ابھی سگنل سرخ ہے اور آپ کافی آگے کھڑے ہیں۔ پھر سگنل سبز ہونے پر وہ اپنی اور میں اپنی راہ ہو لیا۔
دوسری ملاقات ٢٠١٧ میں حبیب یونیورسٹی کے مین کیمپس میں ہوئی۔ یونیورسٹی موقع با موقع لوگوں کو مختلف سیمینارز میں مدعو کرتی رہتی ہے۔ راحت صاحب کے ساتھ کسوٹی والے غازی صلاح الدین میزبانی کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ بہت دلچسپ گفتگو تھی۔ تقریب کے بعد تمام مہمان اور راحت صاحب چائے کے لیے باہر آگئے اور انکے ساتھ میری ایک لمبی بات چیت ہوئی۔ بہت خوش پوشاک انسان ہیں۔ کافی مایوس اور افسردہ تھے۔ کہنے لگے کہ ہمارا ارادہ تو دلیپ کمار کو پیچھے چھوڑنے کا تھا لیکن خیر۔ مجھے دعوت دی کہ آپ آرٹس کونسل کراچی آیا کریں وہاں آئے دن اس نوع کے فنکشن ہوتے رہتے ہیں۔ اور بھی باتیں ہوئیں۔ بعد از چائے میں انہیں وہاں سے ودع کر کے گھر کی طرف ہو لیا۔
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے