الف عین
لائبریرین
نام کتاب رازِ حیات
شاعر خضر ناگپوری
ناشر شاید خود مصنّف
صفحات 210
قیمت 100 روپئے
مبصّر اعجاز عبید
اردو شاعری بطور خاص ہند وپاک میں مختلف سمتوں میں سفر کرتی ہے۔ اس کی ایک سمت ان شعراء کی ہے جو بزعم خود کو تلمیذ اللرحمٰن کہتے ہیں اور محض رسائل اور اپنے مجموعوں میں چھپتے ہیں۔ ایک سمت ان شعراء کی ہے جن کا کلاسیکی ادب کا مطالعہ نہ صرف گہرا ہے بلکہ عروض پر بھی گہری نظر ہے۔ ان کا شمار استاد شعراء میں ہوتا ہے۔ لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ایسے بیشتر شعراء مقامی مشاعروں کی حد سے آگے نہیں بڑھتے۔ کسی فن کار کےاطمینانِ قلب کے لئے اس کی صلاحیتوں کا اعتراف ضروری ہوتا ہے۔ اور یہ حضرات محض اپنے شاگردوں کے احترام اور تعظیم سے مکمل مطمئن ہو بیٹھتے ہیں۔ اردو کے ہر شہر میں ایسے اساتذہ کا وجود اب تک تو قائم ہے لیکن یہ اگلے وقتوں کے لوگ ہیں، ان کے بعد یہ خلا کبھی پر نہیں ہو سکے گا۔
خضر ناگپوری ایسے ہی قادر الکلام شاعروں میں سے ہیں جن کی شہرت ناگپور یا مہاراشٹر سے آگے نہیں جا سکی ہے۔ ان کی خاطر خواہ پذیرائ نہیں ہوئ اس پر انھوں نے مختلف مقامات پر مناسب طنز سے کام لیا ہے، انتساب میں ہی رقم طراز ہیں: ’"رازِ حیات" کو میں اپنے ان تمام کرم فرماؤں کے نام منسوب کرتا ہوں جنھوں نے میری ادبی زندگی میں روڑے اٹکانے کی ہر ممکن کوشش کی اور اپنی کوششوں میں ایک حد تک کامیاب بھی ہوئے‘۔
شاعر محترم کا تعلق ناطق گلاٹھوی سے ہے یعنی خضرصاحب کے استاد مرزا ظفر حسین ظفر ناگپوری ناطق کے شاگرتد تھے۔ یہ دوسری بات ہے کہ ناطق کا رنگ خضر میں زیادہ نظر آتا ہے۔ شروع کے صفحات میں اپنی تصویر سے اوپر ان دونوں بزرگوں کی تصاویر دی گئ ہیں۔ اور تبرّکاتِ عالیہ کے تحت ان دونوں کی دو دو غزلیں بھی شامل کی گئ ہیں۔ دیباچہ ناگپور کے ایک اور بزرگ استاد شاعر جبار سحر ناگپوری نے لکھا ہے۔ ساتھ ہی خضر ناگپوری نے اپنے تین نثری مضامین بھی شاید یہ سوچ کر شائع کر دئے ہیں کہ پھر صبح ہو نہ ہو۔ یہ مضامین ہیں ’ماہئے کی بحروں کا تعیّن‘۔ غالب کی ایک متنازعہ رباعی کا تجزیہ‘ اور ’غالب کے نام سے منسوب ناموزوں رباعی‘۔ ان میں خضر نے یہ ثابت کیا ہے غالب کی ناموزوں رباعی "دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب" کی شکل میں معروف ہے جب کہ درست میں صرف ایک بار ’رک‘ ہونا چاہئے۔ اور فاضل مصنف کا خیال ہے کہ ’رک رک‘ سے رباعی مہمل ہو جاتی ہے جو نظم طباطبائ کی رائے سے قطعی مختلف رائے ہے۔
اب آئیں اصل کتاب یعنی خضر ناگپوری کے کلام کی طرف۔ قدیم دواوین کی طرز پر اسے ردیف وار ترتیب دیا گیا ہے۔ غزلیات کے بعد منظومات، تضمینیں، رباعیات اور قطعات کے بعد متفرق اشعار، چند سہروں کے چیدہ اشعار اور ایک گیت شامل ہے۔
نمونے کے اشعار وہی دینا بہتر ہے جن سے رنگِ خضر اور اس میں رنگِ ناطق بلکہ رنگِ داغ جھلکتا ہے:
محبت میں بن آتی ہے کبھی دل پر کبھی جاں پر
کبھی ہے یہ خسارے میں، کبھی ہے وہ خسارے میں
اچھا چل اب تو رہے یا میں رہوں
آج کے دن سر نہیں یا شر نہیں
لے دے کے ایک دردِ محبّت تھا میرے پاس
اس کو بھی کہہ رہے ہو کہیں بھول آئیے!!
دل کی باتوں میں ہم آئے تو گئی عشق کی جان
ہم کو مروا دیا ظالم نے بڑھاوا دے کر
دل کو کسی حسیں جگہ کی تلاش ہے
دیکھوں تو نا مراد بناتا ہے گھر کہاں
شاید وہ سیرِ باغ کو آئے تھے صبح دم
اتری ہوئ سی آج ہے صورت گلاب کی
آخر میں زمینِ غالب میں یہ بے پناہ اشعار دیکھیں:
مٹ گئے شکوے، دل آئینہ ہوا اے دوست
پیشِ نظر اب کوئ غبار نہیں ہے
ٹھہرو ابھی دل کی نات وہ نہ سنیں گے
بیٹھو ابھی وقت سازگار نہیں ہے
رنگِ چمن خضر ہے چمنِ عریانی
آنکھ پہ اب پردۂ بہار نہیں ہے
شاعر خضر ناگپوری
ناشر شاید خود مصنّف
صفحات 210
قیمت 100 روپئے
مبصّر اعجاز عبید
اردو شاعری بطور خاص ہند وپاک میں مختلف سمتوں میں سفر کرتی ہے۔ اس کی ایک سمت ان شعراء کی ہے جو بزعم خود کو تلمیذ اللرحمٰن کہتے ہیں اور محض رسائل اور اپنے مجموعوں میں چھپتے ہیں۔ ایک سمت ان شعراء کی ہے جن کا کلاسیکی ادب کا مطالعہ نہ صرف گہرا ہے بلکہ عروض پر بھی گہری نظر ہے۔ ان کا شمار استاد شعراء میں ہوتا ہے۔ لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ایسے بیشتر شعراء مقامی مشاعروں کی حد سے آگے نہیں بڑھتے۔ کسی فن کار کےاطمینانِ قلب کے لئے اس کی صلاحیتوں کا اعتراف ضروری ہوتا ہے۔ اور یہ حضرات محض اپنے شاگردوں کے احترام اور تعظیم سے مکمل مطمئن ہو بیٹھتے ہیں۔ اردو کے ہر شہر میں ایسے اساتذہ کا وجود اب تک تو قائم ہے لیکن یہ اگلے وقتوں کے لوگ ہیں، ان کے بعد یہ خلا کبھی پر نہیں ہو سکے گا۔
خضر ناگپوری ایسے ہی قادر الکلام شاعروں میں سے ہیں جن کی شہرت ناگپور یا مہاراشٹر سے آگے نہیں جا سکی ہے۔ ان کی خاطر خواہ پذیرائ نہیں ہوئ اس پر انھوں نے مختلف مقامات پر مناسب طنز سے کام لیا ہے، انتساب میں ہی رقم طراز ہیں: ’"رازِ حیات" کو میں اپنے ان تمام کرم فرماؤں کے نام منسوب کرتا ہوں جنھوں نے میری ادبی زندگی میں روڑے اٹکانے کی ہر ممکن کوشش کی اور اپنی کوششوں میں ایک حد تک کامیاب بھی ہوئے‘۔
شاعر محترم کا تعلق ناطق گلاٹھوی سے ہے یعنی خضرصاحب کے استاد مرزا ظفر حسین ظفر ناگپوری ناطق کے شاگرتد تھے۔ یہ دوسری بات ہے کہ ناطق کا رنگ خضر میں زیادہ نظر آتا ہے۔ شروع کے صفحات میں اپنی تصویر سے اوپر ان دونوں بزرگوں کی تصاویر دی گئ ہیں۔ اور تبرّکاتِ عالیہ کے تحت ان دونوں کی دو دو غزلیں بھی شامل کی گئ ہیں۔ دیباچہ ناگپور کے ایک اور بزرگ استاد شاعر جبار سحر ناگپوری نے لکھا ہے۔ ساتھ ہی خضر ناگپوری نے اپنے تین نثری مضامین بھی شاید یہ سوچ کر شائع کر دئے ہیں کہ پھر صبح ہو نہ ہو۔ یہ مضامین ہیں ’ماہئے کی بحروں کا تعیّن‘۔ غالب کی ایک متنازعہ رباعی کا تجزیہ‘ اور ’غالب کے نام سے منسوب ناموزوں رباعی‘۔ ان میں خضر نے یہ ثابت کیا ہے غالب کی ناموزوں رباعی "دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب" کی شکل میں معروف ہے جب کہ درست میں صرف ایک بار ’رک‘ ہونا چاہئے۔ اور فاضل مصنف کا خیال ہے کہ ’رک رک‘ سے رباعی مہمل ہو جاتی ہے جو نظم طباطبائ کی رائے سے قطعی مختلف رائے ہے۔
اب آئیں اصل کتاب یعنی خضر ناگپوری کے کلام کی طرف۔ قدیم دواوین کی طرز پر اسے ردیف وار ترتیب دیا گیا ہے۔ غزلیات کے بعد منظومات، تضمینیں، رباعیات اور قطعات کے بعد متفرق اشعار، چند سہروں کے چیدہ اشعار اور ایک گیت شامل ہے۔
نمونے کے اشعار وہی دینا بہتر ہے جن سے رنگِ خضر اور اس میں رنگِ ناطق بلکہ رنگِ داغ جھلکتا ہے:
محبت میں بن آتی ہے کبھی دل پر کبھی جاں پر
کبھی ہے یہ خسارے میں، کبھی ہے وہ خسارے میں
اچھا چل اب تو رہے یا میں رہوں
آج کے دن سر نہیں یا شر نہیں
لے دے کے ایک دردِ محبّت تھا میرے پاس
اس کو بھی کہہ رہے ہو کہیں بھول آئیے!!
دل کی باتوں میں ہم آئے تو گئی عشق کی جان
ہم کو مروا دیا ظالم نے بڑھاوا دے کر
دل کو کسی حسیں جگہ کی تلاش ہے
دیکھوں تو نا مراد بناتا ہے گھر کہاں
شاید وہ سیرِ باغ کو آئے تھے صبح دم
اتری ہوئ سی آج ہے صورت گلاب کی
آخر میں زمینِ غالب میں یہ بے پناہ اشعار دیکھیں:
مٹ گئے شکوے، دل آئینہ ہوا اے دوست
پیشِ نظر اب کوئ غبار نہیں ہے
ٹھہرو ابھی دل کی نات وہ نہ سنیں گے
بیٹھو ابھی وقت سازگار نہیں ہے
رنگِ چمن خضر ہے چمنِ عریانی
آنکھ پہ اب پردۂ بہار نہیں ہے