ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
راز در پردۂ دستار و قبا جانتی ہے
کون کس بھیس میں ہے خلقِ خدا جانتی ہے
کون سے دیپ نمائش کے لئے چھوڑنے ہیں
کن چراغوں کو بجھانا ہے ہوا جانتی ہے
اک مری چشمِ تماشہ ہے کہ ہوتی نہیں سیر
فکرِ منزل ہے کہ رُکنے کو برا جانتی ہے
نشۂ عشق مجھے اور ذرا کر مدہوش
بے خودی میری ابھی میرا پتہ جانتی ہے
یہ کبھی مجھ کو اکیلا نہیں ہونے دیتی
میری تنہائی مجھے تم سے سوا جانتی ہے
آپ ایجاد کریں جور و ستم روز نئے
بھول جانے کا ہنر میری وفا جانتی ہے
دشت منظور ہے لیکن مجھے منظور نہیں
ایسی بستی جو شرافت کو خطا جانتی ہے
کون سے بُت ہیں جنہیں دست ِ پیمبر توڑے
اُمّتِ حرص تو پیسے کو خدا جانتی ہے
نسبتیں لاکھ بدل ڈالے زمانہ لیکن
ایک دنیا تو مجھے اب بھی ترا جانتی ہے
اور کیا دیتی محبت کے سوا ارضِ وطن
ماں تو بیٹوں کے لئے صرف دعا جانتی ہے
میرے الفاظ ہیں دراصل قلم کے آنسو
روشنائی لہو بننے کی ادا جانتی ہے
ظہیر احمد ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۱۴
( آخری شعر میں لہو کے اس طرح استعمال پر اہلِ علم سے معذرت!)
کون کس بھیس میں ہے خلقِ خدا جانتی ہے
کون سے دیپ نمائش کے لئے چھوڑنے ہیں
کن چراغوں کو بجھانا ہے ہوا جانتی ہے
اک مری چشمِ تماشہ ہے کہ ہوتی نہیں سیر
فکرِ منزل ہے کہ رُکنے کو برا جانتی ہے
نشۂ عشق مجھے اور ذرا کر مدہوش
بے خودی میری ابھی میرا پتہ جانتی ہے
یہ کبھی مجھ کو اکیلا نہیں ہونے دیتی
میری تنہائی مجھے تم سے سوا جانتی ہے
آپ ایجاد کریں جور و ستم روز نئے
بھول جانے کا ہنر میری وفا جانتی ہے
دشت منظور ہے لیکن مجھے منظور نہیں
ایسی بستی جو شرافت کو خطا جانتی ہے
کون سے بُت ہیں جنہیں دست ِ پیمبر توڑے
اُمّتِ حرص تو پیسے کو خدا جانتی ہے
نسبتیں لاکھ بدل ڈالے زمانہ لیکن
ایک دنیا تو مجھے اب بھی ترا جانتی ہے
اور کیا دیتی محبت کے سوا ارضِ وطن
ماں تو بیٹوں کے لئے صرف دعا جانتی ہے
میرے الفاظ ہیں دراصل قلم کے آنسو
روشنائی لہو بننے کی ادا جانتی ہے
ظہیر احمد ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۱۴
( آخری شعر میں لہو کے اس طرح استعمال پر اہلِ علم سے معذرت!)