غزل
یہ غزل بھی پُر شکوہ الفاظ کی لاتا ہوں میں
کہ انگوٹھی میں نگینوں کو جڑے جاتا ہوں میں
جب زمینِ حشر میں کہہ کر غزل لاتا ہوں میں
لوگ کہتے ہیں خیال اس کے چرا لاتا ہوں میں
یہ حقائق کا ستم گر ترجماں ہے کس قدر
آئنہ جب دیکھتا ہوں تو لرز جاتا ہوں میں
میری قسمت میں دیے کی ٹمٹماتی لَو سہی
آسماں سے ستارے توڑ کر لاتا ہوں میں
جھوٹ میں نے اس قدر بولا ہے اپنے آپ سے
اب یقیں آتا نہیں اس پر جو کہہ جاتا ہوں میں
مسجدوں میں، معبدوں میں، میکدوں میں دوستو!
کس قدر بہروپیے ہیں،آج دکھلاتا ہوں میں
راہی مخلص کی دعوت تھی،وگرنہ دوستو!
ان ہمک کے راستوں سے سخت گھبراتا ہوں میں
جب دلِ مضطر سے ہوتا ہے تمہارا تذکرہ
مجھ کو سمجھاتا ہے وہ اور اس کو سمجھاتا ہوں میں
اعتراف اس کا مرے دشمن کریں گے بَرملا
شاعروں کی بزم میں توقیر کہلاتا ہوں میں
توقیر علی زئِی
۰ عبداللہ راہی ایڈوکیٹ اٹک کے گاوں "ہمک" سے تعلق رکھتے تھے اور یہ غزل وہاں منعقدہ طرحی مشاعرے میں پڑھی گئی تھی۔