طارق شاہ
محفلین
غزل
راشد آذر
چاہت تمھاری سینے پہ کیا گُل کتر گئی
کِس خوش سَلِیقگی سے جگِر چاک کر گئی
رکھی تھی جو سنبھال کے تُو نے سلامتی
وہ تیرے بعد کس کو پتا ، کس کے گھر گئی
جو زندگی سمیٹ کے رکھی تھی آج تک
اک لمحۂ خَفِیف میں یکسر بکِھر گئی
بھٹکے ہُوئے تھے ایسے کہ گردِسفر کو ہم
مُڑ مُڑ کے دیکھتے رہے، منزل گزر گئی
اک عُمر دُھوپ میں جو پَلی تھی، وہ کش مکش
سایہ گھنے درخت کا دیکھا تو ڈر گئی
حیرت ہے کچھ پتا نہ چلا کیسے زندگی
جیسی گزرنی تھی مِری ، ویسی گزر گئی
اَوچھوں کی طبع آزؔرِ خُوش خُو سے پُوچھیے
جُوں ہی ہَوائے وقت لگی، بس اپھر گئی
راشد آزرؔ
راشد آذر
چاہت تمھاری سینے پہ کیا گُل کتر گئی
کِس خوش سَلِیقگی سے جگِر چاک کر گئی
رکھی تھی جو سنبھال کے تُو نے سلامتی
وہ تیرے بعد کس کو پتا ، کس کے گھر گئی
جو زندگی سمیٹ کے رکھی تھی آج تک
اک لمحۂ خَفِیف میں یکسر بکِھر گئی
بھٹکے ہُوئے تھے ایسے کہ گردِسفر کو ہم
مُڑ مُڑ کے دیکھتے رہے، منزل گزر گئی
اک عُمر دُھوپ میں جو پَلی تھی، وہ کش مکش
سایہ گھنے درخت کا دیکھا تو ڈر گئی
حیرت ہے کچھ پتا نہ چلا کیسے زندگی
جیسی گزرنی تھی مِری ، ویسی گزر گئی
اَوچھوں کی طبع آزؔرِ خُوش خُو سے پُوچھیے
جُوں ہی ہَوائے وقت لگی، بس اپھر گئی
راشد آزرؔ