مولانا آزاد کے ذمہ داروں کا نہایت بچکانہ انداز ہے۔ میں پروفیسر خالد سعید سے بھرپور احتجاج کرتا ہوں۔ "مانو" مرکزی حکومت کے زیرتحت ہے اور ظاہر ہے کہ سمینار بھی اسی حکومتی بجٹ کے زیراثر منعقد ہو رہا ہے جو مرکزی حکومت اپنی زیرتحت جامعات کو فراہم کرتی ہے۔ لہذا اس حوالے سے ویزا کی فراہمی بھی انہی کی اخلاقی اور سرکاری ذمہ داری بنتی ہے۔ جو کہ اس ذمہ داری سے پہلو تہی کی جا رہی ہے۔ حالانکہ مرکزی وزیر کے رحمٰن خان کو اس ضمن میں صرف ایک فون کرنا بھی کافی ہوتا۔
موجودہ حالات میں تو نہایت سخت پابندیاں ہیں ، کوئی بندہ کس طرح اپنے بل بوتے پر ویزا حاصل کر سکتا ہے؟ کیا اتنی معمولی سی بات "مانو" کے ذمہ داران کو سمجھ میں نہیں آتی ؟ استغفراللہ۔
کم سے کم ان کا فرض تھا کہ کوئی آفیشل قسم کا انگریزی لیٹر بھیجتے کہ فلاں فلاں بندے کو ہم مدعو کر رہے ہیں اور اس کے قیام و طعام کی مکمل ذمہ داری مانو جیسے سرکاری ادارے کی ہوگی۔
تب اس مکتوب کی بنیاد پر شاید راشد بھائی کو اپنے ملک کے ہندوستانی قونصل خانے سے ویزا حاصل کرنے میں کسی حد تک آسانی ہوتی۔
مکرم نیاز صاحب نے بالکل درست اور بہترین نشاندہی کی ہے۔ مگر یہاں جو انگریزی میں آفیشل قسم کے خط کا ذکر ہے یہ ٹھیک نہیں۔ آخر اُردو کو اتنی گئی گزری سمجھ کر اس پر انگریزی کو اتنی فوقیت دینا بالکل بھی مناسب نہیں۔ کیا ہم اردو میں ایک خط بھی اب لکھنے کے قابل نہ رہے۔ اردو اور انگریزی کے متعلق یہ اونچ نیچ کا سوچ ہمارے لیے سخت نقصان دہ ہے۔راشد اشرف بھائی کے اسی خط پر فیس بک سے ایک تبصرہ مکرم نیاز کا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
میرا خیال ہے کہ ہندی یا انگریزی میں لکھی ہوئی دستاویز کو انڈین سفارت خانے میں آسانی سے پڑھ لیا جاتا۔ اردو میں لکھی ہوئی تحریر شاید اتنی جلدی نہ پڑھی جا سکےمکرم نیاز صاحب نے بالکل درست اور بہترین نشاندہی کی ہے۔ مگر یہاں جو انگریزی میں آفیشل قسم کے خط کا ذکر ہے یہ ٹھیک نہیں۔ آخر اُردو کو اتنی گئی گزری سمجھ کر اس پر انگریزی کو اتنی فوقیت دینا بالکل بھی مناسب نہیں۔ کیا ہم اردو میں ایک خط بھی اب لکھنے کے قابل نہ رہے۔ اردو اور انگریزی کے متعلق یہ اونچ نیچ کا سوچ ہمارے لیے سخت نقصان دہ ہے۔
نہیں جناب، میرے خیال میں ایسا نہیں ہو سکتا۔ ہندوستانی سفارت خانے میں اردو یاہندی خطوط کا ترجمہ کرنے کے لئے مترجمین یقیناً موجود ہوں گے۔میرا خیال ہے کہ ہندی یا انگریزی میں لکھی ہوئی دستاویز کو انڈین سفارت خانے میں آسانی سے پڑھ لیا جاتا۔ اردو میں لکھی ہوئی تحریر شاید اتنی جلدی نہ پڑھی جا سکے
ویسے یہ بات تو ہے ہی نہیں کہ اردو میں اس لیے نہ لکھا جائے کہ ان کو پڑھنے میں "مشکل " ہوگی۔ اور اگر ہے بھی تو یہ اُن کی ذمہ داری ہے کہ مترجم حضرات رکھ لیں۔ اردو اب بھی ہندوستان کی ایک بڑی زبان ہے۔ یہاں میں نے مکرم نیاز صاحب کے اس سوچ کی نشاندہی کی ہے جو آج اردو اور انگریزی سے متعلق ہمارے ذہنوں میں موجود ہے۔میرا خیال ہے کہ ہندی یا انگریزی میں لکھی ہوئی دستاویز کو انڈین سفارت خانے میں آسانی سے پڑھ لیا جاتا۔ اردو میں لکھی ہوئی تحریر شاید اتنی جلدی نہ پڑھی جا سکے
ویسے یہ بات تو ہے ہی نہیں کہ اردو میں اس لیے نہ لکھا جائے کہ ان کو پڑھنے میں "مشکل " ہوگی۔ اور اگر ہے بھی تو یہ اُن کی ذمہ داری ہے کہ مترجم حضرات رکھ لیں۔ ۔