مبارکباد راشد اشرف بھائی کو ہندوستان سے ابنَ صفی سیمینار میں شرکت کی دعوت مبارک ہو

راشد اشرف بھائی ( کتابوں ک اتوار بازار اور ابنِ صفی فیم والے) کو حیدرآباد دکن ہندوستان سے ابن صفی سیمینار میں شرکت کا باقاعدہ دعوت نامہ مبارک ہو۔ اللہ ان کے ہندوستان جانے اور ابن صفی سیمینار میں مقالہ پڑھنے کے راستے کی تمام رکاوٹوں کو دور فرمائیں ۔ آمین

995494_10200415944056600_1923484304_n_zpsa2f7f027.jpg
 

تعمیر

محفلین
راشد اشرف بھائی کے اسی خط پر فیس بک سے ایک تبصرہ مکرم نیاز کا ۔۔۔۔۔۔۔
مولانا آزاد کے ذمہ داروں کا نہایت بچکانہ انداز ہے۔ میں پروفیسر خالد سعید سے بھرپور احتجاج کرتا ہوں۔ "مانو" مرکزی حکومت کے زیرتحت ہے اور ظاہر ہے کہ سمینار بھی اسی حکومتی بجٹ کے زیراثر منعقد ہو رہا ہے جو مرکزی حکومت اپنی زیرتحت جامعات کو فراہم کرتی ہے۔ لہذا اس حوالے سے ویزا کی فراہمی بھی انہی کی اخلاقی اور سرکاری ذمہ داری بنتی ہے۔ جو کہ اس ذمہ داری سے پہلو تہی کی جا رہی ہے۔ حالانکہ مرکزی وزیر کے رحمٰن خان کو اس ضمن میں صرف ایک فون کرنا بھی کافی ہوتا۔
موجودہ حالات میں تو نہایت سخت پابندیاں ہیں ، کوئی بندہ کس طرح اپنے بل بوتے پر ویزا حاصل کر سکتا ہے؟ کیا اتنی معمولی سی بات "مانو" کے ذمہ داران کو سمجھ میں نہیں آتی ؟ استغفراللہ۔
کم سے کم ان کا فرض تھا کہ کوئی آفیشل قسم کا انگریزی لیٹر بھیجتے کہ فلاں فلاں بندے کو ہم مدعو کر رہے ہیں اور اس کے قیام و طعام کی مکمل ذمہ داری مانو جیسے سرکاری ادارے کی ہوگی۔
تب اس مکتوب کی بنیاد پر شاید راشد بھائی کو اپنے ملک کے ہندوستانی قونصل خانے سے ویزا حاصل کرنے میں کسی حد تک آسانی ہوتی۔
 

راشد اشرف

محفلین
خلیل صاحب، نوازش

کراچی سے ٹی سی ایس کے دفتر کے ذریعے ویزا کے حصول کے مراحل اور تقاضوں میں ایک تقاضہ یہ بھی ہے کہ میزبان اپنے پاسپورٹ یا یوٹلیٹی بل کی نقل بھیجے جو تاحال فراہم نہیں کی گئی ہے۔ اس کے بغیر ٹی سی ایس والے ویزا کی درخواست قبول ہی نہیں کرتے۔ جامعہ کی انتظامیہ سے کہہ دیا ہے لیکن تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

مقالہ منظور ہوگیا ہے اور وہاں پڑھا جائے گا، یہی کافی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
بڑی خوشی کی بات ہے کہ اردو محفل کے رکن راشد اشرف صاحب کو حیدرآباد دکن ہندوستان سے ابن صفی سیمینار میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔
 

تلمیذ

لائبریرین
جناب راشد صاحب، السلام علیکم،
نہایت پُرخلوص ہدیہ تبریک پیش خدمت ہے۔ اس سیمینار میں آپ کی شرکت ہمارے لئے بہت فخر کی بات ہے۔ ابن صفی مرحوم پر جتنا کام آپ نے کیا ہے ، میرا خیال ہے کم ہی کسی نے کیا ہوگا۔اور مجھے امید ہے کہ وہاں پر یقیناً آپ کے شایان شان عظیم استقبال ہوگا۔تصاویر تو آپ ضرور لیتے ہیں۔ انشاءاللہ آپ کی واپسی پر ہمیں ایک مفصل روئداد کا بھی انتظار رہے گا۔ اللہ پاک آپ کو وہاں پر صحت و تندرستی سے رکھیں، آمین۔
محمد خلیل الرحمٰن صاحب، یہ خبر یہاں پوسٹ کرنے کا شکریہ۔ جزاک اللہ۔
نایاب, سید زبیر, فارقلیط رحمانی, قیصرانی, محمد اسامہ سَرسَری,
نیرنگ خیال, عثمانافضل حسین, اوشو, عمر سیف, محمدعلم اللہ اصلاحی,
حسیب نذیر گِل, غلام ربانی فدا, جیہ, دوست, فلک شیر, انیس الرحمن,
 

آصف اثر

معطل
راشد اشرف بھائی کے اسی خط پر فیس بک سے ایک تبصرہ مکرم نیاز کا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
مکرم نیاز صاحب نے بالکل درست اور بہترین نشاندہی کی ہے۔ مگر یہاں جو انگریزی میں آفیشل قسم کے خط کا ذکر ہے یہ ٹھیک نہیں۔ آخر اُردو کو اتنی گئی گزری سمجھ کر اس پر انگریزی کو اتنی فوقیت دینا بالکل بھی مناسب نہیں۔ کیا ہم اردو میں ایک خط بھی اب لکھنے کے قابل نہ رہے۔ اردو اور انگریزی کے متعلق یہ اونچ نیچ کا سوچ ہمارے لیے سخت نقصان دہ ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
مکرم نیاز صاحب نے بالکل درست اور بہترین نشاندہی کی ہے۔ مگر یہاں جو انگریزی میں آفیشل قسم کے خط کا ذکر ہے یہ ٹھیک نہیں۔ آخر اُردو کو اتنی گئی گزری سمجھ کر اس پر انگریزی کو اتنی فوقیت دینا بالکل بھی مناسب نہیں۔ کیا ہم اردو میں ایک خط بھی اب لکھنے کے قابل نہ رہے۔ اردو اور انگریزی کے متعلق یہ اونچ نیچ کا سوچ ہمارے لیے سخت نقصان دہ ہے۔
میرا خیال ہے کہ ہندی یا انگریزی میں لکھی ہوئی دستاویز کو انڈین سفارت خانے میں آسانی سے پڑھ لیا جاتا۔ اردو میں لکھی ہوئی تحریر شاید اتنی جلدی نہ پڑھی جا سکے
 

تلمیذ

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ ہندی یا انگریزی میں لکھی ہوئی دستاویز کو انڈین سفارت خانے میں آسانی سے پڑھ لیا جاتا۔ اردو میں لکھی ہوئی تحریر شاید اتنی جلدی نہ پڑھی جا سکے
نہیں جناب، میرے خیال میں ایسا نہیں ہو سکتا۔ ہندوستانی سفارت خانے میں اردو یاہندی خطوط کا ترجمہ کرنے کے لئے مترجمین یقیناً موجود ہوں گے۔
 

آصف اثر

معطل
میرا خیال ہے کہ ہندی یا انگریزی میں لکھی ہوئی دستاویز کو انڈین سفارت خانے میں آسانی سے پڑھ لیا جاتا۔ اردو میں لکھی ہوئی تحریر شاید اتنی جلدی نہ پڑھی جا سکے
ویسے یہ بات تو ہے ہی نہیں کہ اردو میں اس لیے نہ لکھا جائے کہ ان کو پڑھنے میں "مشکل " ہوگی۔ اور اگر ہے بھی تو یہ اُن کی ذمہ داری ہے کہ مترجم حضرات رکھ لیں۔ اردو اب بھی ہندوستان کی ایک بڑی زبان ہے۔ یہاں میں نے مکرم نیاز صاحب کے اس سوچ کی نشاندہی کی ہے جو آج اردو اور انگریزی سے متعلق ہمارے ذہنوں میں موجود ہے۔
 

تلمیذ

لائبریرین
ویسے یہ بات تو ہے ہی نہیں کہ اردو میں اس لیے نہ لکھا جائے کہ ان کو پڑھنے میں "مشکل " ہوگی۔ اور اگر ہے بھی تو یہ اُن کی ذمہ داری ہے کہ مترجم حضرات رکھ لیں۔ ۔

آصف صاحب، جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا ہے۔ سفارت خانوں میں میزبان ملک کی زبان کے مترجمین (اور ترجمان) یقینا موجود ہوتے ہیں اورزبان کی عدم تفہیم کو خطوط پر کارروائی کے نہ ہونے یا اس میں تاخیر ہونے کے لئے جواز بنانا سمجھ سے باہر ہے۔
 
Top