راشد منہاس شہید (20اگست1971ء)

495x278x10205_54694976.jpg.pagespeed.ic.3VPSM92yqA.jpg

20 اگست 1971ء کی روشن صبح تھی۔ تمام ہواباز اپنے اپنے طیارے میں اگلی نشست پر پرواز کے لیے تیار بیٹھے تھے کہ ’’رن وے‘‘ پر ایک موٹر نظر آئی، جس میں ان ہوابازوں کو تربیت دینے والا انسٹرکٹر مطیع الرحمان بیٹھا تھا۔ اس نے ایک طیارے کی طرف غور سے دیکھا جس میںبیس سالہ تربیتی پائلٹ راشد منہاس اپنی دوسری سولو فلائیٹ پر جانے کے لیے بیٹھا تھا۔ راشد منہاس اپنے انسٹرکٹر مطیع الرحمان کے حکم پر رک گیا۔انسٹرکٹر کچھ بات کرنے کے بعد اس کے طیارے میں بیٹھ گیا۔ یہ بڑی عجیب سی بات تھی کیوںکہ ایسی پروازوں پر تربیت پانے والے نوجوان اکیلے ہی جاتے ہیں۔ انسٹرکٹر مطیع الرحمان نہ صرف کاک پٹ میں بیٹھ گیا بلکہ اس نے زبردستی طیارے کو اُڑانا شروع کردیا۔راشد منہاس انسٹرکٹر کی اس حرکت سے پہلے ہی حیران تھا اور اب تو اس کے ارادے صاف ظاہر تھے۔ مطیع الرحمان جہاز کو ہائی جیک کرکے بھارت لے جانا چاہتا تھا۔ اس وقت وہ بھارتی سرحد سے صرف 64 کلومیٹر دور رہ گیا تھا۔راشد منہاس جو پہلے ہی سے چوکنا تھا، سب کچھ بھانپ گیا۔ اپنے سے دُگنے طاقت ور اور تجربہ کار انسٹرکٹر کو اس حرکت سے باز رکھنے کے لیے اس کے پاس ایک ہی حربہ تھا۔ چناںچہ اس نے پاک فضائیہ کے جاں باز افسروں کی روایت کے مطابق بڑے حوصلے اور سکون سے یہ حربہ استعمال کیا۔ اچھی طرح یقین کرلینے کے بعد کہ اب طیارے پر دوبارہ قابو پانا ممکن نہیں، اس نے طیارے کا رخ زمین کی طرف کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے طیارہ گرکر تباہ ہوگیا۔ اُس وقت بھارتی سرحد صرف 50 کلومیٹر دور رہ گئی تھی۔ اس طیارے کی تباہی اس کی شہادت کا بہانہ بن گئی، لیکن اس کی شہادت نے ایک طیارے کے علاوہ فضائیہ کے خفیہ رازوں کو بھی بھارت کی سرحد میں داخل ہونے سے بچالیا۔ اس کارنامے پر حکومت ِپاکستان نے اس راشد منہاس کو ’’نشان ِحیدر‘‘ کا اعزاز دیا، جو پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے اور صرف اُن لوگوں کو دیا جاتا ہے ،جو بہادری اور جرأت کے عظیم ترین کارنامے انجام دیتے ہیں۔ راشد منہاس نے اپنی شہادت سے چند دن پہلے اپنی چھوٹی بہن سے کہا تھا ’’میں جنگی قیدی بننے سے مرجانا بہتر سمجھتا ہوں۔‘‘ اور چند ہی روز بعد اس نے اپنے عمل سے یہ بات ثابت بھی کردی، جس جگہ اس کم سن مجاہد کا طیارہ زمین سے ٹکرایا تھا وہ اب ’’شہید ڈیرا‘‘ کہلاتی ہے۔ پہلے اس کا نام ’’جَنڈے‘‘ تھا۔ یہ کراچی سے شمال مشرق کی جانب دریائے سندھ کے مغربی کنارے سے ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ٭…٭…٭
http://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2014-08-20/10205
 
یہ ایک شہید کی کہانی ہے جس کا جسد خاکی آزادی کے 35 سال بعد دشمن سرزمین سے وطن کو واپس لوٹا ۔ ہزاروں ، لاکھوں لوگوں کا ایک مجمع تھا جو کہ شہید کے تابوت کو کندھا دینے کے لیے بے تاب تھا اس کی بیوہ جس نے عرصہ 35 سال سے شادی نہ کی تھی اور شہید کی ایک نشانی بچی کو سنبھالے بیٹھی رہی تھی موقع پر موجود تھی اور پھوٹ پھوٹ کررو رہی تھی بچی جو کہ اب ایک عورت کا روپ دھار چکی تھی دم سادھے اپنے باپ کی عزت کا منظر دیکھ رہی تھی جس کو اس نے صرف تصاویر میں دیکھا تھا۔ اسلامی نعروں کی گونج میں لوگ ٹوٹے پڑ رہے تھے ہزاروں کی آنکھوں میں عقیدت کے آنسو تھے بنگالی وزیر اعظم بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پارہی تھیں اور باربار ڈوپٹے سے اپنے آنسو پونچھ رہی تھیں پوری اکیس توپوں کی سلامی دی گئی ! اور شہید کو بنگلہ دیش کے سب سے بڑے فوجی اعزاز بئر شسترا سے نواز کر قبر میں اتار دیا گیا !! 35 سال پہلے پاکستان کا غدار راشد منہاس کا بنگالی انسڑکٹر مطیع الرحمان 35 سال بعد اپنے ملک میں اپنے اعزاز کو پہنچا !
وطن کی عصبیت نے ایک اور وطنی شہید پیدا کردیا ۔ ہمارے لیے ہمیشہ غدار رہے گا کیونکہ انڈیا کی فوج بنگلہ دیش کو بچانے آئی تھی اور وہ انڈیا کی مدد کرنے کے لیے لڑا تھا !
بنگلہ دیش کے لیے وہ ہمیشہ ہیرو رہے گا بئر شسترا کا حق دار ، سب سے بڑا جنگجو ، بے انتہا دلیر ، جس نے وطن کے لیے اپنی جان کی بھی پرواہ نہ کی !!
ایک پاکستانی شہید ، ایک بنگالی شہید ، ایک کے لیے نشان حیدر، ایک کے لیے بیر شسترا
ایک کے پیچھے اٹھارہ کروڑ مسلمان،دوسرے کے لیے دعاگو بھی سولہ کروڑ مسلمان !
ایک پاکستان کا محب ، بنگلہ دیش کا دشمن ، ایک بنگلہ دیش کا محب ، پاکستان کا دشمن

لو بھایئوں فیصلہ کردو کہ ان دونوں میں سے "اسلام کا شہید کونسا؟" اگر نہ کرپاو تو پھر سمجھ لو یہ وطن کے شہید ہیں جو کہ امریکہ و انڈیا میں بھی پائے جاتے ہیں اور اگر یہ کہو کہ بنگالی شہید نہیں کیونکہ انڈیا کے ساتھ تھے تو پھر خود ہی فیصلہ کرلو جو یہودونصاری کے ساتھ ہو وہ کیسے شہید ؟؟
 

محمداحمد

لائبریرین
یہ ایک شہید کی کہانی ہے جس کا جسد خاکی آزادی کے 35 سال بعد دشمن سرزمین سے وطن کو واپس لوٹا ۔ ہزاروں ، لاکھوں لوگوں کا ایک مجمع تھا جو کہ شہید کے تابوت کو کندھا دینے کے لیے بے تاب تھا اس کی بیوہ جس نے عرصہ 35 سال سے شادی نہ کی تھی اور شہید کی ایک نشانی بچی کو سنبھالے بیٹھی رہی تھی موقع پر موجود تھی اور پھوٹ پھوٹ کررو رہی تھی بچی جو کہ اب ایک عورت کا روپ دھار چکی تھی دم سادھے اپنے باپ کی عزت کا منظر دیکھ رہی تھی جس کو اس نے صرف تصاویر میں دیکھا تھا۔ اسلامی نعروں کی گونج میں لوگ ٹوٹے پڑ رہے تھے ہزاروں کی آنکھوں میں عقیدت کے آنسو تھے بنگالی وزیر اعظم بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پارہی تھیں اور باربار ڈوپٹے سے اپنے آنسو پونچھ رہی تھیں پوری اکیس توپوں کی سلامی دی گئی ! اور شہید کو بنگلہ دیش کے سب سے بڑے فوجی اعزاز بئر شسترا سے نواز کر قبر میں اتار دیا گیا !! 35 سال پہلے پاکستان کا غدار راشد منہاس کا بنگالی انسڑکٹر مطیع الرحمان 35 سال بعد اپنے ملک میں اپنے اعزاز کو پہنچا !
وطن کی عصبیت نے ایک اور وطنی شہید پیدا کردیا ۔ ہمارے لیے ہمیشہ غدار رہے گا کیونکہ انڈیا کی فوج بنگلہ دیش کو بچانے آئی تھی اور وہ انڈیا کی مدد کرنے کے لیے لڑا تھا !
بنگلہ دیش کے لیے وہ ہمیشہ ہیرو رہے گا بئر شسترا کا حق دار ، سب سے بڑا جنگجو ، بے انتہا دلیر ، جس نے وطن کے لیے اپنی جان کی بھی پرواہ نہ کی !!
ایک پاکستانی شہید ، ایک بنگالی شہید ، ایک کے لیے نشان حیدر، ایک کے لیے بیر شسترا
ایک کے پیچھے اٹھارہ کروڑ مسلمان،دوسرے کے لیے دعاگو بھی سولہ کروڑ مسلمان !
ایک پاکستان کا محب ، بنگلہ دیش کا دشمن ، ایک بنگلہ دیش کا محب ، پاکستان کا دشمن

لو بھایئوں فیصلہ کردو کہ ان دونوں میں سے "اسلام کا شہید کونسا؟" اگر نہ کرپاو تو پھر سمجھ لو یہ وطن کے شہید ہیں جو کہ امریکہ و انڈیا میں بھی پائے جاتے ہیں اور اگر یہ کہو کہ بنگالی شہید نہیں کیونکہ انڈیا کے ساتھ تھے تو پھر خود ہی فیصلہ کرلو جو یہودونصاری کے ساتھ ہو وہ کیسے شہید ؟؟

واقعی ، وطن پرستی بھی ایک الگ ہی چیز ہے۔ بقول اقبال

ان تازہ خداؤں میں وطن سب سے بڑا ہے

تاہم اس معاملے میں راشد منہاس اپنے حریف کے معاملے میں برتری رکھتے ہیں۔ اس لئے نہیں کہ میں پاکستانی ہوں اور وہ بھی پاکستانی تھے۔

بلکہ اس لئے کہ مطیع الرحمٰن اپنے عہدے سے، اپنے حلف سے غداری کے مرتکب ہوئے۔ مطیع الرحمٰن کا کردار ایک غاصب کا کردار رہا۔ مطیع الرحمٰن ایک مسلم ملک کے خلاف غیر مسلم ملک کا آلہء کار بنے۔ اگر مطیع الرحمٰن باقاعدہ بنگلہ دیش کی نمائندگی کرتے ہوئے شہید ہوتے تو بات اور تھی۔

سچی بات یہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں نے ذاتی مفاد کی خاطر "دو قومی نظریے" کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اصل غدار یہی لوگ ہیں۔
 
http://panipatnow.com/archives/385
راشد منہاس
۲۰ اگست ۲۰۱۴

*
مندرجہ ذیل اقتباس میری کتاب راشد منہاس کے باب۱۰ سے لیا گیا ہے۔ مجھے اپنی یہ کتاب بہت پسند ہے جس کی کچھ وجوہات ہیں۔ لوگ راشد منہاس کی عزت کرتے ہیں اور اُن سے محبت بھی کرتے ہیں لیکن عام طور پر وہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اُن کی اِس محبوب شخصیت کی زندگی کی کہانی کسی ناول سے زیادہ دلچسپ بھی ہو سکتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ راشد نے صرف بیس برس کی زندگی گزار کر شہادت حاصل کی چنانچہ میری یہ کتاب پڑھنے والوں کو خوش گوار حیرت میں مبتلا کردیتی ہے جب اُنہیں اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کا خیال غلط تھا۔ مجھے امید ہے کہ مندرجہ ذیل اقتباس پڑھ کر بخوبی آپ کو بھی اندازہ ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ یہ کتاب بالخصوص نوجوانوں کے لیے پاکستان کے ابتدائی پچیس برس کی تاریخ، سیاست اور ثقافت سے ایک مختصر تعارف بھی بن سکتی ہے جس کی آج کل بہت ضرورت ہے۔ اگر آپ نے یہ کتاب اب تک نہیں پڑھی تو میں پرزور درخواست کروں گا کہ ضرور پڑھیے۔ پاکستان میں اِسے بُک وارم ویب سائٹ سے باآسانی منگوایا جا سکتا ہے جس کے لیے لنک مندرجہ ذیل ہے۔
Order the book from Bookworm Pakistan

*

۱
کراچی میں ان کی رہائش گاہ سے سینٹ پیٹرک اسکول کا فاصلہ زیادہ نہ تھا۔ راشد، راحت اور انجم عموماً پیدل ہی اسکول پہنچ جاتے تھے۔ فرزانہ باجی یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھیں اور رخسانہ باجی کالج میں۔ رعنا گرلز اسکول میں تعلیم پا رہی تھی۔
اسکول میں راشد کے دوستوں کی تعداد کچھ زیادہ نہ تھی البتہ تمام ساتھیوں سے اس کے تعلقات نہایت خوشگوار نوعیت کے تھے۔ ان دنوں وہ اجنبی لوگوں کے درمیان قدرے شرمیلا دکھائی دیتا۔ نیز دوست بنانے میں محتاط واقع ہوا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے جتنے بھی دوست تھے وہ سب سلجھے ہوئے اور ذہین لڑکے تھے۔ لیکن سنجیدگی اور بے دلی کے درمیان راشد واضح فرق رکھتا تھا۔ بزرگوں کے درمیان وہ اپنی عمر سے زیادہ سنجیدہ نظر آتا تھا مگر خوش مزاجی کبھی اس کا ساتھ نہ چھوڑتی تھی۔ دوستوں کے درمیان اس کی شخصیت قہقہ بار، لطیفہ گو اور رنگارنگ نظر آتی تھی۔
اسکول میں اس کا بہترین دوست اسد حیدر تھا۔ وہاں ان دونوں کا وقت خاصے مزے میں گزرتا۔
بدھ ۹مارچ کو اُس نے ڈائری اٹھائی اور انگریزی میں لکھنے بیٹھ گیا:
میں ابھی ابھی اسکول سے واپس آیا ہوں۔ سارا دن اچھا گزرا۔ جغرافیے کا امتحان ٹل گیا ہے۔ اسد اور میں متواتر دو پیریڈ باتیں کرتے رہے اور پھر عہد کیا کہ آیندہ کبھی فضول باتیں نہیں کریں گے۔ مجھے ابھی نصیر بھائی جان کا خط ملا ہے۔ ”باعثِ مسرت۔“ زندگی کا لطف اٹھا رہا ہوں۔ کل تاریخ کا امتحان ہے۔
میری زندگی میں کسی چیز کی کمی ہے۔ مجھے اس کا مبہم سا احساس ہوتا ہے۔
اگلے روز اسکول میں تاریخ کا پرچہ دیا اور واپس آنے کے بعد سو گیا۔ پھر جاگا تو انگریزی میں ڈائری لکھنے بیٹھ گیا۔ ”میں اپنی زندگی میں کسی چیز کی زبردست کمی محسوس کرتا ہوں۔ مجھے معلوم نہیں وہ کیا ہے۔ لیکن کچھ ہے ضرور۔ میں دریافت نہیں کر پاتا۔ خدارا مجھے بتا دو وہ کیا ہے اور میں تمہاری یہ خطا معاف کر دوں گا کہ تم مجھے ستاتے رہے ہو، بس مجھے بتا دو۔“
لیکن پھر آخری جملہ قلمزد کر دیا۔ شدید بیچینی کے عالم میں لکھتا چلا گیا(ترجمہ):
میں کیوں محنت کرتا ہوں؟ میں کس کی خاطر محنت کرتا ہوں؟ میں بار بار یہ سوال اپنی ذات سے پوچھتا ہوں اور مجھے بس ایک ہی جواب ملتا ہے: مجھے معلوم نہیں۔ میری محنت میرے لیے نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں۔ یہ کسی اور کی خاطر ہے۔ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے، میں کسی بھی طرح اپنی زندگی بسر کر سکتا ہوں۔ پھر میں کیوں چاہتا ہوں کہ اپنی امی کے لیے بلند ترین مرتبے پر پہنچ جاوں؟
میں نہیں جانتا مگر مجھے یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ میں بہت جلد جان جاوں گا وہ کون ہے؟کون ہے؟کون ہے؟ کون ہے؟ کون ہے؟ صرف خدا جانتا ہے اور خدا نہیں بتائے گا۔ مجھے صرف یہ خلش ہے کہ کاش مجھے معلوم ہوتا میں کیوں ہر وقت بیچین رہتا ہوں؟ میں کیوں ہمیشہ بیمار ہوتا ہوں؟ یہ میرے ہی لیے کیوں؟ کیوں؟ کیوں؟ کیوں؟​
 
Top