حسان خان
لائبریرین
(راجہ رام چندر جی کا ماں سے رخصت ہونا)
رخصت ہوا وہ باپ سے لے کر خدا کا نام
راہِ وفا کی منزلِ اول ہوئی تمام
منظور تھا جو ماں کی زیارت کا انتظام
دامن سے اشک پوچھ کے دل سے کیا کلام
اظہارِ بیکسی سے ستم ہوگا اور بھی
دیکھا ہمیں اداس تو غم ہوگا اور بھی
دل کو سنبھالتا ہوا آخر وہ نونہال
خاموش ماں کے پاس گیا صورتِ خیال
دیکھا تو ایک در میں ہے بیٹھی وہ خستہ حال
سکتا سا ہو گیا ہے یہ ہے شدتِ ملال
تن میں لہو کا نام نہیں زرد رنگ ہے
گویا بشر نہیں کوئی تصویرِ سنگ ہے
کیا جانے کس خیال میں گم تھی وہ بے گناہ
نورِ نظر پہ دیدۂ حسرت سے کی نگاہ
جنبش ہوئی لبوں کو بھری ایک سرد آہ
لی گوشہ ہائے چشم سے اشکوں نے رخ کی راہ
چہرے کا رنگ حالتِ دل کھولنے لگا
ہر موئے تن زباں کی طرح بولنے لگا
آخر اسیرِ یاس کا قفلِ دہن کھلا
افسانۂ شدائدِ رنج و محن کھلا
اک دفترِ مظالمِ چرخِ کہن کھلا
وا تھا دہانِ زخم کہ بابِ سخن کھلا
دردِ دلِ غریب جو صرفِ بیاں ہوا
خونِ جگر کا رنگ سخن سے عیاں ہوا
رو کر کہا خموش کھڑے کیوں ہو میری جاں
میں جانتی ہوں جس لیے آئے ہو تم یہاں
سب کی خوشی یہی ہے تو صحرا کو ہو رواں
لیکن میں اپنے منہ سے نہ ہرگز کہوں کی ہاں
کس طرح بَن میں آنکھوں کے تارے کو بھیج دوں
جوگی بنا کے راج دُلارے کو بھیج دوں
دنیا کا ہو گیا ہے یہ کیسا لہو سپید
اندھا کیے ہوئے ہے زر و مال کی امید
انجام کیا ہو کوئی نہیں جانتا یہ بھید
سوچے بشر تو جسم ہو لرزاں مثالِ بید
لکھی ہے کیا حیاتِ ابد ان کے واسطے*
پھیلا رہے ہیں جال یہ کس دن کے واسطے
*بھرت جی کی ماں کیکئی کی طرف اشارہ ہے جن کی ضد سے مجبور ہو کر راجہ دسرت نے رام چندر جی کو بن باس کا حکم دیا تھا اور بھرت جی کو اپنا ولی عہد مقرر کیا تھا۔
لیتی کسی فقیر کے گھر میں اگر جنم
ہوتے نہ میری جان کو سامان یہ بہم
ڈستا نہ سانپ بن کے مجھے شوکت و حشم
تم میرے لال تھے مجھے کس سلطنت سے کم
میں خوش ہوں پھونک دے کوئی اس تخت و تاج کو
تم ہی نہیں تو آگ لگاؤں کی راج کو
کن کن ریاضتوں سے گذارے ہیں ماہ و سال
دیکھی تمہاری شکل جب اے میرے نونہال
پورا ہوا جو بیاہ کا ارمان تھا کمال
آفت یہ آئی مجھ پہ ہوئے جب سفید بال
چھٹتی ہوں اُن سے جوگ لیا جن کے واسطے
کیا سب کیا تھا میں نے اسی دن کے واسطے
ایسے بھی نامراد بہت آئیں گے نظر
گھر جن کے بے چراغ رہے آہ عمر بھر
رہتا مرا بھی نخلِ تمنا جو بے ثمر
یہ جائے صبر تھی کہ دعا میں نہیں اثر
لیکن یہاں تو بن کے مقدر بگڑ گیا
پھل پھول لا کے باغِ تمنا اجڑ گیا
سرزد ہوئے تھے مجھ سے خدا جانے کیا گناہ
منجھدھار میں جو یوں مری کشتی ہوئی تباہ
آتی نظر نہیں کوئی امن و اماں کی راہ
اب یاں سے کوچ ہو تو عدم میں ملے پناہ
تقصیر میری خالقِ عالم بحل کرے
آسان مجھ غریب کی مشکل اجل کرے
سب کر زباں سے ماں کی یہ فریادِ دردخیز
اُس خستہ جاں کے دل پہ چلی غم کی تیغِ تیز
عالم یہ تھا قریب کہ آنکھیں ہوں اشک ریز
لیکن ہزار ضبط سے رونے سے کی گریز
سوچا یہی کہ جان سے بیکس گذر نہ جائے
ناشاد ہم کو دیکھ کے ماں اور مر نہ جائے
پھر عرض کی یہ مادرِ ناشاد کے حضور
مایوس کیوں ہیں آپ الم کا ہے کیوں وفور
صدمہ یہ شاق عالمِ پیری میں ہے ضرور
لیکن نہ دل سے کیجئے صبر و قرار دور
شاید خزاں سے شکل عیاں ہو بہار کی
کچھ مصلحت اِسی میں ہو پروردگار کی
یہ جعل یہ فریب یہ سازش یہ شور و شر
ہونا جو ہے سب اُس کے بہانے ہیں سربسر
اسبابِ ظاہری ہیں نہ ان پر کرو نظر
کیا جانے کیا ہے پردۂ قدرت میں جلوہ گر
خاص اُس کی مصلحت کوئی پہچانتا نہیں
منظور کیا اُسے ہے کوئی جانتا نہیں
راحت ہو یا کہ رنج، خوشی ہو کہ انتشار
واجب ہر ایک رنگ میں ہے شکرِ کردگار
تم ہی نہیں ہو کشتۂ نیرنگِ روزگار
ماتم کدے میں دہر کے لاکھوں ہیں سوگوار
سختی سہی نہیں کہ اٹھائی کڑی نہیں
دنیا میں کیا کسی پہ مصیبت پڑی نہیں
دیکھے ہیں اس سے بڑھ کے زمانے نے انقلاب
جن سے کہ بے گناہوں کی عمریں ہوئیں خراب
سوزِ دروں سے قلب و جگر ہو گئے کباب
پیری مِٹی کسی کی، کسی کا مٹا شباب
کچھ بَن نہیں پڑا جو نصیبے بگڑ گئے
وہ بجلیاں گریں کہ بھرے گھر اجڑ گئے
ماں باپ منہ ہی دیکھتے تھے جن کا ہر گھڑی
قائم تھیں جن کے دم سے امیدیں بڑی بڑی
دامن پہ جن کے گرد بھی اُڑ کر نہیں پڑی
ماری نہ جن کو خواب میں بھی پھول کی چھڑی
محروم جب وہ گل ہوئے رنگِ حیات سے
اُن کو جلا کے خاک کیا اپنے ہات سے
کہتے تھے لوگ دیکھ کے ماں باپ کا ملال
اِن بیکسوں کی جان کا بچنا ہے اب محال
ہے کبریا کی شان گذرتے ہی ماہ و سال
خود دل سے دردِ ہجر کا مٹتا گیا خیال
ہاں کچھ دنوں تو نوحہ و ماتم ہوا کیا
آخر کو رو کے بیٹھ رہے اور کیا کیا
پڑتا ہے جس غریب پہ رنج و محن کا بار
کرتا ہے اُس کو صبر عطا آپ کردگار
مایوس ہو کے ہوتے ہیں انساں گناہ گار
یہ جانتے نہیں وہ ہے دانائے روزگار
انسان اُس کی راہ میں ثابت قدم رہے
گردن وہی ہے امرِ رضا میں جو خم رہے
اور آپ کو تو کچھ بھی نہیں رنج کا مقام
بعدِ سفر وطن میں ہم آئیں گے شادکام
ہوتے ہیں بات کرتے میں چودہ برس تمام
قائم امید ہی سے ہے دنیا ہے جس کا نام
اور یوں کہیں بھی رنج و بلا سے مفر نہیں
کیا ہوگا دو گھڑی میں کسی کو خبر نہیں
اکثر ریاض کرتے ہیں پھولوں پہ باغباں
ہے دن کی دھوپ رات کی شبنم اُنہیں گراں
لیکن جو رنگِ باغ بدلتا ہے ناگہاں
وہ گل ہزار پردوں میں جاتے ہیں رائگاں
رکھتے ہیں جو عزیز اُنہیں اپنی جاں کی طرح
مَلتے ہیں دستِ یاس و برگِ خزاں کی طرح
لیکن جو پھول کھلتے ہیں صحرا میں بے شمار
موقوف کچھ ریاض پہ اُن کی نہیں بہار
دیکھو یہ قدرتِ چمن آرائے روزگار
وہ ابر و باد و برف میں رہتے ہیں برقرار
ہوتا ہے اُن پہ فضل جو ربِ کریم کا
موجِ سموم بنتی ہے جھونکا نسیم
اپنی نگاہ ہے کرمِ کارساز پر
صحرا چمن بنے گا وہ ہے مہرباں اگر
جنگل ہو یا پہاڑ سفر ہو کہ ہو حضر
رہتا نہیں وہ حال سے بندے کے بے خبر
اُس کا کرم شریک اگر ہے تو غم نہیں
دامانِ دشت دامنِ مادر سے کم نہیں
ماں کا جواب
یہ گفتگو ذرا نہ ہوئی ماں پہ کارگر
ہنس کر وفورِ یاس سے لڑکے پہ کی نظر
چہرے پہ یوں ہنسی کا نمایاں ہوا اثر
جس طرح چاندنی کا ہو شمشان میں گذر
پنہاں جو بیکسی تھی وہ چہرے پہ چھا گئی
جو دل کی مُردنی تھی نگاہوں میں آ گئی
پھر یہ کہا کہ میں نے سنی سب یہ داستان
لاکھوں برس کی عمر ہو دیتے ہو ماں کو گیان
لیکن جو میرے دل کو ہے درپیش امتحان
بچے ہو اس کا علم نہیں تم کو بے گمان
اِس درد کا شریک تمہارا جگر نہیں
کچھ مامتا کی آنچ کی تم کو خبر نہیں
گیان = علمِ الٰہی کا سبق
آخر ہے عمر، ہے یہ مرا وقتِ واپسیں
کیا اعتبار آج ہوں دنیا میں کل نہیں
لیکن وہ دن بھی آئے گا اس دل کو ہے یقیں
سوچو گے جب کہ روتی تھی کیوں مادرِ حزیں
اولاد جب کبھی تمہیں صورت دکھائے گی
فریاد اس غریب کی تب یاد آئے گی
اِن آنسوؤں کی قدر تمہیں کچھ ابھی نہیں
باتوں سے جو بجھے یہ وہ دل لگی نہیں
لیکن تمہیں ہو رنج یہ میری خوشی نہیں
جاؤ سدھارو خوش رہو میں روکتی نہیں
دنیا میں بے حیائی سے زندہ رہوں گی میں
پالا ہے میں نے تم کو تو دکھ بھی سہوں گی میں
نشتر تھے رام کے لیے یہ حرفِ آرزو
دل ہل گیا سرکنے لگا جسم سے لہو
سمجھے جو ماں کے دین کو ایمان و آبرو
سننی پڑے اُسے یہ خجالت کی گفتگو
کچھ بھی جواب بن نہ پڑا فکر و غور سے
قدموں پہ ماں کے گر پڑا آنسو کے طور سے
طوفان آنسوؤں کا زباں سے ہوا نہ بند
رک رک کے اس طرح ہوا گویا وہ دردمند
پہونچی ہے مجھ سے آپ کے دل کو اگر گزند
مرنا مجھے قبول ہے جینا نہیں پسند
جو بے وفا ہے مادرِ ناشاد کے لیے
دوزخ یہ زندگی ہے اُس اولاد کے لیے
ہے دور اِس غلام سے خود رائی کا خیال
ایسا گمان بھی ہو یہ میری نہیں مجال
گر سو برس بھی عمر کو میری نہ ہو زوال
جو دَین آپ کا ہے ادا ہو یہ ہے محال
جاتا کہیں نہ چھوڑ کے قدموں کو آپ کے
مجبور کر دیا مجھے وعدے نے باپ کے
آرام زندگی کا دکھاتا ہے سبز باغ
لیکن بہارِ عیش کا مجھ کو نہیں دماغ
کہتے ہیں جس کو دھرم وہ دنیا کا ہے چراغ
ہٹ جاؤں اس روش سے تو کُل میں لگے کا داغ
بے آبرو یہ بنس نہ ہو یہ ہراس ہے
جس گود میں پلا ہوں مجھے اس کا پاس ہے
کُل = خاندان
بنس = قوم
بن باس پر خوشی سے جو راضی نہ ہوں گا میں
کس طرح منہ دکھانے کے قابل رہوں گا میں
کیوں کر زبانِ غیر کے طعنے سنوں گا میں
دنیا جو یہ کہے گی تو پھر کیا کروں گا میں
لڑکے نے بے حیائی کو نقشِ جبیں کیا
کیا بے ادب تھا باپ کا کہنا نہیں کیا
تاثیر کا طلسم تھا معصوم کا خطاب
خود ماں کے دل کو چوٹ لگی سن کے یہ جواب
غم کی گھٹا سے ہٹ گئی تاریکیِ عتاب
چھاتی بھر آئی صبط کی باقی رہی نہ تاب
سرکا کے پاؤں گود میں سر کو اٹھا لیا
سینے سے اپنے لختِ جگر کو لگا لیا
دونوں کے دل بھر آئے ہوا اور ہی سماں
گنگ و جمن کی طرح سے آنسو ہوئے رواں
ہر آنکھ کو نصیب یہ اشکِ وفا کہاں
ان آنسوؤں کا مول اگر ہے تو نقدِ جاں
ہوتی ہے اِن کی قدر فقط دل کے راج میں
ایسا گہر نہ تھا کوئی دسرت کے تاج میں
راجہ دسرت = راجہ رام چند کے والد
(پنڈت برج نرائن چکبست)