کاشفی
محفلین
ربابِ زیست
(تحریرنصرت زہرہ)
(تحریرنصرت زہرہ)
شاہ جہاں بادشاہ کے دربار میں ایک شاعرِ بے بدل بادشاہ کو رموزِ شاعری کی تعلیم دیا کرتا تھا۔مگر کون جانتا تھا کہ اس کی نسلوں میں ایک ایسی کلی جنم لے گی ادب جس پر نازاں ہوگا،اب وقت ایک دربار ہے اور مسلسل ایک اٹھ جانے والی ہستی سے فیض پارہا ہے اب بھی وادیء مہران کے ایک تیز رفتار شہرمیں وہ گھر موجود ہے جس میں ویران آنکھوں والی ایک خوش لڑکی کے دکھ سکھ کے درو دیوار گواہ ہیں ۔وہ پیڑ کہ جو اس کے کمرے کی کھڑکی سے صاف دکھائی دیتا ہے اب بھی آنگن میں ایستادہ ہے ،چاند کا حسن بھی وہی ہے وہ اب بھی سبز پتوں سے چھن کر خالی کمرے کو اپنے ہونے کا احساس دلاتاہے بس وہاں کمی ہے کہ سبز سوچوں والی ایک موہنی صورت نے اپنا مسکن ضرور تبدیل کرلیا ہے وہ تو روح بنکر جسمِ ادب میں سماچکی ہے اب بھی وہ یہیں کہیں محسوس ہوتی ہے اس کا چھوڑا ہوا کوئی نقش ناتمام نہیں وہ ماہِ تمام ہے اور ماہِ تمام بھی ایسا کہ جس کے بعد کفِ آئینہ بھی ہے اور زندگی اور موت کے درمیان ایک وقفہ ایسا بھی آیا کہ اس نے موت سے لڑنے والی گیتانجلی کو بعد از مرگ اس انداز سے سلامی دی کی جیسے مجاہدوں کو دی جاتی ہے ۔
ماں نے اسکی پیشانی کو دیکھ کر اس کا نام ایک ستارے کے نام پر رکھا اورجب اس کی محبت تقاضائے جسم و جاں سے ماوراء ہوئی تو الہام بن گئی شائستگی اور تہذیب اسکی شخصیت کا خاصہ رہے۔وہ کہتی تھی تب بھی شاعرہ ضرور ہوتی ،شاعری اسے خدا کی طرف سے عطیۂ خداوندی بنکر ملی تو وہیں اسکی موروثی صفات میں بھی شامل رہی۔اپنے نانا حسن عسکری عظیم آبادی سے فیضان پانے اور اپنے والد کے ذوقِ شعر کو آگے بڑھانے والی پروین شاکر نے اپنے عہد اوراپنے بعد آنے والے عہد کے پورے شعری منظرنامے کو متاثر کیا ۔
اگر اسے ایک رجحان ساز شاعرہ کہا جائے تو سچ ہوگاہم نے اردو کی مسنداور ممتاز ویب سائٹ پر کبھی ماہرِ فن اساتذہ پر بات کی تو کبھی آپکی ملاقات نئے تخلیق کاروں سے کروائی مگر آج ہم نے جس عہدسازشخصیت کو چنا ہے وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں بلکہ بہتوں کا تعارف تو اس کی وجہ سے وجود میں آیاہے۔یہ وہ مہینہ ہے جب خوشبو نے جنم لیا 24 نومبر آج وہ زندہ ہوتی تو اس کا 57واں جنم دن ہوتالیکن مجھے یقین ہے کہ جب تک اردو ادب کا ذکر باقی ہے اس کا ذکر بلند ہوتا رہیگاہم نے اس ساعت کا جشن منانے کیلئے آپ کے ذوق کی خاطر ایک ایسی تخلیق کا انتخاب کیا ہے کہ جس کے بارے میں شایدآپ نہ جانتے ہوں پروین نے عدم آباد جانے سے قبل ہندوستان سے تعلق رکھنے والی سولہ سالہ شاعرہ گیتانجلی کی انگریزی نظموں کا ترجمہ کیا تھا کہ جس نے خون کے سرطان سے لڑتے لڑتے جان دی تھی ،پروین نے ان نظموں کا ترجمہ بڑے دلنشین انداز میں کیا ہے اور اصل مسودے کا حسن بھی متاثر نہیں ہونے دیا۔
ملک کے ممتاز صحافی اور دانشور احمد سلیم کے بقول اگر پروین زندہ ہوتی تو وہ اسے موت کے تاروں سے چھیڑا گیا زندگی کا نغمہ قرار دیتے اور خود پروین نے ان نظموں کے اصل مسودے کو دیکھ کے کہا تھا کہ اس نے اتنی چھوٹی سی عمر میں زندگی کیلئے اتنی تڑپ نہیں دیکھی ۔گیتانجلی 12جون 1961 کو ہندوستان کے شہر میرٹھ میں پیدا ہوئی سولہ برس کی عمر میں خون کے سرطان میں مبتلا ہوئی اور دنیا سے جاتے جاتے ہمیشہ کیلئے زندہ رہنے والا کلام اپنی وراثت میں چھوڑ گئی جسے اسکی والدہ خوشی بدرالدین نے مجتمع کرکے شائع کیا،گیارہ اگست 1977کو گیتانجلی نیند کی حالت میں اپنے خالقِ حقیقی سے جاملی موت کو جسطرح اس نے اپنے شعور کاحصہ بنالیا تھا بالکل اسی طرح موت کے تصور نے پروین کو بھی اپنی گرفت میں لئے رکھاجن دنوں گیتانجلی کی البم کا مسودہ ترجمے کے مراحل طے کرکے طباعت میں داخل ہوا تو پروین نے بھی اپنا مسکن تبدیل کرلیا۔
اسکی خواہش تھی کہ یہ نظمیں موت کے خلاف زندگی کی عبارت قرار پائیں ایک عَلم کی طرح موت کے سامنے آئیں اور اسے پچھاڑ دیں
آفتابThe Glory of the Sun.
ہر شام
جب دونوںوقت ملتے ہیں
میں اپنی کھڑکی سے
ڈوبتے سورج کو دیکھتی ہوں !
جب روشنی
دھیرے دھیرے مدھم پڑجاتی ہے
اورلمحے خاموش اور تنہا ہونے لگتے ہیں
میرادل بھی
میری روح کے اندر ڈوب جاتا ہے
کیونکہ میں نہیں جانتی
کہ سورج کی نئی سج دھج
میں دوبارہ دیکھ بھی سکوں گی یا نہیں
مگر حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ایک نوخیز کلی نے کن اعصاب شکن لمحوں میں بھی اپنے خداپر اپنا ایمان برقرار رکھا
خدا کی موجودگیA presence of GOD.
خدا کی موجودگی
ہر چیز ہے
ہم بالکل نہیں جانتے
کہ کب اور کہاں
اور کس شکل میں
وہ ظاہر ہوجائے
چنانچہ
بے معنی باتیں نہ کرو
کسی کو دکھ نہ دو
تھوڑی سی ہی سہی لیکن خوشی بانٹو
مدد کرو
اور جب دوست یا دشمن سے ملو
تو مسکراؤکیا پتہ
کہیں کوئی زخم بھر جائے
کوئی ٹوٹا ہوا دل جُڑ جائے
اور تمہارا دشمن تمہارا دوست بن جائے
اسی کتاب کے نوٹ بُک کا ترجمہ احمد سلیم نے کیا ہے
گیتانجلی لکھتی ہے
میں جانتی ہوں مجھے مرنا ہے،یہ خوف حد تک غیر محفوظ احساس ہے میں کوئی مافوق الفطرت انسان نہیں ہوں میرے بھی خوف ہیں نامعلوم کے خوف،نہیں ، مجھے موت کا اتنا ڈر نہیں میں خدا سے بینتی کرتی ہوں کہ وہ مجھے عالمِ خواب میں اپنے پاس بلالے اور خدا نے اس کی یہ دعا سن لی اور ا سے عالمِ خواب میں اپنے پاس بلالیا
مرے پاس رہو Stay with me.
آجاؤ میری پتھریلی پناہ گاہ میں داخل ہوجاؤ
دروازہ کھلا ہے
لیکن احتیاط کرنا
مرے زخم نہ کُھل جائیں
کیا غالیچہ تمہیں لہو رنگ کی یاد دلاتا ہے
شاید یہ اُن آنسوؤں سے بھیگ گیا ہے
جو میں نے بہائے ہیں
ذرا دھیان سے
مجھ سے دور ہوکر بیٹھو
کہیں میری آہوں کی آنچ تمہیں نہ جلادے
لیکن ٹھہرو ٹھہرو
مرے پاس رہو
جب تک دھوپ اندھیرا
دھوپ کو جنم نہ دے دے
نجانے کیوں مجھے پروین اور گیتانجلی ایک دوسرے کادیباچہ معلوم ہوئیں حالانکہ دونوںکی مدتِ زیست میں فرق ہے،مگر دونوں کا زندگی اور رحمتوں پر ایمان اور ایقانِ،زندگی کو جھلینے کیلئے محبت کا وجود دونوں کیلئے سانس کی دوزخ کو بھرنے کا ذریعہ قرار پائے۔
میں تجھ پر اب بھی بھروسہ کرتی ہوںI still trust you.
میں تجھ پر
اب بھی بھروسہ کرتی ہوں
اے مرے پیارے خدا
حالانکہ دُکھ مجھ پر
بارش کی طرح برستے رہتے ہیں
میں تجھ پر اب بھی بھروسہ کرتی ہوں
حالانکہ تونے مرے بھروسہ کو ٹھیس پہنچائی
اور مجھے کوئی ایسی چیز نہیں دی
جس کی میں نے تمنا کی تھی
کرسمس قریب ہے
ہوا میں موسیقی ہے
میرے پاس بس پُرانی میٹھی یادیں ہیں
جن میں محبت اور دھیان کی چھبن ہے
اب میں جنہیں کھولتی ہوں
بے حد دُکھ اور اذیت سے
میں چلاؤں گی نہیں
میں روؤں گی بھی نہیں
میں نے احمقانہ جذبات
بہت عرصہ ہوا ترک کر دیئے
یہ انجانا طاقتور ساگر
مرے اندر خوف ضرور
پیدا کرتا ہے
مجھے اعترا ف ہے کہ
اس خیال سے میں کانپ جاتی ہوں
لیکن پیارے خدا
تیری قربت مجھے سنبھالے رکھتی ہے
کیا یہ بات حیران کُن نہیں ہے
کہ میں اب بھی تجھ پر بھروسہ کرتی ہوں
اب بھی
یہ زمین بظاہر کسی جانے والے کی آخری پُکار ہے مگر ان میں جو پیغام ہر قدم پہ سر اُٹھاتا ہے وہ یہ ہے کہ موت زندگی کا المیہ نہیں بلکہ محبت کا دِل سے رُخصت ہو جانا ہے۔