یہ رباعی کہنے کی میری پہلی کوشش ہے۔ اصلاح کے لئے حاضر ہے۔ کہتا ہر دم ہے تو مجھ سے یہ طبیب مے نوشی زندگی کی ہر پل ہے رقیب جتنے بھی مے کے بن جی لیتے ہم سب تم ہی کو بے سرور وہ دن ہوں نصیب