سیما علی
لائبریرین
رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔ امیر المومنین علی علیہ السلام
اے مومنوں شجاعت حیدر کا تھا یہ حال
کمال تھا صبر وشکر میں وہ شاہ باکمال
دینا سے جب کہ اٹھہ گیے مبوب ذوالجلال
آزار مرتضی کو لگے دینے بد خصال
کیا کیا نہ شیر حق پہ مصیبت گذر گی
اعداء کے ظلم وجور سے زھراء بھی مرگی
اب پیٹنے کی جا ء ھے غلامان مرتضی
آقا کی گوش دل سے مصیبت سنو ذرا
ایسا کریم ایسا سخی ایسا پیشواء
بے جرم حق کے سجدے میں مجروح ھوگیا
فرصت نہ دی نماز کی اس روزے دارکو
نہلا دیا لہو میں شہ ذوالفقعار کو
میرانیس
انیسویں ماہ رمضان کی سحر نمودار ہونے کو آئی تو امیر المومنین محراب عبادت میں کھڑے ہوگئے اور جب نافلہ صبح کی پہلی رکعت سے سر مبارک اُٹھایا تو ابن ملجم نے زہر آلود تلوار سے وار کیا جس سے فرق مبارک شگافتہ ہوگیا۔ شیریزداں نے بیساختہ عجیب و غریب جملہ فرمایا ”فزتُ ورب الکعبہ” رب کعبہ کی قسم آج میں کامیاب ہوگیا۔ یہ دنیا کا واحد مجاہد ہے جو اپنی شہادت پر کامیابی کا اعلان کررہا ہے۔ اس طرح کا کلمۂ افتخار زندگی بھر کسی معرکے کو سر کرتے وقت علی نے نہیں دہرایا۔ ایسا لگتا ہے کہ امیر المومنین کے ہاتھ وہ گوہر ِمقصود آگیا جس کی اُن کو زندگی بھر تلاش تھی۔ خیبر شکن مولا علی نے شہادت کا عظیم مرتبہ پاکر ہی اطمینان کی سانس لی یعنی وہ اپنی مطلوبہ منزل پاگئے۔
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
امام علیہ السلام کے آخری وصیت نامے سے چند اقتباسات نقل کرنے کی سعادت حاصل کر رہی ہوں
آپ نے فرمایا کہ
اے حسن و حسین (علیھما السلام) میں آپ کو خدا سے ڈرنے کی تلقین کرتا ہوں اور دنیا کی طلب مت کرنا۔ پھر فرمایا کہ اے بیٹا حسن میں تمہیں اس چیز کی وصیت کرتا ہوں جس کی مجھے رسول اللہ نے کی تھی اور وہ یہ کہ جب امت تم سے مخالفت کی راہ پر چلنے لگے تو تم گھر میں خاموشی سے بیٹھ جانا، آخرت کے لئے گریہ کرنا اور دنیا کو اپنا مقصد نہ قرار دینا، نہ اسکی تلاش میں دوڑ دھوپ کرنا۔ نماز کو اول وقت میں ادا کرنا اور زکوٰت کو وقت پر مستحقین تک پہنچانا۔ مشتبہ امور پر خاموش رہنا اور غضب و رضا کے موقع پرعدل و میانہ روی سے کام لینا۔ اپنے ہمسایوں سے اچھا سلوک کرنا اور اور مہمان کی عزت کرنا۔ مصیبت زدہ لوگوں پر رحم کرنا، صلہ ء رحمی ادا کرنا اور غرباء و مساکین کو دوست رکھنا، ان کے ساتھ بیٹھنا اور تواضع و انکساری اختیار کرنا کہ یہ افضل عبادت ہے۔ اپنی آرزو اور امیدوں کو کم کرنا اور موت کو یاد رکھنا۔ میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ ظاہر و باطن دونوں طریقوں سے خدا سے ڈرتے رہنا۔ بغیر غور و فکر کے بات نہ کرنا اور کام میں جلدی نہ کرنا۔البتہ کار آخرت کی ابتداء اور اس میں جلدی کرنا اور دنیا کے معاملہ میں تاخیر اور چشم پوشی کرنا۔
ایسی جگہوں سے جہاں تہمت اور ایسی مجلس سے بھی بچنا جس کے متعلق برا گمان کیا جاتا ہو کیونکہ برا ہمنشین اپنے ساتھی کو ضرور ضرر پہنچاتا ہے۔ اے بیٹا خدا کے لئے کام کرنا اور فحش و بیہودہ گوئی سے پرہیز کرنا اور اپنی زبان سے صرف اچھی چیزوں کا حکم دینا اور بری چیزوں سے منع کرنا۔ برادران دینی کے ساتھ خدا کی وجہ سے دوستی و برادری رکھنا اور اچھے شخص کے ساتھ اسکی اچھائی کی وجہ سے دوستی رکھنا اور فاسقوں کے ساتھ نرمی برتنا کہ وہ دین کو گزند نہ پہنچائیں تاہم انہیں دل میں دشمن سمجھنا اور اپنے کردار کو ان کے کردار سے الگ رکھنا تا کہ تم ان جیسے نہ ہو جاؤ۔ گزر گاہ پر نہ بیٹھنا اور بیوقوفوں اور جہلاء سے جھگڑا نہ نہ کرنا۔گزر اوقات میں میانہ روی اختیار کرنا اور اپنی عبادت میں بھی اعتدال رکھنا اور وہ عبادت چننا جس کو ہمیشہ قائم رکھ سکو۔
کوئی کھانا نہ کھانا جب تک اس کھانے میں سے کچھ صدقہ نے دے دو۔ تم پر روزہ رکھنا ضروری ہے کہ یہ بدن کی زکوٰت ہے اور جہنم کی آگ کے سامنے ڈھال ہے۔ اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرنا اور اپنے ہمنشین (نفس) سے ڈرتے رہنا ( کہ یاد اللہ سے ہٹا نہ دے)۔ دشمن سے اجتناب کرنا اور ان محفلوں میں جانا تمہارا ضروری ہے جہاں ذکر اللہ ہوتا ہو اور دعا زیادہ کیا کرنا۔
اے مومنوں شجاعت حیدر کا تھا یہ حال
کمال تھا صبر وشکر میں وہ شاہ باکمال
دینا سے جب کہ اٹھہ گیے مبوب ذوالجلال
آزار مرتضی کو لگے دینے بد خصال
کیا کیا نہ شیر حق پہ مصیبت گذر گی
اعداء کے ظلم وجور سے زھراء بھی مرگی
اب پیٹنے کی جا ء ھے غلامان مرتضی
آقا کی گوش دل سے مصیبت سنو ذرا
ایسا کریم ایسا سخی ایسا پیشواء
بے جرم حق کے سجدے میں مجروح ھوگیا
فرصت نہ دی نماز کی اس روزے دارکو
نہلا دیا لہو میں شہ ذوالفقعار کو
میرانیس
انیسویں ماہ رمضان کی سحر نمودار ہونے کو آئی تو امیر المومنین محراب عبادت میں کھڑے ہوگئے اور جب نافلہ صبح کی پہلی رکعت سے سر مبارک اُٹھایا تو ابن ملجم نے زہر آلود تلوار سے وار کیا جس سے فرق مبارک شگافتہ ہوگیا۔ شیریزداں نے بیساختہ عجیب و غریب جملہ فرمایا ”فزتُ ورب الکعبہ” رب کعبہ کی قسم آج میں کامیاب ہوگیا۔ یہ دنیا کا واحد مجاہد ہے جو اپنی شہادت پر کامیابی کا اعلان کررہا ہے۔ اس طرح کا کلمۂ افتخار زندگی بھر کسی معرکے کو سر کرتے وقت علی نے نہیں دہرایا۔ ایسا لگتا ہے کہ امیر المومنین کے ہاتھ وہ گوہر ِمقصود آگیا جس کی اُن کو زندگی بھر تلاش تھی۔ خیبر شکن مولا علی نے شہادت کا عظیم مرتبہ پاکر ہی اطمینان کی سانس لی یعنی وہ اپنی مطلوبہ منزل پاگئے۔
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
امام علیہ السلام کے آخری وصیت نامے سے چند اقتباسات نقل کرنے کی سعادت حاصل کر رہی ہوں
آپ نے فرمایا کہ
اے حسن و حسین (علیھما السلام) میں آپ کو خدا سے ڈرنے کی تلقین کرتا ہوں اور دنیا کی طلب مت کرنا۔ پھر فرمایا کہ اے بیٹا حسن میں تمہیں اس چیز کی وصیت کرتا ہوں جس کی مجھے رسول اللہ نے کی تھی اور وہ یہ کہ جب امت تم سے مخالفت کی راہ پر چلنے لگے تو تم گھر میں خاموشی سے بیٹھ جانا، آخرت کے لئے گریہ کرنا اور دنیا کو اپنا مقصد نہ قرار دینا، نہ اسکی تلاش میں دوڑ دھوپ کرنا۔ نماز کو اول وقت میں ادا کرنا اور زکوٰت کو وقت پر مستحقین تک پہنچانا۔ مشتبہ امور پر خاموش رہنا اور غضب و رضا کے موقع پرعدل و میانہ روی سے کام لینا۔ اپنے ہمسایوں سے اچھا سلوک کرنا اور اور مہمان کی عزت کرنا۔ مصیبت زدہ لوگوں پر رحم کرنا، صلہ ء رحمی ادا کرنا اور غرباء و مساکین کو دوست رکھنا، ان کے ساتھ بیٹھنا اور تواضع و انکساری اختیار کرنا کہ یہ افضل عبادت ہے۔ اپنی آرزو اور امیدوں کو کم کرنا اور موت کو یاد رکھنا۔ میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ ظاہر و باطن دونوں طریقوں سے خدا سے ڈرتے رہنا۔ بغیر غور و فکر کے بات نہ کرنا اور کام میں جلدی نہ کرنا۔البتہ کار آخرت کی ابتداء اور اس میں جلدی کرنا اور دنیا کے معاملہ میں تاخیر اور چشم پوشی کرنا۔
ایسی جگہوں سے جہاں تہمت اور ایسی مجلس سے بھی بچنا جس کے متعلق برا گمان کیا جاتا ہو کیونکہ برا ہمنشین اپنے ساتھی کو ضرور ضرر پہنچاتا ہے۔ اے بیٹا خدا کے لئے کام کرنا اور فحش و بیہودہ گوئی سے پرہیز کرنا اور اپنی زبان سے صرف اچھی چیزوں کا حکم دینا اور بری چیزوں سے منع کرنا۔ برادران دینی کے ساتھ خدا کی وجہ سے دوستی و برادری رکھنا اور اچھے شخص کے ساتھ اسکی اچھائی کی وجہ سے دوستی رکھنا اور فاسقوں کے ساتھ نرمی برتنا کہ وہ دین کو گزند نہ پہنچائیں تاہم انہیں دل میں دشمن سمجھنا اور اپنے کردار کو ان کے کردار سے الگ رکھنا تا کہ تم ان جیسے نہ ہو جاؤ۔ گزر گاہ پر نہ بیٹھنا اور بیوقوفوں اور جہلاء سے جھگڑا نہ نہ کرنا۔گزر اوقات میں میانہ روی اختیار کرنا اور اپنی عبادت میں بھی اعتدال رکھنا اور وہ عبادت چننا جس کو ہمیشہ قائم رکھ سکو۔
کوئی کھانا نہ کھانا جب تک اس کھانے میں سے کچھ صدقہ نے دے دو۔ تم پر روزہ رکھنا ضروری ہے کہ یہ بدن کی زکوٰت ہے اور جہنم کی آگ کے سامنے ڈھال ہے۔ اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرنا اور اپنے ہمنشین (نفس) سے ڈرتے رہنا ( کہ یاد اللہ سے ہٹا نہ دے)۔ دشمن سے اجتناب کرنا اور ان محفلوں میں جانا تمہارا ضروری ہے جہاں ذکر اللہ ہوتا ہو اور دعا زیادہ کیا کرنا۔