رانا
محفلین
(اس نظم کے لکھنے کا محرک قرآن کریم کی سورۃ زمر کی آیت نمبر 54 ہے۔ جس کا ترجمہ یہ ہے
"تُو کہہ دے! اے مرے بندو، جنہوں نے زیادتی کی ہے اپنی جانوں پر، نہ مایوس ہو رحمت سے اللہ کی۔ یقیناً اللہ بخشتا ہے گناہ سب کے سب۔ یقیناً وہی بخشنے والا بہت رحم کرنے والا ہے۔ جھک جاؤ طرف اپنے رب کی، قبل اس کے کہ آوے تمہارے پاس عذاب، پھر نہیں مدد دیئے جاؤ گے تمّ" ۔ عرشی ملک)
گرچہ ہے گناہوں میں گرفتار چلاآ
آ پاس مرے میرے خطا کار چلا آ
بخشش مری ہر سمت تجھے ڈھونڈ رہی ہے
کیوں مجھ سے گریزاں ہے مرے یار چلا آ
سو بار بھی توبہ کو اگر توڑ چکا ہے
رحمت مری کہتی ہے کہ سو بار چلا آ
مایوس نہ ہو گر مرے وعدوں پہ یقیں ہے
وعدے کا سچا ہوں ستم گار چلا آ
ڈھک لے گی ترے عیب مری رحمتِ جاری
مت بھول مرا نام ہے ستار چلا آ
دو اشکِ ندامت ترے دوزخ کو بُجھا دیں
آنکھوں میں لئے اشکوں کی منجدھار چلا آ
میں کون ہوں کیا ہوں تجھے ادراک نہیں ہے
دیکھا ہی نہیں تو نے رُخِ یار چلا آ
دوزخ سے نہ ڈر چھوڑ دے جنت کی طمع کو
آ دیکھ مجھے طالبِ دیدار چلا آ
رہ دیکھ رہا ہے ترا مالک، ترا خالق
مسجودِ ملائک، مرے شہکار چلا آ
بندہ ہے تو بندے کے لئے عجز ہے زیبا
سر پر نہ سجا کبر کی دستار چلا آ
آ جا کہ کھلے ہیں ابھی توبہ کے دریچے
قبل اس کے کہ ہوجائے تو لاچار چلا آ
مجبوری و مختاری کی بحثوں کو بُھلا دے
بے کار نہ کر حُجت و تکرار چلا آ
مٹی ہے تری خیر کا اور شر کا مرکب
تو خیر کو لے، شر سے ہو بے زار چلا آ
اوجھل نہیں تو مجھ سے بھٹکتے ہوئے راہی
پھرتا ہے کہاں ہو کے یونہی خوا ر چلا آ
یاں دیر اگر ہے بھی تو اندھیر نہیں ہے
مجھ سا نہ ملے گا کوئی غم خوار چلا آ
میلے سے جہاں کے ترا دل ہی نہیں بھرتا
گھر میں ترے چیزوں کے ہیں انبار چلا آ
تاجر ہے اگر تُو تو رضا میری کما لے
ہوجائے گا کل بند یہ بازار چلا آ
اب چھوڑ بھی دے دُنیائے فانی کے مزوں کو
آ چکھ تو سہی لذتِ آزار چلا آ
تو موت کے قدموں کی بھی آہٹ نہیں سنتا
کرتا ہے تجھے وقت خبردار چلا آ
پیارا ہے مجھے بندہ تواب و مطّہر
قرآن کو پڑھ، عجز میں سرشار چلا آ
کر دیتی ہے معدوم یہ فی الفور خطائیں
توبہ میں نہاں ہے عجب اسرار چلا آ
اب چھوڑ بھی دے ظلم و جفا کا یہ وطیرہ
یاں عجز فقط عجز ہے درکار چلا آ
یہ دل پہ جما زنگ اسی وقت کُھرچ دے
ہوجائے گا کل کام یہ دشوار چلا آ
گردن میں تری طوق ہیں پیروں میں سلاسل
اس پر ہے عجب شوخی رفتار چلا آ
یہ کام ہے جلدی کا اسے ٹال نہ کل پر
کل آئے نہ آئے دلِ بیمار چلا آ
آدم نے بھی توبہ میں ہی ڈھونڈی تھیں پناہیں
آدم کے قدم پر ہی قدم مار چلا آ
مہلت جو میسر ہے تو کچھ فیض کما لے
کافی ہیں جو لکھ ڈالے ہیں اشعار چلا آ
بہروپ نہ بھر عابد و زاہد کا نکمے
رگ رگ سے میں واقف ہوں ریاکار چلا آ
کجرو کی نہیں ہے مرے کوچے میں رسائی
درگاہِ مقدس ہے یہ ہموار چلا آ
ہونے کو ہے اب ختم تری عمر کی نقدی
ڈھلنے کو ہے دن اب تو خریدار چلا آ
خود تیری انا راہ کی دیوار ہے عرشی
دیوار گرا، بھول کے پندار چلا آ
(ارشاد عرشی ملک)