قمرآسی
محفلین
رخسار و لب کا رنگ کہ زلفوں کے خم ہوئے
کیا کیا عدوئے جان کے ہم پر ستم ہوئے
اک بار پھر سے آکے رلا جائیے ہمیں
مدت ہوئی ہماری ان آنکھوں کو نم ہوئے
خود کو سپرد کر دیا اس کے شب وصال
مت پوچھ اس کے بعد جو ہم پر کرم ہوئے
لوٹا گیا جنہیں وہی مجرم چنے گئے
رہزن تھے جسقدر وہ سبھی محترم ہوئے
قدرت بدل رہی ہے یوں ایام زیست کے
زیر نگیں جو لوگ تھے اب زیب بم ہوئے
اپروو کر رہے ہیں وہ مسکان دشمناں
جزبے ہمارے دل کے سبھی کالعدم ہوئے
الفاظ ختم ہوگئے اس کے جمال پر
دو بیت بھی نہ خاطرِ جاناں رقم ہوئے
تنہا چلا تھا حضرت مجنوں کی راہ پر
عشاق دھیرے دھیرے مرے ہم قدم ہوئے
مہر و وفا کا ذکر قمرؔ چھوڑ دیجئے
بے فائدہ بیاں سے بہت تنگ ہم ہوئے
محمدقمرشہزادآسیؔ
کیا کیا عدوئے جان کے ہم پر ستم ہوئے
اک بار پھر سے آکے رلا جائیے ہمیں
مدت ہوئی ہماری ان آنکھوں کو نم ہوئے
خود کو سپرد کر دیا اس کے شب وصال
مت پوچھ اس کے بعد جو ہم پر کرم ہوئے
لوٹا گیا جنہیں وہی مجرم چنے گئے
رہزن تھے جسقدر وہ سبھی محترم ہوئے
قدرت بدل رہی ہے یوں ایام زیست کے
زیر نگیں جو لوگ تھے اب زیب بم ہوئے
اپروو کر رہے ہیں وہ مسکان دشمناں
جزبے ہمارے دل کے سبھی کالعدم ہوئے
الفاظ ختم ہوگئے اس کے جمال پر
دو بیت بھی نہ خاطرِ جاناں رقم ہوئے
تنہا چلا تھا حضرت مجنوں کی راہ پر
عشاق دھیرے دھیرے مرے ہم قدم ہوئے
مہر و وفا کا ذکر قمرؔ چھوڑ دیجئے
بے فائدہ بیاں سے بہت تنگ ہم ہوئے
محمدقمرشہزادآسیؔ