انیس الرحمن
محفلین
ردرپریاگ کا آدم خور تیندوہ
جم کاربٹ
مترجم: جاوید شاہین
جم کاربٹ
مترجم: جاوید شاہین
فہرست
یاترا سڑک
آدم خور
دہشت
آمد
تحقیق
پہلا انسانی شکار
تیندوے کی تلاش
دوسرا انسانی شکار
تیاریاں
جادو
بال بال بچاؤ
لوہے کا پھندہ
شکاریوں کا تعاقب
واپسی
مچھلی کا شکار
بکرے کی موت
لاش میں زہر
تیندوے کی خوش قسمتی
احتیاط کی ضرورت
ایک جنگلی سؤر کا تعاقب
صنوبر کے درخت پر شب بیداری
دہشت کی رات
تیندوے تیندوے کا مقابلہ
اندھیرے میں ایک فائر
حرفِ آخر
یاترا سڑک
آدم خور
دہشت
آمد
تحقیق
پہلا انسانی شکار
تیندوے کی تلاش
دوسرا انسانی شکار
تیاریاں
جادو
بال بال بچاؤ
لوہے کا پھندہ
شکاریوں کا تعاقب
واپسی
مچھلی کا شکار
بکرے کی موت
لاش میں زہر
تیندوے کی خوش قسمتی
احتیاط کی ضرورت
ایک جنگلی سؤر کا تعاقب
صنوبر کے درخت پر شب بیداری
دہشت کی رات
تیندوے تیندوے کا مقابلہ
اندھیرے میں ایک فائر
حرفِ آخر
یاترا سڑک
اگر آپ ہندوستان کے تپتے ہوئے میدانوں کے رہنے والے ایک ہندو باسی ہیں اور تمام اچھے ہندوؤں کی طرح کیدار ناتھ اور بدری ناتھ کی قدیم یاتراؤں کی یاترا پر جانا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنی اس یاترا کا آغاز ہردوار سے کرنا ہو گا۔ اور اگر آپ اس یاترا کا پورا پورا ثواب کمانا چاہتے ہیں تو ہردوار سے کیدار ناتھ اور وہاں سے بدری ناتھ تک سارا سفر ننگے پاؤں طے کریں۔ہرکی پیاری کے پاک تالاب میں غسل کر کے خود کو پاک کرنے اور ہردوار کے بہت سے مندروں اور مقدس جگہوں کے درشن کرنے اور وہاں تھوڑا بہت نذرانہ دینے کے بعد آپ ان اپاہجوں اور کوڑھیوں کو دان دینا نہ بھولیں جو مقدس تالاب کے قریب سڑک کے کنارے ہاتھ پھیلائے بیٹھے رہتے ہیں۔ اگر آپ اس غلطی کے مرتکب ہو گئے تو وہ آپ کو شراپ دیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان اپاہجوں اور کوڑھیوں کے گندے چیتھڑوں یا ان کے خستہ حال جھونپڑوں میں اتنی دولت ہوتی ہے کہ آپ تصّور بھی نہیں کر سکتے۔ ان کی بددعاؤں سے بچنا ہی بہتر ہے اور پھر آپ کو فقط چند سکّے خرچ کرنے پڑیں گے۔
اب آپ ایک اچھے ہندو کی طرح مذہب کی تمام رسموں سے عہدہ برآں ہو چکے ہیں اور اپنی طویل اور مشکل یاترا کا آغاز کرنے کے لیے آزاد ہیں۔
ہردوار سے چلنے کے بعد آپ کی دلچسپی کی پہلی جگہ رکی کیش آئے گی۔ یہاں آپ سب سے پہلے کالی کملی والوں سے ملیں گے۔ کالی کملی والوں کے بزرگ اپنے بدن کے گرد فقط ایک کالا کمبل اوڑھتے تھے۔ ان کے اکثر چیلے آج بھی ان کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ کمبل انہوں نے کمر میں بکری کے بالوں سے باندھ رکھا ہوتا ہے۔ یہ لوگ سارے ہندوستان میں اچھے کارناموں کے سبب مشہور ہیں۔ میرے خیال میں آپ کے سفر کے دوران میں کوئی دوسرا ایسا مذہبی فرقہ نہ ملے گا جو اپنی شہرت کا دعویدار ہو مگر کالی کملی والے یہ دعوی بڑے فخر سے کرتے ہیں اور حقیقت میں اس کا جواز بھی ہے کیونکہ بہت سے مندروں اور مقدس جگہوں سے انہیں جو نذرانہ وغیرہ ملتا ہے اس سے انہوں نے کئی ہسپتال کھول رکھے ہیں۔ یاتریوں کے لیے ٹھہرنے کی جگیں بنا رکھی ہیں اور وہ ضرورت مندوں، معمر اور غریب لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔
رکی کیش سے چلنے کے بعد آپ لچھمن جھولا پہنچیں گے جہاں سے یاترا سڑک ایک جھولا نما پل کے ذریعے دریائے گنگا کے دائیں کنارے سے بائیں جانب ہو جاتی ہے۔ یہاں سرخ بندروں سے باخبر رہیں جو پل پر ڈیرہ جمائے رکھتے ہیں۔ یہ بندر ہردوار کے اپاہجوں سے زیادہ تنک مزاج اور لالچی ہیں۔ اگر آپ ان کے لیے مٹھائی یا بھنے ہوئے چنے لانا بھول گئے ہیں تو یہ آپ کا پل پر سے گزرنا دو بھر کر دیں گے۔
دریائے گنگا کے بائیں کنارے پر تین دن کے سفر کے بعد آپ گھڑوال کے قدیم دارالحکومت شری نگر پہنچ جائیں گے۔ یہ شہر مذہبی اور تاریخی اہمیت کے علاوه کاروباری نقطہ نظر سے بھی بڑا اہم ہے۔ یہ پہاڑوں کے درمیان گھری ہوئی ایک کشادہ اور وسیع وادی میں واقع ہے اور خوبصورتی کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ اسی وادی میں 1805 میں گھڑوالیوں کے آباؤاجداد نے گورکھا حملہ آوروں کی یلغار کو روکنے کی آخری ناکام کوشش کی تھی۔ اس کے علاوہ گھڑوال کے باشندوں کو اس بات کا بھی ہے حد افسوس ہے کہ 1805 میں گوہنالیک ڈیم کے اچانک ٹوٹ جانے سے ان کا قدیم شہر شری نگر اور وہاں مہا راجاؤں کے عظیم الشان محل تیز پانی کی یورش کی تاب نہ لا کر بہ گئے تھے۔ اس ڈیم کو بڑی گنگا کی وادی نے جنم دیا ہے۔ بڑی گنگا بذات خود دریائے گنگا کی ایک شاخ ہے۔ جو شروع میں گیارہ ہزار فٹ چوڑی اور آگے چل کر نو سو فٹ کی بلندی پر دو ہزار فٹ چوڑی رہ جاتی ہے۔ جب اس وادی کے منہ پر بنا ہوا ڈیم پتھروں کے سینے کو چیر کر ایک دم پھوٹ پڑا تو فقط چھ گھنٹوں کے اندر اس نے دس کھرب کیوبک فٹ پانی بہا دیا۔ اس سیلاب سے گنگا سے ہردوار تک تباہی مچادی اور راستے کا ہر پل توڑ دیا۔ مگر اس سیلاب میں فقط ایک کنبے کا جانی نقصان ہوا اور وہ بھی اس کنبے کے افراد کی اپنی غلطی تھی۔ جب انہیں زبردستی خطرے والی جگہ سے لایا گیا تو وہ پھر وہاں پہنچ گئے۔
شری نگر سے چٹخال تک آپ کو مشکل چڑھائی کا سامنا کرنا پڑے گا مگر وادئ گنگا کے دلکش نظارے اور بدری ناتھ کی ابدی برف آپ کو یہ دشوار چڑھائی محسوس نہ ہونے دے گی۔
چٹخال سے ایک دن کا سفر آپ کو گلاب رائے پہنچا دے گا۔ یہاں آپ کو گھاس پھونس سے بنے ہوئے ایسے سائبان اور کمرے دکھائی دیں گے جہاں یاتری قیام کرتے ہیں۔ یہاں پینے کا پانی جمع کرنے کا ایک بہت بڑا تالاب بھی ہے۔ اس بڑے تالاب کو ایک ایسی شفاف ندی بھرتی ہے۔ جس کا پانی گرمیوں میں پہاڑوں کے نیچے بھری ہوئی نالیوں اور پائپوں کے ذریعے لے جایا جاتا ہے۔ لیکن سال کے دوسرے موسموں میں اس ندی کا پانی پھول دار تختوں، ہری بھری گھاس اور چھوٹے چھوٹے جنگلی پودوں اور جھاڑیوں کے درمیان اٹکھیلیاں کرتا رہتا ہے۔
اس سائبان اور کمروں سے ایک سو گز دور سڑک کی دائیں طرف آم کا ایک درخت ہے۔ یہ درخت اور اس کے اوپر گلاب رائے کے سائبانوں اور کمروں کے مالک پنڈت کا دو منزلہ مکان ہے۔ یہ درخت اور یہ دو منزلہ مکان قابلِ توجہ ہیں۔ کیونکہ آئندہ بیان ہونے والی داستان میں یہ بڑا اہم کردار انجام دیتے ہیں۔
یہاں سے مزید دو میل کا سفر طے کرنے پر آپ "ردرپریاگ" پہنچ جائیں گے۔ یہاں سے میرا اور آپ کا راستہ جدا ہو جاتا ہے۔ آپ کا راستہ الک نندہ سے اور منڈانی کے بائیں کنارے سے کیدار ناتھ کی سمت جاتا ہے اور میرا راستہ یہاں سے پہاڑیوں کے اوپر اوپر نینی تال میں میرے گھر کی سمت مڑتا ہے۔
آپ کے سامنے پھیلی ہوئی سڑک جس پر لاکھوں یاتری چل چکے ہیں، بڑی ڈھلوان اور ناقابلِ اعتبار حد تک سخت اور پتھریلی ہے۔ آپ کے پھیپھڑے جنہوں نے سطح سمندر سے اوپر کبھی کام نہیں کیا اور جو اپنے گھر کی چھت سے بھی اوپر نہیں چڑھے اور آپ کے پاؤں جو نرم زمین پر چلنے کے عادی ہیں، انہیں بڑی تکلیف اٹھانی ہو گی۔ بارہ ایسے مقام آئیں گے جب آپ پھولے ہوئے سانس اور زخمی پاؤں سے چڑھائی چڑھنے میں مصروف ہوں گے اور آپ کے ذہن میں کئی بار یہ سوال سر اٹھائے گا کہ کیا یاترا کا ثواب اس تکلیف کی تلافی کر سکے گا۔ مگر ایک اچھے ہندو کی طرح آپ اپنا سفر جاری رکھیں اور اس خیال سے خود کو تسلی دیں کہ تکلیف کے بغیر راحت حاصل نہیں ہوتی اور اس دنیا میں جس قدر کوئی دکھ اٹھائے گا اگلی دنیا میں اتنی ہی اس کو جزا ملے گی۔
آدم خور
پریاگ ہندی میں سنگم کو کہتے ہیں۔ ردرپریاگ کے مقام پر دو دریا۔ یعنی منڈاکنی جو کیدار ناتھ کی سمت سے آتا ہے اور دوسرا الک نندہ جو بدری ناتھ سے اس سمت بہتا ہے۔ دونوں مل جاتے ہیں اور یہاں سے آگے ان دریاؤں کا ملا جلا پانی ہندوؤں کے لیے گنگا مائی اور باقی دنیا کے لیے فقط گنگا بن جاتا ہے۔جب کوئی جانور خواہ وہ تیندوہ ہو یا شیر، آدم خور بن جاتا ہے تو شناخت کی خاطر اسے کسی جگہ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس طرح کسی آدم خور کو جو نام دیا جاتا ہے اس کا یہ مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس جانور نے آدم خوری کا آغاز اس جگہ سے کیا تھا یا اس نے اپنے تمام انسانی شکار اسی جگہ پر ہلاک کیے تھے۔ یہ بڑی فطری بات ہے کہ وہ تیندوہ جس نے ردرپریاگ سے بارہ میل دور کیدار ناتھ کی یاترا سڑک پر آدم خوری کا آغاز کیا تھا، بعد میں ردرپریاگ کے آدم خور تیندوے کے نام سے پکارا جائے۔
جن وجوہ کی بنا پر شیر آدم خور بن جاتے ہیں، ان وجوہ کے سبب تیندوے آدم خور نہیں بنتے۔ ہندوستانی جنگلات کے تیندوے جو نہایت خوبصورت ہوتے ہیں اور جب زخمی ہو جائیں یا انہیں گھیر لیا جائے تو شیر جیسی جرات کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان کے متعلق بھی یہ بات تسلیم کرنے میں عار محسوس ہوتی ہے کہ بعض اوقات بھوک سے تنگ آکر وہ اس قدر گھٹیا ہو جاتے ہیں کہ مردار بھی کھالیتے ہیں، بالکل افریقہ کے شیروں کی طرح۔
گھڑوال کے باشندے ہندو ہیں اور وہ اپنے مردوں کو جلاتے ہیں۔ مردوں کو جلانے کی رسم کسی ندی یا دریا کے کنارے ادا کی جاتی ہے تاکہ ان کی راکھ گنگا مائی میں بہہ جائے۔ چونکہ اس علاقے کے بہت سے دیہات پہاڑیوں پر واقع ہیں اور کوئی ندی یا دریا ان سے کئی میل دور وادی میں ہوتا ہے۔ لہذا آپ محسوس کر سکتے ہیں کہ ایسے دیہات کے لوگوں کو مردوں کو اٹھانے کے علاوہ اسے جلانے کی خاطر لکڑی وغیرہ ندی یا دریا کے کنارے لے جانے میں کس قدر دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔ عام حالات میں وہ لوگ یہ رسمیں بڑے خلوص سے ادا کرتے ہیں۔ لیکن جب پہاڑیوں میں کوئی متعدی وباء پھیل جاتی ہے اور لوگ زیادہ تعداد میں مرنے لگے ہیں تو اس صورت میں ایک بڑی سادہ سی رسم ادا کی جاتی ہے۔ لوگ مردے کے منہ میں ایک جلتا ہوا کوئلہ رکھ کر ضروری رسم ادا کرتے ہیں اور پھر اسے اٹھا کر کسی بلند پہاڑی پر سے نیچے وادی میں پھینک دیتے ہیں۔ ایک تیندوے کے لیے جس علاقے میں فطری غذا کی کمی ہو وہ ایسی لاشوں کو کھا کر بڑی جلدی انسانی گوشت کا دلدارہ بن جاتا ہے اور جب متعدی وبا ختم ہو جاتی ہے اور حالات کا دھارا عام رفتار سے بہنے لگتا ہے تو ایسا تیندوہ اپنی غذا کے پیش نظر انسانوں کو ہلاک کرنا شروع کر دیتا ہے۔1918 میں ہندوستان کے اندر انفلوئنزا کی جو وباء پھیلی تھی اس میں تقریباً دس لاکھ انسان ہلاک ہوئے تھے۔ گھڑوال میں بھی بےحد جانی نقصان ہوا۔ اس وباء کے اختتام پر گھڑوال کے آدم خور نے اپنی تباہ کاری شروع کی تھی۔
ردرپریاگ کے آدم خور تیندوے نے اپنا پہلا انسانی شکار موضع بینجی میں9 جون 1918 کو اور اس نے اپنا آخری انسانی شکار موضع بھینسوارہ میں 14 اپریل1926 کو کیا۔ ان دو تاریخوں کے درمیانی عرصے میں سرکاری ریکارڈ کے مطابق اس آدم خور تیندوے نے 125 انسانوں کو ہلاک کیا تھا۔ میرے خیال میں یہ اعداد و شمار جو گڑوال میں مقیم سرکاری افسروں نے حکومت کی ہدایت کے تحت ریکارڈ کیے تھے‘ بڑی حد تک درست نہیں۔ میں اپنے اس دعوے کے جواز میں یہ بیان دیتا ہوں کہ جن دنوں میں اس علاقے میں تھا اس زمانے میں بھی آدم خور نے کئی انسانوں کو ہلاک کیا مگر ان میں سے بیشتر اموات سرکاری ریکارڈ میں درج نہیں تھیں۔
میری یہ ہرگز خواہش نہیں کہ آدم خور کی حقیقی انسانی ہلاکتوں کو کم بیان کر کے گھڑوال کے باشندوں کی اس تکلیف کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کروں جس میں وہ آٹھ برس تک مبتلا رہے تھے۔ گر میری یہ منشا بھی نہیں کہ اس آدم خور کی سچائیوں پر حاشیہ آرائی کر کے یہ ثابت کروں کہ ردرپریاگ کا آدم خور تیندوہ سب سے زیادہ خوفناک آرم خور تھا۔ جیسا کہ گڑوال کے لوگوں کا دعویٰ تھا۔
اس اخبارى شہرت کے علاوه كيدار ناتھ اور بدری ناتھ کی یاتروؤں پر ہندوستان کے ہر علاقے سے ہر سال جو ساٹھ ہزار کے قریب یاتری آتے تھے وہ واپسی پر اس تیندوے کی کہانیاں اپنے علاقوں میں بیان کیا کرتے تھے۔
جب کوئی آدم خور جانور کسی انسان کو ہلاک کر دیتا ہے تو حکومت کا یہ طریقہ کار ہے کہ اس شخص کے لواحقین اس موت کی رپورٹ گاؤں کے پٹواری کے پاس درج کرائیں۔ ایسی رپورٹ ملنے پر پٹواری جائے حادثہ پر جاتا ہے اور اگر اس کے پہنچنے سے پہلے متوفی کی نعش نہ ملے تو ایک تلاشی پارٹی منظم کر کے نعش کو برآمد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر اس کے پہنچنے سے پہلے لاش مل جائے یا تلاشی پارٹی اسے ڈھونڈ لے تو پٹواری جائے حادثہ پر تحقیق کرتا ہے اور جب اسے یقین ہو جائے کہ وہ کوئی قتل کا کیس نہیں بلکہ آدم خور ہی نے اسے ہلاک کیا ہے تو وہ لاش کے لواحقین کو اسے اٹھانے اور جلانے یا دفن کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ پھر وہ اپنے رجسٹر میں اس ہلاکت کو درج کرتا ہے اور اس کی ایک مفصل رپورٹ اپنے ضلع کے حاکم اعلیٰ کو روانہ کر دیتا ہے۔ ضلع کے حاکم اعلیٰ یعنی ڈپٹی کمشنر کے پاس بھی ایک رجسٹر ہوتا ہے۔ جس میں آدم خور کی تمام انسانی ہلاکتیں درج کی جاتی ہیں لیکن اگر لاش کا کوئی حصہ غائب ہو جیسے کہ بعض اوقات ہو جاتا ہے کیونکہ آرم خور کو اپنا شکار دور تک لے جانے کی عادت ہوتی ہے، تو اسی صورت میں مزید تحقیق کے لیے کیس کو روک لیا جاتا ہے اور اس بلاکت کا ذمہ دار آدم خور کو نہیں ٹھہرایا جاتا۔ علاوہ بریں جب کوئی شخص آدم خور کے ہاتھوں زخمی ہو جائے اور وہ ان زخموں کی تاب نہ لا کر مرجائے تو اس کی موت کا ذمہ دار بھی آدم خور کو نہیں ٹھہرایا جاتا۔
حکومت نے آدم خور کی انسانی ہلاکتوں کو ریکارڈ کرنے کا جو طریقہ کار اختیار کر رکھا ہے اگرچہ وہ خاصا اچھا ہے لیکن ایسا آدم خور حکومت کے ریکارڈ میں درج انسانی ہلاکتوں سے کہیں زیادہ انسانوں کی موت کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ خصوصاً جب وہ ایک وسیع رقبے میں سرگرم عمل ہو۔
دہشت
روز مرہ کے چھوٹے چھوٹے واقعات کے سلسلے میں لفظ "دہشت" اس کثرت سے استعمال ہوتا ہے کہ جب بھی اس کا صحیح مطلب سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ لفظ اپنا فرض ادا کرنے سے قاصر رہ جاتا ہے۔ لہذا میں آپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کروں گا کہ گھڑوال کے پانچ سو مربع میل کے رقبے میں آباد پچاس ہزار باشندوں اور ان ساٹھ ہزار یاتریوں کے نزدیک سچ مچ کی دہشت کا کیا مطلب تھا۔ یہ یاتری 1918 سے 1926 تک ہر سال یاترا کی غرض سے گھڑوال سے گزرا کرتے تھے۔ چند مثالوں سے میں یہ بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ گھڑوال کے باسی اور یاتری آخر کیوں آدم خور سے اس قدر دہشت زدہ تھے۔ردرپریاگ کے آدم خور تیندوے نے جو کرفیو آرڈر نافذ کر رکھا تھا میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ کسی دوسرے کرفیو آرڈر کی لوگوں نے اتنی سختی سے پابندی نہ کی ہوگی۔ دن کی روشنی میں اس علاقے میں زندگی کی گہماگہمی حسبِ معمول رہتی تھی۔ لوگ دور دراز کے بازاروں میں کاروبار کے سلسلے میں جاتے، گردونواح کے دیہات میں اپنے عزیزوں اور احباب سے ملتے‘ عورتیں پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر سائبان وغیرہ بنانے یا مویشیوں کے لیے چارے کی خاطر گھاس کاٹنے جاتیں، لڑکے اسکول یا جنگل میں مویشی چراتے یا ایندھن کے لیے لکڑیاں کاٹنے جاتے۔ اگر موسمِ گرما ہوتا تو یاتریوں کی ٹولیاں بھجن گانے میں مصروف بدری ناتھ اور کیدار ناتھ کی یاتراؤں کی طرف آتی جاتی دکھائی دیتیں۔
لیکن جونہی سورج مغربی افق کے قریب پہنچ جاتا اور سائے لمبے ہونے لگتے، اس علاقے کے تمام باسیوں کے طرزِ سلوک میں ایک دم نمایاں تبدیلی آجاتی۔ بازار یا گردونواح کے دیہات میں گئے ہوئے لوگ تیز تیز قدموں میں گھر کی سمت بھاگنے لگتے، عورتیں گھاس کے بڑے بڑے گٹھے اٹھائے پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر سے لڑھکنے لگتیں۔ لڑکے جو اسکول سے واپسی پر راستے میں کھیلنے لگ جاتے یا جو جنگل میں بھیڑیں وغیرہ چرانے یا ایندھن وغیرہ لیے گئے ہوتے، ان کی متفکر مائیں انہیں آوازیں دینے لگتیں۔ اور تھکے ماندے یاتریوں کو مقامی باشندے کوئی پناہ تلاش کرنے کی تلقین کرتے۔
رات تیندوے کے ساتھ ہی سارے علاقے پر ایک پرخوف اور منحوس خاموشی مسلط ہو جاتی۔ نہ کہیں کوئی جنبش، نہ کہیں کوئی آواز، ساری آبادی بند دروازوں کے عقب میں مقید ہو جاتی۔ بعض لوگوں نے اپنے گھروں کے دوہرے دروازے بنا رکھے تھے۔ جو یا تری کسی گھر میں پناہ حاصل کرنے میں ناکام رہتے انہیں مندروں سے ملحق کمروں میں بند کر دیا جاتا۔ پھر ایسے کمرے ہوں یا مکان، ہر جگہ بھرپور خاموشی مسلط ہو جاتی اور اس ڈر سے کوئی آواز نہ نکالی جاتی کہ کہیں ظالم آدم خور آواز سن کر ادھر نہ آ جائے۔
گھڑوال کے باسیوں اور یاتریوں کے نزدیک آٹھ برس تک دہشت کا یہ مطلب تھا۔
اب میں چند مثالوں سے واضح کرتا ہوں کہ اس قسم کی دہشت کی آخر کیا وجہ تھی۔
ایک شخص نے ایک چودہ سالہ یتیم لڑکا اپنی بکریوں کی دیکھ بھال کے لیے ملازم رکھا ہوا تھا۔ وہ لڑکا اچھوت تھا۔ ہر شام جب وہ بکریاں چرا کر واپس آتا تو اس کا مالک اسے کھانا کھلانے کے بعد بکریوں کے ساتھ ہی ایک چھوٹے سے کمرے میں بند کردیتا۔وہ کمرہ مکان کی نچلی منزل پر تھا اور اس سے اوپر والے کمرے میں اس کا مالک رہتا تھا۔ لڑکے نے رات کو سونے کے لیے کمرے کی ایک نکڑ میں تھوڑی سی جگہ بنا رکھی تھی اور آگے باڑھ سی باندھ لی تھی تاکہ رات کو بکریاں اس پر چڑھ نہ جائیں۔
اس کمرے میں کوئی کھڑکی نہ تھی۔ فقط ایک دروازہ تھا۔ جب لڑکا اور بکریاں کمرے میں داخل ہو جاتیں تو مالک باہر سے دروازے کی زنجیر چڑھا کر مزید حفاظت کے لیے زنجیر میں لکڑی کا کوئی کڑا پھنسا دیتا تاکہ وہ کھل نہ سکے۔ دوسری طرف کمرے کے اندر لڑکا دوہری حفاظت کے پیش نظر دروازے کے آگے ایک بڑا سا پتھر جما دیتا۔
جس رات یہ حاوثہ پیش آیا لڑکے کے مالک نے حسبِ دستور لڑکے اور بکریوں کو کمرے میں بند کر کے باہر سے زنجیر چڑھا دی۔ اس شخص کی بات پر شک کرنے کی مجھے کوئی وجہ نظر نہیں آئی۔ بعد میں معائنہ کیا گیا تو دروازے پر تیندوے کے پنجوں کی خراشیں موجود تھیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ دروازہ کھولنے کی کوشش میں تیندوے نے زنجیر میں سے لکڑی کا کڑا نکال دیا ہو یا وہ تیندوے کی اس جدوجہد میں خود ہی گرپڑا ہو۔ جس کے بعد اس کے لیے زنجیر گرانا، دروازہ کھولنا اور دروازے کو دھکیل کر اندر داخل ہونا مشکل نہ تها۔
ایک چھوٹے سے کمرے میں چالیس بکریوں کا ہجوم تیندوے کے لیے اس قدر جگہ مہیا نہ کر سکتا تھا کہ وہ اِدھر اُدھر گھوم سکے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ تیندوے نے دروازے سے لڑکے تک کا فاصلہ بکریوں کے اوپر سے یا ان کی ٹانگوں کے نیچے سے پیٹ کے بل رینگ کر طے کیا تھا۔ ظاہر ہے تیندوے کو دیکھ کر تمام بکریاں چوکنی ہو گئی ہوں گی۔
یہ تصور کر لینا بہتر ہوگا کہ دروازہ کھولنے کی جدوجہد کے دوران لڑکا بدستور نیند میں مگن رہا۔ جب دروازہ کھلا تو بکریاں باہر بھاگ گئیں۔ ان کی بھگدڑ بھی لڑکے کو بیدار نہ کر سکی، نہ ہی اس نے مدد کے لیے کسی کو آواز دی۔ بعد میں اس کے مالک نے بتایا کہ اسے ایک ہلکی سی چیخ سنائی دی تھی۔ غالباً یہ چیخ لڑکے نے اس وقت ماری ہوگی جب تیندوے نے اسے دبوچ لیا ہوگا۔
کونے میں باڑھ کے اندر سوئے ہوئے لڑکے کو ہلاک کرنے کے بعد تیندوہ اسے اٹھا کر خالی کمرے سے باہر نکل گیا۔ اسے اٹھا کر وہ ایک پہاڑی کی ڈھلوان پر سے ہوتا ہوا چند کھیتوں میں سے گزر کر ایک ندی کے کنارے جا پہنچا۔ سورج نکلنے کے چند گھنٹوں بعد لڑکے کے مالک کو وہاں اس کے جسم کے بچے کھچے حصے دکھائی دیے۔
اگرچہ یہ بات ناقابلِ یقین ہے مگر چالیس بکریوں میں سے ایک کو بھی تیندوے کے پنجوں کی تراش تک نہ آئی تھی۔
ایک ہمسایہ اپنے ساتھ والے گھر میں حقہ نوشی کی خاطر آیا۔ جس کمرے میں وہ اور اس کا دوست بیٹھے تھے اس کی شکل انگریزی کے حرف"ایل" جیسی تھی۔ جس جگہ وہ دیوار سے ٹیک لگائے حقہ گڑگڑانے میں مشغول تھے۔ وہاں سے دروازہ دکھائی نہ دیتا تھا۔ دروازہ بند تو تھا مگر انہوں نے زنجیر نہ چڑھا رکھی تھی۔ کیونکہ اس وقت تک تیندوے نے اس گاؤں میں کوئی انسانی شکار نہ کیا تھا۔
کمرے میں اندھیرا تھا۔ ایک دفعہ جونہی گھر کے مالک نے حقہ اپنے دوست کی طرف بڑھایا تو وہ زمین پر گرپڑا اور چلم میں سے انگارے فرش پر بکھر گئے۔ اپنے دوست کو محتاط رہنے اور جس کمبل پر وہ بیٹھے تھے اسے بچانے کی تلقین کر کے گھر کا مالک فرش پر سے کوئلے اٹھانے لگا۔ جونہی وہ آگے جھکا اسے دروازہ نظر آنے لگا۔ دروازے میں سے ابتدائی راتوں کا چاند دکھائی دے رہا تھا اور اس کی روشنی میں اس نے دیکھا کہ ایک تیندوہ اس کے دوست کو اٹھائے کمرے سے باہر جارہا تھا۔
چند روز بعد مجھے یہ واقعہ سناتے ہوئے اس شخص نے کہا، "صاحب! میں آپ سے بالکل حقیقت بیان کر رہا ہوں۔ مجھے تیندوے کے اندر آنے کی بالکل آواز سنائی نہ دی۔ میرا دوست مجھ سے فقط ایک گز کے فاصلے پر بیٹا تھا۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ تیندوے نے اسے میری موجودگی میں ہلاک کیا اور پھر اسے اٹھا کر چلتا بنا اور مجھے یہ ساری کارروائی محسوس تک نہ ہو سکی۔ اس وقت میں اپنے دوست کے لیے کچھ نہ کر سکا تھا لیکن جونہی تیندوہ تھوڑی دور چلا گیا۔ میں رینگتا ہوا دروازے تک گیا اور اندر سے زنجیر چڑھادی۔"
ایک گاؤں کے نمبردار کی بیوی بیمار تھی اور دو عورتیں اس کی دیکھ بھال کے لیے اس کے گھر آئی ہوئی تھیں۔
مکان میں دو کمرے تھے۔ باہر والے کمرے میں دو دروازے تھے۔ ایک دروازہ صحن میں کھلتا تھا اور دوسرا دروازہ دونوں کمروں کو آپس میں ملاتا تھا۔ بیرونی کمرے میں ایک دریچہ بھی تھا جو زمین سے تقریباً چار فٹ اونچا تھا۔ اس دریچے میں پانی سے بھری ہوئی پیتل کی ایک گاگر دھری رہتی تھی۔
اندرونی کمرے میں دروازے کے سوا کوئی دریچہ نہ تھا۔
صحن میں کھلنے والا دروازہ نہایت احتیاط سے بند تھا مگر دونوں کمروں کے درمیان والا دروازه چوپٹ کھلا تھا۔
تینوں عورتیں اندرونی کمرے میں فرش پر لیٹی تھیں۔ بیمار عورت درمیان میں تھی۔ اس کا شوہر بیرونی کمرے میں کھڑکی کے قریب بستر پر لیٹا تھا۔ اس کے قریب فرش پر لالٹین جل رہی تھی جس کی ہلکی روشنی دروازے کے راستے اندرونی کمرے میں بھی جارہی تھی۔
نصف شب کے قریب جب گھر کے باسی سوئے ہوئے تھے تو تیندوہ کھڑکی کے راستے پانی سے بھری ہوئی گاگر سے معجزانہ انداز میں پہلو بچا کر کمرے میں داخل ہوا اور آدمی کے بستر کے اوپر سے چکر لگا کر دوسرے کمرے میں گیا اور اس نے بیمار عورت کو ہلاک کر دیا جب وہ اپنے شکار کو اٹھا کر دوبارہ کھڑکی کے ریستے باہر پھلانگنے لگا تو پانی سے لبریز گاگر گر پڑی جس سے دوسرے لوگ جاگ پڑے۔
جب لالٹین کی لو بلند کی گئی تو کھڑکی کے نیچے بیمار عورت پڑی دکھائی دی۔ اس کی گردن پر بڑے بڑے دانتوں کے چار زخم تھے۔
باقی دو عورتوں میں سے ایک نے بعد میں مجھے یہ واقعہ بتاتے ہوئے کہا، "وہ عورت بڑی بیمار تھی اور اس سے مر ہی جانا تھا۔ بھگوان کا شکر ہے کہ تیندوے سے اس کو چنا تھا۔"
دو گوجر بھائی اپنی تین بھینسوں کا ریوڑ ایک چراگاہ سے دوسری چراگاہ لے جارہے تھے۔ ان کے ہمراہ ایک بارہ سالہ لڑکی بھی تھی۔ جو بڑے بھائی کی بیٹی تھی۔
وہ اس علاقے میں اجنبی تھے اور آدم خور کے متعلق کچھ نہ جانتے تھے یا پھر ممکن ہے انہوں نے یہ سوچا ہو کہ ان کی بھینسیں انہیں آدم خور سے محفوظ کرلیں گی۔
سڑک کے قریب آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر تھوڑی سی ہموار زمین تھی جس کے نیچے ایک چھوٹا سا کھیت تھا۔ اس کھیت میں ایک مدت سے کاشت نہ کی گئی تھی۔ دونوں بھائیوں نے رات اس کھیت میں بسر کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کھیت کے درمیان اپنے مویشی ایک قطار کی شکل میں باندھ دیے۔
شام کے کھانے سے فارغ ہو کر ان تینوں نے زمین پر اپنے کمبل بچھائے اور سو گئے۔
وه اندھیری رات تھی۔ رات کے پچھلے پہر بھینسوں کی گھنٹیوں اور زمین پر ان کے کھر مارنے کی آوازوں نے گوجروں کو بیدار کر دیا۔ اپنے طویل تجربے کی بنا پر انہیں معلوم ہوگیا کہ وہاں کوئی درندہ آگیا ہے۔ انہوں نے لالٹین روشن کی اور بھینسوں کو خاموش کرانے کے لیے چل پڑے۔ انہوں نے دیکھا کہ کسی بھینس نے رسہ نہیں توڑا تھا۔
دونوں بھائی چند منٹ کے لیے اپنی جگہ سے غیر حاضر ہوئے تھے۔ جب وہ واپس آئے تو لڑکی وہاں موجود نہ تھی۔ وہ اسے سوتا ہوا چھوڑ گئے تھے۔ جس کمبل پر وہ لیٹی ہوئی تھی اس پر خون کے بڑے بڑے دھبے پڑے تھے۔
جب دن نمودار ہوا تو لڑکی کا باپ اور چاچا خون کی لکیر کے تعاقب میں چل پڑے۔ بھینسوں کے اوپر سے ہو کر یہ لکیر پہاڑی کے نیچے چلی گئی تھی۔ جہاں چند گز دور تیندوے نے اپنے شکار کا صفایا کر دیا تھا۔
"صاحب! میرا بھائی منحوس ستارے کے سائے میں پیدا ہوا تھا۔ اس کا کوئی بیٹا نہیں، اس کی یہی ایک لڑکی تھی۔ جس کی جلد ہی شادی ہونے والی تھی۔ اس شادی سے میرا بھائی اپنی جائیداد کا وارث حاصل کرنا چاہتا تھا مگر تیندوے نے یہ امید بھی ختم کردی۔"
میں ایسے کئی واقعات بیان کر سکتا ہوں۔ ہر واقعہ اپنے پہلو میں ایک المناک داستان لیے ہوئے ہے۔ لیکن میرے خیال میں اب آپ کو یقین آگیا ہوگا کہ گھڑوال کے لوگ ردر پریاگ کے آدم خور تیندوے سے اس قدر کیوں ہراساں تھے۔ خاص طور پر جب یہ بات دھیان میں رکھی جائے کہ گھڑوالی بےحد توہم پرست ہوتے ہیں۔ تیندوے کے خوف کے علاوہ ان پر مافوق الفطرت قسم کا ایک خوف بھی سوار تھا۔ جس کی ایک مثال میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
ایک صبح جب سورج ابھی طلوع ہو رہا تھا میں ردرپریاگ کے معائنہ بنگلے سے باہر نکلا۔ جونہی میں برآمدے سے باہر نکلا، مجھے زمین پر تیندوے کے پنجے کے نشان دکھائی دیے۔
وہ نشان بالکل تازہ تھے۔ تیندوہ مجھ سے فقط چند منٹ پہلے شکار حاصل کرنے کی ناکام کوشش کر کے لوٹ گیا تھا۔ وہ یاترا سڑک کی جانب گیا تھا جو وہاں سے پچاس گز دور تھی۔
سخت زمین کے سبب بنگلے اور سڑک کے درمیان تیندوے کے پنجوں کے نشان تلاش کرنا مشکل تھا۔ لیکن میں جونہی بیرونی گیٹ کی سمت گیا وہاں سے پنجوں کے نشان گلاب رائے کی سمت جارہے تھے۔ نشان اس قدر واضح تھے کہ جیسے تازہ تازہ گری ہوئی برف پر ثبت ہوں۔
اس وقت تک میں آدم خور کے پنجوں کے نشانات سے بخوبی واقف ہو چکا تھا اور انہیں سینکڑوں تیندووں کے پنجوں کے نشانوں میں سے پہچان سکتا تھا۔
درندوں کے پنجوں کے نشانات سے بہت سی معلومات فراہم کی جا سکتی ہیں۔ مثلاً وہ نر ہے کہ مادہ، کتنی عمر کا ہے اور کس سائز کا ہے۔ میں اس سے پہلے ان پنجوں کے نشانات کا بغور معائنہ کر کے اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ وہ ایک بڑا تیندوہ تھا جو عرصہ ہوا شباب کی منزلوں سے گزر چکا تھا۔ اس کے پنجوں کے نشانات کا تعاقب کرتے ہوئے مجھے صاف معلوم ہو رہا تھا کہ وہ مجھ سے فقط چند منٹ آگے تھا اور وہ سست رفتار سے چل رہا تھا۔
یہ سڑک جس پر صبح کے وقت آمدورفت نہیں ہوتی، کئی ندی نالوں پر سے بل کھا کے گزرتی ہے۔ تیندوہ دن کی روشنی میں باہر نہیں نکلتا۔ لیکن میں ڈرتا تھا کہ کہیں وہ اس اصول کی خلاف ورزی کرکے آس پاس گھات میں نہ بیٹھا ہو۔ لہذا میں ہر موڑ سے بڑی احتیاط سے گزرتا۔ آخر ایک میل چل کر تیندوہ سڑک سے الگ ہو کر ایک گنے جنگل میں داخل ہوگیا تھا۔
جہاں تیندوہ سڑک سے جدا ہوا تھا وہاں سے ایک سو گز دور ایک چھوٹا سا کھیت تھا۔ جس کے درمیان بکریوں اور بھیڑوں کا ایک ریوڑ کھڑا تھا۔ ریوڑ کے مالک نے ریوڑ کے گرد خاردار جھاڑیوں کی باڑھ باندھ رکھی تھی۔
اس ریوڑ کا مالک ایک بوڑھا گلہ بان تھا۔ جو گزشتہ ایک چوتھائی صدی سے بکریوں کا کاروبار کر رہا تھا۔ جب میں کھیت میں داخل ہوا تو وہ باڑھ کا دروازہ ہٹانے میں مصروف تھا۔ میرے استفسار کے جواب میں اس نے کہا کہ اس نے تیندوہ تو نہیں دیکھا تھا مگر جب پو پھوٹ رہی تھی تو اس کے دو نگران کتے زور زور سے ضرور بھونکے تھے اور سڑک کے اوپر جنگل میں سے ایک ککر کی آواز بھی سنائی دی تھی۔
میں سے بوڑھے گلہ بان سے دریافت کیا کہ کیا وہ اپنی کوئی بکری فروخت کرنے پر تیار ہے تو اس نے مجھ سے اس کے خریدنے کا مقصد دریافت کیا۔ جب میں سے اسے بتایا کہ میں وہ بکری آدم خور کے لیے جنگل کے کنارے پر باندھنا چاہتا ہوں۔ تو وہ کھلے کھیت سے گزر کر سڑک کے کنارے آ گیا، اور میرا ایک سگریٹ قبول کر کے سرِ راہ بیٹھ گیا۔
ہم چند لمحوں تک سگریٹ پیتے رہے۔ اس نے ابھی تک میرے سوال کا جواب نہ دیا تھا۔ پھر بوڑھا خود بخود بولنے لگا، "صاحب! آپ بلاشبہ وہی شخص ہیں جس کا ذکر بدری ناتھ کے نزدیک اپنے گاؤں میں سے چند روز پہلے سنا تھا۔ مجھے اس بات سے دکھ ہوتا ہے کہ آپ ایک بےمقصد کام کی خاطر اپنے گھر سے اتنی دور یہاں آئے ہیں۔ وہ بدروح جو اس علاقے میں اتنی ساری انسانی جانوں کی ہلاکت کی ذمہ دار ہے، کوئی درندہ نہیں، جیسا کہ آپ کا خیال ہے۔ نہ ہی آپ اسے گولی یا کسی اور دوسرے ذریعے سے ہلاک کر سکتے ہیں جو آپ سے پہلے بہت سے لوگ آزما چکے ہیں۔ اپنے اس دعوے کے ثبوت میں، میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ یہ واقعہ مجھے میرے باپ نے سنایا تھا جس کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہے کہ اس نے کبھی جھوٹ نہ بولا تھا۔
اس وقت میرا باپ نوجوان تھا اور میں ابھی پیدا نہ ہوا تھا۔ آج کل جیسی ایک بدروح ہمارے گاؤں میں آنکلی۔ ہر ایک یہی کہتا کہ وہ ایک تیندوہ تھا۔ مرد، عورتیں اور بچے گھروں کے اندر ہلاک ہونے لگے۔ آج کل کی طرح اسے بھی ہلاک کرنے کی ہر کوشش کی گئی۔ پنجرے رکھے گئے اور نامور شکاری تیندوے پر گولیاں چلاتے رہے۔ مگر جب ساری جدوجہد ناکام ثابت ہوئی تو لوگوں پر بڑی دہشت چھاگئی۔ کوئی رات کے وقت گھر سے نکلنے کی جرات نہ کرتا۔
آخر ایک دن ہمارے گاؤں کے نمبردار اور گرد و نواح کے دیہات کے نمبرداروں سے لوگوں سے کہا کہ وہ ایک پنچایت میں شرکت کریں۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو پنج سے لوگوں نے کہا کہ وہ آدم خور تیندوے سے نجات حاصل کرنے کی خاطر کوئی نیا طریقہ سوچنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ پھر ایک بوڑھا جس کے پوتے کو گزشتہ شب آدم خور تیندوہ ہلاک کر گیا تھا اور جس کی چتا کو آگ لگا کر وہ ابھی ابھی واپس آیا تھا، اٹھا اور کہنے لگا کہ یہ کسی تیندوے کا کام نہ تھا کہ اس کے گھر میں گھس کر اس کے پہلو میں سوئے ہوئے پوتے کو اٹھا کر لے جائے بلکہ یہ تو انہیں میں سے کوئی شخص تھا جسے جب انسانی گوشت اور خون کی اشتہا ہوتی ہے تو وہ تیندوے کا روپ دھار لیتا ہے اور ایسا شخص گولی وغیرہ سے ہرگز ہلاک نہیں کیا جا سکتا۔ اسے اس سادھو پر شک تھا جو شکستہ مندر کے قریب ایک جھونپڑی میں رہتا تھا۔
اس پر لوگوں نے بڑا ہنگامہ بپا کیا۔ بعض کہتے تھے کہ پوتے کے غم میں بوڑھے کا دماغ چل گیا ہے۔ لیکن بعض لوگ اس کی یہ بات سچ مانتے تھے اور کہتے تھے کہ جب سے سادھو اس گاؤں میں آیا تھا انسانی ہلاکتوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ انہوں نے لوگوں کو یہ بتایا تھا کہ انسانی ہلاکت کے اگلے دن سادھو سارا دن دھوپ میں پاؤں پھیلائے بڑے مزے سے خمار کی حالت میں لیٹا رہتا تھا۔
جب ہجوم کا مزاج ذرا اعتدال پر آیا تو اس مسئلے پر طویل بحث ہوئی اور آخر پنچایت نے فیصلہ کیا کہ فوری طور پر سادھو کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے بلکہ آئندہ سادھو کی حرکت و سکنات پر کڑی نظر رکھی جائے۔ پھر ہجوم کو تین ٹولیوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ پہلی ٹولی اس رات سے اپنی نگرانی کا کام شروع کرے جس رات اگلی انسانی ہلاکت متوقع ہو کیونکہ انسانی ہلاکتیں ایک باقاعدہ وقفے کے بعد وقوع پذیر ہوتی تھیں۔
پروگرام کے مطابق پہلی دو ٹولیاں باری باری نگرانی کا فرض ادا کرتی رہیں مگر سادھو اپنی جھونپڑی سے باہر نہ نکلا۔
میرا باپ تیسری ٹولی میں شامل تھا۔ رات کے وقت وہ خاموشی سے سادھو کی کٹیا کے قریب چھپ کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد جھونپڑی کا دروازہ آہستہ سے کھلا سادھو اندر سے نکلا اور اندھیرے میں غائب ہو گیا۔ پھر کچھ وقفے بعد پہاڑوں کی طرف سے کوئلہ بنانے والے مزدوروں کے جھونپڑوں میں سے ایک دلدوز چیخ ہوا کے دوش پر تیرتی ہوئی آئی اور پھر بدستور خاموشی چھاگئی۔
میرے والد کی ٹولی کے دوسرے لوگوں میں سے کسی ایک نے اس رات پلک تک نہ جھپکی۔ جب مشرق میں خاکستری پو پھوٹ رہی تھی تو انہوں نے سادھو کو تیز تیز قدموں کٹیا کی طرف آتے دیکھا۔ اس کا منہ اور ہاتھ خون سے لتھڑے ہوئے تھے۔
جب سادھو نے جھونپڑی کے اندر داخل ہو کر دروازہ بند کر لیا تو میرا باپ اور دوسرے لوگ دبے پاؤں وہاں گئے اور انہوں نے باہر سے دروازے کی زنجیر چڑھا دی اور پھر سب مل کر خشک گھاس کے بڑے بڑے گٹھے لائے اور انہیں جھونپڑی کے گرد چن دیا گیا۔ جب سورج نمودار ہوا تو جھونپڑی جل کر راکھ ہو چکی تھی۔ اس دن سے انسانی ہلا کتوں کا سلسلہ ختم ہوگیا۔
لیکن اس علاقے کے بہت سے سادھوؤں میں سے ابھی کسی پر شک نہیں ہوا اگر کسی پر شک ہو گیا تو وہی طریقہ اختیار کیا جائے گا جو میرے باپ کے زمانے میں لوگوں نے اختیار کیا تھا۔ جب تک وہ دن نہیں آتا گھڑوال کے لوگوں کو جانی نقصان برداشت کرنا ہوگا۔
آپ نے مجھے بکری فروخت کرنے کے لیے کہا ہے۔ صاحب! میرے پاس فروخت کرنے کے لیے کوئی فالتو بکری نہیں۔ لیکن میری کہانی سننے کے بعد اگر آپ اب بھی آدم خور تیندوے کے لیے بکری باندھنا چاہتے ہیں تو میں آپ کو اپنی ایک بکری ادھار دے سکتا ہوں۔ اگر یہ بکری ہلاک ہو گئی تو آپ مجھے اس کی قیمت ادا کر دیں ورنہ دوسری صورت میں ہمارے درمیان کوئی سودے بازی نہ ہوگی۔ آج کا دن اور رات میں تم یہیں ٹھہروں گا۔ کل صبح پو پھٹنے کے ساتھ ہی میں یہاں سے اپنا ریوڑ لے جاؤں گا۔"
سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی میں دوبارہ وہاں آیا اور بوڑھے گلہ بان کی اجازت سے میں نے اس کے ریوڑ میں سے ایک ایسی موٹی تازی بکری چن لی جو تیندوے کی دو دن کی خوراک بن سکتی تھی۔ یہ بکری میں نے سڑک کے قریب جنگل کے کنارے باندھ دی۔ جہاں بارہ گھنٹے پیشتر تیندوہ داخل ہوا تھا۔
اگلی صبح میں جلدی اٹھ بیٹھا۔ جب میں بنگلے سے باہر نکالا تو مجھے پھر تیندوے کے پنجوں کے تازہ نشان برآمدے کے باہر دکھائی دیے۔ بیرونی گیٹ پر مجھے معلوم ہوا کہ وہ گلاب رائے کی سمت سے آیا تھا اور بنگلے کا چکر لگا کر ردرپریاگ بازار کی طرف گیا تھا۔
یہ حقیقت کہ تیندوہ انسانی شکار حاصل کرنے کی کوشش میں تھا، صاف ظاہر کرتی تھی کہ اسے اس بکری میں کوئی دلچسپی نہ ہو سکتی تھی۔ جو میں نے اس کے لیے مہیا کی تھی۔ وہ بکری اس نے شام ہی کو ہلاک کردی تھی مگر اسے بالکل نہ کھایا تھا۔
"صاحب! اپنے گھر واپس چلے جائیں۔ کیوں وقت اور پیسہ ضائع کر رہے ہیں۔"
بوڑھے گلہ بان نے اپنا ریوڑ ہردوار کی سمت ہانکتے ہوئے مجھے آخری نصیحت کی۔
اس قسم کا ایک واقعہ چند برس پہلے ردرپریاگ کے قریب رونما ہوا تھا۔ مگر خوش قسمتی سے اس کا انجام المناک نہ ہو سکا۔
اپنے عزیزوں اور دوستوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں سے مشتعل ہو کر لوگوں نے ایک سادھو کو پکڑ لیا۔ ان کا یقین تھا کہ وہی سادھو تمام موتوں کا ذمہ دار تھا۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ اپنے انتقام کی آگ بجھانے میں کامیاب ہو جاتے اس زمانے میں گھڑوال کا ڈپٹی کمشنر فلپ مین دورے پر وہاں آیا ہوا تھا اور یہ خبر سنتے ہی وہاں پہنچ گیا۔ وہ بڑا تجربہ کار افسر تھا اس نے لوگوں کا بگڑا ہوا مزاج دیکھ کر ان سے کہا کہ وہ صحیح ملزم پکڑنے میں کامیاب ہو گئے ہیں مگر سادھو کو سزا دینے سے پہلے انصاف کا تقاضا ہے کہ اس کا جرم ثابت کیا جائے۔ پھر اس نے تجویز کیا کہ سادھو کو قید کر کے دن رات اس کی نگرانی کی جائے۔ اس تجویز سے ہجوم متفق ہو گیا۔ سات دن اور سات راتوں تک پولیس اور لوگ سادھو کی نگرانی کرتے رہے۔ آٹھویں دن صبح کے وقت یہ خبر آئی کہ وہاں سے چند میل دور گزشتہ شب آدم خور ایک گھر میں گھس کر ایک آدمی کو اٹھا لے گیا تھا۔
یہ سن کر لوگوں کو سادھو کی رہائی پر کوئی اعتراض نہ ہوا۔ اور کہنے لگے کہ اس دفعہ غلط آدمی پکڑا گیا تھا مگر آئندہ ایسی غلطی ہرگز نہ کریں گے۔
گھڑوال میں آدم خور کی تمام ہلاکتیں سادھوؤں اور نینی تال اور الموڑہ کے اضلاع میں ترائی کے علاقوں میں رہنے والے نجسار لوگوں سے منسوب کی جاتی ہیں۔ موخر الذکر لوگ زیادہ تر شکار پر گزر اوقات کرتے ہیں۔
لوگوں کا یقین ہے کہ سادھو انسانی گوشت اور خون کی اشتہا کے سبب اور نجسار عورتوں کے زیورات کی وجہ سے انسانی جانیں لیتے ہیں۔ نینی تال اور الموڑہ کے اضلاع میں مردوں کی نسبت عورتیں زیادہ ہلاک ہوتی ہیں مگر اس کی یہ وجہ نہیں جو لوگ بیان کرتے ہیں۔
میں اس قدر تنہا اور خاموش جگہوں پر رہا ہوں کہ خیال پرست نہیں ہو سکتا۔ ردرپریاگ میں ایسے مواقع بھی آئے جب میں متواتر کئی کئی راتیں، ایک دفعہ مہینے میں اٹھائیس راتیں، آدم خور کی تلاش میں پلوں، چوراہوں، دیہات کے گرد و نواح میں گھومتا رہا اور انسانی اور دوسری لاشوں کے قریب چھپ کر بیٹھا آدم خور کا انتظار کرتا رہا تھا۔ اس زمانے میں ممکن تھا کہ میں آدم خور کو کوئی ایسا جانور تصور کرنے لگوں جس کا دھڑ تیندوے کا مگر سر شیطان کا ہو۔
بعض اوقات یوں بھی ہوتا کہ کوئی درندہ شب بھر میری گھات میں بیٹھا رہتا ۔ مجھے بار بار اس کے شیطانی قہقہے سنائی دیتے۔ وہ مجھے جل دینے کی فکر میں ہوتا اور اس موقع کی تاک میں رہتا کہ جونہی میں ذرا بےخبر ہوجاؤں تو وہ اپنے دانت میری گردن میں گاڑ دے۔
ممکن ہے یہ سوال آپ کے ذہن میں ابھرے کہ اس سارے عرصے میں حکومت نے گھڑوال کے باشندوں کو آدم خور سے بچانے کے لیے کیا کیا تھا؟ میں حکومت کا حاشیہ بردار نہیں ہوں۔ لیکن اس علاقے میں دس ہفتے گزارنے، سینکڑوں میل پیدل سفر کرنے اور متاثرہ علاقے کے بہت سے دیہات کا جائزہ لینے کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس درد سر کو دور کرنے کی خاطر حکومت نے اپنی طرف سے حتی الامکان کوشش کی۔ انعامات پیش کیے گئے۔ یہ انعامات دس ہزار روپے نقد اور دو دیہات کی جاگیر پر مشتمل تھے۔ یہ انعامات گھڑوال کے چار ہزار لائسنس یافتہ شوقین اور پیشہ ور شکاریوں کو آدم خور کو ہلاک کرنے کی ترغیب دینے کے لیے کیے تھے۔ گھاگ پیشہ ور شکاری تنخواہوں پر بلائے گئے اور آدم خور کو ہلاک کرنے کی صورت میں انہیں خاص انعامات دینے کا وعدہ بھی کیا گیا۔ بندوقوں کے تین مزید لائسنس جاری کیے گئے۔ لینس ڈاؤن میں مقیم گھڑوال رجمنٹ کے سپاہیوں کو چھٹی پر گھر جانے کے وقت رائفل ساتھ لے جانے کی اجازت تھی۔ اس کے علاوہ ان کے افسر انہیں شکاری بندوقیں بھی مہیا کرتے۔ تمام ہندوستان کے شکاریوں سے درخواست کی گئی کہ وه اس تیندوے کو ہلاک کرنے میں حکومت کی مدد کریں۔ دیہات اور سڑکوں کے کنارے بہت سے ایسے پنجرے رکھے گئے جن کے دروازے خود بخود بند ہو جاتے تھے۔ ان پنجروں میں بکریاں وغیرہ تیندوے کو ترغیب دینے کے لیے باندھی گئیں۔ پٹواریوں اور سرکاری ملازموں کو اس مقصد کے تحت زہر مہیا کیا گیا کہ وہ انسانی لاش کو زہریلا بنا دیں۔ اس کے علاوہ سرکاری ملازم بھی آدم خور کو ہلاک کرنے کی خاطر اپنے فرض کی ادائیگی کے طور پر وہاں آئے۔
ان تمام مشترکہ مساعی کا نتیجہ فقط یہ نکلا کہ ایک دفعہ تیندوے کے پچھلے بائیں پنجے میں ایک گولی لگ گئی اور وہاں سے اس کا گوشت اڑ گیا۔ گھڑوال کے ڈپٹی کمشنر نے اس مد کا اندراج اپنے رجسٹر میں کر دیا۔ جہاں تک زہر کا تعلق ہے، آدم خور زہریلی چیزیں کھانے کے بعد بھی زندہ رہا تھا۔
ایک سرکاری رپورٹ میں تین دلچسپ واقعات درج کیے گئے ہیں۔ میں ان کے اقتباس آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
پہلا: اخبارات میں حكومت کی درخواست پر 1921ء میں دو نوجوان انگریز شکاری ردرپریاگ پہنچے۔ کس وجہ کی بنا پر انہوں نے یہ تصور کر لیا تھا کہ تیندوہ دریا سے الک نندہ کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے جھولا نما پل کے راستے آتا جاتا ہے، اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ بہرحال انہوں نے اپنی کوشش کو اس پل تک محدود رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ ان کا منصوبہ تھا کہ اگر رات کے وقت تیندوہ پل پر سے گزرے تو اسے ہلاک کرنے کی کوشش کی جائے۔ پل کے دونوں جانب ایک ایک مینار ہے لہذا دونوں شکاری پل کی طرف منہ کر کے ایک ایک مینار میں بیٹھ گئے۔
انہیں وہاں بیٹھتے دو ماہ گزر گئے۔ ایک رات بائیں کنارے والے مینار پر بیٹھے شکاری نے دیکھا کہ تیندوہ اس کے نیچے والی محراب سے پل کی سمت جارہا ہے۔ جب تیندوہ اچھی طرح پل پر آگیا تو اس نے گولی چلا دی۔ جب تیندوہ بھاگ کر پل کی دوسری جانب گیا تو دوسرے شکاری نے اس پر تابڑ توڑ چھ فائر کر دیے۔ اگلی صبح پل پر خون کے قطرے دکھائی دیے۔ خون کی لکیر پہاڑی کی سمت جاتی تھی۔ خیال تھا کہ یہ زخم تیندوے کے لئے مہلک ثابت ہوں گے۔ لہذا کئی دن تک ایک تلاشی پارٹی تیندوے کو تلاش کرتی رہی۔ رپورٹ میں درج ہے کہ زخمی ہونے کے چھ ماہ بعد تک تیندوے نے کوئی انسانی شکار نہ کیا تھا۔
یہ واقعہ ان لوگوں نے بھی مجھے بتایا جنہوں نے ساتوں فائر سنے تھے اور جو زخمی تیندوے کی تلاش میں مدد دیتے رہے تھے۔ دونوں شکاریوں اور دوسرے لوگوں کا خیال تھا کہ پہلی گولی تیندوے کی پشت پر لگی تھی اور باقی گولیوں میں سے کوئی ایک اس کے سر پر۔ اس لیے اتنے جوش و خروش سے تیندوے کی تلاش جاری رہی۔ خون کی لکیر کی جو تفصیل مجھے بتائی گئی اس سے میں نے یہ اندازہ لگایا تھا کہ شکاری یہ سوچنے میں غلطی پر تھے کہ گولیاں تیندوے کے سر اور پشت پر لگی تھیں۔ اس کے برعکس جس نوعیت کی خون کی لکیر بتائی گئی تھی، وہ تو پیر کے زخم کی ہونی چاہیے تھی۔ بعد میں میرا یہ خیال درست ثابت ہوا۔ بائیں مینار والے شکاری کی گولی تیندوے کے پاؤں میں لگی تھی اور دوسرے شکاری کی تمام گولیاں ضائع گئی تھیں۔
دوسرا: پنجروں میں تقریباً بیس تیندوے پکڑنے اور ہلاک کرنے کے بعد آخر ایک پنجرے میں ایک ایسا تیندوہ پکڑ لیا گیا جس کے متعلق ہر ایک یہی کہتا تھا کہ وہ آدم خور تھا۔ لیکن ہندو آبادی اس خوف کے تحت اسے ہلاک نہ کرتی تھی کہ آدم خور کے مارے ہوئے لوگوں کی روحیں بددعائیں دیں گی۔ آخر ایک عیسائی کو وہاں بھیجا گیا۔ یہ عیسائی تیس میل دور ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ لیکن اس کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی تیندوہ پنجرے کے نیچے سے زمین کھود کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
تیسرا: ایک آدمی کو ہلاک کرنے کے بعد تیندوہ اپنے شکار کے ہمراہ جنگل میں ایک تنہا جگہ پر لیٹ گیا۔ دوسری صبح جب اس بدنصیب شخص کی تلاش جاری تھی تو تیندوہ جنگل میں سے نکلتا ہوا دکھائی دیا۔ تھوڑے سے تعاقب پر وہ ایک غار میں گھس گیا۔ لوگوں نے خاردار جھاڑیوں اور بھاری پتھروں نے غار کا منہ بند کر دیا۔ ہر روز لوگوں کا ایک جوم وہاں جاتا۔ پانچویں دن جب کوئی پانچ سو آدمی جمع تھے تو ایک آدمی جس کا نام درج نہیں لیکن اسے ”بااثر آدمی“ لکھا گیا ہے وہاں آیا اور ناک بھوں چڑھا کر کہنے لگا، "غار کے اندر کوئی تیندوہ نہیں؟" اور اس نے غار کے منہ پر سے جھاڑیاں اور پتھر ہٹا دیے۔ جونہی غار کا دہانہ صاف ہوا تیندوہ آرام سے پانچ سو آدمیوں کے درمیان سے گزر گیا۔
تیندوے کو آدم خور بنے زیادہ عرصہ نہ ہوا تھا کہ یہ واقعات رونما ہوئے۔ اگر تیندوہ پل پر، پنجرے کے اندر یا غار میں مارا جاتا تو چند سو آدمیوں کی جانیں بچ جاتیں اور گھڑوال کئی برس تک ایک محفوظ جگہ ہوتا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔