سموسوں کی ریڑھی، سموسوں کی ریڑھی سے آگے، گھڑی ساز کا ٹوٹا کھوکھا، گھڑی ساز کے ٹوٹےکھوکھے سے آگے کتابوں کی دکان، ردی کتابوں کی دکان، جس میں پرانے رسالے، کرم خوردہ ناول، پھٹی جلد والی نصابی کتابیں۔ خجالت زدہ لغزشوں کی طرح بھولی بسری ہوئی، کہنہ لکڑی کے ریکوں میں ٹھونسی ہوئی۔۔۔ اک رسالہ اٹھاؤ تو مٹی کا بادل امنڈتا تھا۔
مگر سال دو سال بعد آپ ہی آپ ردی کتابوں کی دکان میں چمچماتی، لشکتی کتابوں کی اک کھیپ آتی۔ مجلد صحیفے، نفاست سے کاڑھے ہوئے گردپوشوں میں ملفوف نسخے۔محبت کی پہلی کرن کی طرح سینت کر رکھی نازک بیاضیں۔ نئی کھیپ کی یہ کتابیں پرانی کتابوں کو نخوت بھری بے نیازی سے اک لمحے کو دیکھتیں، پھرسلیقے سے خود اپنے اوپر جمی گرد کو جھاڑ کرایک ترتیب سے بیٹھ جاتیں۔
مجھے ایک دن شیخ رحمت علی(مالکِ ایں دکاں) نے بتایا کہ جب بھی کتابوں کا عاشق کوئی اس جہاں سے گزرتا ہے اور اس کی اولاد کو اپنے مرحوم ابا کے کمرے کو بچوں کا بیڈروم، گودام، مہمان خانہ وغیرہ بنانے کا نادر خیال آتا ہے تو اتروا کے مرحوم کے شیلف، عشروں کی محنت سے ان مول یادوں کی مانند یہ جمع کردہ خزانہ مرے پاس کاروں میں بھر بھر کے لاتی ہے۔۔۔ دھندا اسی رنگ سے چل رہا ہے۔
بہت خوب دھندا ہے یہ شیخ رحمت علی۔ پر مرے روز و شب کے مڑے کونوں والے کیلنڈر، کسی کارنس پر پڑی خستہ یادوں کے البم (کہ رنگینیاں جن کی گھل گھل کے کاغذ میں حل ہو گئی ہیں) تپائی پہ سپنوں کی دیمک زدہ جنتری، تشنہ ارمانوں، خفتہ تمناؤں کے ادھڑے ادھڑے رجسٹر (کہ جن کے بہت سے ورق پچھلی شفٹنگ میں جانے کہاں کھو گئے تھے) ارادوں کی الماریوں میں دھری کچے پکے سے منصوبوں کی فائلیں۔۔۔
شیخ رحمت علی، سائبر دور میں اس پرانی کتابوں کی دکان کو کوئی ردی کی دکاں ملے گی؟
مگر سال دو سال بعد آپ ہی آپ ردی کتابوں کی دکان میں چمچماتی، لشکتی کتابوں کی اک کھیپ آتی۔ مجلد صحیفے، نفاست سے کاڑھے ہوئے گردپوشوں میں ملفوف نسخے۔محبت کی پہلی کرن کی طرح سینت کر رکھی نازک بیاضیں۔ نئی کھیپ کی یہ کتابیں پرانی کتابوں کو نخوت بھری بے نیازی سے اک لمحے کو دیکھتیں، پھرسلیقے سے خود اپنے اوپر جمی گرد کو جھاڑ کرایک ترتیب سے بیٹھ جاتیں۔
مجھے ایک دن شیخ رحمت علی(مالکِ ایں دکاں) نے بتایا کہ جب بھی کتابوں کا عاشق کوئی اس جہاں سے گزرتا ہے اور اس کی اولاد کو اپنے مرحوم ابا کے کمرے کو بچوں کا بیڈروم، گودام، مہمان خانہ وغیرہ بنانے کا نادر خیال آتا ہے تو اتروا کے مرحوم کے شیلف، عشروں کی محنت سے ان مول یادوں کی مانند یہ جمع کردہ خزانہ مرے پاس کاروں میں بھر بھر کے لاتی ہے۔۔۔ دھندا اسی رنگ سے چل رہا ہے۔
بہت خوب دھندا ہے یہ شیخ رحمت علی۔ پر مرے روز و شب کے مڑے کونوں والے کیلنڈر، کسی کارنس پر پڑی خستہ یادوں کے البم (کہ رنگینیاں جن کی گھل گھل کے کاغذ میں حل ہو گئی ہیں) تپائی پہ سپنوں کی دیمک زدہ جنتری، تشنہ ارمانوں، خفتہ تمناؤں کے ادھڑے ادھڑے رجسٹر (کہ جن کے بہت سے ورق پچھلی شفٹنگ میں جانے کہاں کھو گئے تھے) ارادوں کی الماریوں میں دھری کچے پکے سے منصوبوں کی فائلیں۔۔۔
شیخ رحمت علی، سائبر دور میں اس پرانی کتابوں کی دکان کو کوئی ردی کی دکاں ملے گی؟