حسان خان
لائبریرین
وسطی ایشیا کے جس خطے میں موجودہ تاجکستان اور ازبکستان واقع ہیں اسے مسلم جغرافیائی ادب میں ماوراءالنہر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں کے اہم ترین ادبی اور ثقافتی مراکز سمرقند اور بخارا جیسے شہر رہے ہیں۔ اس خطے پر سن ۸۱۹ء سے لے کر سن ۹۹۹ء تک سامانی سلطنت کا تسلط رہا ہے۔
سامانی سلطنت تین اہم چیزوں کی وجہ سے اپنا مقام تاریخ میں جاودانی بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اول یہ کہ سامانی امراء اسلام کے غلبے کے بعد ماوراءالنہر کے پہلے ایرانی النسل حاکم تھے۔ ان کے دور میں ایرانی ثقافت اور فارسی زبان کو بہت فروغ حاصل ہوا۔ اس سے پہلے تک مسلمانوں کی واحد علمی و ادبی زبان عربی تھی اور فارسی صرف بول چال اور لوک شاعری کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ سامانی دور وہ پہلا دور تھا جس میں فارسی کو ادبی زبان بننے کا شرف حاصل ہوا۔
سامانیوں کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ وہ ایرانی النسل ہونے کے باوجود راسخ العقیدہ سنی مسلمان تھے اور آخر وقت تک عباسی خلیفہ کی وفاداری کا دم بھرتے رہے۔ عملاً وہ اپنے زیرِ نگیں علاقے میں خودمختار تھے، لیکن جمعے میں خطبہ خلیفہ کے نام ہی کا پڑھا کرتے تھے اور اسے خود سے بالاتر جانتے تھے۔ خلیفہ کے سیاسی دشمنوں مثلاً خوارج اور طبرستان کے زیدی شیعوں کو شکست انہی کی مرہونِ منت تھی۔ نیز، یہ پہلے حکمران تھے جو فقۂ حنفی پر عمل پیرا تھے اور جنہوں نے اپنے علاقے میں فقۂ حنفی کو رسمی مذہب کے طور پر رائج کیا تھا۔ سامانیوں کے طفیل ہی ماوراءالنہر کا علاقہ پچھلے ہزار سال میں فارسی زبان اور فقۂ حنفی کا مرکز رہا ہے۔
ان کے دور کی تیسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس دور میں وسطی ایشیا کے خانہ بدوش ترک قبائل نے جوق در جوق اسلام قبول کرنا شروع کیا تھا۔ اور چونکہ وہ سامانیوں کے طفیل مسلمان ہوئے تھے، اس لیے ان کا مذہب حنفیت اور ان کی بعد میں آنے والی خواندہ اشرافیہ کی تحریری زبان فارسی تھی۔ سامانی دربار میں نومسلم ترک غلام بچوں کی تربیت کی جاتی تھی اور انہیں بالغ ہونے پر فوجی عہدے دار بنایا جاتا تھا۔ محمود غزنوی کے دادا نے بھی سامانی دربار میں اسی طرح پرورش پائی تھی اسی لیے وہ سامانیوں کی طرح کاملاً فارسی زبان و ثقافت میں ڈھلا ہوا تھا۔ اور جب اس کا پوتا محمود غزنوی سامانیوں کا جانشین بنا اور اپنے لشکر کے ساتھ پاک و ہند آیا تو وہ اپنے ساتھ فارسی زبان و ثقافت اور فقۂ حنفی بھی ادھر لے آیا۔ دوسری طرف، سامانیوں کے بعد اٹھنے والے سلجوقی ترکوں نے فارسی زبان اور حنفی مذہب کو مغربی ایران اور اناطولیہ میں مستقر کر دیا۔ اس دور میں چونکہ مقتدر ترین مسلمان شاہی خاندانوں کی زبان فارسی تھی لہٰذا کچھ ہی عرصے میں یہ زبان غیر عرب مسلم دنیا میں اسلامی تشخص کی علامت بن گئی اور بعد میں آنے والے سارے شاہی خاندان اس کی ترقی و ترویج میں کوشاں رہے۔ یہ سب درحقیقت سامانیوں کی کاوشوں ہی کا نتیجہ تھا اس لیے فارسی زبان اور حنفیت سے وابستگی رکھنے والے لوگوں کو سامانیوں کے اس تاریخی کردار پر شکرگزار ہونا چاہیے۔
سامانی دور سے تعلق رکھنے والی تصنیفات میں سے ایک تصنیف فقۂ حنفی کے احکامات کے متعلق لکھا گیا ایک رسالہ ہے جس کے تعارف کے لیے دھاگا کھولا گیا ہے۔ یہ رسالہ حکیم ابوالقاسم بن محمد سمرقندی کی تصنیف ہے اور اس کا صرف ایک نسخہ باقی ہے جو استانبول کے ایک کتاب خانے میں محفوظ ہے۔ یہ رسالہ فارسی کا قدیم ترین مدون نثری رسالہ ہے۔ رسالے کی تصنیف کا دقیق سال معلوم نہیں، لیکن چونکہ ابوالقاسم سمرقندی کا انتقال ۳۴۳ھ میں ہوا تھا اس لیے یہ رسالہ یقیناً اس سال سے پہلے ہی لکھا گیا ہو گا۔ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اس کا سالِ تصنیف ۳۱۵ھ کے آس پاس کا ہو گا۔اس سے پہلے کی کوئی اور فارسی زبان میں لکھی گئی نثری تصنیف تا حال دستیاب نہیں ہوئی ہے۔
ایرانی محقق دکتر محمد معین نے اپنی کتاب برگزیدۂ نثرِ فارسی میں اس رسالے سے تین اقتباسات پیش کیے ہیں، جنہیں میں اردو ترجمے کے ساتھ یہاں شریک کروں گا۔ فارسی کی بطور ادبی زبان جب شروعات ہوئی تھی تو اس وقت کے سارے اہلِ قلم عربی زبان و ادب پر پورا تسلط رکھتے تھے اور ان کی فکری تربیت عربی ہی کے وسیلے سے ہوا کرتی تھی، لہذا یہ بالکل فطری بات تھی کہ اپنی ابتداء ہی سے فارسی پر عربی کا اثر پڑتا رہے۔ ان ہزار سالوں میں عربی نے فارسی پر جو اثر ڈالا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ فارسی زبان کے کل ذخیرۂ الفاظ میں نصف سے زائد الفاظ عربی زبان سے داخل ہوئے ہیں۔ ان مندرجہ ذیل اقتباسات میں بھی عربی کے الفاظ دیکھے جا سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ رسالہ گیارہ سو سال پہلے لکھا گیا تھا لیکن اس کی زبان ایسی صاف ہے کہ آج آسانی سے پڑھی جا سکتی ہے۔
-------------------
علامت دوستی خداوند عز و جل و دلیل صدق آن در فرمانهاء خدای - عز و جل - تقصیر ناکردن است، و سنت رسول او را - صلی الله علیه وسلم - متابع بودن است، و به همهٔ حکمهای خداوند - عز و جل - راضی باشیدن است، و بر خلق خداوند عز و جل مهربانی و شفقت کردن است.
خداوندِ عز و جل کی دوستی کی علامت اور اُس میں راستی کی دلیل خدائے عز و جل کے فرمانوں میں کوتاہی نہ کرنا ہے اور اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا تابع ہونا ہے، اور خداوندِ عز و جل کے تمام احکام پر راضی ہونا ہے اور خلقِ خداوندِ عز و جل پر مہربانی و شفقت کرنا ہے۔
ابراهیم خواص - قدس الله روحه - گوید: در بادیه میشدم، گرسنگی و تشنگی بر من غالب شد و راه گم کردم. ناگاه مردی پدید آمد و با من همراه شد و گفت: "یا ابراهیم! خواهی که تو را به راه برم؟" گفتم: "خواهم." گفت: "چشم فراز کن." فراز کردم، خود را بر راه دیدم. پرسیدم: "تو کیستی؟" گفت: "من خضرم." گفتم: "این صحبت با تو از چه یافتم؟" گفت: "به نیکوی کردن با مادر خویش."
ابراہیم خواص قدس اللہ روحہ کہتے ہیں کہ میں صحرا میں گیا، بھوک اور پیاس مجھ پر غالب آ گئی اور راہ گم ہو گئی۔ اچانک ایک مرد ظاہر ہوا اور میرے ساتھ ہمراہ ہو گیا اور اس نے کہا: اے ابراہیم! چاہتے ہو کہ تمہیں راہ پر لے جاؤں؟ میں نے کہا: ہاں چاہتا ہوں۔ اس نے کہا: اپنی آنکھیں بند کرو۔ میں نے آنکھیں بند کیں۔ (بعد ازاں) میں نے خود کو راہ پر پایا۔ میں نے پوچھا: تم کون ہو؟ اس نے کہا: میں خضر ہوں۔ میں نے کہا: مجھے آپ کی صحبت کس وجہ سے نصیب ہوئی؟ اس نے کہا: اپنی ماں سے نیکی کرنے کی وجہ سے۔
در خبر است که عیسی - علیه السلام - مناجات کرد و گفت: "یا رب! دوستی از دوستان خود به من نمای!" حق تعالی فرمود: "به فلان موضع رو!" آنجا رفت. مردی دید در ویرانی افتاده، گلیم بر پشت، آفتاب بر وی عمل کرده و سیاه شده، و از دنیا با وی چیزی نی.
باز مناجات کرد: "یا رب! دوستی دیگر با من نمای!" خطاب رسید: "به فلان موضع دیگر رو!" آنجا رفت. کوشکی دید بلند و درگاهی دید عظیم. خادمان و حاجبان بر آن در ایستاده. به رسم ملوک او را در کوشک درآوردند به اعزاز و اکرام، و خوانی به رسم ملوک پیش او بنهادند و انواع طعامها. دست بازکشید. خطاب رسید: "بخور که او دوست ماست." گفت: "یا رب! یک دوست بدان درویشی و یک دوست بدین توانگری؟" فرمان آمد که "یا عیسی! صلاح آن دوست در درویشی است؛ اگر توانگرش داریم، حال دل او به فساد آید، و صلاح این دوست در توانگری است، اگر او را درویش داریم حال دل او به فساد آید، من به احوال دلهاء بندگان خود داناترم."
روایات میں ہے کہ عیسی علیہ السلام نے دعا کی اور کہا کہ یا رب! اپنے دوستوں میں سے کوئی دوست مجھے دکھا۔ حق تعالی نے فرمایا فلاں جگہ کی طرف جاؤ۔ وہ وہاں گئے۔ انہوں نے ویرانی میں پڑا ایک مرد دیکھا جس کی پشت پر پشمی چادر تھی اور سورج نے اسے جھلسایا ہوا تھا، اور اس کے پاس دنیا کی کوئی چیز نہیں تھی۔
انہوں نے دوبارہ مناجات کی کہ یا رب کوئی دیگر دوست مجھے دکھاؤ۔ خطاب آیا کہ اس دوسری جگہ پر جاؤ۔ وہ وہاں گئے۔ انہوں نے وہاں ایک بلند محل اور ایک عظیم درگاہ دیکھی جس کے در پر خادم اور حاجب کھڑے ہوئے تھے۔ انہیں بادشاہوں کی طرح اعزاز و اکرام کے ساتھ محل میں لایا گیا اور بادشاہوں کی طرح ان کے آگے خوان بچھایا گیا اور مختلف انواع کے طعام رکھے گئے۔ انہوں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ خطاب آیا کہ کھاؤ کیونکہ وہ ہمارا دوست ہے۔ انہوں نے کہا یا رب! ایک دوست اس طرح درویشی میں اور ایک دوست اس طرح توانگری میں؟ فرمان آیا کہ اے عیسی! اُس دوست کے لیے درویشی سودمند ہے، اگر ہم نے اسے توانگر کیا تو اس کا دل فساد پر مائل ہو جائے گا، اور اِس دوست کے لیے توانگری مناسب ہے، اگر اسے درویش بنایا تو اس کا دل فساد پر مائل ہو جائے گا۔ میں اپنے بندوں کے دل کے احوال سے زیادہ واقف ہوں۔
سامانی سلطنت تین اہم چیزوں کی وجہ سے اپنا مقام تاریخ میں جاودانی بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اول یہ کہ سامانی امراء اسلام کے غلبے کے بعد ماوراءالنہر کے پہلے ایرانی النسل حاکم تھے۔ ان کے دور میں ایرانی ثقافت اور فارسی زبان کو بہت فروغ حاصل ہوا۔ اس سے پہلے تک مسلمانوں کی واحد علمی و ادبی زبان عربی تھی اور فارسی صرف بول چال اور لوک شاعری کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ سامانی دور وہ پہلا دور تھا جس میں فارسی کو ادبی زبان بننے کا شرف حاصل ہوا۔
سامانیوں کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ وہ ایرانی النسل ہونے کے باوجود راسخ العقیدہ سنی مسلمان تھے اور آخر وقت تک عباسی خلیفہ کی وفاداری کا دم بھرتے رہے۔ عملاً وہ اپنے زیرِ نگیں علاقے میں خودمختار تھے، لیکن جمعے میں خطبہ خلیفہ کے نام ہی کا پڑھا کرتے تھے اور اسے خود سے بالاتر جانتے تھے۔ خلیفہ کے سیاسی دشمنوں مثلاً خوارج اور طبرستان کے زیدی شیعوں کو شکست انہی کی مرہونِ منت تھی۔ نیز، یہ پہلے حکمران تھے جو فقۂ حنفی پر عمل پیرا تھے اور جنہوں نے اپنے علاقے میں فقۂ حنفی کو رسمی مذہب کے طور پر رائج کیا تھا۔ سامانیوں کے طفیل ہی ماوراءالنہر کا علاقہ پچھلے ہزار سال میں فارسی زبان اور فقۂ حنفی کا مرکز رہا ہے۔
ان کے دور کی تیسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس دور میں وسطی ایشیا کے خانہ بدوش ترک قبائل نے جوق در جوق اسلام قبول کرنا شروع کیا تھا۔ اور چونکہ وہ سامانیوں کے طفیل مسلمان ہوئے تھے، اس لیے ان کا مذہب حنفیت اور ان کی بعد میں آنے والی خواندہ اشرافیہ کی تحریری زبان فارسی تھی۔ سامانی دربار میں نومسلم ترک غلام بچوں کی تربیت کی جاتی تھی اور انہیں بالغ ہونے پر فوجی عہدے دار بنایا جاتا تھا۔ محمود غزنوی کے دادا نے بھی سامانی دربار میں اسی طرح پرورش پائی تھی اسی لیے وہ سامانیوں کی طرح کاملاً فارسی زبان و ثقافت میں ڈھلا ہوا تھا۔ اور جب اس کا پوتا محمود غزنوی سامانیوں کا جانشین بنا اور اپنے لشکر کے ساتھ پاک و ہند آیا تو وہ اپنے ساتھ فارسی زبان و ثقافت اور فقۂ حنفی بھی ادھر لے آیا۔ دوسری طرف، سامانیوں کے بعد اٹھنے والے سلجوقی ترکوں نے فارسی زبان اور حنفی مذہب کو مغربی ایران اور اناطولیہ میں مستقر کر دیا۔ اس دور میں چونکہ مقتدر ترین مسلمان شاہی خاندانوں کی زبان فارسی تھی لہٰذا کچھ ہی عرصے میں یہ زبان غیر عرب مسلم دنیا میں اسلامی تشخص کی علامت بن گئی اور بعد میں آنے والے سارے شاہی خاندان اس کی ترقی و ترویج میں کوشاں رہے۔ یہ سب درحقیقت سامانیوں کی کاوشوں ہی کا نتیجہ تھا اس لیے فارسی زبان اور حنفیت سے وابستگی رکھنے والے لوگوں کو سامانیوں کے اس تاریخی کردار پر شکرگزار ہونا چاہیے۔
سامانی دور سے تعلق رکھنے والی تصنیفات میں سے ایک تصنیف فقۂ حنفی کے احکامات کے متعلق لکھا گیا ایک رسالہ ہے جس کے تعارف کے لیے دھاگا کھولا گیا ہے۔ یہ رسالہ حکیم ابوالقاسم بن محمد سمرقندی کی تصنیف ہے اور اس کا صرف ایک نسخہ باقی ہے جو استانبول کے ایک کتاب خانے میں محفوظ ہے۔ یہ رسالہ فارسی کا قدیم ترین مدون نثری رسالہ ہے۔ رسالے کی تصنیف کا دقیق سال معلوم نہیں، لیکن چونکہ ابوالقاسم سمرقندی کا انتقال ۳۴۳ھ میں ہوا تھا اس لیے یہ رسالہ یقیناً اس سال سے پہلے ہی لکھا گیا ہو گا۔ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اس کا سالِ تصنیف ۳۱۵ھ کے آس پاس کا ہو گا۔اس سے پہلے کی کوئی اور فارسی زبان میں لکھی گئی نثری تصنیف تا حال دستیاب نہیں ہوئی ہے۔
ایرانی محقق دکتر محمد معین نے اپنی کتاب برگزیدۂ نثرِ فارسی میں اس رسالے سے تین اقتباسات پیش کیے ہیں، جنہیں میں اردو ترجمے کے ساتھ یہاں شریک کروں گا۔ فارسی کی بطور ادبی زبان جب شروعات ہوئی تھی تو اس وقت کے سارے اہلِ قلم عربی زبان و ادب پر پورا تسلط رکھتے تھے اور ان کی فکری تربیت عربی ہی کے وسیلے سے ہوا کرتی تھی، لہذا یہ بالکل فطری بات تھی کہ اپنی ابتداء ہی سے فارسی پر عربی کا اثر پڑتا رہے۔ ان ہزار سالوں میں عربی نے فارسی پر جو اثر ڈالا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ فارسی زبان کے کل ذخیرۂ الفاظ میں نصف سے زائد الفاظ عربی زبان سے داخل ہوئے ہیں۔ ان مندرجہ ذیل اقتباسات میں بھی عربی کے الفاظ دیکھے جا سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ رسالہ گیارہ سو سال پہلے لکھا گیا تھا لیکن اس کی زبان ایسی صاف ہے کہ آج آسانی سے پڑھی جا سکتی ہے۔
-------------------
علامت دوستی خداوند عز و جل و دلیل صدق آن در فرمانهاء خدای - عز و جل - تقصیر ناکردن است، و سنت رسول او را - صلی الله علیه وسلم - متابع بودن است، و به همهٔ حکمهای خداوند - عز و جل - راضی باشیدن است، و بر خلق خداوند عز و جل مهربانی و شفقت کردن است.
خداوندِ عز و جل کی دوستی کی علامت اور اُس میں راستی کی دلیل خدائے عز و جل کے فرمانوں میں کوتاہی نہ کرنا ہے اور اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا تابع ہونا ہے، اور خداوندِ عز و جل کے تمام احکام پر راضی ہونا ہے اور خلقِ خداوندِ عز و جل پر مہربانی و شفقت کرنا ہے۔
ابراهیم خواص - قدس الله روحه - گوید: در بادیه میشدم، گرسنگی و تشنگی بر من غالب شد و راه گم کردم. ناگاه مردی پدید آمد و با من همراه شد و گفت: "یا ابراهیم! خواهی که تو را به راه برم؟" گفتم: "خواهم." گفت: "چشم فراز کن." فراز کردم، خود را بر راه دیدم. پرسیدم: "تو کیستی؟" گفت: "من خضرم." گفتم: "این صحبت با تو از چه یافتم؟" گفت: "به نیکوی کردن با مادر خویش."
ابراہیم خواص قدس اللہ روحہ کہتے ہیں کہ میں صحرا میں گیا، بھوک اور پیاس مجھ پر غالب آ گئی اور راہ گم ہو گئی۔ اچانک ایک مرد ظاہر ہوا اور میرے ساتھ ہمراہ ہو گیا اور اس نے کہا: اے ابراہیم! چاہتے ہو کہ تمہیں راہ پر لے جاؤں؟ میں نے کہا: ہاں چاہتا ہوں۔ اس نے کہا: اپنی آنکھیں بند کرو۔ میں نے آنکھیں بند کیں۔ (بعد ازاں) میں نے خود کو راہ پر پایا۔ میں نے پوچھا: تم کون ہو؟ اس نے کہا: میں خضر ہوں۔ میں نے کہا: مجھے آپ کی صحبت کس وجہ سے نصیب ہوئی؟ اس نے کہا: اپنی ماں سے نیکی کرنے کی وجہ سے۔
در خبر است که عیسی - علیه السلام - مناجات کرد و گفت: "یا رب! دوستی از دوستان خود به من نمای!" حق تعالی فرمود: "به فلان موضع رو!" آنجا رفت. مردی دید در ویرانی افتاده، گلیم بر پشت، آفتاب بر وی عمل کرده و سیاه شده، و از دنیا با وی چیزی نی.
باز مناجات کرد: "یا رب! دوستی دیگر با من نمای!" خطاب رسید: "به فلان موضع دیگر رو!" آنجا رفت. کوشکی دید بلند و درگاهی دید عظیم. خادمان و حاجبان بر آن در ایستاده. به رسم ملوک او را در کوشک درآوردند به اعزاز و اکرام، و خوانی به رسم ملوک پیش او بنهادند و انواع طعامها. دست بازکشید. خطاب رسید: "بخور که او دوست ماست." گفت: "یا رب! یک دوست بدان درویشی و یک دوست بدین توانگری؟" فرمان آمد که "یا عیسی! صلاح آن دوست در درویشی است؛ اگر توانگرش داریم، حال دل او به فساد آید، و صلاح این دوست در توانگری است، اگر او را درویش داریم حال دل او به فساد آید، من به احوال دلهاء بندگان خود داناترم."
روایات میں ہے کہ عیسی علیہ السلام نے دعا کی اور کہا کہ یا رب! اپنے دوستوں میں سے کوئی دوست مجھے دکھا۔ حق تعالی نے فرمایا فلاں جگہ کی طرف جاؤ۔ وہ وہاں گئے۔ انہوں نے ویرانی میں پڑا ایک مرد دیکھا جس کی پشت پر پشمی چادر تھی اور سورج نے اسے جھلسایا ہوا تھا، اور اس کے پاس دنیا کی کوئی چیز نہیں تھی۔
انہوں نے دوبارہ مناجات کی کہ یا رب کوئی دیگر دوست مجھے دکھاؤ۔ خطاب آیا کہ اس دوسری جگہ پر جاؤ۔ وہ وہاں گئے۔ انہوں نے وہاں ایک بلند محل اور ایک عظیم درگاہ دیکھی جس کے در پر خادم اور حاجب کھڑے ہوئے تھے۔ انہیں بادشاہوں کی طرح اعزاز و اکرام کے ساتھ محل میں لایا گیا اور بادشاہوں کی طرح ان کے آگے خوان بچھایا گیا اور مختلف انواع کے طعام رکھے گئے۔ انہوں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ خطاب آیا کہ کھاؤ کیونکہ وہ ہمارا دوست ہے۔ انہوں نے کہا یا رب! ایک دوست اس طرح درویشی میں اور ایک دوست اس طرح توانگری میں؟ فرمان آیا کہ اے عیسی! اُس دوست کے لیے درویشی سودمند ہے، اگر ہم نے اسے توانگر کیا تو اس کا دل فساد پر مائل ہو جائے گا، اور اِس دوست کے لیے توانگری مناسب ہے، اگر اسے درویش بنایا تو اس کا دل فساد پر مائل ہو جائے گا۔ میں اپنے بندوں کے دل کے احوال سے زیادہ واقف ہوں۔
آخری تدوین: