رسمی عبارات میں رومن اردو کا استعمال

محمداحمد

لائبریرین
مختلف سرکاری اور نجی اداروں کی طرف سے رسمی پیغامات میں رومن اردو کے استعمال کے حوالے سے یہ تحریر خاکسار نے جنوری 2023 میں لکھی تھی لیکن بوجوہ اسے فورم پر پیش نہیں کر سکا تھا۔ رواں ہفتے میں استاذی محترم جناب سرور راز صاحب کی طرف سے اردو زبان کی ترویج و ترقی کے حوالے سے جو ارشادات پڑھنے کو ملے ، اُنہیں پڑھ کر یہ مضمون یاد آیا۔ سو اب اسے اہلِ محفل کے لیے پیش کر رہا ہوں۔
----
رسمی عبارات میں رومن اردو کا استعمال

ہم پاکستانیوں نے رومن اردو ایک مجبوری کے تحت اپنائی۔ یہ وہ وقت تھا جب کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر اردو رسم الخط موجود نہیں تھا۔ سو پاکستانی اردو زبان لکھنے کے لئے رومن رسم الخط استعمال کرنے لگے (یعنی انگریزی حروفِ تہجی کی مدد سے اردو لکھنے لگے)۔ اردو محفل اور دیگر اردو کمیونیٹیز کی ان تھک کوششوں کے باوجود اردو دنیا میں یونیکوڈ اردو کا چلن عام ہوتے ہوتے بہت وقت لگا۔ بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ یونی کوڈ اردو کو صحیح معنوں میں قبول عام تب ملا جب نستعلیق فونٹ متعارف کروایا گیا۔

یہی حال موبائل کمیونیکیکیشن کے معاملے میں ہوا۔ شروع شروع میں جب موبائل ٹیکنالوجی نئی نئی آئی تو لوگ اردو لکھنے کے لئے رومن حروفِ تہجی سے کام چلانے لگے ۔ موبائل فون کا استعمال عام ہوا تو ایس ایم ایس پیغامات بہ کثرت استعمال ہونے لگے ۔ اس طرح ہماری اکثریت بالخصوص نوجوان رومن اردو روانی سے لکھنے لگے اور اُن کی یہ عادت ایسی پختہ ہوئی کہ موبائل فون پر اردو کی سہولت میسر آنے کے باوجود بھی وہ اپنے روز مرہ پیغامات رومن اردو میں ہی لکھتے رہے۔یہ چلن ایسا عام ہوا کہ اسے ہی معیار سمجھ لیا گیا اور اب اگلوں کی دیکھا دیکھی نئی نسل کے نوجوان بھی موبائل پر اردو لکھنے کے لئے رومن حروف ہی استعمال کیا کرتے ہیں ۔ حالانکہ ایک عرصہء دراز سے موبائل اور کمپیوٹر پر اردو لکھنے کی سہولت موجود ہے۔

رومن اردو لکھنے میں قباحت کیا ہے؟

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر رومن اردو لکھنے میں قباحت کیا ہے؟

اس کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ رومن حروفِ تہجی میں اردو لکھنا ایسا ہی ہے جیسے انگریزی زبان کو اردو میں لکھنا۔ مثال کے طور پر۔

وی ہیو ناٹ بین دیئر فار سو مینی ڈیز۔
یا
سچ بی ہیوئیر ڈز ناٹ میک اینی سینس

ممکن ہے کے یہ جملے اردو پڑھ لینے والوں کی سمجھ آ بھی جائیں۔ لیکن دنیا اس بات پر کبھی راضی نہیں ہوگی کہ جب بھی انگریزی لکھی جائے ایسے ہی لکھی جائے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم اس بات پر راضی ہو گئے کہ جب بھی اردو لکھی جائے وہ رومن میں ہی لکھی جائے حالانکہ اردو زبان اپنا ایک الگ خوبصورت رسم الخط رکھتی ہے۔ اور اب ہر قسم کی ڈیوائسز پر اردو لکھنے کی سہولت بھی موجود ہے۔

اردو رسم الخط میں نوجوانوں کی عدم دلچسپی

اردو رسم الخط میں نوجوانوں کی عدم دلچسپی کے پیچھے کئی ایک عوامل کار فرما ہیں۔

سہل پسندی:

موبائل فون پر چیٹنگ اور سوشل میڈیا کے بے تحاشہ استعمال کی وجہ سے ہمارے نوجوان رومن رسم الخط میں اردو بہت روانی سے لکھنے لگے ہیں۔ اور اس طرح لکھنا اُن کے لئے بے حد آسان ہو چکا ہے بلکہ ایک پختہ عادت کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ سو جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ وہ رومن اردو کے بجائے اردو رسم الخط کا استعمال کریں تو یہ اُن کے لئے مشکل کا باعث بنتا ہے اور خیالات کے تسلسل کو روانی کے ساتھ اردو میں لکھ لینا اُن کےلئے ایک دشوار عمل بن جاتا ہے۔ اور وہ اپنی سہل پسندی کے باعث بہت جلد اردو رسم الخط کو چھوڑ کر واپس رومن اردو پر پلٹ آتے ہیں۔ حالانکہ اگر یہ لوگ دلجمعی سے ایک دو ہفتے اردو رسم الخط لکھتے رہیں تو لکھائی میں روانی آ جائے گی اور پھر کبھی رومن اردو لکھنے کا خیال تک نہیں آئےگا۔

ناقص اردو:

اردو رسم الخط سے پہلو تہی کرنے کی ایک اور بنیادی وجہ نوجوانوں کا اپنی زبان اردو اور اس کے املے پر عبور نہ ہو نا ہے۔ ہمارے ہاں جب رومن اردو لکھی جاتی ہے تو اس کا کوئی قائدہ قانون نہیں ہوتا اور ہر شخص اپنی مرضی سے جو چاہتا ہے لکھتا ہے اور اس کے پڑھنے والے سمجھ بھی جاتے ہیں (ہے نا مزے کی بات)۔ لیکن اردو لکھتے ہوئے یہ سہولت نہیں ملتی۔ اردو میں آپ ناقص کو ناقس نہیں لکھ سکتے اور نہ ہی ضامن کو زامن یا ذامن لکھ سکتے ہیں۔ یہاں اردو لکھنے والوں کو ہر ہر لفظ کا درست املا یاد ہونا ضروری ہے ۔ اور اردو زبان پر کما حقہ گرفت نہ ہونے کے باعث ہمارے نوجوان اردو لکھنے کے بجائے رومن اردو کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔

رسم الخط کی اہمیت سے نا واقفیت:

ہمارے بچےاردو رسم الخط کی اہمیت سے آگاہ نہیں ہیں۔ اگر ہم ترکی کی مثال لیں کہ جنہوں نے مصصفیٰ کمال پاشا جیسے نا عاقبت اندیش شخص کے دور میں اپنے رسم الخط سے ہاتھ دھو لیے، تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ترکی کو اس کا کافی نقصان ہوا۔ ترکی نے جب اپنے رسم الخط کو چھوڑ کر رومن حروفِ تہجی پر اکتفا کر لیا تو وہ آہستہ آہستہ اپنے علمی اور ادبی ورثے سے لاتعلق ہوتے گئے۔ اور ایک وقت آیا کہ زبان کی عدم واقفیت کے باعث نئی نسل کے لئےاپنی ہی شاندار ماضی کی کتابیں اجنبی بن گئیں۔ ترکی کو اپنا رسم الخط چھوڑ کر رومن حروف کو اپنانے سے ممکن ہے کہ کچھ فائدے بھی پہنچے ہوں لیکن اگر طویل مدتی اثرات کا جائزہ لیا جائے تو اس کے نقصانات اس کے فوائد سے کہیں زیادہ بڑھ کر ثابت ہوئے۔

اگر ہمارے بچے بھی اپنے رسم الخط سے اسی طرح بے اعتنائی برتتے رہے تو خدانخواستہ ہمارا انجام بھی ترکی کے جیسا ہی ہوگا۔ اللہ ہمیں اس انجام سے محفوظ رکھے۔ اور ہمارے بچوں کو اردو رسم الخط کی اہمیت کو سمجھنے کے توفیق عطا فرمائے۔

کاروباری اداروں اور اشتہاروں میں رومن اردو کا استعمال

چلیےیہاں تک تو سمجھ آتا ہے کہ ہمارے بچے چند وجوہات اور کسل مندی کے باعث رومن اردو لکھنے پر مجبور ہیں۔ لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہمارے ہاں بڑے بڑے کاروباری ادارے بھی رسمی اور غیر رسمی عبارات اور اشتہارات میں رومن اردو کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں اور یہ بات کسی بھی طرح معقول نہیں ہے۔

ہمارے ہاں موبائل فون کمپنیاں اپنے صارفین کو جو پیغامات بھیجتی ہیں اُن کی اکثریت رومن اردو میں ہوتی ہے۔ اسی طرح کچھ کمپنیاں اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس تک پر رومن اردو ہی کو جگہ دیتی ہیں۔ حالانکہ یہ اُن کمپنیوں کا اپنے خریداروں سے رسمی مکالمہ ہے اور اس میں بے تکلفی کے نام پر بھی رومن اردو کی گنجائش نہیں ہے۔

اسی طرح ہمارے ہاں ٹی وی ، پرنٹ میڈیا اور دیگر ذرائع پر نظر آنے والے اشتہارات میں رومن اردو کا بے دریغ استعمال ہوتا نظر آتا ہے۔ ایک تو پہلے ہی انگریزی کی وجہ سے اردو کو اُس کا مقام نہیں ملتا۔ جو تھوڑی بہت جگہ اردو کی بن جاتی ہے اُس میں بھی یہ لوگ رومن اردو گھسا دیتے ہیں۔ یہ بات کسی بھی طرح گوارا نہیں ہے۔

مذکورہ اداروں کے پاس رومن اردو کے استعمال کا کوئی عذر موجود نہیں ہے۔ ان کے ہاں ایک سے ایک قابل شخص موجود ہوتا ہے اور اُن میں سے اکثر لوگ مختلف زبانوں پر عبور رکھتے ہیں۔ کمپنی کے پیغامات کوئی نو عمر نوجوان تو ترتیب دیتے نہیں ہیں کہ جنہیں صلاحیت اور قابلیت کے فقدان کا سامنا ہو۔ نہ ہی ان اداروں کے پاس تکنیکی صلاحیت والے لوگوں کی کمی ہے کہ اردو زبان لکھنے میں اُنہیں کسی سافٹ وئیر وغیرہ کی کمی محسوس ہو (حالانکہ آج کل تو آپ موبائل سے بھی با آسانی اردو لکھ لیتے ہیں)۔ یعنی کسی بھی طور پر ان کا کوئی بھی عذر قابلِ قبول نہیں ہے۔

بات دراصل ترجیحات کی ہے۔ پاکستان میں کاروبار کرنے والی مقامی اور غیر مقامی کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ پاکستانی زبان کو بھی اہمیت دیں اور اس کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔ تاکہ اس مٹی کا کچھ تو قرض ادا ہو سکے۔

محمد احمدؔ​
******​
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
اس مسئلہ پہ بہت جامع تحریر ہے۔ تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے۔
مجھے تو رومن اردو پڑھتے ہوئے بے حد دقت ہوتی ہے۔ جب سے اردو کلیدی تختہ استعمال کرنا شروع کیا ہے، بے حد آسانی ہو گئی ہے۔
اردو سے محبت تو کبھی رومن اور انگریزی کی طرف جانے ہی نہیں دیتی۔:):):)
 
اگر ہم ترکی کی مثال لیں کہ جنہوں نے مصصفیٰ کمال پاشا جیسے نا عاقبت اندیش شخص کے دور میں اپنے رسم الخط سے ہاتھ دھو لیے، تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ترکی کو اس کا کافی نقصان ہوا۔
ایسی عبارات لکھنے سے قبل "تحذیرِ لبلبی" دے دیا کریں، کچھ لوگ ایسی باتوں پر برانگیختہ ہو جاتے ہیں :)

بات دراصل ترجیحات کی ہے۔ پاکستان میں کاروبار کرنے والی مقامی اور غیر مقامی کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ پاکستانی زبان کو بھی اہمیت دیں اور اس کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔ تاکہ اس مٹی کا کچھ تو قرض ادا ہو سکے۔
کراچی میں آج کل ایک مٹھائیوں کی دکان بہ شکل زنجیر جا بجا نظر آنےلگی ہے، جس کا نام لاطینی حروف میں لکھے ہونے کے سبب میں تاحال اس بات سے ناواقف ہوں کہ یہ ص ہے یاسواد! :)
 

محمداحمد

لائبریرین
اس مسئلہ پہ بہت جامع تحریر ہے۔ تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے۔
مجھے تو رومن اردو پڑھتے ہوئے بے حد دقت ہوتی ہے۔ جب سے اردو کلیدی تختہ استعمال کرنا شروع کیا ہے، بے حد آسانی ہو گئی ہے۔
ہم اور آپ ایسے لوگ جو اردو محفل سے یا دیگر اردو پلیٹ فارمز سے جُڑے ہیں، وہ تو اس پھیر سے نکل گئے ہیں۔ لیکن ہماری اکثریت موبائل یا کمپیوٹر پر اردو لکھنے میں دقت محسوس کرتی ہے۔


اردو سے محبت تو کبھی رومن اور انگریزی کی طرف جانے ہی نہیں دیتی۔:):):)

ذاتی طور پر مجھے انگریزی سے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ انگریزی تو میری محبوب زبانوں میں سے ایک ہے۔ تاہم بغیر کسی مجبوری کے اردو بولتے ہوئے انگریزی الفاظ کے پیوند لگانا یا رسم الخط میں رومن حروف لکھنا مجھے بالکل پسند نہیں ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ایسی عبارات لکھنے سے قبل "تحذیرِ لبلبی" دے دیا کریں، کچھ لوگ ایسی باتوں پر برانگیختہ ہو جاتے ہیں :)
:giggle::giggle::giggle:

لوگوں کی اپنی اپنی ترجیحات ہیں کیا کہا جا سکتا ہے۔

کراچی میں آج کل ایک مٹھائیوں کی دکان بہ شکل زنجیر جا بجا نظر آنےلگی ہے، جس کا نام لاطینی حروف میں لکھے ہونے کے سبب میں تاحال اس بات سے ناواقف ہوں کہ یہ ص ہے یاسواد! :)

:) :) :)

اُن کے لوگو میں حرف ص تو لکھا نظر آتا ہے۔ تاہم ص اور سواد میں صوتی مماثلت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے وہ اپنے نام کو ذائقے کا متبادل بھی خیال کرتے ہوں گے۔ :) مارکیٹنگ کی دنیا میں مصنوعات کی تشہیر کے لئے لفظوں کی ذو معنویت کو استعمال کرنا بھی ایک فن سمجھا جاتا ہے۔ :)
 
لفظوں کی ذو معنویت کو استعمال کرنا بھی ایک فن سمجھا جاتا ہے
دیکھیں نا، یہی تو مسئلہ ہے... فنکاریوں کے پیچھے زبان کا رسم الخط جا رہا ہے. آپ نےکاروباری اداروں کے اردو کو اہمیت دینے کے حوالے سے نکتہ اٹھایاتھا.
 
یہ بالکل وہی معاملہ ہو گیا کہ ہمارے ایک سابق آجر ادارے نے ایک بار پرانی فلموں کی نوکاری کرکے پاکستانی فلمی صنعت کی بحالی کا بیڑا اٹھایا، مگر ان فلموں کی موسیقی ترتیب دینے کے لیے ہندوستان پہنچ گئے!
 
سوائے نوجوانوں کو الزام دینے کے آپ نے یہاں اورُکچھ نہیں لکھا۔ آخر نوجوانوں کو کیا ہوا کہ انہوں نے اردو رسم الخط چھوڑ دیا؟
سہل پسندی ... اس پر اچھا خاصا کلام تو کیا ہے انہوں نے.
سب سے بڑی آسانی املا سیکھنے کی مشقت سے اور غلط املا کی خفت سے بچنا ہے. بڑے بڑے گیانی آج بھی سوشل میڈیا پر واضح کو واضع لکھتے نظر آتے ہیں.
 

محمداحمد

لائبریرین
دیکھیں نا، یہی تو مسئلہ ہے... فنکاریوں کے پیچھے زبان کا رسم الخط جا رہا ہے. آپ نےکاروباری اداروں کے اردو کو اہمیت دینے کے حوالے سے نکتہ اٹھایاتھا.

حالات اس قدر ابتر ہیں کہ ہم نے لوگو میں اردو حرف "ص" کی موجودگی بھی غنیمت سمجھی۔ :) :)
 

محمداحمد

لائبریرین
یہ بالکل وہی معاملہ ہو گیا کہ ہمارے ایک سابق آجر ادارے نے ایک بار پرانی فلموں کی نوکاری کرکے پاکستانی فلمی صنعت کی بحالی کا بیڑا اٹھایا، مگر ان فلموں کی موسیقی ترتیب دینے کے لیے ہندوستان پہنچ گئے!

ہو سکتا ہے کہ اُنہوں نے سہواً فلمی صنعت کی بدحالی کا بیڑا اُٹھا لیا ہو۔ :) :)
 

محمداحمد

لائبریرین
سوائے نوجوانوں کو الزام دینے کے آپ نے یہاں اورُکچھ نہیں لکھا۔ آخر نوجوانوں کو کیا ہوا کہ انہوں نے اردو رسم الخط چھوڑ دیا؟

دراصل ذکر یہ تھا کہ الیکٹرانک ڈیوائسز پر نوجوان اردو، اردو حروفِ تہجی میں لکھنے کے بجائے رومن حروفِ تہجی کی مدد سے لکھتے ہیں۔ سو ہمارے نوجوانوں نے الیکٹرانک ڈیوائسز پر اردو رسم الخط چھوڑا نہیں بلکہ اُنہوں نے کبھی ان ڈیوائسز پر اردو زبان کو اردو حروف میں لکھا ہی نہیں۔ ورنہ دیکھا یہ گیا ہے کہ جو بھی شخص ایک بار اردو زبان کو اردو میں لکھنے کی عادت بنا لیتا ہے ، اُس کے بعد وہ کبھی رومن اردو کی طرف مائل نہیں ہوتا۔

میں ذاتی طور پر اس بات کی کوشش کرتا رہتا ہوں کہ نوجوان رومن اردو کے بجائے اردو کو اردو رسم الخظ میں ہی لکھیں۔ سو میں اپنے حلقوں میں ایسی تحریریں وغیرہ شئر کرتا رہتا ہوں کہ جس سے نوجوانوں کو رومن اردو سے بچنے کی ترغیب ملے اور وہ اردو کو اردو رسم الخط میں ہی لکھیں۔

نوجوانوں کی اردو رسم الخط میں عدم دلچسپی کی وجوہات میں نے اپنی طرف سے نہیں لکھی ہیں بلکہ بہت سی باتیں میں نے باہمی تعامل سے سیکھی ہیں۔ اور کچھ باتیں مجھے نوجوانوں سے بطورِ 'فیڈ بیک' سننے کو ملی ہیں۔ جن میں سے زیادہ اہم باتیں دو ہیں ۔

الف ۔ رومن اردو میں وہ روانی سے لکھنے کے عادی ہیں۔
ب۔ اردو لکھنا دشوار ہے یعنی املے وغیرہ کے مسائل ہیں۔

ایک المناک بات یہ ہے کہ عمومی طور پر پاکستانی طلباء اردو زبان میں کمزور ہوتے ہیں (اس کے پس منظر میں بھی کئی ایک اسباب ہیں)۔ انگریزی بھی ان کی خاطر خواہ نہیں ہوتی۔ سو وہ انگریزی سے صرف انگریزی حروفِ تہجی لیتے ہیں اور اُس میں اُس زبان کی ادائیگی کی کوشش کرتے ہیں جو اُنہوں نے اہلِ زبان میں رہتے ہوئے سیکھی ہوتی ہے۔

عین ممکن ہے کہ اس سلسلے میں کچھ عوامل تک میری رسائی نہ ہو سکی ہو۔ اگر آپ اس کی کچھ اور وجوہات سمجھتے ہیں تو ضرور رہنمائی کیجے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ہندوستان میں ایک طبقہ اردو کو اسلامی زبان سمجھتا ہے ، اور اسی بنیاد پر اردو زبان سے تعصب برتتا نظر آتا ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ قران کی زبان (عربی) کا رسم الخط اردو سے قریب ترین ہے ۔ تاہم صرف رسم الخط ایک ہونے سے کسی زبان پر اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کی مہر ثبت نہیں کی جا سکتی۔

شکر کی بات یہ ہے کہ یہ ہندوستان کا ایک محدود طبقہ ہے اور باقی ہندوستانی بالخصوص شعر و ادب سے وابستہ لوگ اردو زبان سے محبت کرتے ہیں اور اردو کو محض اسلام یا مسلمانوں کی زبان نہیں سمجھتے۔ اردو جس قدر برِ صغیر کے مسلمانوں کی میراث ہے اُسی قدر یہ دیگر قوموں کا بھی ورثہ ہے اور برِ صغیر کی ثقافت میں اردو زبان رچی بسی ہے۔

ہندوستان میں اردو رسم الخط کے بجائے دیوناگری رسم الخط کے استعمال کی زیادہ تر وجوہات سیاسی ہیں اور اُس سے عام ہندوستانیوں کی بول چال میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ یعنی برصغیر پاک و ہند دونوں میں (لہجوں کے معمولی فرق کے ساتھ) ایک ہی طرح کی اردو بولی جاتی ہے۔

جو لوگ زبانوں کو مختلف مذاہب کے ساتھ نتھی کر دیتے ہیں اُنہیں سمجھنا چاہیے کہ نظریات کلیتاً کسی ایک زبان کے محتاج نہیں ہوتے۔ ایسا ہوتا تو ہمیں دنیا بھر کے مختلف مذاہب میں مختلف زبانوں کے بولنے والے ہرگز نہیں ملتے۔ خاکسار کی رائے ہے کہ لوگوں کو لسانیات کو تعصب کا سبب نہیں بنانا چاہیے اور نہ ہی مذاہب یا دیگر تفریقوں کی بنیاد پر کسی زبان کے ساتھ تعصب برتنا چاہیے۔
 
شکر کی بات یہ ہے کہ یہ ہندوستان کا ایک محدود طبقہ ہے
بد قسمتی سے اس بات سے اتفاق ممکن نہیں ... محدود اس کے برعکس سوچ رکھنے والے ہیں اور ایسے مشاہیر کو انگلیوں ہر گنا جا سکتا ہے ... اس سوچ والوں کی تعداد کا اندازہ مودی کی تقریبا دو تہائی اکثریت سے لگایا جاسکتا ہے.
 

محمداحمد

لائبریرین
بد قسمتی سے اس بات سے اتفاق ممکن نہیں ... محدود اس کے برعکس سوچ رکھنے والے ہیں اور ایسے مشاہیر کو انگلیوں ہر گنا جا سکتا ہے ... اس سوچ والوں کی تعداد کا اندازہ مودی کی تقریبا دو تہائی اکثریت سے لگایا جاسکتا ہے.
آپ کی بات اپنی جگہ درست ہے۔

لیکن دیکھا جائے تو اردو اور ہندی دو الگ الگ زبانیں نہیں ہیں بلکہ ایک ہی زبان ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو بالی وڈ اور ہندوستانی ٹی وی چینلز کو پاکستان سے ان گنت تماشائی نہیں ملتے۔

جب ہندوستان میں بیٹھا کوئی شخص اپنی زبان میں بات کرتا ہے تو پاکستان کے اردو جاننے والے اُس کی بات کو بخوبی سمجھ لیتے ہیں (امیتابھ بچن کے کروڑ پتی قسم کے پروگرام اس سے مستثنیٰ ہیں) ۔ ادبی دنیا میں تو چلیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو کے لئے قبولیت زیادہ ہے لیکن ہندوستانی فلموں اور ڈراموں کو بھی پاکستانی بغیر ترجمے کے دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔

جو متعصب ہندوستانی یہ سمجھتے ہیں کہ اردو اُن کی نہیں بلکہ اسلام کی نمائندہ زبان ہے وہ بھی اگر چاہیں تو اردو اور ہندی کے مابین جو مماثلت ہے اُسے ختم نہیں کر سکتے اور نہ ہی اُن کا اردو بولے بغیر گزارا ہے۔

باقی رہی سیاست، تو سیاست نام ہی نا سمجھ لوگوں کی نا سمجھی سے فائدہ اُٹھانے کا ہے۔
 
آپ کی بات اپنی جگہ درست ہے۔

لیکن دیکھا جائے تو اردو اور ہندی دو الگ الگ زبانیں نہیں ہیں بلکہ ایک ہی زبان ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو بالی وڈ اور ہندوستانی ٹی وی چینلز کو پاکستان سے ان گنت تماشائی نہیں ملتے۔

جب ہندوستان میں بیٹھا کوئی شخص اپنی زبان میں بات کرتا ہے تو پاکستان کے اردو جاننے والے اُس کی بات کو بخوبی سمجھ لیتے ہیں (امیتابھ بچن کے کروڑ پتی قسم کے پروگرام اس سے مستثنیٰ ہیں) ۔ ادبی دنیا میں تو چلیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو کے لئے قبولیت زیادہ ہے لیکن ہندوستانی فلموں اور ڈراموں کو بھی پاکستانی بغیر ترجمے کے دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔

جو متعصب ہندوستانی یہ سمجھتے ہیں کہ اردو اُن کی نہیں بلکہ اسلام کی نمائندہ زبان ہے وہ بھی اگر چاہیں تو اردو اور ہندی کے مابین جو مماثلت ہے اُسے ختم نہیں کر سکتے اور نہ ہی اُن کا اردو بولے بغیر گزارا ہے۔

باقی رہی سیاست، تو سیاست نام ہی نا سمجھ لوگوں کی نا سمجھی سے فائدہ اُٹھانے کا ہے۔
اب تو بالی ووڈ کی ہندی بھی وہ نہیں رہی جس کو اردو کی بہن کہا جا سکے. شعوری کوشش کے ذریعے اس کی شکل بگاڑ دی گئی ہے . زیادہ پیچھے نہ جائیں، اگر 90 کی پہلی نصف دہائی تک کی فلمیں ہی دیکھ لیں تو یوں لگتا کہ جیسے مرزا ہادی رسوا نے اسکرپٹ لکھا ہو :)
70 کی دہائی کی فلموں کو تو جانے ہی دیں، وہ تو شاید موجودہ ہندی بولنے والوں کو سمجھ ہی نہ آتی ہوں... میڈیا کا اثر عوام پر لازمی پڑتا ہے اور اسی وجہ سے وہاں کی عوامی زبان بھی آہستہ آہستہ غیر مانوس ہوتی جا رہی ہے. ہندی نیوز چینلز دیکھیں تو ان کا بھی وہی حال ہے جو کے بی سی کا ہے.
خیر، ان کا رونا کیا روئیں، خود ہمارے یہاں یہ سب سیاسی وجوہات نہ ہونے کے باوجود زبان کی حالت خستہ ہے.
 

عثمان

محفلین
لیکن دیکھا جائے تو اردو اور ہندی دو الگ الگ زبانیں نہیں ہیں بلکہ ایک ہی زبان ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو بالی وڈ اور ہندوستانی ٹی وی چینلز کو پاکستان سے ان گنت تماشائی نہیں ملتے۔

جب ہندوستان میں بیٹھا کوئی شخص اپنی زبان میں بات کرتا ہے تو پاکستان کے اردو جاننے والے اُس کی بات کو بخوبی سمجھ لیتے ہیں (امیتابھ بچن کے کروڑ پتی قسم کے پروگرام اس سے مستثنیٰ ہیں) ۔ ادبی دنیا میں تو چلیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو کے لئے قبولیت زیادہ ہے لیکن ہندوستانی فلموں اور ڈراموں کو بھی پاکستانی بغیر ترجمے کے دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔
ہسپانوی اور پرتگیزی بولنے والے ایک دوسرے کو باآسانی سمجھ لیتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اس پر اصرار نہیں کرتے کہ ہسپانوی اور پرتگیزی ایک ہی زبان ہے۔ ہسپانوی اورپرتگیزی اپنی تمام تر مماثلت کے باوجود الگ زبانیں ہی سمجھی جاتی ہیں۔ ایسا ہی معاملہ کئی دیگر زبانوں کے ساتھ ہے جو ایک دوسرے سے مماثلت اور ایک جیسا ورثہ رکھنے کے باوجود اپنی الگ شناخت رکھتی ہیں۔
اردو اور ہندی کی اپنی اپنی منفرد شناخت تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ان دونوں زبانوں میں کافی کچھ منفرد اور مختلف ہے جو ان کی الگ پہچان کی نشاندہی کرتا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ہسپانوی اور پرتگیزی بولنے والے ایک دوسرے کو باآسانی سمجھ لیتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اس پر اصرار نہیں کرتے کہ ہسپانوی اور پرتگیزی ایک ہی زبان ہے۔ ہسپانوی اورپرتگیزی اپنی تمام تر مماثلت کے باوجود الگ زبانیں ہی سمجھی جاتی ہیں۔ ایسا ہی معاملہ کئی دیگر زبانوں کے ساتھ ہے جو ایک دوسرے سے مماثلت اور ایک جیسا ورثہ رکھنے کے باوجود اپنی الگ شناخت رکھتی ہیں۔
ہسپانوی اور پرتیگیزی زبانوں سے تو میں واقف نہیں ہوں، سو اس سلسلے میں کچھ کہنے سے قاصر ہوں۔
اردو اور ہندی کی اپنی اپنی منفرد شناخت تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ان دونوں زبانوں میں کافی کچھ منفرد اور مختلف ہے جو ان کی الگ پہچان کی نشاندہی کرتا ہے۔
رہی بات اردو اور ہندی کی منفرد شناخت کو تسلیم کرنے کی تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ خاص طور پر آج جب کے ہندی اردو سے کافی مختلف نظر آتی ہے۔ تاہم ان دونوں زبانوں کی بنیاد کھڑی بولی پر ہے اور ان دونوں کے بیچ مماثلتیں ان کی انفرادی شناخت سے کہیں زیادہ ہیں۔ اور یہ کہ اردو اور ہندی کو دو الگ الگ زبانیں ثابت کرنے کا کام اُن لوگوں نے کیا جو زبان کی بنیاد پر لوگوں میں تفریق ڈالنا چاہتے تھے، حتیٰ کہ رفتہ رفتہ ایک زبان مسلمانوں کی شناخت بن گئی اور دوسری زبان ہندوؤں کی۔ اس تفریق سے جہاں ایک طرف لوگوں میں نفرتیں بڑھیں تو دوسری طرف اردو زبان کو بھی بھی بہت نقصان اُٹھانا پڑا۔

اس سلسلے میں مزید تفصیل جاننے کے لئے یہ مضمون پڑھا جا سکتا ہے۔
 
Top