راحت اندوری رشتوں کی دھوپ چھاوں سے آزاد ہوگئے

‏رشتوں کی دُھوپ چھاؤں سے آزاد ہو گئے
اب تو ہمیں بھی سارے سبق یاد ہو گئے

لفظوں کے ہیر پھیر کا دھندہ بھی خُوب ہے
جاہل ہمارے شہر میں اُستاد ہو گئے


راحتؔ اندوری
 
‏رشتوں کی دُھوپ چھاؤں سے آزاد ہو گئے
اب تو ہمیں بھی سارے سبق یاد ہو گئے

لفظوں کے ہیر پھیر کا دھندہ بھی خُوب ہے
جاہل ہمارے شہر میں اُستاد ہو گئے


راحتؔ اندوری
آہ راحت

درد دل دے کر ہمیں پہلے تو انور چل دیا
آہ یاروں آج راحت سا سخنور چل دیا
دفن ہوتا ہے زمیں میں کس طرح اک آسماں
غم میں ڈوبا ہے یہ منظر دیکھ کر سارا جہاں
ہے دعا مولا عطا راحت کو بس راحت کرے
قبر پر اس کی ہمیشہ بارش رحمت کرے
 
Top