دائم جی

محفلین
یہ وہ تحاریر ہیں جو مختلف فورمز پر مجھ سے کیے گئے سوالات کے جوابات ہیں۔ متفرق موضوعات کی حامل تحریروں کی وجہ سے مجموعی طور پر رشحات نام اچھا، سو یہی عنوان دے رہا ہوں۔​
 

دائم جی

محفلین
سوال از احمد حجازی: اس شعر کی وضاحت کریں:
میں اتنا عرش سے اونچا گیا زورِ محبت میں
کہ اوپر سے بہت نیچے خدا معلوم ہوتا ہے
جواب: یعنی محبت کے نام پر میں نے اپنے داعیے کو وہ مفہوم پہنایا ہے جس میں خدا کی کوئی گنجائش نہیں۔ آزاد منش محبت، بے لگام محبت، اور پر اسرار اور خیالی قسم کی محبت۔ کیوں کہ خدا وجودی قوت کا نام ہے نا! تو جس خیال میں وجودی قوت نہ ہو وہ خدا سے اوپر ہی ہوگی۔
شعر پر شرعی گرفت ممکن ہے۔ ایسے شعر عام طور پر کسی بڑے مفہوم کے حامل نہیں ہوتے بلکہ شہرت پکڑنے کا تازیانہ ہوتے ہیں۔
اس شعر میں چند فنی کمزوریاں بھی ہیں جس وجہ سے یہ شعر محض طباعی و صناعی معلوم ہوتا ہے۔ اس سے ہم کوئی بڑا معنی نہیں اخذ کر سکتے۔
(۱) محبت ایک وجودی قوت ہے لیکن اپنی تاثیر میں Passive ہے۔ اسے خدائی Activeness سے باہر کہنا بے عقلی ہے۔
(۲) عرش سے اوپر بھی خدا ہی ہے۔ ”استویٰ علی العرش“ کا ایک معنیٰ یہ بھی ہے کہ عرش عام فکری مفروضات میں سب سے بلند مقام کا نام ہے لیکن خدا کی وجودی قوت و اختیار اس سے اوپر پر بھی ہے۔ اس اعتبار سے عرش سے جتنا اوپر جاؤ خدا کی مملکت بہرحال وہاں تک ہے (لامحدود) تو خدا کا نیچے معلوم ہونا بعد از قیاس ہے۔
(۳) زورِ محبت سے مراد تاثیرِ محبت ہے جو کہ ایک Depended Position ہے۔ یوں انحصاری امر کا خدا جیسی غیر انحصاری ذات سے اوپر جانے کا سبب بننا بے عقلی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدا کا لفظ شاعری سمیت تمام علوم و فنون میں ایک برتر قوت کے طور پر ہی مستعمل ہے۔ اگر خدا کی برتری کا تصور منہا کر دیا جائے تو اس کی بنا پر نہ صرف یہ لفظ اپنی جمالیاتی عظمت سے منحرف ہو جائے گا بلکہ دنیا کی ہر بڑی شاعری کا خدا سے متعلق Central theme بھی کریک ہو کر رہ جائے گا۔ اس واسطے خدا کا جو تصور ہمارے فکری مفروضات اور شعری تصورات میں موجود ہے اس سے منحرف ہو کر کوئی بھی شعر کہنا غیر شعری اور غیر سنجیدہ عمل ہوگا۔
 

دائم جی

محفلین
سوال: دائم بھائی! یہ فرمائیں پلیز کہ شترگربہ عیب کی کیا تفصیل ہے؟ اور شعر میں اسکی اساتذہ کے ہاں کتنی گنجائش ہے؟ [احمد حجازی]
جواب: شتر گربہ (اونٹ+بلی) اصل میں دو چیزوں (اشخاص/ضمیریں) کے مابین حفظِ مراتب نہ کرنے کو کہتے ہیں۔ مثلاً اونٹ اور بلی کو ایک سا سمجھنا۔ مزید یہ کہ ایک ہی سطر میں کسی کو پہلے بڑا کہنا اور ساتھ ہی چھوٹا کہہ دینا، یا کسی کو بڑی عزت افزائی اور مہمان نوازی کرنے کے بعد فوراً گھر سے نکال دینا، یہ عمل مراتب کے عدمِ لحاظ کو لازم کرتا ہے اور شاعری میں یہی عمل بطور ایک اصطلاح اپنے مخصوص معنیٰ میں آ جاتا ہے۔
اصطلاحِ تنقیدِ شعر میں اس سے مراد ایک ہی شخص کے لیے کبھی ”آپ“ اور کبھی ”تُو“ کا لفظ ایک ہی شعر یا بند میں استعمال کرنا۔ یا ”میں“ اور ”ہم“ کا لفظ ایک ہی سیاق سباق میں اپنے لیے برتنا۔ آسان لفظوں میں کہا جائے تو متکلم کے لیے ہو یا مخاطب یا غائب کے لیے؛ ہر ایک کے لیے جمع اور واحد کے صیغے دونوں استعمال کرنا۔ مثال کے طور پر:
(۱) آپ جو گفتگو فرما چکے ہیں میں نے تیری وہ سب بات سمجھ لی ہے۔ (آپ-تیری)
(۲) میں نے کھانا کھایا اور ہم پانی پینے لگے۔ (میں-ہم)
(۳) اُن کے گھر چور پڑے تو اس نے شور مچایا (ان-اس)
ان تینوں مثالوں (آپ+تیری)(میں+ہم)(ان+اس) میں سے ہر ایک میں بندہ ایک ہی ہے لیکن اس کے لیے جمع اور واحد کے صیغے ایک ہی جملے یا سطر یا ایک ہی سیاق و سباق میں آئے ہیں۔ اس عمل کو ناپسند کیا جاتا ہے اور شاعری میں عیب سمجھا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو عیب ہے جو کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔ اساتذہ کے ہاں ہمیشہ اس سے احتیاط کا عمل رہا ہے لیکن اگر کسی استاد کے ہاں اس کی مثال ملے تو اس مثل کے مصداق:​
خطائے بزرگاں گرفتن خطاست [گرفتن=اخذ کردن]​
وہ ناقابلِ قبول اور ناقابلِ استناد ہوگی۔
یاد رہے کہ شترگربہ کے عیب ہونے کے لیے شرط ہے کہ دونوں صیغوں (واحد و جمع) کا متکلم ایک ہی ہو اور وہ صیغے کسی بلاغی مفہوم کے لیے قصداً نہ لائے گئے ہوں۔
اس سلسلے میں عرض ہے کہ بعض غالب نافہموں نے اس شعر کو بھی شترگربہ کی مثال میں پیش کیا ہے حالانکہ یہ شتر گربہ نہیں ہے:​
شورِ پندِ ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا
آپ سے کوئی پوچھے، تم نے کیا مزہ پایا؟
(آپ+تم)​
اگر غور کیا جائے تو اس جملے ”آپ سے کوئی پوچھے“ کا متکلم شاعر خود ہے جبکہ ”تم نے کیا مزہ پایا؟“ کا متکلم کوئی اور ہے۔ دوسرے جملے میں ”تم“ کو تحقیر اور تنبیہ کے لہجے میں پڑھیں تو بات مکمل طور پر کھل جاتی ہے کہ شاعر تو ”آپ“ کہہ کر اپنے مخاطَب سے کلام کر رہا ہے لیکن جب کوئی اور اس سے مزہ پانے کا سوال کرے گا تو وہ ”تم“ کہہ کر خطاب کرے گا اور اس سے اس کا مقصد مخاطَب کو شرم دلانا ہوگا، کیوں کہ مخاطَب نے مزہ نہیں پایا بس ویسے ہی متکلمِ اول (شاعر) کے زخموں پر نمک چھڑکتا رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: ایک ذرا باریک چیز بھی سمجھنے کی ہے۔ ضروری نہیں کہ جہاں بھی واحد و جمع کا متکلمِ واحد کے کلام میں اشتراک ہو وہی شترگربہ ہوگا، بلکہ جہاں محاورۂ عام اور قاعدۂ تہذیبی/تہذیبی رسومیات میں خلاف ورزی ہو رہی ہو لیکن بظاہر وہ شترگربہ معلوم نہ ہوتا ہو تو وہ بھی بعض ماہرینِ فن کے نزدیک عیب ہے۔ مثال کے طور حسرتؔ موہانی نے عیشیؔ کے ایک شعر میں شترگربہ دریافت کیا۔​
نہ کرنا لذتِ شمشیرِ ابرو عام اے قاتل!
یہ عیشیؔ ہی تمھارا لائقِ تیغ آزمائی ہے​
اس شعر کے تحت لکھتے ہیں:
”واضح ہو کہ جب محبوب کو قاتل، ظالم، ستم گر یا حیلہ جُو وغیرہ الفاظ کے ساتھ خطاب کرنا ہوتا ہ۔ تو اس کے لیے حرفِ خطاب ”آپ“ یا ”تم“ نہیں بلکہ ”تو“ استعمال کرتے ہیں مگر عیشیؔ کے شعر میں ایسا نہیں ہے۔ بلکہ ”اے قاتل“ کے ساتھ ”تمھارا“ استعمال کیا گیا ہے اور یہی معیوب ہے۔“ [نکاتِ سخن جدید، صفحہ ۱۷۰]
حسرتؔ موہانی کی رائے واضح ہے کہ کلمۂ تعریض و شکایت کے لیے محاورۂ عام یہی ہے کہ اسے ”آپ“ یا اس جیسا کوئی تعظیمی کلمہ نہ استعمال کیا جائے بلکہ ”تُو“ یا اس جیسا کلمہ برتا جائے۔​
 

دائم جی

محفلین
سوال از نادرؔ بھوپالی: شعر کی وضاحت مطلوب ہے:
صبح پیری شام ہونے آئی میرؔ
تو نہ چیتا یاں بہت دن کم رہا
جواب: سادہ شعر ہے لیکن اصل لطف اس محاورے ”یاں دن کم رہا“ میں ہے۔
”یاں بہت دن کن رہا“ کی چند جدید شکلیں دیکھیے:
(۱) ادھر وقت ختم ہوا جا رہا ہے
(۲) وقت ختم ہو چکا
(۳) کام تمام ہونے کو ہے
(۴) آخری وقت تھا وہ بھی اب ختم ہو چکا
پیری بمعنیٰ بڑھاپے کو ایک ”دن“ سے تشبیہ دی۔ اور پیری بھی اب شام ہونے کو ہے، یعنی بڑھاپا شروع ہو کر اب اختتام پذیر ہے۔ بڑھاپے کا اختتام، مطلب یہ کہ زندہ رہنے کا امکان بھی ختم، کیوں کہ ضعیفی کا اختتام مرگِ مفاجات ہی تو ہے۔
چَیتنا (ی مجہول کے ساتھ) بمعنیٰ بیدار ہونا، ہوش میں آنا، احساس کرنا، سمجھنا وغیرہ ہے۔
اب ایک ذرا سمجھنے کی بات سمجھیں۔ جوانی گزری، بڑھاپا گزرا، بڑھاپے کا اختتام ہو چکا مگر اب تک اے ميرؔ! تجھے ہوش نہ آیا، جینے کی معنویت کو تو اب تک نہ سمجھا، بامعنیٰ طور پر تو اب تک نہ جیا۔ دیکھ ذرا کتنا کم وقت باقی رہ گیا ہے۔ ”یاں دن بہت کم رہا“ کا مطلب یہی ہے کہ یہ دیکھو شام ہو چلی وہ بھی صبحِ پیری کی۔
اس شعر میں دیکھیے کہ! بڑھاپے کو ہی جب صبح کہا جائے تو پھر اس بڑھاپے کی شام کا عالَم کیا ہوگا! اور اس شام تک کی غفلت محض غفلت نہیں، مہا غفلت ہے۔ اوپر سے شامِ پیری ایک اندھیری رات میں بدلنے والی ہے لیکن اے میر! تو ابھی تک نہیں چَیتا۔
چَیتنا کے سبھی معانی یہاں مراد ہو سکتے ہیں۔
اب ذرا شعر کی چند فنی خوبیاں دیکھیے:
پیری کو صبح کہنے میں دو رعایتیں ہیں:
اول یہ کہ پیری میں بال سفید ہوتے ہیں اور یہ سفیدی صبح کی سفیدی کے مشابہ ہے
دوم یہ کہ صبح دن کے آغاز کو کہتے ہیں ایسے ہی پیری عمر کے ایک درجے (تیسرا درجہ) کی ابتدا ہے
چیتنا بمعنیٰ بیدار ہونا بھی صبح سے مناسبتِ معنوی رکھتا ہے۔
شعر میں چونکہ خود کلامی ہے اس لیے سوئے ہوئے بندے سے بھی گفتگو کرنا (عقلاً) درست سمجھ لیا گیا ہے۔ کیوں کہ کسی دوسرے سے نیند میں کلام غیر مفید ہے جبکہ خود کلامی میں گویا خود ہی سے کلام ہے تو خود سویا ہوا ہے تو کلام جو بھی کرے گا اسی حالت میں کرے گا جو اپنی طبعی(فزیکل) حالت ہوگی؛ چاہے خواب ہو یا بیداری۔ یہ اتنا نادر و گہرا نکتہ ہے کہ میرؔ شاید اس کا حرفِ اول ہی نہیں حرفِ آخر بھی ہو۔
اگر شعری رعایتوں کی آماجگاہ دیکھنی ہو تو انیسؔ کے مرثیے پڑھو۔ بخدا، یہاں زبان دانی میں ميرؔ بھی بہت پیچھے دکھائی دیتے ہیں۔ لفظوں کو ایسی فصاحت سے برتنا کہ شعری تکنیک بھی بھرپور ہو اور معنی کی لغوی سے علامتی سطح تک سبھی سطحیں زندہ اور بامعنی رہیں، یہ انیسؔ کا بہت معمولی سا کام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ميرؔ کا شعر ہو تو غیر معمولی طور پر توجہ چاہتا ہے۔ کیوں کہ ميرؔ اردو میں بڑے زبان دان بلکہ زبان ساز شاعر ہیں۔ ان کے ہاں لفظ محض لغوی سطح پر نہیں رہتا بلکہ علامت بننے تک کے تمام مراحل ایک ہی شعر میں حاصل کر جاتا ہے اور یہ کام اردو میں ہی نہیں، دنیا بھر کی شاعری میں تقريباً محال ہے۔ معنیٰ کی سبھی سطحوں کو اتنی کامیابی سے ترتیب دینا کہ ہر معنیٰ قاری کا تجربہ بن جائے، یہ معجزانہ کرشمہ نہیں تو کیا ہے!​
 

دائم جی

محفلین
سوال: شاعری میں خدا کا استعارہ آغاز تا حال استعمال ہوتا آرہا ہے۔ کہیں پر مجازی معنوں میں محبوب کو خدا کے درجے تک پہنچا دیا جاتا ہے۔
جیسا کہ نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے
یاسین انسانی روپ دے وچ او شک نئیں آپ خدا ہا، لاپرواہ ہا
وغیرہ۔۔۔ اس نکتے پر اساتذہ کی رائے درکار ہے۔ کیا اس نازک موضوع کو چھیڑنا درست ہے۔ یا پھر خدا کا استعارہ کن ممکنہ معنوں تک استعمال کرنے کی اجازت ہے؟ [ہاشم بلال]
جواب: خدا کا لفظ مشرق کے تہذیبی ورثے میں ایک ایسی ہستی سے عبارت ہے جو مطلق اختیار کا مالک و مقتدر ہے۔ جیسا کہ ہماری مشرقی دینیات (مذہبی و اسطوری بیانیے) میں خدا کا مجمل تصور موجود ہے۔ لیکن شاعری کی سطح پر اس معنوی تشخص رکھنے والے لفظ (خدا/پروردگار/مالک) کی کچھ ذیلی سطحیں بھی ہیں جن کی اساس استعاراتی ہے۔ ظاہر ہے استعارہ تشبیہی تعلق کے بغیر وجود نہیں پاتا، یہی وجہ ہے کہ شعری اطلاق میں اس لفظ (خدا، یا اس کا کوئی ہم معنیٰ لفظ) کا کوئی ایسا قرینہ ہوگا جو غیرِ خدا کے لیے مستعار بن سکے گا۔ یہ بدیہی امر ہے کہ خدا کی مطلق خدائی، کامل اختیار، قدرتِ ہمہ اور علمِ بسیط لامحدود وغیرہ اس کی صفات ہیں جن کا ادنیٰ اور جزوی مظہر انسان بن سکتا ہے۔ انسان اختیار بھی رکھتا ہے، مرضی بھی کرتا ہے، علم بھی رکھتا ہے، قدرت کا بھی مالک ہے، کسی کا اچھا یا برا کرنے پر بالقوۃ/بالفعل قادر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان صفات کے بندوں پر منطبق ہونے کی صورت میں تشبیہی تعلق کی اصل وجہ بنتا ہے۔ مؤمن کا ایک شعر دیکھیں:
کیوں سنے عرضِ مضطرب مؤمنؔ
صنم آخر خدا نہیں ہوتا
صنم کا خدا ہونا یا نہ ہونا کس وجہ سے ہو سکتا ہے؟ خدا سمیع بھی ہے جو دل کے اندر خاموش آواز/پکار کو بھی سنتا ہے۔ ظاہر ہے یہ وصف صنم (محبوب/پتھر کا بُت) میں نہیں ہو سکتا۔ لیکن اگر شاعر (اقبال) یوں کہے:
حریف اپنا سمجھ رہے ہیں مجھے خدایانِ خانقاہی
انھیں یہ ڈر ہے کہ میرے نالوں سے شق نہ ہو سنگِ آستانہ
خانقاہ کے خدا کون ہیں؟ اپنی مطلق العنانیت کا زعم رکھنے والے پیرانِ عُظام...!
غور سے دیکھیے، خداے واحد کا مطلق العنان ہونا خانقاہی خداؤں کے لیے استعارے کے طور پر لایا ہے۔ دونوں قسم کے خداؤں میں صفت کا جزوی اشتراک ہے اور وہ صفت ہے مطلق العنان ہونا۔ ظاہر ہے کہ یہ تعلق (یعنی استعارہ بنانا) کسی قرینے کے بغیر نہیں ہے۔ استعارے میں دو طرح کے قرینے ہوتے ہیں: ایک تشبیہِ عمومی کا قرینہ، دوسرا نسبتِ عارضی کا قرینہ۔ ان قرائن کی موجودگی ہی میں ”خدا“ کو استعارہ بنایا جا سکتا ہے، ورنہ ظاہر ہے کہ جب قرینہ نہ ہوگا تو استعارہ بھی نہیں خَلق ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ممکن ہے استعارے کے قرینوں کو سمجھنے میں آپ کو دقت ہو، اس لیے ان کی مختصر وضاحت حسبِ ذیل ہے:
استعارے میں مستعار لہ (جس لفظ کے لیے معنیٰ مستعار لیا جائے) اور مستعار منہ (جس لفظ سے معنیٰ مستعار لیا جائے) کے باب میں عام طور پر کتبِ بلاغت میں وجہِ جامع (تعلق/قرینہ) تشبیہ ہی کو کہا جاتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اس کے تشبیہ کے بغیر اگر تعلق مانا جائے تو وہ مجاز ہوگا، استعارہ نہ ہوگا۔
اس تعلق/قرینے کی تشریح یہ ہے کہ مستعار لہ اور مستعار منہ میں دو ذریعوں سے جوڑ/ربط قائم کیا جا سکتا ہے:
(۱) تشبیہِ عمومی (۲) نسبتِ عارضی
اول الذکر میں مستعار منہ لفظ میں ابدی طور پر موجود رہتا ہے، لیکن یا تو اس کے مفہوم میں داخل ہوتا ہے یا اس سے عارض (ظاہر ہونا) ہوتا ہے۔ بہادر آدمی ہو شیر کہا جائے تو وجہِ جامع بہادری ہوگی جو بہادر آدمی اور شیر دونوں کے مفہوم میں داخل نہیں بلکہ ان سے عارض ہے۔ لیکن اگر سیاہ چشم محبوب کو گلِ لالہ سے مستعار بنایا جائے تو سیاہ ہونا دونوں کی حقیقت میں داخل ہے۔
ثانی الذکر میں مستعار لہ اور مستعار منہ کے مابین تعلق دائمی نہیں رہتا بلکہ عارضی ہوتا ہے۔ یہ انھی الفاظ میں ہوتا ہے جہاں معنیٰ مستقل نہیں ہوتے بلکہ کسی خارجی عامل کی وجہ سے بدلتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے معنیٰ کا بدلنا لفظ کے مفہوم میں تبدیلی کو مستلزم ہے۔
یہ تو بہت بنیادی سطح پر استعارے کی گرہ کشائی کی کوشش کی ہے ورنہ بلاغت کی کتب میں استعارے کی درجنوں اقسام ہیں اسی طرح وجہِ جامع کی بھی کئی صورتیں ملتی ہیں۔ مثال کے طور بحر الفصاحت کے مصنف مولوی نجم الغنی رام پوری نے وجہِ جامع کی چار صورتیں لکھی ہیں۔ باقی مؤلفينِ کتبِ بلاغت کا اپنا اپنا انداز و اسلوب ہے۔
 

دائم جی

محفلین
سوال: ”بے پیندی کا لوٹا “ اس محاورے کے بارے میں تفصیل مطلوب ہے۔ (نادرؔ بھوپالی)
جواب: پیندا لوٹے کی اصل ہوتا ہے جس پر پورا لوٹا اپنا وجود کھڑا کرتا ہے۔ محاورے میں کسی شخص کو اگر یہ کہا جائے تو اس کے متعدد معانی ہوں گے جن کا مرکزی معنی ایک رہے گا۔
١: وہ آدمی جو روایت سے کُلی اختلاف کرے لیکن اس اختلاف کی وجہ سے اپنا وجود بھی متزلزل کرے
٢: اصول کا کچا آدمی، وہ آدمی جو اصولی نہ ہو بلکہ بے ڈھنگ زندگی گزارے
٣: بات سے پھر جانے والا، یعنی وہ جو اپنی ایک اصلی اصولی بات یا نظریہ یا اعتقاد نہ قائم کر سکے بلکہ وہ مسلسل تذبذب کی وجہ سے کبھی یہ کہے کبھی وہ کہے۔
٤: وہ آدمی جسے کوئی گھاس تک نہ ڈالے۔ یعنی جو اصل سے اس حد تک کٹ چکا ہو کہ اب اس کا اصل کی طرف مُڑنا بہت مشکل ہو اور تکلیف دہ ہو۔
ان تمام معانی میں جو ارتکازیتِ معنیٰ ہے؛ وہ یہ ہے کہ یہ محاورہ اس کے لیے بولا جائے گا جو اصل و اصول اور روایت سے جُدا اور بیزار ہوگا اور اس کے نتیجے میں اس کا اپنا وجود بھی متزلزل اور بے پائدار ہو جائے گا۔
 

دائم جی

محفلین
سوال: آپ اکثر احمد جاوید صاحب کا حوالہ دیتے ہیں۔ انھوں نے چند دن قبل ایک لیکچر میں کہا کہ نقش بندی صوفیا کے ہاں خرافات میں ابتلا کا مزاج 99 فیصد رچ بس گیا ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ مبالغہ آمیزی تو نہیں؟ حالانکہ سنجیدہ اہلِ علم کی جانب سے ان کے اس بیانیے پر شدید ردعمل آ رہا ہے۔ [سید اضرار حسین کاظمی]
جواب: میں اس کے جواب کو ایک مختصر مضمونچے کی شکل میں عرض کرتا ہوں۔ ملاحظہ ہو:
قضیۂ ”99 فیصد“ اور اُستاد کی بات
ممکن نہیں تخلیقِ خودی خانقہوں سے
اس شعلۂ نم خوردہ سے ٹوٹے گا شرر کیا!
اسلام کے خانقاہی نظام میں مرورِ زمانہ کے ساتھ متعدد خرابیوں نے اپنے پاؤں جما لیے ہیں۔ دو چہرگی اور رُوباہی طلسم نے صدیوں سے چلتے آ رہے صوفیانہ مزاجِ عبدیت کو جس شدت سے جکڑ رکھا ہے؛ دانش یاب ماہرین اس کا اظہار گاہے گاہے کرتے رہتے ہیں۔ بلاشبہ یہ علمی معاشرے پر ایک شدید فریضہ نما ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آب داری کے نام پر زنگ خوردہ نظام کو للکاریں اور اس میں ممکنہ اصلاحات پہ متعلقہ ذمہ داروں کو برانگیختہ کریں اور اس کا احساس دلائیں کہ یہ نظام ان اولیاے کاملین کا دست پروردہ ہے جنھوں نے تمام عمر دین و شریعت کے ساتھ وفا داری کی ہے اور وہ حقیقی معنوں میں خدا کے بندۂ مؤمن کی مثال تھے۔
قصہ مختصر! استاد محترم احمد جاوید صاحب نے چند دن قبل ایک لیکچر بہ عنوان ”میں نے تقویٰ کو مجسّم دیکھا“ ریکارڈ کروایا جس کا دورانیہ 51 منٹ اور 17 سیکنڈ تھا۔ تقوے کی مجسم صورت سے ان کی مراد ”شیخ وجیہ الدین مادر زاد ولی لکھنوی“ ہیں۔ بہرحال! لیکچر کے 38 منٹ مکمل ہوتے ہی استاد گرامی نے ایک حساس موضوع کی جانب اجمالی طور پر بھاگیں موڑیں اور ایک خاص صوفی سلسلے [نقش بندی] کی چند خرابیوں [یقینی طور پر مشاہدے کے بعد] کی نشاندہی فرمائی۔ اس لیکچر کے آخری حصے کا ایک بہت مختصر ٹکڑا سوشل میڈیا پر اِدھر اُدھر گردش کر رہا ہے جس میں استاد نے ایک جملہ بولا کہ: ”اکثریت سے میری مراد ہے 99 فیصد“
اس جملے کا سیاق و سباق معلوم کیے بغیر یار لوگوں نے یہ پخ نکال رکھی ہے کہ احمد جاوید نے ایک عظیم صوفی سلسلے کی گستاخی کر دی ہے۔ یہ کر دیا، وہ کر دیا........الخ۔
بات دراصل یوں ہے کہ استاد محترم نے سب سے پہلے عمومی طور پر جدید تصوف کے کار پردازوں کی چند خود دیدہ خرابیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پاکستانی نقش بندی سلسلے کے حوالے سے خاص طور پر جو باتیں کیں، اُن سے یقینی طور پر 100 فیصد اتفاق شاید نہ کیا جا سکتا ہو لیکن خود دیدہ حقائق پر جو جو انھوں نے کہا، اتنا مشاہدہ خانقاہی سلسلوں کے ناقدین، ان سے وابستہ لوگوں اور پیروں مریدوں کے احوال سے واقف لوگوں کو حاصل ہوتا ہی ہے۔ استاد گرامی کے جو جملے ممکنہ طور پر اس خاص گروہ یا اس کے متعلقین کو کھٹک سکتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
(۱) ”تصوف محض آئیڈیل نہیں ہے۔ تصوف بے آسرا ادارہ بن چکا ہے۔ سابقہ بزرگوں کے جمع شدہ جواہرات پر ڈاکوؤں نے حملہ کیا ہوا ہے۔“
عملی تصوف یا Doctoranal تصوف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے یہ بات کہی۔ اس سے ان کا مدعا ظاہر ہے کہ تصوف دکھاوے کی چیز رہ گیا ہے اور ایک کھوکھلے قالب کی شکل دھار چکا ہے جس کے اندر کا سرمایہ چور چُرا گئے ہوں۔
(۲) ”پیری مرید کلچر“
یہ خاص اصطلاح بھی عمومی اطلاق کی بجائے خصوصی تناظر میں کہی گئی ہے۔
(۳) ”ہم نے اپنے آپ کو اتنا گرا دیا ہے۔“
خود احتسابی کے ذکر سے یہ بات چلی جس میں استاد نے خود کو بھی شامل گنوانا۔
(۴) ”گھر پر بھوتوں کا سایہ ہوتا جا رہا ہے۔“
اس سے قبل فرمایا کہ نقش بندی سلسلے سے میرا گہرا تعلق ہے اور یہ خرابیاں گویا اب میرے گھر کی بات ہے۔
(۵) ”نقش بندی سلسلے میں خرابیاں داخل ہو گئی ہیں۔ إلا ما شاء اللہ“
جملے کی ساخت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان خرابیوں کے ذمہ دار یا اہل دار تمام کے تمام جدید صوفیائے نقش بندی سلسلہ نہیں ہیں بلکہ ان میں استثنا بہرحال موجود ہے۔
(۶) ”اصولی بات یہ ہے کہ نقش بندی سلسلہ اپنے مزاج میں اخفائے احوال کا سلسلہ ہے۔ یعنی عام آدمی کی طرح ہو کر رہو خاص الخاص باطنی احوال کے ساتھ، واردات کو چھپا کر۔ لیکن یہ اخفا جب اظہار میں بدلا تو گویا مزاج بدلا اور ذوق سے انحراف ہوا۔“
اخفائے حال سے وجد و تواجد کےا خفا سمیت ذکر، حال، واردات، وجودی اکتشافات وغيرہ سبھی کا اخفا مراد ہے۔ اور ہمارے مشاہدے میں ہے کہ وجد اور ذکر کے نام پر جو آوازیں اٹھتی ہیں اور زمین کانپتی ہے! الامان والحفیظ
(۷) ”شیخ اپنے آپ کو بہت ہی مبالغے کے ساتھ ایک بہت ہی پیغمبرانہ پوزیشن میں سمجھنے کا عادی ہو گیا ہے۔“
اس جملے کے معاً بعد کہا کہ: ان سے مراد صرف وہ ہیں جن کی میں بات کر رہا ہوں۔
(۸) ”مریدوں میں صحابیانہ پروٹوکول ہو گیا ہے۔“
مریدوں سے یہاں خلیفے اور پیروں کے قریبی چیلے مراد ہیں۔
(۹) ”دنیا داری آ گئی ہے۔“
(۱۰) ”پیری مریدی بھتہ خوری کی ایک قسم بن گئی ہے۔“
کھربوں روپوں اور ہزاروں مربعوں کے مالک پیرانِ ذی احتشام بھی جب تک غریب مریدوں سے نذرانہ نہ وصول کر لیں تب تک ان کا سونا گویا حرام ہوتا ہے۔ اور یہ بالکل عمومی مشاہدے کی بات ہے۔
(۱۱) ”شيوخ کا دعویٰ بڑھ گیا ہے۔“
دینی فتوحات اور دنیاوی رسائی کا دعویٰ مراد ہے۔
(۱۲) ”«توجہ» ایک جادوگری بن گئی ہے۔“
«توجہ» خالص صوفیانہ ڈسکورس کی اصطلاح ہے۔ یعنی اپنے قلب کی شکتی کو دوسرے کے قلب پر ڈالنا اور اُسے اپنے بَس میں کر لینا۔ ظاہر ہے کہ یہ اگر مخصوص عمل ایک مستقل فنّ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے تو یہ ساحری نہیں تو کیا ہے!
(۱۳) ”لطائف اور توجہ میں جسمی مادیت کا تصور اور دھیان بڑھ چکا ہے۔“
«توجہ» کے ضمن میں یہ بات استاد محترم نے کہی کہ جسمانی توجہ اب قلبی توجہ کے نام پر چلتی ہے۔ جب ایک مؤنث کے قلب کو اپنے بس میں کیا جانے کا عمل ہوتا ہے تو توجہ اور دھیان عورت کے مادی وجود پر بھی جاتا ہے جس کے ابلیسی مضرات سے کون واقف نہیں ہے!
(۱۴) ”اکثریت سے مراد 99 فیصد“
مندرجہ بالا خرابیوں کے حامل پاکستانی نقش بندی مشائج کا حال یہ ہے کہ ان کی اکثریت اسی خرابی میں مبتلا ہے۔ اکثریت سے مراد ننانوے فیصد ہے۔ استاد محترم کے اسی جملے کو مبالغہ آمیز اور مزید نجانے کیا کیا کچھ کہا گیا۔ بات دراصل یہ ہے کہ ننانوے فیصد کا لفظ ہو یا اس جیسے دیگر الفاظ، عموماً یہ کثرتِ تعدادی یا احوالی بیان کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔
(۱۵) ”اکثریت طالبِ جاہ، طالبِ مال ہے، اور اداکار ہے۔“
(۱۶) ”لفظوں میں عاجز و مسکین و حقیر و فقیر کہنا، لیکن مزاج میں اکڑ اور انسان گریزی ان کا مستقل شعار بن گیا ہے۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مندرجہ بالا جملوں کے علاوہ انھوں نے بجا طور پر ٹھیک لوگوں کی تعریف بھی کی ہے اور واضح طور پر مثالیں بھی دی ہیں۔ مثلاً اس جہت سے ان کے دو جملے دیکھیں:
”ناصر الدین خاکوانی مثالی شیخ ہیں۔ سلف کے ذوق اور روایت پر ہے۔“ کچھ جملوں کے بعد ”اور بھی ہوں گے جن کو میں نہیں جانتا۔“
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ استاد محترم جناب احمد جاوید کی باتیں ہمارے مسلمہ اور مجموعی بگاڑ یافتہ معاشرے کے لیے چونکہ بطورِ طمانچہ ہیں؛ اس لیے اکثر کو یہ تکلیف ضرور دے رہی ہے۔ حقائق کو سمجھنے کی دانش مندی کھو دی جائے تو سچ بھی کڑوا لگنے لگتا ہے۔ آخر پہ استاد گرامی ہی کے الفاظ میں یہ دعا کرتا ہوں کہ: ”انتہائی ابلیسی مزاج اور عادتوں سے اللہ ہم سب کو محفوظ فرمائے۔“
اللہ پاک استاد کی حفاظت فرمائے؛ کیوں کہ اُنھیں یہ اندیشہ ہو یا نہ ہو، ان کے چاہنے والوں کو ضرور ہے کہ:
حریف اپنا سمجھ رہے ہیں مجھے خدایانِ خانقاہی
انھیں یہ ڈر ہے کہ میرے نالوں سے شق نہ ہو سنگِ آستانہ
 

دائم جی

محفلین
السلام علیکم۔ صاحبانِ علم و ادراک! شاہین عباس کے اس شعر کا مفہوم کیا ہو گا۔ میں اسے جہاں تک سمجھا ہوں کہ یہاں انسان خدا سے مخاطب ہے۔ بہرحال برائے تسکین آپ کی آراء کا انتظار رہے گا۔ (ہاشم بلال)
میں کہ تیرا تیسرا غم ہوں سو یہ غم بھی تو کر
تُو کہ بس ہونے نا ہونے پر مَرا جاتا ہے کیا!
جواب: جناب ہاشم بلال! آپ کا خیال درست ہے کہ خطاب خدا کی طرف ہی معلوم ہوتا ہے۔ البتہ ہم اگر نصابی سطح سے ذرا اوپر اُٹھ کر اسے سمجھیں تو ہمیں شاعر کے عندیے میں ایک ایسا فلسفہ دکھائی دیتا ہے جو ”انسان مرکز“ ہے۔ اس کی رُو سے وجود و عدم یا حيات و موت کے علاوہ جو اس دُنیا کا برزخ ہے، اس برزخ میں اپنا وجود رکھنے والا ایک بھی ہے انسان جو خدا کی سوچی سمجھی سکیم کا نتیجہ ہے، اس کی اہمیت خود خالق کو بھی سمجھنا چاہیے۔
شعر میں ”غم کر“ کا مقصد یہ ہے کہ میرے بارے بھی سوچ، میرے دکھ درد کو بھی سُن، میرے مسائل کا حل بھی نکال، وغیرہ وغیرہ۔ اس شعر میں متکلم کا صیغہ ”میں“ ایک اجتماعی آواز ہے جو فردِ واحد کی زبان سے ادا ہو رہی ہے۔ اس اجتماعی آواز کو فرد کی آواز بنانے میں یہ نکتہ ہے کہ خدا سے شکوہ اجتماعی آواز میں نہیں کیا جا سکتا؛ کیوں کہ انسان کا عمومی اور اجتماعی مزاج انکسار اور غلامانہ ہے؛ جبکہ فردِ واحد کی آواز للکار اور شکوہ، وہ بھی خاکم بدَہن اللہ سے شکوہ کی آواز ہے۔ متکلم کے صیغے میں زور اور مرکزیت بھی ہوتی ہے جو شکوے کا بنیادی تقاضا ہے۔ اس لیے اسے ہی اختیار کیا گیا۔
شعر کا اسلوب بہت نُدرت لیے ہوئے ہے اور اس شعر میں ”غم“ بہت بنیادی لفظ ہے جس کی معمولی سی تشریح راقم الحروف نے اوپر عرض کی ہے۔ اسی لفظ کو معنی آفرینی کے اصول پر پھیلائیں تو ہمیں اس ایک شعر سے ایک جہانِ معنی ابھرتا ہوا دکھائی دے گا۔ بلاشبہ ایک زندہ شعر ہے۔
 

دائم جی

محفلین
سوال: میرؔ کے اس شعر کا مفہوم واضح کر دیں۔ [ہاشم بلال]
ہیں مستحیلِ خاک سے اجزائے نو خطاں
کیا سہل ہے زمیں سے نکلنا نبات کا
جواب: اس شعر میں مرکزی لفظ ”مستحیل“ ہے۔ عربی میں مصدر ”استحالہ“ آتا ہے۔ اس سے فعل ”استحال الشئ“ نکلتا ہے۔ اس سے مراد ہے: ”تحول من حال إلى حال“ یعنی ایک حالت سے دوسری حالت میں بدلنا۔ اور یہ بدلنا بمنزلہٖ ترقی اور عروج کے ہوگا نہ کہ تبدُّلِ مساوی۔
اب شعر دیکھیے کہ:
خاک کے ایک حالت سے دوسری حالت [محض مٹی سے جسم بننا] میں بدلنے سے مختلف قسم کی چیزیں نمودار ہوتی ہے۔ ”اجزائے نوخطاں“ سے مراد تازہ کونپلیں۔ آگے ”نبات“ بمعنی پودا یا سبزہ سے اسی جانب اشارہ ہے۔
میرؔ دراصل انسان یا کائنات میں کسی بھی چیز کو محض خودکار طریقے سے وجود پاتا ہوا نہیں سمجھتے، بلکہ اس کے پیچھے صدیوں کے ایک تخلیقی عمل کے قائل ہیں۔ اُنھی کا ایک شعر ہے:
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
میں سمجھتا ہوں کہ ان دونوں شعروں کو آپس میں جوڑ کر پڑھیں تو آپ پر تخلیقی عمل کی حيرت ناکی اور تسلسل نظر آئے گا۔ نیز اس سے خاک (من حیث الاصل) کی عظمت بھی واضح ہوگی۔ میر کی یہی ”خاکیت“ ان کے کئی شعروں میں ایک عمومی مزاج کی طرح وارد ہوتی ہے۔
 

دائم جی

محفلین
”انسان کو تھوڑا بہت مایوس ہونا چاہیے۔ تاکہ اس کا انسان ہونا اس پر ظاہر ہو۔ خدا کی بڑائی تبھی کھلتی ہے جب انسان کی بے اختیاری ظاہر ہوتی ہے۔ اور ہاں! یہ جو مایوسی کو گناہ کہا جاتا ہے ، تو وہ اُس صورت میں ہے کہ جب اس مایوسی سے قلب اور عقیدے میں خدا کی رحمت کی نفی ہو رہی ہو۔ لیکن جو مایوسی خدا کی عظمت کا دھیان دلائے۔ کیا وہ بھی گناہ ہے ؟ نہیں! وہ انعام ہے ، دولت ہے۔ تو مایوس ہوا کر وصاحبو !“
حوالہ: "الف کی رمز"، حضرت غبار کا شامیری، ص 150
آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟
جواب:غبار صاحب کی اس بات میں. ذرا بے باک انداز اپنایا گیا ہے لیکن میں اس کی تائید اس معنی میں کرتا ہوں کہ اس میں لفظِ.”مایوسی“ کو ”بے اختیاری“ کا ایک خود شعوری احساس کہا جائے جو یہ باور کروائے کہ انسان من حيث المجموع امورِ تکوینیہ (تخلیق اور ماورائے تخلیق مسائل) میں مجموعی طور پر بے اختیار ہے۔ اور یہ بے اختیار ہونا ہی انسان کو مخلوق قرار دیتا ہے۔ خالق اور مخلوق میں یہی فرق ہے جو بعض اساطیری کرداروں سے ہمارے علم البشریات والے انسان کو ممتاز کرتا ہے جو کردار الوہی خصوصیات کے حامل بن جاتے ہیں اور (اگرچہ کہانیاں اور اسطوری معتقدے ہوں) ایک قسم کی بے نیازی اور امورِ تکوینیہ میں شراکت جیسے افعال و اوصاف ان سے متعلق کر دیے جاتے ہیں جو بعض مذاہب میں ہمارے چلتے پھرتے انسان کے لیے کوئی اعتقادی اصول بن کر ان کے لیے الوہی اوصاف کو معاشرے کے مجموعی احساس اور افتقاد میں ضم کر دیا جاتا ہےامثلاً ہندو ازم میں ایسے مذہبی کرداروں کی ایک طویل فہرست ہے۔ اسلام میں انبیاء سے متعلق بالخصوص نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی الوہی امور کو مکمل طور پر متعلق کرکے امورِ تکوینیہ کا مالک و مختار سمجھا جاتا ہے، یہ ایک مذموم اور غیر انسانی فعل ہے۔ البتہ اس نظریے سے مدارج کا اعتبار اور استقرار کرتے ہوئے مذہبی کرداروں کو احترام اور عزت کا مقام دینے کی نفی مستلزم نہیں ہوتی۔
بات کر رہا تھا کہ اساطیری کرداروں کے زیرِ اثر ہمارے اصلی انسان میں ایسی صفات وابستہ کر لی جاتی ہیں جن سے انسان کی بے اختیاریت (جو کہ انسان کی خوبی ہے) کھو جاتی ہے اور وہ ہمارے اعتقاد کے ایک ایسے کردار کی طرح نمودار ہوتے ہیں جو غیر انسانی ہوتے ہیں۔ اس لیے غبار صاحب کا یہ کہنا کہ”مایوس ہونا چاہیے“ درست ہے۔ کیوں کہ بے اختیاری کا ایسا خود شعوری احساس انسان کے لیے بہت ضروری ہے جس سے اس کے اندر خالق و مالک کی ہیبت اور جلالت کا احساس زور آور اثر کے طور پر جاگے۔ یہ مایوسی رحمت کا متضاد نہیں ہے بلکہ یہ مایوسی بے اختیاری کے خود شعوری احساس کا مترادف ہے۔ اس تناظر میں مندرجہ اقتباس اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جانچا جائے تو کسی بھی صورت مضر نہیں ٹھہرتا۔
 

دائم جی

محفلین
سوال: عاجز کمال رانا کے ان دو شعروں کی تشریح درکار ہے: [سائل: صفدر محمود عباسی]
اسلام کی تبلیغ کرو کھل کے جہاں میں
اللہ نے کہا یا مرے فاروق نے آ کر
ورنہ تو ادا ہوتی تھیں چھپ چھپ کے نمازیں
ماحول بنایا مرے فاروق نے آ کر
جواب:مولانا صفدر محمود عباسی صاحب!
آپ نے تشریح طلب کی تو حاضر ہے چند جملوں میں مختصر تشریح!
شعر اول: سورۃ المدثر کی ابتدائی آیات میں ”قُم فانذر، و ربک فکبر“ کی تفسیر میں علما نے لکھا ہے کہ اس سے مراد علی الاعلان اسلام کی تبلیغ کا حکم تھا۔ قُم بمعنی کھڑے ہو جائے، تیار ہو جاؤ، منضبط ہو جاؤ، اعلانیہ طور پر تبلیغ شروع کر دو۔ یہ سب معانی اس لفظ میں متضمن ہیں۔
بعض سیرت کی کتب میں مندرجہ بالا آیات کے علاوہ اسلام کی اعلانیہ تبلیغ کو ایک دوسری آیت سے مستدل کرتے ہیں۔ یعنی تاریخ اسلام کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بعثت کے تیسرے سال اس دعوت کا حکم ہوا کیونکہ اب تک آپ کی دعوت مخفی طور پر جاری تھی اور اس مدت میں بہت کم لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی ”و انذر عشیرتک الأقربین“ اور یہ آیت بھی ”فاصدع بما تومروا عرض عن المشرکین“ تو آپ کھلم کھلا دعوت دینے پر مامور ہو گئے۔ اس کی ابتدا اپنے قریبی رشتہ داروں سے کرنے کا حکم ہوا۔
دوسری چیز دوسرے مصرعے میں ”یا“ کا لفظ شاید آپ کو تردد کا لگے، لیکن سچ یہ ہے کہ یہ بمعنیٰ ”اور“ یعنی عطفِِ مجتمع کے لیے مستعمل ہوا ہے۔ اس کی مثالیں اساتذہ کے ہاں تلاش کرنے پر مل سکتی ہیں۔ اس وضاحت کے بعد آپ تک شعر کی تفہیم ہو گئی ہوگی۔
شعر دوم: یہ شعر ایک خاص پس منظر رکھتا ہے جب لوگ چھپ کر نماز ادا کرتے تھے۔ دار ارقم کو پہلا اسلامی مدرسہ یا پہلی مسلم جامعہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ گھر ارقم بن ابی الارقم مخزومی کا تھا جو مشرکین کی نگاہوں اور مجلسوں سے الگ تھلگ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا اور اس کے بعد مذکورہ ماحول کو بدلا اور اعلامیہ نماز پڑھی جانے لگی۔ یہ نماز پنج وقتی نماز نہیں تھی بلکہ واقعہ معراج سے قبل صرف دو نمازیں تھیں، ایک سورج نکلنے سے پہلے یعنی فجر اور دوسری سورج غروب ہونے سے پہلے یعنی عصر، جبکہ معراج کے موقع پر پانچ نمازیں فرض ہوئیں، اور معراج کے سلسلے میں اتنی بات پر اتفاق ہے کہ نبوت ملنے کے بعد اور ہجرت سے ایک سال پہلے ہوئی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اعلانِ نبوت کے چھے سال بعد اسلام قبول کیا اور معراج النبی نبوت کے بارھویں سال ہوئی۔ اس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جس نماز کو اعلانیہ پڑھنے کا ماحول بنایا؛ وہ معراج سے قبل کی دو نمازیں تھیں۔ یہ دو نمازیں فرض تھیں یا واجب؟ یہ الگ موضوع ہے۔ جیسا کہ اسلام میں رمضان میں روزوں کی فرضیت سے قبل ہر ماہ تین روزے واجب ہوتے تھے۔ وغیرہ
اس تفصیل سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اعلانیہ نماز کو پڑھوانے کا واقعہ ان کے ایمان کے ساتھ ہی پیش آیا جبکہ نبوت کا ساتواں سال تھا۔
۔۔۔۔۔
جی مولانا صاحب! اب بھی کوئی اشکال ہے تو بتائیں؟ میں نے شعری، فنی اور بلاغی پہلوؤں کو جان بوجھ کر نہیں چھیڑا؛ کیوں کہ ممکن ہے وہ آپ کی ڈومین نہ ہو۔
آپ کی تسلی کے لیے عرض ہے کہ یہ قطعہ نما دو شعر مکمل باوزن ہیں۔ اسلوب و فن میں بھی مکمل ہیں اور شعری نزاکتوں سے بھی بھرپور ہیں۔
 

دائم جی

محفلین
سوال: تاریخ ہند میں شاعری کا جنازہ کب اور کیوں نکلا؟
جواب: بین السطور شاید بنیادی سوال یہ ہے کہ برصغیر میں شاعری کی ایک روشن اور تابناک روایت رہی ہے۔ لیکن فکری سطح پر وہ "بڑا پن" مفقود ہے جس کی بنیاد پر ہم کسی بھی شاعری یا شاعر کو بڑا کہتے ہیں۔ لیکن اس سوال سے قبل یہ دو قضیے حل طلب ہیں کہ
(۱) بڑائی کے اسباب کیا ہوتے ہیں؟
(۲) بڑائی کو کوئی بھی شاعر کیسے Achieve کرتا ہے؟
میرے خیال میں بڑائی کے اسباب میں پہلی چیز اپنی تہذیب کے تمام فکری و اجتماعی معتقدات سے مناسبت ہے۔ کچھ علامتیں سیاسی و معاشرتی سطح سے بہت اوپر تہذیبی قدروں سے جُڑی ہوتی ہیں۔ ان قدروں سے تعلق مضبوط رکھنا اور اس کی مقتضیات سے اپنے فکر و خیال کو ثروت مند رکھنا بڑائی کے بنیادی اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ ان قدروں میں زبان، مذہبی شعور، علم البشریات اور دیگر کئی چیزیں آ جاتی ہیں۔ زبان دانی میں ہمارے یہاں اردو کے سبھی بڑے شعرا زبان گر لوگ تھے۔ احمد جاوید صاحب نے سوداؔ کے بارے میں کہا تھا کہ ”لغت ایسے شاعروں کی دست نگر ہوتی ہے؛ یہ شاعر لغت کے دائرے کے اندر کے تالاب کے تیراک نہیں ہوتے“ تو بڑا شاعر سب سے پہلے اپنی زبان پر نہ صرف محاکمانہ مہارت رکھتا ہے بلکہ وہ زبان بناتا ہے۔ اس سلسلے میں میرؔ اور انیسؔ اردو زبان زبان دانی کے سب سے بڑے ناموں میں سے ہیں۔ جیسی زبان انیسؔ کو آتی ہے؛ میرا دل کہتا ہے ویسی زبان میرؔ کو بھی نہیں آتی۔ تو خیر! یہ جملہ معترضہ ہے۔
بڑائی کے اسباب میں بنیادی سبب چند عناصر پر مشتمل ہے؛ ان عناصر میں زبان دانی پہلا عنصر ہے۔
ہمارے آج کے شاعر کو زبان کی مبادی ہی سے واقفیت نہیں؛ زبان گر کیسے ہو سکتا ہے؟ نتیجہ: کمزور اور جُز وقتی شاعری جنم لیتی ہے اس کی وجہ تلاشی چاہیے۔ میرے خیال میں استعمار نے ہمیں اپنی زبان سے تو محروم کیا ہی؛ ہماری شعری جمالیات اور تہذیبی اعتقادات سے بھی یکسر بے تعلق کر دیا۔
بڑائی کے اسباب میں زبان کے بعد دوسری چیز مذہبی شعور ہے۔
ممکن ہے کوئی کہے کہ ”اجی! یہ مذہب اور ادب کا کوئی سنجوگ نظر نہیں آتا“ تو عرض ہے کہ دنیا کی ہر بڑی شاعری کو مذہبی فکریات کی کمک حاصل رہی ہے۔ اس سلسلے میں اقبال، گوئٹے، رومی، عطار، وغیرہ کے نام ہماری مشرقی تہذیب میں لیے جا سکتے ہیں۔ مغربی تہذیب میں بھی ایسے شعرا و ادباء اسی تناسب سے بلکہ اس سے بڑھ کر ہیں۔
میرے خیال میں مذہب کو ادب میں ثابت کرنے کے لیے مروجہ دلائل سے کام لینا ذرا عامیانہ سطح ہے بات کو سمجھنے کی۔
ذرا گہرائی میں جائیں تو ہمارا ذوقِ جمال زندگی کی ہر جہت سے مفقود ہو گیا ہے۔ اور ہم کسی کا ذوقِ جمال ادھار لے کر اس پر قبضہ جمانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ نہ خدا ہی ملا نہ...... والی بات ہے۔ شمس الرحمن فاروقی مرحوم نے میرؔ کو مشرقی شعریات کی روشنی میں سمجھا اور سمجھایا۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ میر کی شاعری جس شعری تہذیب کی پروردہ ہے؛ اسی شعری تہذیب کی شعریات کی روشنی میں میرؔ کو سمجھنا سودمند رہے گا۔ باقی مغربی حوالے تو فاروقی نے تائیداً یا تقابلاً لیے ہیں۔
بڑے شاعر کی تفہیم تبھی ممکن ہے کہ اس کی تخلیق کی متعلقہ تہذیبی روایت کو متن سے متلازم کرکے تفہیم کاری کی جائے۔
بات بڑائی کے اسباب سے چل نکلی۔ ابتداءاً سوال کیا گیا کہ برصغیر میں شاعری کا جنازہ کب اور کیوں نکلا؟ اس کے جواب کے سلسلے میں پہلی چیز جو شاعری سے رفتہ رفتہ مفقود ہوتی گئی؛ وہ ”بڑا پن“ ہے۔ یہ بڑا پن فکر و فن دونوں سطحوں پر ناپید ہوا۔ ناصرؔ کاظمی وغیرہ لوگوں نے اس گرتی دیوار کو ایک بار تھام لیا اور اس پر ایک مستقبل دیوار تعمیر کی جو پون صدی ہو چکی اپنے آثار محفوظ رکھتی ہے۔ البتہ موجودہ شاعری کی درماندگی کا سفر سوشل میڈیائی دور سے شروع ہوتا ہے اور تفریحی نوعیت کے مشاعروں سے ہوتا ہوا آج پاک و ہند کی گلی کوچوں تک آ چکا ہے۔ اس کے اسباب وہی ہیں جو ہم سب کے مشاہدے ہیں ہیں۔ یعنی:
1۔ داد و تحسین (بلکہ تفہیمِ سخن) میں بے راہ روی اور لفظ و معنی کی یکجائی سے محرومیت
2۔ طرحی مشاعروں کی بھرمار
3۔ شاعری شخصی عظمت کا سبب بن جانا (طوعاً و کرہاً)
4۔ نظامِ بلاغت سے جزوی معلومات کا بھی نہ ہونا
5۔ ذوقِ جمال کا غير تربیت یافتہ ہونا
6۔ کسی نئی فکریات کا ارتقا نہ ہونا
یہ سوال کا ذرا اجمالی جواب ہے۔ ورنہ اس موضوع پر تفصیل سے کام لیا جائے تو بات بہت پھیل جائے گی۔ اس لیے اسے فی الحال اتنا ہی سمجھیے۔
 

دائم جی

محفلین
سوال: شاعری سیکھنے کے لیے چند باتیں جاننا ضروری ہیں، وہ چند باتیں کیا ہیں؟ [علی عامر]
جواب: شاعری سیکھنا اور فنّ شاعری سیکھنا دو جدا چیزیں ہیں۔ بعض مبتدی ان میں خلط ملط کر جاتے ہیں۔ شاعری من حیث الکل کوئی سیکھنے کی چیز تو نہیں ہے لیکن طبیعت کا میلان شعروں کی جانب ہو تو اولاً فنّ شاعری کا سیکھنا ضروری ہے۔ ضروری اس لیے کہہ رہا ہوں تاکہ حسنِ تخیل کا حسنِ اظہار ممکن ہو سکے۔
شاعری (یعنی شعر کہنا) سیکھنے کے لیے چند باتیں بہت اہم ہیں جن کی طرف میں اشارہ کروں گا۔

(۱) مطالعہ: مفید شعور ہمیشہ اکتسابی ہوتا ہے۔ پوری انسانی علم کی روایت میں یہ کلیہ اب تک کسی بھی فلسفی نے نہیں جھٹلایا کہ مفید شعور ہمیشہ اکتسابی ہوتا ہے۔ اکتساب کی بھی اپنی روایت ہے۔ مثلاً
[الف] سینہ بہ سینہ اکتساب
[ب] کتابوں اور متنی مواد سے اکتساب
[ج] خود شعوری اکتساب
میں اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔ البتہ اختصار کے ساتھ آپ یہ سمجھیں کہ مطالعہ کا لفظ اپنے اندر کتابوں کی قرات کا معنی رکھتا ہے۔ لیکن اس میں آپ سینہ بہ سینہ روایات کو بھی شامل کریں۔ اور چیزوں کے بارے میں حکم لگانے یا اُن کا باہمی تعلق دریافت کرنے کا خودشعوری اکتساب بھی اسی ذیل میں رکھا جا سکتا ہے۔
مطالعہ ایک دریا ہے جیسے دریا میں آبِ زلال کی نہریں بھی جا کر ملتی ہیں اور آبِ شور بھی سر پٹختا ہوا وہیں پہ آ کر رُکتا ہے۔ مطالعے میں ہم نے ایک کام کرنا ہے کہ دریا سے شفاف پانی کے قطرات کو کشید کر لینا ہے۔ یعنی رطب و یابس میں سے صرف قیمتی بات چُن لینی ہے۔ یہ مطالعے کا اُصول تو نہیں؛ لیکن ایک منہج ضرور ہے جو شعور کی تربیت کرتا ہے۔
مطالعہ متنوع موضوعات کا ہو سکتا ہے۔ بلکہ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ شاعر کا مطالعہ خدا کی ذات سے لے کر ریت کے ذرے تک تمام بڑی بڑی حقیقتوں کو محیط ہونا چاہیے۔ کیوں کہ شاعر کا شعور اپنی ابتدائی تربیت میں چیزوں کے بارے میں بنیادی علم یا ان کی فعالیت کے احوال سے حاصل ہونے والی کیفیت ہی کو اپنے منطقی حافظے میں جگہ دیتا ہے۔
مطالعہ پھر مختلف قسم کا ہو سکتا ہے۔
[الف] مختص مطالعہ؛ یعنی نصابی
[ب] غير مختص مطالعہ؛ یعنی غیر نصابی
نصاب سے مراد یہاں کسی جامعہ کا نصاب نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ہماری شعری روایت میں پڑھی پڑھائی جانے والی رموز و فنون کی کتب ہیں۔
شاعر کے لیے ذہنی تربیت کے مدارج کا لحاظ رکھتے ہوئے دونوں مدارج کے مطالعے ضروری ہیں لیکن دوسرا مطالعہ چونکہ ایک آزاد اور کھُلا ہوا تناظر پیدا کرتا ہے اس لیے شاعر کے لیے دوسرے درجے کا مطالعہ اس قدر ضروری ہے کہ اس کے بغیر اس کا مضمون یا خیال کو وجود دینا بھی کسی غیر منطقی عجوبے کا ڈھیر ہو سکتا ہے؛ شاعری نہیں ہو سکتی۔
تو خیر، یہ مطالعہ شاعری سیکھنے/کرنے والے کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے۔

(۲) ادراک کی قوت: دوسری چیز Ability of Perception ہے۔ یہ کیا ہوتی ہے؟ اس پر اجمالاً عرض کروں کہ ہماری اس پھیلی ہوئی کائنات میں جتنے میں عناصر ہیں؛ اُن کے مابین تعلق، مناسبت اور باہمی جدلیاتی نسبت کو دریافت کرنے کی قوت جب تک نہ ہو ہم اپنے شعوری معتقدے میں کسی بھی تربیت یافتہ خیال کو وجود ہی نہیں بخش سکتے۔ اس کے بغیر ہماری عقل بانجھ ہے، بے فائدہ ہے۔ عناصر سے میری مراد عناصرِ اربعہ نہیں ہے بلکہ یہ وہ لاکھوں کروڑوں جُزئیاں ہیں جو مل کر ایک انسانی کائنات کا کُل بناتی ہیں جس میں خدا بھی شامل ہے اور انسان اپنی تمام تر عقلی، انفسی اور آفاقی نسبتوں کے ساتھ موجود ہے۔ ان مرکزی جُزئیوں؛ مثلاً انسان، ماحول، تغیرات، تقدیر، شعور، خدا، انفُس، تعینات، بشریت اور روح وغیرہ سے متعلق ہمارے ادراک کا حاسہ کس نوع کا نتیجہ ہمیں ارسال کرتا ہے؟ اس سے ہم ادراک کی قوت کا تخمینہ لگا سکتے ہیں۔ تو اس معنی میں ادراک کی قوت عقل کے بغیر ممکن نہیں ہے بلکہ عقل کی کمک کے بغیر خود اس حاسے کا وجود موہوم ہو جاتا ہے۔ شاعری کا بنیادی سبب ادراک کی اپیل ہے۔ ورنہ تو شاعری کا وجود کیا ہے؟
(۳) مشاہدے کی جہات: شاعری کے لیے تیسری چیز مشاہدے کا وسیع ہونا ہے۔ شاعر کا تخیل مشاہدے کی کمک ہی میں عناصرِ تخيل کے مابین کوئی نسبت قائم کر سکتا ہے۔ اگر مشاہدہ معدوم ہو یا بے معنی ہو تو اس سے تخیل کی ساخت پر اثر مرتب ہوتا ہے۔ مشاہدہ اشیا سے ہمیں جوڑتا ہے۔ ہماری تخيل کے بنے ہوئے غیر مشاہداتی سانچوں کی Rechecking کرکے اُس پر Reality کا غازہ مَلتا ہے جس سے تخیل کی چمک اور کشش میں اضافہ پیدا ہوتا ہے۔ اس معنی میں مشاہدہ نہ صرف شاعر کے لیے مفید ہے بلکہ اس کی بنیادی ضرورت ہے۔
(۴) فہم کی قابلیت: چوتھی چیز فہم کا فعال ہونا۔ فہم دراصل متکلم کے ابلاغ کا غیر مرئی ردعمل ہوتا ہے۔ فہم ہمارے قلب میں وہ تیقین پیدا کرتا ہے جس کی بدولت شعور کو ایک روحانی تقویت موصول ہوتی ہے۔ اور شے پر کسی حکم کے اطلاق کا تعین اضطراری نہیں رہتا بلکہ بدیہی ہو جاتا ہے۔ اس سے بڑھ کر فہم کا بھلا کوئی فائدہ ہے؟
فہم شعور کے حاصلات پر بھی منطبق ہوتا ہے اور ادراک کی ابتدائی سطح پر بھی؛ جہاں چیزوں کے مابین تعلق کی مختلف جہات کو دریافت کرنے کے سفر میں ادراک سَستا رہا ہوتا ہے اور فہم کی تحویل میں جو شعور کے حاصلات ہوں گے اُن کا ہمارے علم اور حافظے میں قائم ہو جانا ہماری نہ صرف شعوری تربیت کا سبب بنتا ہے بلکہ ہماری انفسی ساخت میں بھی اصلاح نافذ کر لیتا ہے۔ اس لیے شاعری کے لیے فہم کی قابلیت کا ذہنی فیکلٹی میں سما جانا ازحد ضروری ہے۔

(۵) حافظہ اور روایت: شاعری خود ایک روایت ہے اس لیے اس میں تسلسل بدیہی ہے۔
یہ ہم جانتے ہیں کہ شاعری استعاروں اور تشبیہات کے پورے نظام سے چلتی ہے۔ اور ہماری روایت جن بنیادی علامتوں (یاد رہے کہ علامت استعارے کی اساس ہی پر قائم ہوتی ہے، استعارہ باطل کر دیں تو علامت باطل ہو جاتی ہے) پر مشتمل ہے؛ ان سے آگاہی حاصل کیے بغیر ہمارے شعور کا معتقدہ اپنی روایت دے اکتساب نہیں کر سکتا۔ یہاں میں نے لفظِ ”حافظہ“ استعمال کیا، اس سے فردی حافظہ مراد نہیں ہے بلکہ پوری روایت کے مجموعی شعور سے حاصل ہونے والی وہ وحدت مراد ہے جو اپنے اندر روایتی انسلاکات کا پورا نظام محفوظ رکھتی ہے۔ اس معنی میں حافظہ اور روایت باہم مترادف ہیں۔ شاعری سیکھنے/کرنے کے لیے اپنی روایت سے تعلق (چاہے عقیدت کا ہو چاہے بیزاری کا) البتہ ضروری ہے تاکہ ہمارے جدید شعری نظامِ فکر کو ایک مناسبت مل سکے۔

(۶) اشیاء کے مابین نسبت دینا: پوری کائنات ایک کُل کے تحت ہے۔ یہ کُل اپنے اندر لاکھوں کروڑوں جُزئیاں رکھتا ہے جیسا کہ پہلے ذکر ہوا۔ ان جُزئیوں میں سے چند جُزئیوں کا باہمی تعلق اس طرح دریافت کرنا کہ اُن میں ایک مسلسل یا اضطراری حکم لگ سکے۔ یہ حُکم فطرت کا بھی ہو سکتا ہے اور ہمارے شعور کا فرض کردہ بھی۔ چیزوں کے مابین نسبت دینے کا کام بظاہر بہت معمولی لگتا ہے لیکن بہت درّاکی کا کام ہے۔ لفظ کی مناسبتوں کا خیال رکھنا، اس کے لفظی و معنوی تلازمات کا ایک ذہنی جدول بنانا، معنی کی مختلف تہوں اور ہر تِہ کی درجہ بندی میں متعلقہ معانی کا باہمی مربوط ہونا وغیرہ، یہ سب چیزیں تب تک نہیں کی جا سکتیں جب تک ہم اشیا کے مابین نسبت دینے کا ملکہ یا شعور نہ پیدا کر لیں۔
شعر کہنے کے لیے ایک مستقل ریاضت کی ضرورت ہے اور یہ یک مُشت اُٹھا کر منھ میں پھینک دی جانے والی کوئی پھکّی نہیں ہے بلکہ ایک تسلسل سے لی جانے والی اکسیر ہے۔
مندرجہ بالا نکات پر ترتیب وار عمل کرنا ایک اچھے شاعر کو وجود بخشے گا۔ اِن شاء الله
 

دائم جی

محفلین
سوال (از: نامعلوم) کچھ دنوں قبل اسی بزم (سخن دان واٹس ایپ گروپ) پر لفظ ”پیالہ“ کے عروضی وزن کے متعلق گفتگو ہوئی تھی، جس کا آغاز محترم احمد صفی صاحب کے ایک فی البدیہ شعر کی وجہ سے ہوا تھا، اس شعر میں انھوں نے لفظ ”پیالہ“ کو فعلن کے وزن پر باندھا تھا، جس پر فرحت سعیدی صاحب نے اعتراض کیا تو راقم الحروف نے احمد صاحب کا ساتھ دیا اور عرض کیا کہ اس کو فعلن پر باندھنا بھی درست ہونا چاہیے۔ اس پر بزم میں یعقوب آسی صاحب کو شامل کیا گیا، اور انھوں نے فرحت صاحب کے حق میں بلا دلیل ووٹ دیا۔ بزم کے ایک اور شریک دائمؔ صاحب نے فرمایا کہ فعلن بھی درست ہے۔لیکن سچ یہ ہے کہ کوئی اصولی بات سامنے نہ آ سکی، اور سوال (کم از کم میرے ذہن میں) جوں کا توں رہا۔
گذشتہ کل بروز منگل میری ماہرِ عروض اور معروف شاعر آفتاب مضطر صاحب سے فون پر بات ہوئی تو راقم نے یہ سوال ان کے سامنے رکھا، اور ان کے جواب اور بتائے گئے اصول سے راقم کو اطمینان ہوگیا کہ لفظ ”پیالہ“ کا وزن فعولن درست ہے، فعلن نہیں۔ اور اس باب میں میری راے غلط تھی۔ وجہ یہ بیان فرمائی کہ یاے مخلوط (جیسے کیا، کیوں، پیار، پیاس میں، کیوں کہ یہ تقطیع میں گر جاتی ہے) کا وجود ہندی/ اردو میں ہے، عربی اور فارسی زبان میں نہیں ہے۔ لہٰذا جن الفاظ کی اصل ہندی/ اردو ہے، ان میں اس درمیان کی ”ی“ کو گرانا درست ہے، لیکن عربی اور فارسی (مثلاً قیاس اور پیالہ) میں اس کا گرانا درست نہیں۔ دائم صاحب کچھ فرمائیں تو منتظر ہوں۔

جواب: ماشاء اللہ۔ خوب رہا آپ دونوں کا مکالمہ۔
ہندی و عربی و فارسی بکھیڑا ہم علموں اور لکیر کے فقیروں نے خود بنا رکھا ہے ورنہ ذوقِ سلیم اور تعاملِ متواتر اس پر شاہد ہے کہ پیالہ کو فعلن باندھنا جائز ہے۔ برجموہن دتاتریہ کیفی نے منشورات اور کیفیۃ دونوں کتابوں میں ان بکھیڑوں پر سیر حاصل گفتگو کی ہے اور لکیر کی فقیری سے ہم جمود شعاروں کو ہِلانے کی کوشش کی ہے۔۔ میں اپنے موقف پر اب بھی قائم ہوں۔ میں دلائل کے ساتھ اپنے موقف پر گفتگو کرنا پسند کرتا ہوں۔۔ پیالہ بروزنِ فعلن اساتذہ نے باندھا ہے۔ امثلہ پیش کرتا ہوں۔
شیخ امام بخش ناسخؔ لفظوں کی تذکیر و تانیث اور عروضی اوزان کے ساتھ مطابقت میں سَند کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کا یہ شعر (در بحرِ متقارب مثمن سالم) دیکھیں:
پیالہ مجھ آزاد کا بھر دے ساقی!
نہیں میرا پیالہ ہوا چاہتا ہے۔

(لغات و محاوراتِ امام بخش ناسخؔ، صفحہ 79)
دوسرے مصرعے میں پیالہ بروزنِ فعلن استعمال ہوا ہے۔
نور اللغات میں بھی یہ شعر بطورِ سندِ محاورۂ عام (پیالہ ہونا) مذکور ہے۔ نیز فرہنگِ آصفیہ میں بھی (مرنا، دنیا سے گذرنا، کام تمام ہونا کے معنیٰ میں بطورِ سند یہ شعر) مذکور ہے۔
نیز معین الشعراء، مصنفہ منشی غلام حسین آفاقؔ بنارسی، صفحہ 89 پہ بھی مذکور ہے۔
فرہنگِ آصفیہ (جلد اول، صفحہ 563) میں مرزا جان تپشؔ کا یہ شعر (بحرِ ہزج مثمن سالم) مذکور ہے:
ارے مے نوش! تو بھی آپ کو جلدی وہاں پہنچا
گدائے حسن کا کہتے ہیں تجھ کو آج پیالہ ہے
[اس شعر میں پیالہ ہونے سے مراد: فاتحۂ سوم کی ضیافت ہونا۔ آصفیہ و دیگر]
اساتذہ کے علاوہ جدید شعراء و شاعرات کے ہاں بھی بروزنِ فعلن کی مثال ملتی ہے۔ شاہینہ عندلیبؔ کا شعر ہے کہ:
زندگی جام ہے کہ پیالہ ہے
ہر گھڑی زہر کا نوالہ ہے
بطورِ جوازی استعمال: اگرچہ درج ذیل شعر کا شاعر سند نہیں لیکن وہ بھی بروزنِ فعلن میں ”پیالی“ باندھتا ہے۔
شیشہ لے بزم میں آ سب کو دے بھر بھر پیالی
چشمۂ فیض کرے خلق میں جاری سمدھن

طوطا رام عاصی لکھنوی
[بحرِ رمل مخبون ۔ فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن]
(اس شعر میں ”بزم میں آسب کو دے“ کا اشارہ دلچسپ ہے۔ عورت کے اندام نہانی کی چشمہ یا نہر سے تشبیہ کئی ادبی تہذیبوں میں ملتی ہے۔ شمس الرحمان فاروقی)
میری رائے میں جوازی تعامُل کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ کیوں قواعد زبان و محاورہ سے بنتے ہیں نہ کہ زبان قواعد سے۔
ان دلائل کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ فعلن کے وزن پر جائز ہے۔ ہاں! اولویت اور اصل فعولن ہی ہے۔
 

دائم جی

محفلین
سوال: ”ہماری روایت اور معاشرہ ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔“ اس موضوع پر تائیدی اور تردیدی حوالوں سے تمھاری کیا رائے ہے؟“ [فوزیہ باجی]
جواب: ہماری روایت اور معاشرہ ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔
(الف) اس کے حق میں دلائل
ہماری روایت جدید دنیا کے ہم قدم ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں ہمارا جدید نظام ہی ہمیں اپنے وجود کو باقی رکھنے کی ضمانت دے سکتا ہے۔
معاشرہ افراد کی بلند فکری اور تعلیم کے پروان چڑھتا ہے۔ ہماری جدید روایت میں آج کا تعلیمی تناسب حیران کن حد تک بلند ہے۔
جدید سیاسی نظام جو کہ جمہوریت کے اصول پر قائم ہے، ہم اس نظام میں بہتر طور پر اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں۔
ہماری روایت نے ہمیشہ معاشرتی ترقی کے لئے نئی نئی اصلاحات متعین کی ہیں اور معاشرے کے ہر سطح کے فرد کے لیے ایسی سہولتیں پیدا کی ہیں جس سے ہمارا معاشرہ ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے۔
بعض پس ماندہ معاشروں کی معاشرتی اور معاشی صورت حال دیکھیں تو حیرت سے آنکھیں پھٹی رہ جاتی ہیں کہ وہاں افلاس، عدم توازن، آمرانہ نظامِ حکومت، اور غیر معتبر مقننہ نے پورے معاشرے اور روایت کو نہایت دور کھڑا کیا ہوا ہے جبکہ اس کے برعکس ہمارا معاشرہ نہ صرف جدید ہے بلکہ جدت کے تمام تقاضوں کے لیے ہمہ وقت کوشاں بھی ہے۔
ہماری روایت کے مرکزی خدوخال میں عظیم لیڈر، بہترین فوج اور تعلیم یافتہ شہری ہیں۔ ایسے ہیروں کی موجودگی میں بھلا کیسے نہ ہر طرف چمک ہی چمک ہو!
(ب) اس کی تردید میں دلائل
ہماری روایت نہ صرف یہ کہ مانگے تانگے کے چند تصورات تک محدود رہ گئی ہے بلکہ اپنی اصل شناخت کھو کر یورپ کی چکاچوند سے نظامِ تعلیم اور نظامِ حکومت دونوں ادھار مانگ لائے ہیں۔ ایسے میں مرکزی اور کلیدی ہی بیکار ہو جائیں تو ہمارا معاشرہ کیا خاک ترقی کرے گا؟
ملکی اور تہذیبی روایت میں جن بنیادی اصولوں کو اساس بنا کر ہمارے معاشرے کی بنیاد رکھی جانی تھی ان میں بھی اب سنجیدگی نہیں رہی۔
ہمارا معاشرہ ہمارے اصل تصورِ علم سے بےبہرہ ہے۔
ہمارا جدید معاشرہ ہماری دینی روایت سے متصادم ہے۔
لیڈروں میں انانیت، خود غرضی، اور لاپروائی اتنی آ چکی ہے کہ پوری دنیا میں ہماری جگ ہنسائی چل رہی ہے۔
ہمارے محافظ ہی ہمارے لٹیرے بن چکے ہیں۔
ہمارا نظام‌ِ معیشت سُود کے بغیر چلتا نہیں اور سود کے بغیر یہ ریاست نہیں چل سکتی، کیوں کہ یہ ایک سیکولر ریاست بن چکی ہے اور اس کے تمام مرکزی تصورات، کہ جن پر پوری گفتگو کا دار و مدار یورپ کی تعلیم کے بل بوتے پر ہے۔
ہمارے کردار اور مجموعی رویہ ایسا گھٹیا ہو چکا ہے ہم ایک ذمہ دار شہری تو کیا بنیں گے، ایک مناسب انسان بننے کی کوالیفیکیشن بھی کھو چکے ہیں۔
ایسی خرابیاں جس روایت میں ہوں کیا وہ روایت کبھی سرخرو ہو سکتی ہے؟ بالکل نہیں۔
 

دائم جی

محفلین
سوال: علامہ محمد اقبال کے درج ذیل شعر کا معنی کیا ہے؟
خود بخود زنجیر کی جانب کھنچا جاتا ہے دل
تھی اسی فولاد سے شاید مری شمشیر بھی
جواب: شعر کا مرکزی کردار ایک ایک قیدی ہے جو جیل میں ہے اور ہزاروں جنگوں کے بعد آخر قید ہوا۔ لیکن قید ہونے کی وجہ اس کی سستی اور پرانی اقدار سے روگردانی ہے۔ اور پھر اسی قید ہی میں اس کی موت ہوئی۔ یعنی وہ غلامی میں اس راضی ہو چکا تھا کہ خود بخود زنجیر کی جانب اس کا دل کھنچا جاتا تھا۔ مراد یہی ہے کہ وہ غلامی میں راضی تھا۔
یاد رہے یہ قیدی کوئی ایک فرد نہیں، پوری مسلم تہذیب ہے۔
تہذیب کا کہوں کہ یہ کیا ہے؟ تو سنیے کہ تہذیب ابتدائی سطح پر ایک ایسی وحدت کا نام ہے جسے اصول بنا کر یہ تمام کائنات بنی۔ اس معنی میں فطرت اور تہذیب ہم معنی ہیں۔ مزید پھیلائیں تو اسی معنی میں تہذیب نام ہے فطرت کا يا تہذیب نام ہے پورے نظامِ وجود کا۔ وجود یہاں کوئی امکانی وجود نہیں بلکہ پورے کن فیکونی ڈسکورس کا ہر ہر موجود و معدوم فرد وجود ہی ہے۔ یعنی جو ”نہیں“ ہے وہ بھی ایک وجود ہے اور نظام‌ِ وجود کا حصہ ہے، تو پورے نظامِ وجود کا اجتماع تہذیب کہلاتا ہے۔ اس معنی میں فطرت تہذیب کی اکائی ہوگی۔ یہ فلسفے کی بات ہوئی اور تہذیب کا ذرا بلند مطلب ہوا۔
تہذیب کی ایک سطح ثانوی ہے جو اقبال کے اس شعر میں مندرج ہے۔ تہذیب اپنی ثانوی وضع (ساخت) میں نام ہے ایک فکری ڈھانچے کا جسے ہمارا دین ”اسلامی فکر“ کہتا ہے۔ اسلامی فکر کا نمائندہ رسول ہوتا ہے اور اسلامی فکر کے مخاطبین مسلم قوم۔ اس معنی میں مسلم تہذیب وجود پاتی ہے۔ اقبال نے قومیت کی بنیاد اسی اسلامی فکر پر رکھی ہے جو تہذیب کی اکائی کے طور پر یا تہذیب کے مساوی معنی میں ہمارا فکری ڈھانچہ ہے۔
 

دائم جی

محفلین
سوال: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یدِ بیضا کہنا، دمِ عیسیٰ کہنا کیسا ہے؟ (از پروفیسر بابر حسین بابر صاحب)
جواب: دمِ عیسی، یدِ بیضا چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے متعلق علاماتی فضائل ہیں، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ سید الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم درجۂ نبوت و کمالاتِ معجزیہ میں اُن پر فوقیت رکھتے ہیں۔ اس اعتبار سے مفضول کی کوئی صفت افضل میں ثابت کرنا اچنبھے کی بات نہیں۔
پورے موصوف کو کسی واحد صفت سے متعلق کرکے پکارنا جبکہ وہ واحد صفت اس موصوف کی ثابت شدہ نہ ہو یا اس کے لیے وضع نہ کی گئی ہو۔ تو بھی اگر وہ صفت اس موصوف کے لیے امکانِ ثبوت رکھتی ہے تو بلا تحقق اس کا اطلاع اس موصوف پر کر دینا غیر مناسب ہونے کے باوجود جائز ہے۔ جیسے: شیر کو اڑنے والا کہنا۔
 

دائم جی

محفلین
سوال: ایک شاعر کے لیے فلسفے کا مطالعہ کس حد تک ضروری ہے؟ (از: محمد اکمل)
جواب: شاعری علمِ فلسفہ نہیں لیکن فلسفہ کے تقریباً تمام مبادی و مآخذ کا یہ سرچشمہ رہی ہے۔ فلسفہ جامد پیرائے میں اشیاء کے متعلق فیصلے کرتا ہے جبکہ شاعری میں اظہارِ شے کا اسلوب جمالیاتی سطح کا زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے ایک اچھا شاعر علمِ حیات Physiology سے بخوبی واقف ہوتا ہے اور اس میں فلسفے کے تقریباً بنیادی آثار کو شعری جمال میں ڈھالنے کو ہنر آتا ہے۔ اقبال اس کی بڑی مثال ہے۔ لیکن اقبالؔ کے ہاں فلسفے میں سپاٹ پَن یا Un-picturesque زیادہ ہے جبکہ غالبؔ کے ہاں فلسفے کی جمالیاتی قدریں زیادہ مضبوط ہیں۔
گل و بلبل اور وصل و فراق کے مسلسل قصے نے ہمارے شعری مرتبے کو بہت گرایا ہے۔ میں نے بہت جگہوں پر ترقی پسندیت کو صرف اس لیے اہمیت کا حامل سمجھا ہے کہ وہ ہمارے علم الحیات کی واحد امین تحریک رہی ہے۔ جدید لب و لہجے کی شاعری میں فلسفے کی بڑی اور واضح آوازیں دکھائی دیتی ہیں جوکہ خوش آئند ہے۔
آپ کا سوال ہے کہ شاعری کے لیے فلسفے کا مطالعہ کس حد تک ضروری ہے؟ تو اس کا سادہ سا سا جواب تو یہ ہے کہ شاعری اور فلسفہ اپنے تخلیقی اظہار و تخئیلی رائے میں ہم سفر ہیں اس لیے اچھی شاعر کا مطالعہ کرنے یا بڑی علامتی شاعری کرنے (کہنے) کے لیے فلسفہ ایک ضروری کلید کی حیثیت رکھتا ہے جو تعقلاتی در وا کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔
اردو شاعری کے بعض مآخذ فلسفہ شکن بھی رہے ہیں۔ مثلاً ذوقؔ کا شعر دیکھیں:
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے؟
اس ایک شعر نے فلسفۂ حیات کا سارا نظام بھک سے اڑا کر رکھ دیا ہے۔ ہمارا معلوم علمی سرمایہ کہتا ہے کہ موت دنیاوی بندشوں کے بعد ایک جائے امان ہے۔ ہر مرض کا علاج موت!!! مگر ذوقؔ نے چند لفظوں میں کائناتِ حیات کے اس فلسفے کو یکسر خاک۔برد کر دیا کہ تب بھی کوئی امان نہ ملی تو کیا ہوگا؟
 

دائم جی

محفلین
سوال: اگرچہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عرش پر نعلین سمیت جانے والی روایت موضوع ہے اور اس پر کوئی روایت ہے بھی نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم عرش پر نعلین سمیت نہیں گے تھے ۔ تو اگر کوئی یہ کہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نعلین سمیت عرش پر گئے تھے تو یہ کیسے اور کتنا غلط ہوگا؟ [ابو الحسن خاور]
جواب: حضور سید الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کا نعلین سمیت عرش پر جانا ضعیف روایت ہے لیکن علی صابر رضوی سے اتفاق کروں گا کہ نعتیہ تخیل میں وہ مبالغۂ شعری جو درج ذیل شرائط پر پورا اترے، وہ درست ہے:
(١) قرآن کی کسی آیت کے برخلاف دلالت نہ کرے
(٢) حدیثِ صحيح کے مخالف نہ ہو
(٣) جمہور علماء و محدثین نے اسے تواتر کے ساتھ یوں مطعون کیا ہو کہ وہ ضعف متن و رجال دونوں میں ہو۔ اگر روایت بالمعنی ثابت ہو تو بھی ضعف باقی ہی رہے گا
(٤) کسی اصولِ شرعیہ کے فساد کا سبب نہ بنے
(٥) کذبِ محض کو مستلزم نہ ہو
(٦) نقصِ شان کا باعث نہ بنے
(٧) عقلِ عموم (یعنی قاعدۂ فطریہ) کے برخلاف نہ ہو

ان شرائط کی روشنی میں ہم دیکھیں تو مسئلہ واضح ہو جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ روایت ضعیف ہے اور میں نے بذات خود متعدد علما کے ہاں اس پر ضعف کا حکم پایا ہے۔ لیکن اگر روایت ضعیف ہو بھی تو
امام المحدثین امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ضعیف حدیث سے استدلال کی جو تین شرائط بیان کی ہیں وہ مندرجہ بالا شرائط میں ضم کر دی گئی ہیں۔ فضائل میں ضعیف حدیث کی قبولیت صرف اس لئے ہے کہ لوگوں میں حسنِ ظن پیدا ہو۔ نیز شعری و تخیلی سطح پر ایسا مضمون باندھنے میں کیا حرج ہے؟ جبکہ یہ کہ کسی شرعی حکم کا اثبات ہو رہا کہ حلال و حرام کی بحث ہے اور نہ الوہیت و نبوت میں کسی نقص يا اہانت کا باعث بن رہا ہے۔
شاعرانہ مبالغہ اگر ایسا واقعیاتی مبالغہ ہو کہ اس سے تاریخ مسخ ہو رہی ہو تو نہیں کہنا چاہیے لیکن نعلین سمیت عرش پر جانا کوئی تاریخی وقوعہ نہیں، شخصی عمل ہے اور یہ مان لینا اور شعر میں باندھنا دونوں درست ہیں۔
 

دائم جی

محفلین
سوال: استاذانِ گرامی قدر، ایک ترکیب ”سرائے خانہ“ پہ پھنس گیا ہوں۔ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کہیں ثقہ کلام میں سرائے خانہ کی ترکیب پڑھی ہے۔ یاد نہیں آ رہا کہاں۔ کچھ دوست اس مذہب سے ہیں کہ سرائے کے ساتھ خانہ نہیں آئے گا۔ مجھے یقین ہے کہ سینئر شعراء کرام ضرور اس بارے میں مدلّل رائے دے سکتے ہیں۔ [حسین شاہ زاد]
جواب: علمی قد و قامت کے اعتبار سے مجھ سے بڑے بلکہ بہت بڑے نام منشن شدہ ہیں۔ ان کی موجودگی میں میرا کچھ بولنا سراسر گستاخی ہے۔ لیکن چونکہ منشن شدہ افراد میں آخری نام میرا ہی ہے۔ سو اسی علامتی حکم نامے کی تعمیل میں اپنا نقطۂ نظر آپ کے سامنے رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔
”خانہ“ دراصل بہت سے ظرفی معانی کا محتمل ہے۔ مثال کے طور پر صرف نور اللغات میں اس کے پندرہ سے زائد مطالب و معانی مذکور ہیں۔ مثلاً: مرغیوں کا دڑبہ، عورت، پیٹ، شکم، گھونسلہ، صندوقچہ، انگوٹھی میں نگینہ رکھنے کی جگہ۔۔ اور اس طرح کئی معنیٰ درج ہیں۔ لغاتِ کشوری میں خیمہ بھی لکھا ہے۔ وارث سر ہندی نے اپنی قاموس میں اس کے ٣٤ معانی لکھے ہیں۔ المختصر مختلف لغات میں جو جو معانی مذکور ہیں، ان کا احاطہ کیا جائے تو تمام کا نقطۂ اتصال ”مکان“ ہے۔
ایک قاعدہ ہے کہ اردو میں جو ترکیب جس طرح رائج ہو گئی، اسے مروجہ صورت میں ہی قبول کیا جائے گا۔ لیکن چونکہ ”سرائے خانہ“ نہ صرف نادر الاستعمال ہے بلکہ معدوم الوجود بھی۔ اس لیے اگر کھینچا تانی کی جائے تو ”خانہ“ کا کوئی ایک معنیٰ مراد لے کر ”سرائے خانہ“ ترکیب تشکیل دی جا سکتی ہے۔ مثلاً: خانہ بمعنیٰ ”انگوٹھی میں نگینہ رکھنے کی جگہ“ مانیں تو سرائے خانہ بمعنیٰ انگوٹھی رکھنے کی جگہ کا وہ خاص حصہ مراد ہوگا جو مکان کی شکل میں مخصوص گولائی لیے ہوئے ہوگا۔ اسی طرح خانہ بمعنیٰ عورت ہو تو سرائے خانہ بمعنیٰ زنان خانہ درست ہوگا۔ لیکن یہ تکلف نہ صرف طبیعت پہ ناگوار گزرتا ہے بلکہ معنویاتی بے راہ روی کا باعث بھی ہے۔ اس لیے ازروئے قاعدہ بھی اور لغت کے اعتبار سے بھی یہ ترکیب درست نہیں ہے۔ ہاں! مخصوص تناظر میں استعمال کی جائے تو شذوذ کی قبیل سے کوئی صورت البتہ نکل سکتی ہے۔
 
Top