سوال (از: نامعلوم) کچھ دنوں قبل اسی بزم (سخن دان واٹس ایپ گروپ) پر لفظ ”پیالہ“ کے عروضی وزن کے متعلق گفتگو ہوئی تھی، جس کا آغاز محترم احمد صفی صاحب کے ایک فی البدیہ شعر کی وجہ سے ہوا تھا، اس شعر میں انھوں نے لفظ ”پیالہ“ کو فعلن کے وزن پر باندھا تھا، جس پر فرحت سعیدی صاحب نے اعتراض کیا تو راقم الحروف نے احمد صاحب کا ساتھ دیا اور عرض کیا کہ اس کو فعلن پر باندھنا بھی درست ہونا چاہیے۔ اس پر بزم میں یعقوب آسی صاحب کو شامل کیا گیا، اور انھوں نے فرحت صاحب کے حق میں بلا دلیل ووٹ دیا۔ بزم کے ایک اور شریک دائمؔ صاحب نے فرمایا کہ فعلن بھی درست ہے۔لیکن سچ یہ ہے کہ کوئی اصولی بات سامنے نہ آ سکی، اور سوال (کم از کم میرے ذہن میں) جوں کا توں رہا۔
گذشتہ کل بروز منگل میری ماہرِ عروض اور معروف شاعر آفتاب مضطر صاحب سے فون پر بات ہوئی تو راقم نے یہ سوال ان کے سامنے رکھا، اور ان کے جواب اور بتائے گئے اصول سے راقم کو اطمینان ہوگیا کہ لفظ ”پیالہ“ کا وزن فعولن درست ہے، فعلن نہیں۔ اور اس باب میں میری راے غلط تھی۔ وجہ یہ بیان فرمائی کہ یاے مخلوط (جیسے کیا، کیوں، پیار، پیاس میں، کیوں کہ یہ تقطیع میں گر جاتی ہے) کا وجود ہندی/ اردو میں ہے، عربی اور فارسی زبان میں نہیں ہے۔ لہٰذا جن الفاظ کی اصل ہندی/ اردو ہے، ان میں اس درمیان کی ”ی“ کو گرانا درست ہے، لیکن عربی اور فارسی (مثلاً قیاس اور پیالہ) میں اس کا گرانا درست نہیں۔ دائم صاحب کچھ فرمائیں تو منتظر ہوں۔
جواب: ماشاء اللہ۔ خوب رہا آپ دونوں کا مکالمہ۔
ہندی و عربی و فارسی بکھیڑا ہم علموں اور لکیر کے فقیروں نے خود بنا رکھا ہے ورنہ ذوقِ سلیم اور تعاملِ متواتر اس پر شاہد ہے کہ پیالہ کو فعلن باندھنا جائز ہے۔ برجموہن دتاتریہ کیفی نے منشورات اور کیفیۃ دونوں کتابوں میں ان بکھیڑوں پر سیر حاصل گفتگو کی ہے اور لکیر کی فقیری سے ہم جمود شعاروں کو ہِلانے کی کوشش کی ہے۔۔ میں اپنے موقف پر اب بھی قائم ہوں۔ میں دلائل کے ساتھ اپنے موقف پر گفتگو کرنا پسند کرتا ہوں۔۔ پیالہ بروزنِ فعلن اساتذہ نے باندھا ہے۔ امثلہ پیش کرتا ہوں۔
شیخ امام بخش ناسخؔ لفظوں کی تذکیر و تانیث اور عروضی اوزان کے ساتھ مطابقت میں سَند کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کا یہ شعر (در بحرِ متقارب مثمن سالم) دیکھیں:
پیالہ مجھ آزاد کا بھر دے ساقی!
نہیں میرا پیالہ ہوا چاہتا ہے۔
(لغات و محاوراتِ امام بخش ناسخؔ، صفحہ 79)
دوسرے مصرعے میں پیالہ بروزنِ فعلن استعمال ہوا ہے۔
نور اللغات میں بھی یہ شعر بطورِ سندِ محاورۂ عام (پیالہ ہونا) مذکور ہے۔ نیز فرہنگِ آصفیہ میں بھی (مرنا، دنیا سے گذرنا، کام تمام ہونا کے معنیٰ میں بطورِ سند یہ شعر) مذکور ہے۔
نیز معین الشعراء، مصنفہ منشی غلام حسین آفاقؔ بنارسی، صفحہ 89 پہ بھی مذکور ہے۔
فرہنگِ آصفیہ (جلد اول، صفحہ 563) میں مرزا جان تپشؔ کا یہ شعر (بحرِ ہزج مثمن سالم) مذکور ہے:
ارے مے نوش! تو بھی آپ کو جلدی وہاں پہنچا
گدائے حسن کا کہتے ہیں تجھ کو آج پیالہ ہے
[اس شعر میں پیالہ ہونے سے مراد: فاتحۂ سوم کی ضیافت ہونا۔ آصفیہ و دیگر]
اساتذہ کے علاوہ جدید شعراء و شاعرات کے ہاں بھی بروزنِ فعلن کی مثال ملتی ہے۔ شاہینہ عندلیبؔ کا شعر ہے کہ:
زندگی جام ہے کہ پیالہ ہے
ہر گھڑی زہر کا نوالہ ہے
بطورِ جوازی استعمال: اگرچہ درج ذیل شعر کا شاعر سند نہیں لیکن وہ بھی بروزنِ فعلن میں ”پیالی“ باندھتا ہے۔
شیشہ لے بزم میں آ سب کو دے بھر بھر پیالی
چشمۂ فیض کرے خلق میں جاری سمدھن
طوطا رام عاصی لکھنوی
[بحرِ رمل مخبون ۔ فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن]
(اس شعر میں ”بزم میں آسب کو دے“ کا اشارہ دلچسپ ہے۔ عورت کے اندام نہانی کی چشمہ یا نہر سے تشبیہ کئی ادبی تہذیبوں میں ملتی ہے۔ شمس الرحمان فاروقی)
میری رائے میں جوازی تعامُل کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ کیوں قواعد زبان و محاورہ سے بنتے ہیں نہ کہ زبان قواعد سے۔
ان دلائل کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ فعلن کے وزن پر جائز ہے۔ ہاں! اولویت اور اصل فعولن ہی ہے۔