دائم جی
محفلین
سوال: شعر کی جمالیت کیا ہوتی ہے؟ اس کا اطلاق ہم شعروں میں کیسے کر سکتے ہیں؟ نیز کیا جمالیات کا تعلق فنی محاسن سے ہوتا ہے؟ [ادریس روباص]
جواب: شعر کی جمالیت کیا ہے؟ اچھا سوال ہے۔ آپ یہ سمجھیں کہ جمال کا تعلق ہمارے فنی محاسن سے نہیں ہوتا۔ جمال کا تعلق Object کو Fact کے حاسے میں رکھے بغیر ایک ایسا کھلا تناظر دینے سے ہے جس میں وہ Object ہر قید سے ماورا ہو کر ایک نفسی اصول بن جائے۔
اسے ذرا کھولیں تو یوں کہیں گے کہ معنی کا لفظ پر چھا جانا جس سے لفظ کی عمومی تشکیل بیکار ہو جانے کے باوجود اس کا پھیلاؤ برقرار رہے تو اسے ”معنی کی جمالیت“ کہتے ہیں۔
ہر چیز کی جمالیت ہوتی ہے۔ مثلاً ”انکار“ ہے؛ اس کی بھی اپنی جمالیات ہوتی ہیں۔ اگر ان جمالیات کے بھرپور تعاون کے بغیر ”انکار“ ہو تو وہ بھونڈا پن تو ہو سکتا ہے، ”انکار“ نہیں بن سکتا۔ دیگر شعبوں کی؛ بالخصوص دین و مذہب کی بات کریں تو بہت سے ملحدین اسی جمالیات سے محروم ہیں اور بہت سے مسلمان بھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گالی کا بھی Aesthetic Passion نہ ہو تو وہ گالی نہیں، خود اپنے آپ کا ٹھٹھا ہے۔ اس بات کو ذرا پھیلائیں؛ ادب میں آئیں۔ ادب میں جنسیات کا مسئلہ ہر دور میں بہت اہم رہا ہے۔ میرے خیال میں ہمارے جنسی ادب کو اس لیے بھی برا سمجھا جاتا ہے کہ ہمارا جنسی ادب ”جنس کی جمالیات“ سے مکمل عہد برآ نہیں ہوتا اور پھر وہ جنسی لذت کا سامان تو بنتا ہے، ایک Fact کی حیثیت سے گر جاتا ہے۔ خیر سے اس معاملے میں تفہیمی رویوں کا بھی بہت اثر ہوتا ہے۔ جمالیات علی اطلاق الکُل وحدت ہے جسے جدا کرنا تہذیب سے انحراف ہے۔ لیکن %99.9 اس وحدت کو پارہ پارہ کیا جاتا ہے؛ خود ہمارے بڑے ادیبوں کے ہاتھوں بھی۔
جمالیات کا تعلق تصورِ حق سے لازم و ملزوم سا ہے۔ احمد جاوید صاحب کی مثال میں دیتا ہوں کہ ان کے بقول؛ ہمارا تصورِ حق خدا ہے۔ جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ ہر تہذیب کا تصورِ حق مختلف نہیں ہوتا بلکہ اس کی Applicative Aspects میں فرق ہوتا ہے۔ ایک ہندو کا تصورِ حق اسے عبادت کرواتا تو ہے مگر اس کا اطلاق غلط ہے لہٰذا وہ بت کو پوجتا ہے۔ تمام مذاہب کی عبادت تصورِ حق کی مرکزیت سے جڑی ہوتی ہے۔ حق ایک مرکزی Applying ہے جو فطرت اور مادی وسیلے مل کر ذہنی اور ماورائی مکانیت کو جنم دیتے ہیں۔ یہی مکانیت وہ ”حق“ ہے جو ہمارے تصورِ وجود اور مرکزِ شعور کو منضبط انداز میں قابلِ عمل بناتا ہے۔
جواب: شعر کی جمالیت کیا ہے؟ اچھا سوال ہے۔ آپ یہ سمجھیں کہ جمال کا تعلق ہمارے فنی محاسن سے نہیں ہوتا۔ جمال کا تعلق Object کو Fact کے حاسے میں رکھے بغیر ایک ایسا کھلا تناظر دینے سے ہے جس میں وہ Object ہر قید سے ماورا ہو کر ایک نفسی اصول بن جائے۔
اسے ذرا کھولیں تو یوں کہیں گے کہ معنی کا لفظ پر چھا جانا جس سے لفظ کی عمومی تشکیل بیکار ہو جانے کے باوجود اس کا پھیلاؤ برقرار رہے تو اسے ”معنی کی جمالیت“ کہتے ہیں۔
ہر چیز کی جمالیت ہوتی ہے۔ مثلاً ”انکار“ ہے؛ اس کی بھی اپنی جمالیات ہوتی ہیں۔ اگر ان جمالیات کے بھرپور تعاون کے بغیر ”انکار“ ہو تو وہ بھونڈا پن تو ہو سکتا ہے، ”انکار“ نہیں بن سکتا۔ دیگر شعبوں کی؛ بالخصوص دین و مذہب کی بات کریں تو بہت سے ملحدین اسی جمالیات سے محروم ہیں اور بہت سے مسلمان بھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گالی کا بھی Aesthetic Passion نہ ہو تو وہ گالی نہیں، خود اپنے آپ کا ٹھٹھا ہے۔ اس بات کو ذرا پھیلائیں؛ ادب میں آئیں۔ ادب میں جنسیات کا مسئلہ ہر دور میں بہت اہم رہا ہے۔ میرے خیال میں ہمارے جنسی ادب کو اس لیے بھی برا سمجھا جاتا ہے کہ ہمارا جنسی ادب ”جنس کی جمالیات“ سے مکمل عہد برآ نہیں ہوتا اور پھر وہ جنسی لذت کا سامان تو بنتا ہے، ایک Fact کی حیثیت سے گر جاتا ہے۔ خیر سے اس معاملے میں تفہیمی رویوں کا بھی بہت اثر ہوتا ہے۔ جمالیات علی اطلاق الکُل وحدت ہے جسے جدا کرنا تہذیب سے انحراف ہے۔ لیکن %99.9 اس وحدت کو پارہ پارہ کیا جاتا ہے؛ خود ہمارے بڑے ادیبوں کے ہاتھوں بھی۔
جمالیات کا تعلق تصورِ حق سے لازم و ملزوم سا ہے۔ احمد جاوید صاحب کی مثال میں دیتا ہوں کہ ان کے بقول؛ ہمارا تصورِ حق خدا ہے۔ جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ ہر تہذیب کا تصورِ حق مختلف نہیں ہوتا بلکہ اس کی Applicative Aspects میں فرق ہوتا ہے۔ ایک ہندو کا تصورِ حق اسے عبادت کرواتا تو ہے مگر اس کا اطلاق غلط ہے لہٰذا وہ بت کو پوجتا ہے۔ تمام مذاہب کی عبادت تصورِ حق کی مرکزیت سے جڑی ہوتی ہے۔ حق ایک مرکزی Applying ہے جو فطرت اور مادی وسیلے مل کر ذہنی اور ماورائی مکانیت کو جنم دیتے ہیں۔ یہی مکانیت وہ ”حق“ ہے جو ہمارے تصورِ وجود اور مرکزِ شعور کو منضبط انداز میں قابلِ عمل بناتا ہے۔