دائم جی

محفلین
سوال: شعر کی جمالیت کیا ہوتی ہے؟ اس کا اطلاق ہم شعروں میں کیسے کر سکتے ہیں؟ نیز کیا جمالیات کا تعلق فنی محاسن سے ہوتا ہے؟ [ادریس روباص]
جواب: شعر کی جمالیت کیا ہے؟ اچھا سوال ہے۔ آپ یہ سمجھیں کہ جمال کا تعلق ہمارے فنی محاسن سے نہیں ہوتا۔ جمال کا تعلق Object کو Fact کے حاسے میں رکھے بغیر ایک ایسا کھلا تناظر دینے سے ہے جس میں وہ Object ہر قید سے ماورا ہو کر ایک نفسی اصول بن جائے۔
اسے ذرا کھولیں تو یوں کہیں گے کہ معنی کا لفظ پر چھا جانا جس سے لفظ کی عمومی تشکیل بیکار ہو جانے کے باوجود اس کا پھیلاؤ برقرار رہے تو اسے ”معنی کی جمالیت“ کہتے ہیں۔
ہر چیز کی جمالیت ہوتی ہے۔ مثلاً ”انکار“ ہے؛ اس کی بھی اپنی جمالیات ہوتی ہیں۔ اگر ان جمالیات کے بھرپور تعاون کے بغیر ”انکار“ ہو تو وہ بھونڈا پن تو ہو سکتا ہے، ”انکار“ نہیں بن سکتا۔ دیگر شعبوں کی؛ بالخصوص دین و مذہب کی بات کریں تو بہت سے ملحدین اسی جمالیات سے محروم ہیں اور بہت سے مسلمان بھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گالی کا بھی Aesthetic Passion نہ ہو تو وہ گالی نہیں، خود اپنے آپ کا ٹھٹھا ہے۔ اس بات کو ذرا پھیلائیں؛ ادب میں آئیں۔ ادب میں جنسیات کا مسئلہ ہر دور میں بہت اہم رہا ہے۔ میرے خیال میں ہمارے جنسی ادب کو اس لیے بھی برا سمجھا جاتا ہے کہ ہمارا جنسی ادب ”جنس کی جمالیات“ سے مکمل عہد برآ نہیں ہوتا اور پھر وہ جنسی لذت کا سامان تو بنتا ہے، ایک Fact کی حیثیت سے گر جاتا ہے۔ خیر سے اس معاملے میں تفہیمی رویوں کا بھی بہت اثر ہوتا ہے۔ جمالیات علی اطلاق الکُل وحدت ہے جسے جدا کرنا تہذیب سے انحراف ہے۔ لیکن %99.9 اس وحدت کو پارہ پارہ کیا جاتا ہے؛ خود ہمارے بڑے ادیبوں کے ہاتھوں بھی۔
جمالیات کا تعلق تصورِ حق سے لازم و ملزوم سا ہے۔ احمد جاوید صاحب کی مثال میں دیتا ہوں کہ ان کے بقول؛ ہمارا تصورِ حق خدا ہے۔ جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ ہر تہذیب کا تصورِ حق مختلف نہیں ہوتا بلکہ اس کی Applicative Aspects میں فرق ہوتا ہے۔ ایک ہندو کا تصورِ حق اسے عبادت کرواتا تو ہے مگر اس کا اطلاق غلط ہے لہٰذا وہ بت کو پوجتا ہے۔ تمام مذاہب کی عبادت تصورِ حق کی مرکزیت سے جڑی ہوتی ہے۔ حق ایک مرکزی Applying ہے جو فطرت اور مادی وسیلے مل کر ذہنی اور ماورائی مکانیت کو جنم دیتے ہیں۔ یہی مکانیت وہ ”حق“ ہے جو ہمارے تصورِ وجود اور مرکزِ شعور کو منضبط انداز میں قابلِ عمل بناتا ہے۔
 

دائم جی

محفلین
سوال: کیا عشقِ حقیقی کے لیے مجازی عشق ایک سیڑھی ہے؟ کیا مجازی عشق صرف انسان کی محبت سے خاص نہیں؟
جواب: اکثر تحاریر میں مصنفین کی جانب سے یہ باور کروایا جاتا ہے کہ عشقِ حقیقی کے لیے عشقِ مجازی کی بنیاد کسی عقلی استدلال سے ثابت نہیں ہے۔ کچھ مبصرین کا نکتۂ نظر یہ ہوتا ہے کہ عشقِ حقیقی اپنی پہلی نمود میں مجازی عشق سے پروان نہیں چڑھتا۔
میں ان باتوں سے متفق نہیں ہوں۔
دیکھیے عشقِ حقیقی کیا ہے؟ یہ دراصل خالق اور بندے کے مابین تعلق کا ایک حال ہے۔ آپ دیکھتے نہیں کہ سید الانبیا صلی الله علیہ والہ وسلم سے محبت بہ حیثیتِ انسان کے، مجازی محبت ہے۔ لیکن بہ حیثیتِ نبی، عشقِ حقیقی کا درجہ اختیار کر لیتی ہے۔
کیوں؟ وجہ؟ وجہ یہ ہے کہ مجازی محبت میں محبوب کو سیڑھی بنایا جاتا ہے۔ اسی وسیلے سے خدا تک پہنچا جاتا ہے۔ انسان کی عمومی فطرت بھی یہی ہے کہ جب وہ اس دنیا میں آتا ہے تو اس کے لیے دنیاوی محبتوں کا ایک سلسلہ قائم کر لیا جاتا ہے۔ والد، والدہ، بہن، بھائی، بیوی، بچے، یہ سب محبتیں مجازی ہیں اور فطری ہیں۔ فطری اصولوں کو جب تک بروئے کار نہ لایا جائے، بندے اور خدا کے درمیان تعلق کی کوئی بھی نسبت قائم نہیں ہو سکتی۔ زلیخا حضرت یوسفؑ کی محبت کے سہارے خدا تک پہنچی (شاید یہ افسانہ اساطیری ہو) بہرحال! عشقِ حقیقی کے لیے مجازی عشق ضروری ہے۔ یہ ایک زینہ دار پل ہے جسے عبور کیے بغیر آپ اس حقیقی ذات تک نہیں پہنچ سکتے۔
خدا نے اپنا اصل چہرہ دنیا سے چھپا کر انسانوں جنوں فرشتوں کے لیے یہ کائنات کیوں بنائی؟ تاکہ وہ اس کائنات کے مظاہر کو وسیلہ بنائیں۔ ان سے تعلق پیدا کریں۔ ان کی معنویت کو دل میں اتاریں اور پھر خدا کا راز پائیں۔ خدا کے راز کی چابیاں تو اس کائنات میں جابجا بکھری پڑی ہیں۔ بس دیکھنے والی آنکھ اس چابی کا کھوج لگا کر اس کے راز پا جاتی ہے اور کچھ آنکھیں ان چابیوں ہی کے اسرار میں کھو کر خدا سے غافل ہو جاتی ہیں۔
عشقِ مجازی ضروری نہیں کہ کسی انسان ہی سے ہو۔ کسی بھی شے کی محبت مجازی ہی ہوتی ہے۔ مجازی عشق کے ذریعے حقیقی عشق تک پہنچنے کا طریقہ خود قرآن کا وضع کردہ ہے۔ یہ آیت دیکھیے:
ذٰلِكَ وَمَنۡ يُّعَظِّمۡ شَعَآئِرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنۡ تَقۡوَى الۡقُلُوۡبِ ترجمہ: ان امور کا اہتمام رکھو ! اور جو اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے تو یاد رکھے کہ یہ چیز دل کے تقویٰ سے تعلق رکھنے والی ہے۔
(القرآن، سورۃ الحج، آیت نمبر 32)
شعائر کیا ہیں؟ یہ خدا کی نشانیاں ہیں۔ مخلوق، کائنات، وغیرہ۔ یہ سب خدا کے شعائر ہیں۔ ان کی محبت ہی دل کو خدا سے قریب کر دیتی ہے۔
 

دائم جی

محفلین
سوال: دائمؔ بھائی! منقبت میں بہ حیثیتِ شاعر مجھے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ آپ رہنمائی فرمایا کریں۔ [فائقؔ ترابی]
جواب: شعری صنف ”منقبت“ شخصی عقیدت کی آئینہ داری پہ منتج ہوتی ہے۔ اس میں کسی عظیم فرد کے خصائل و شمائل کا بیان عقیدت اور دانش کے حسین توافق سے ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ سادہ قلبی جذبات کی ترجمانی کا بیان ہوتا ہے لیکن باقاعدہ شعری صنف ہونے کی وجہ سے اس کی شعریات اور فن سے آگہی بھی لازمی ہے۔ اسے محض جذبات کہہ کر فن کی کمزوری کو روا نہیں رکھا جا سکتا بلکہ فنی پہلوؤں کو مضبوط ترین آلہ فراہم کرنا بھی لازمی ہے۔ اور اس میں یہ جہت کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ منقبت میں موصوف کردار کسی نہ کسی جغرافیائی ڈومین کا نمائندہ یا متعلقہ تہذیب کا کارندہ ہونے کی حیثیت سے بعض معتقدات کا حامل ہوتا ہے۔ ان معتقدات کی فکری و ثقافتی درجہ بندی کرتے ہوئے معاشرے کی اخلاقی قدر میں اس مشخص کردار کی معنویت کا کیا زائچہ بنتا ہے؟ اس کی دریافت بمع اظہار منقبت نگار شاعر کا فریضہ ہے۔ اور اسی اصول پر منقبت کی تخلیق و تفہیم ہو سکتی ہے۔
 

دائم جی

محفلین
سوال از باشم بلال: میرزا غالب کا شعر ہے کہ:
آپ نے مَسَّنِیَ الضُّرُّ کہا ہے تو سہی
یہ بھی اے حضرت ایوب! گلا ہے تو سہی
اس شعر سے مجھے اتفاق نہیں ہے۔ غالبؔ کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا کہ حضرت ایوب علیہ السلام نے شکوہ تو نہیں کیا تھا لیکن اس نے اپنی جو حالت بیان کی تھی یہ بھی ایک قسم کا شکوہ اور رب سے گلا ہے۔ مجھے بس ایک پوائنٹ پر یہ مسئلہ ہے کہ پیغمبر ہر حال میں رب کا شکر ادا کرتے ہیں۔ گلے شکوے کے بارے میں تو وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔ جبکہ غالبؔ نے یہ کہا ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام نے اپنی خراب حالت کا تذکرہ کر کے ایک قسم کا خدا سے شکوہ کیا ہے۔
اعتراض یہ ہے کہ محبوب کےلیے غالبؔ نے اس طرح سے استعارہ استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا!

جواب: انبیائے کرام اپنی قوم کے لیے واجب الاطاعت ہوا کرتے ہیں اور قرآن پاک میں ان کے قصص کا بیان نصیحت پذیری کے لیے ہوتا ہے۔ قرآن کی آیت ”وَاَيُّوبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّىی مَسَّنِىَ الضُّرُّ“ کی تفسیر میں نباضِ امت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ و برکاتہ نے کچھ یوں لکھا ہے:
”مشیتِ الہی نے جب آزمانا چاہا کھیتیاں جل کر راکھ ہوگئیں۔ مال مویشی میں ایسی وبا پھوٹی کہ ایک بھی زندہ نہ رہا۔ آپ کے سارے بیٹے اور بیٹیاں اپنے بڑے بھائی کے ہاں مدعو تھے، مکان گرا اور سب لقمۂ اجل بن گئے۔ آپ کے جسم میں آبلے نمودار ہوتے گئے۔ خارش کی وجہ سے انہیں کھجلایا تو انھوں نے ناسوروں کی شکل اختیار کرلی۔ ان میں چھوٹے چھوٹے کیڑے رینگنے لگے۔ جسم سے پیپ بہنے لگی۔ سب نیاز مند اپنا سلسلۂ نیاز و عقیدت توڑ کر الگ ہوگئے۔ سب دوستوں نے نفرت سے آنکھیں پھیر لیں۔ شہر والوں نے بستی سے نکال دیا کہ اس سے لوگوں میں بیماری پھیلنے کا خطرہ ہے۔ آزمائش کی ان ہوشربا گھڑیوں میں نہ زبان پر حرفِ شکایت آیا اور نہ دل میں کبھی اپنے مالک کا شکوہ کیا۔ کافی عرصہ اسی حالت میں گزر گیا۔ بعض نے سات سال اور بعض نے اس سے بھی زیادہ لکھے ہیں۔ زبان پھر بھی اپنے خالق و مالک کی حمد و ثنا میں مصروف رہی۔ آخر یہ التجا زبان پر آہی گئی ”انی مسنی الضر“ مجھے مصیبتوں اور بیماریوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔ اس کے بعد یہ عرض نہیں کی کہ میری تکلیفوں اور بیماریوں کو دور فرما دے اور مجھے ان مصیبتوں سے رہائی بخش۔ صرف اتنا ہی عرض کیا ”انت ارحم الراحمین“ تو بڑا رحم کرنے والا ہے۔ گویا یہ کہہ کر سب کچھ ہی کہہ دیا۔“ (ضیاء القرآن، سورۃ الانبیاء، آیت نمبر 83)
ضمنی سوال [ہاشم بلال]: جی بالکل آپ نے بہت اچھی وضاحت بیان کی ہے۔ لیکن یہاں بھی ایک مسئلہ یہ ہے کہ میں کوئی عالم نہیں ہوں۔ لیکن یہ قیاس کرتا ہوں کہ تفسیر نگاروں؛ جنھوں نے لکھا ہے کہ نعوذباللہ حضرت ایوب علیہ السلام کے جسم پر کیڑے رینگنے لگے تھے؛ تو اپنی درستی کر لیں۔ کیونکہ پیغمبر وہ ہوتا ہے جس کے وجود پر گندی مکھی بھی نہیں بیٹھتی۔ مختلف بیماریوں نے گھیرا تھا لیکن ہم قطعاً یہ نہیں کہہ سکتے کہ نعوذباللہ کیڑے رینگنے لگے تھے۔
جواب: دراصل حضرت ایوب علیہ السلام کا اللہ سے شکوہ کرنا اس اعتبار سے نہیں، جس اعتبار سے ہم کرتے ہیں۔ دراصل وہ شکوہ اللہ تعالیٰ سے رحمت کے نزول اور طلبِِ کرم کی استدعا کا تمہیدیہ ہے۔ اور اسے شکوۂ مذموم کے ضمن میں نہیں سمجھنا چاہیے۔ شکوۂ مذموم تبھی ہوگا جب لوگوں سے شکوہ کیا جاتا کہ دیکھو مجھے اللہ نے فلاں ایذا میں مبتلا فرمایا ہے۔
جہاں تک بات ہے مکھی کے جسمِ نبی پر نہ بیٹھ سکنے کی تو، مکھی کا نہ بیٹھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ضرور ہے لیکن آپ نہیں دیکھتے کہ طائف میں حضور اکرم ﷺ پر جو کلوخ اندازی ہوئی، وہ مکھی کے بیٹھنے سے بڑھ کر معاملہ ہے، لیکن اس کا معنیٰ یہ نہیں کہ اس سے حضور اکرم ﷺ کا معاذ اللہ کوئی عیب نکل آیا۔ انبیا پر آزمائشیں آتی رہتی ہیں اور وہ اللہ کی مشیت کا حصہ ہوتی ہیں۔ اگر حضرت ایوب علیہ السلام کو بیماری لاحق ہوئی تو وہ اللہ کی آزمائش تھی۔ مطلوب یہی تھا کہ اس آزمائش میں وہ صابر شاکر رہیں گے یا شکوۂ مذموم میں مبتلا ہو جائیں گے۔ یہاں مکھی کے حوالے سے جو روایات منقول ہیں؛ آپ دیکھیں کہ مکھی کا جسمِ پیغمبر پر بیٹھنا ایسا کوئی بڑا عیب نہیں۔ لیکن انبیا کی کمالِ طہارت کا اظہار کرنے کے لیے ایسی روایات ملتی ہیں کہ انبیا کے جسموں (یا فقط حضرت محمد ﷺ کے جسم) پر مکھی نہیں بیٹھتی تھی۔ مکھی بہت چھوڑی مخلوق ہے۔ اس سے کوئی بڑی آزمائش مقصود نہیں۔ اس لیے اسے بغیر وجہِ آزمائش کے جسمِ پیغمبر سے دور رکھا۔ لیکن بیماری سے آزمائش نہ صرف مطلوب تھی بلکہ بیماری چیز ہی ایسی ہے کہ ایک دفعہ بندے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ تو جو چیز آزمائش کے لیے موزوں ہو، اللہ کی حکمت ہے کہ وہ اسی کو آزمائش کا آلہ بناتا ہیں۔ پس مکھی کا جسم پر نہ بیٹھ سکنا جبکہ بیماری کا لاحق ہو جانا۔ یہ جو تعارض تھا، رفع ہوا۔ بحمد اللہ!
 

دائم جی

محفلین
سوال: [از: فیضان قاسم] اس شعر کی تشریح درکار ہے:​
ُ اس لیے بندگی سے ہوں بیزار
خلد بھی ایک سبز باغ نہ ہو
جواب: سبز باغ دکھانا، یعنی دھوکا دینا۔ یعنی جنت بھی کہیں دھوکا نہ ہو۔
فیضان قاسم: پھر تو یہ شعر کفریہ ہے۔ بہت بڑا اعتراض ہے قرآن پاک پر۔
دائمؔ: تہذیبی مسلمات پہ مبنی شعر اکثر شاعر کا اپنا مافیہ نہیں ہوتا۔ بلکہ مجموعی ذہنی عمل پہ تنقید ہوتی ہے۔ سو یہاں بھی ایسا ہی ہے۔ لہٰذا شعر کفریہ نہیں ہے۔
یونہی کچھ لوگ غالب کا یہ شعر اسی کیٹگری میں رکھتے ہیں:​
ہم کو معلوم ہے جنّت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
ہماری مذہبی کتب جنت کی جو تصویر پیش کرتی ہیں، بلاشبہ ان کا مقصد یہ ہے کہ وہاں کے نادیدہ و ناشنیدہ نعائم کی ایک سطحی جھلک ہمارے سامنے آئے اور ہم رغبۃً عمل کی طرف پیش قدمی کریں۔ ورنہ جنت کی حقیقت کیا ہے؟ یہ انسان کی حسّ ادراک اپنے حیطے میں نہیں لا سکتی۔
مولانا غلام رسول مہرؔ اپنے ایک مضمون”غالبؔ کا تصورِ جنّت و دوزخ“ میں لکھتے ہیں کہ:
”اس شعر کا مطلب یہ نہ سمجھا جائے کہ غالبؔ اس حقیقت کا اظہار کر رہا ہے۔ بلکہ وہ کہتا ہے کہ جنّت اصلاً جو کچھ ہے اسے صرف عارف ہی جان سکتے ہیں۔ عوام نے اظہار و بیان کے مجازی پیرایوں کو حقیقت سمجھ لیا اور اسی کو دلوں کی مسرّت و شادمانی کا سرمایہ سمجھ کر قانع ہو گئے“۔
(”غالبؔ کا تصورِ جنّت و دوزخ“، از: مجلہ ماہِ نو، جنوری ۱۹۶۹، غالبؔ نمبر)
محمد عزیز احسن فاضلِ علی گڑھ نے اس شعر ”ہم کو معلوم ہے......“ کی تشریح میں لکھا ہے کہ:
”زیرِ نظر شعر میں جنّت کا انکار نہیں ہے بلکہ اس عام عقیدہ پر جو جنّت کے متعلق قائم ہو گیا ہے، ایک تعریض ہے اور انسان ساری عبادت و ریاضت ان ہی نعائم کو حاصل کرنے کے لیے کرتا ہے۔ حالانکہ جنّت کی حقیقت ان سے ماوراء ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمانِ خالص اور پھر مخلصانہ عبادت کا صلہ ہے۔ لہٰذا عبادات میں نعائمِ جنّت پیشِ نظر نہ ہونے چاہئیں، بلکہ رضائے الہی کا حصول پیشِ نظر رہنا لازمی ہے۔ جنّت رضائے الہٰی کا صلہ ہے، اس لیے اس کا ہی لحاظ ہر وقت ضروری ہے۔ اور اس ہی کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
(تصوّراتِ غالبؔ، محمد عزیز حسن (علیگ)، صفحہ ۱۴۴، غالبؔ اکیڈمی، نئی دہلی)
عزیز حسن علیگ نے جو تشریح کی ہے؛ اسی تسلسل میں سوال میں درج شعر کی تشریح کریں تو اس میں بھی تعریض نکلتی ہے کہ عمومی اعتقاد جنت سے متعلق ایسا بن چکا ہے جبکہ اصلاً ایسا نہیں ہے۔ ایک اور جہت سے غور کریں تو اعتراض بنتا نہیں؛ کیوں کہ ”نہ ہو“ کا لفظ احتمال کو ظاہر کر رہا ہے جیسے فارسی میں ”مبادا“ کہتے ہیں۔ لہٰذا احتمال کو یقین نہ سمجھا جائے۔ کفر یقینی اعتقاد پر لازم آتا ہے؛ احتمال پہ التزامِ کفر ثابت نہیں ہوتا۔ پس اشکال رفع ہوا۔​
 

دائم جی

محفلین
سوال: اس شعر کی متن-اساس تفہیم کیجیے۔
میں خود کو بھول چکا تھا مگر جہاں والے
اداس چھوڑ گیے آئنہ دکھا کے مجھے
جواب: شاعر کی خود فراموشی میں دنیا والے مخل ہو گئے۔ اسے اپنی اداسی کا احساس بھی نہیں تھا مگر آئینہ دیکھ کر اپنے چہرے کی اداس ہیئت/ صورت ملاحظہ کی تو ذہن میں اداسی کے اسباب زندہ ہو گئے۔ شعر میں”آئینہ دکھانا“ بمعنی اصلیت دکھانا یا ظاہر کرنا، بليغ محاورہ ہے اور مرکزی حصہ ہے شعر کا۔
اداسی کسی سابقہ واقعے کے ذہن میں تازہ ہو جانے کے سبب سے ہے۔ آئینہ دیکھ کر چہرے پر اس سابقہ واقعے کا کوئی نقش، کوئی علامتیہ ظاہر ہوا جسے ذہن نے اپنی تحویل میں لے لیا اور قلب کو سب معلومات منتقل کیں جس کے باعث اداسی نے جنم لیا۔ چہرہ واقعات کی کتاب کہلاتا ہے۔ بلکہ چہرہ کتاب کا علامتی پیکر بھی ہے۔ آئینہ دیکھ کر کھلی کتاب کے اوراق پر کسی پرانی بات کا حضور فی الذہن نئے قلبی تغیر اور طبعی اضمحلال کی تصویر بن گیا ہے۔
متن میں جس کردار کی خود فراموشی میں خلل واقع ہوا ہے اور اداسی در آئی ہے، نفسیات کی رو سے اصل اداسی کا اصل سبب اس کے اندر موجود تھا جسے آئینہ دکھائے جانے پر دریافت کر لیا گیا۔ آئینہ دکھانا سبب بنا اداس ہونے کا، لیکن بالواسطہ، کیوں کہ اداسی کی اصل وجہ دریافت کرنے میں آئینہ کا کردار ہے لیکن آئینہ یہاں کس طور پر نمودار ہوا ہے؟ یہ ذرا دیکھنا ہے۔ آئینہ بطور ایک سبب موجود ہے۔ نیز شعر میں ”آئینہ دکھانا“ محاورۂ عام بھی ہے۔ اگر مقصود آئینہ نہ بھی ہو تو شاعر ضلع کا لطف سمجھ کر بے فائدہ چیزیں بھی شعر میں ڈال دیتا ہے۔ لیکن ”مطلب آئینہ ہونا“ بمعنی بات واضح ہو جانا، محاورہ ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ”آئینہ دکھانا“ کو ذہنی حضور میں رکھ کر سمجھا جائے تو بقیہ گتھیاں خود سلجھ سکتی ہیں۔ کیوں کہ نفسیات کے مطابق انسان کا وجود ہر قسم کے طبعی و حسی جذبات کا مجموعہ ہے اور خارجی زَد پر حسی جذبات کا ظہور ہوتا ہے۔ِ غالب نے کہا تھا کہ ”آتشِ خاموش کی مانند گویا جل گیا“ یعنی آگ خموش ہو چکی تھی۔ اداسی کی آگ بجھ چکی تھی مگر آئینہ دیکھنے پر میرے چہرے پر خموش اضطراب جاگ گیا۔
فطرت اپنی پہلی وضع میں طمانیت کے درجے میں رہتی ہے لیکن کسی خارجی یا داخلی ردعمل کے باعث اداسی یا دیگر حسی و ذہنی تغیرات پیدا ہوتے ہیں۔ اداسی سراسر ذاتی احساس ہوگا مگر اس کے اسباب میں انسانی فطرت خودکفیل نہیں ہے اور یہی نفسیاتی حقیقت ہے۔
 

دائم جی

محفلین
سوال: السّلام علیکم و رحمتہ اللّٰہ و برکاتہ! ایک سوال عرض ہے کہ شعرا اکثر آسمان کو کیوں مخاطب بناتے ہیں؟ مطلب آسمان کس کا استعارہ ہے؟ اس پہ کچھ لب کشائی فرمائیے گا۔ [محمد عدنان فراخؔ]
جواب: و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
اساطیری پس منظر میں آسمان تقدیر کا استعارہ ہی نہیں، اس کی علامت بھی ہے۔ شعرا کے ہاں آسمان تقدیر کے ایک ایسے رویے سے عبارت ہے جو بندوں کے لیے ناموافق ہی نہیں؛ ستم شعار اور ظالم بھی ہے۔ فلک“ بھی اسی معنی میں ہے۔
تقدیر مذہبی تناظر میں اِنسانی مرضی کے بغیر وجود یافتہ ایک امر ہے جس کا وقوع بہرحال واجب (لازم) ہے۔ اور اسے اِنسانی مرضی سے موافق نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ خود تقدیر کی ہیئتِ جاریہ (یعنی وہ جو صادر ہو چکی ہو) یا ہیئتِ ثابتہ (یعنی جس کا وقوع ابھی باقی ہو) کے موافق اِنسانی مزاج (اعتقاد اور عمل کا مجموعہ) کو نہ ڈھال لیا جائے۔ تقدیر کی یہی حقیقت شعرا کے ہاں تجربے اور احساس کی بھٹی سے گزر کر آتی ہے۔
آسمان علامت ہے تقدیر کی، اور تقدیر کا منبع خداے تعالیٰ کی ذات ہے۔ لہٰذا آسمانی قہر وغیرہ سے خدائی قہر مراد ہے کیوں کہ بعض اوقات آسمان تقدیر کا نہیں، تقدیر کے منبعے کا استعارہ ہوتا ہے۔ لیکن تقدیر (بالالتزام بُری تقدیر) کے لیے آسمان علامت ہے۔ مثلاً میرؔ کے دیوانِ اول سے ایک قطعے کا شعر دیکھیں:
واں جہاں خاک کے برابر ہے
قدرِ ہفت آسمانِ ظلم شعار
”آسمان“ کو صفت بنا کر کئی ایسے موصوف ہیں جو اسے تقدیر سے متعلق کرتے ہیں۔ مثلاً منشی چرنجی لال نے ”مخزن المحاورات“ میں چند الفاظ لکھے ہیں:
”آسمانی آفت، آسمانی بلا، آسمانی تھپیڑا، آسمانی دھکا، آسمانی غضب، آسمانی گولا، آسمانی مار“ ان الفاظ کے بعد سب کا مشترکہ معنی یوں لکھا ہے:

”آکاسی بپت، آفتِ سماوی، قہرِ الہی، غضبِ خدا، بھگوان کی مار“
(ہندوستانی مخزن المحاورات، منشی چرنجی لال دہلوی، امپیرئل بک ڈپو، دہلی، ۱۸۸۶ء، صفحہ ۲۵)
آسمان/فلک/چرخ وغیرہ محض تقدیر کا استعارہ نہیں بلکہ یہ کُل تخلیقی عمل کا سرچشمہ بھی ہے اور زمانے کی گردش سے پیدا ہونے والے ناقابلِ قبول تغیرات سے عبارت بھی۔ مثال کے طور پر میرؔ کا دیوانِ اول شعر ہے:
فلک نے آہ تری رہ میں ہم کو پیدا کر
برنگِ سبزۂ نورستہ پائمال کیا
میرزا رفیع سوداؔ کا شعر ہے کہ:
اے چرخِ سفلہ پرور، اے آسمانِ بے مہر
واژوں ہے عقل تیری اوندھا ہے تو جنم سے
میر صباؔ نے کہا تھا کہ:
ثابت ہے انقلابِ زمانہ سے اے صباؔ
قائم نہیں ہے چرخِ جفا کار کا مزاج
غالبؔ نے تقدیر لکھنے والے کو خطاب کرتے ہوئے کہا:
کچھ تو دے اے فلکِ نا انصاف
آہ و فریاد کی رخصت ہی سہی
اول الذکر شعر میں ”فلک“ کو پیدا کرنے والا کہنا دراصل فلک کا خالق یا تخلیق کا اصل کارپرداز مراد ہے۔ ذرا غور کریں تو تقدیر اور خالق کے مابین کوئی تضاد یا فرق نہیں۔ کیوں کہ تقدیر بھی خالق و مالک ذات کا ایک مقرر کردہ امر/ فیصلہ ہے جس کا اطلاق اس کی مخلوق پر ہونا بہرحال بدیہی ہے۔ اس لیے آسمان يا فلک سے متعلق جتنے بھی تکوینی یا تقدیری امور متعلق کیے جاتے ہیں، ان سب سے مراد ایک ہی مرکزی کردار کو مخاطَب یا ذمہ دار ٹھہرانا ہوتا ہے اور وہ تقدیر کا امر جاری کرنے والا خدا ہے۔
اس ضمن میں ایک اور چیز آسمان/ فلک کی ”گردش“ بھی شعرا کے ہاں مستقل استعارہ ہے۔ یہ ایسا استعارہ ہے جسے کسی مخصوص فرد سے مختص نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ پوری شعری تہذیب کا مشترکہ استعارہ ہے۔ ”گردش“ سے متعدد مفاہیم ہیں: پھیر، چکر، تغیر، انقلاب۔ انھی معانی کو بنیاد بنا کر زمانے کی گردش سے زمانے کا ایسا تغير يا انقلاب مراد لیا جاتا ہے جو اچھائی سے برائی کی جانب پھر جائے۔ یعنی بدقسمتی میں بدل جائے۔ اردو فارسی کے پورے شعری سرمائے میں بہ استثناے چند ”گردشِ زمانہ/وقت/آسمان/فلک/چرخ/دوراں“ وغیرہ سے بدقسمتی، برائی، مصیبت، آفت اور نحوست ہی مراد ہوتی ہے۔
 

دائم جی

محفلین
سوال: ویسے تو کوئی بھی نعت کہہ سکتا ہے لیکن نعت کا صحیح حق کون ادا کر سکتا ہے؟ وہ شاعر جو دین کا علم بھی جانتا ہے یا وہ عالم جو الفاظ کو منظوم کرنا جانتا ہو؟ ظاہر ہے درمیان کا راستہ ہی بہترین راستہ ہوتا ہے۔ لیکن ہمیشہ اعلیٰ حضرت، حافظ مظہر الدین مظہر یا پیر نصیر الدین نصیر جیسا توازن نہیں بھی ملتا کہ کوئی شخص شاعری میں معاصر شعراء میں ممتاز ہو اور علمِ دین میں بھی۔ اس لیے آپ یہ آپشن نہیں لے سکتے۔ مدلل آراء اور مثالوں سے نوازیے۔ [ابو الحسن خاور]
جواب: نعت گو کے لیے لفظ شناس ہونا کافی نہیں، شرعی سوجھ بوجھ اور مقامِ رسالت سے آگہی بھی ضروری ہے۔ میرے خیال میں یہ چیزیں بہت ہیں۔ ورنہ تو اعلیٰ حضرت بریلوی کے بھی بہت سے اشعار کڑے معیار سے بہت گرے ہوئے ہیں۔ ان کی بہت سی ہجویات نعت کے زمرے میں شامل ہیں۔ ہجو اور نعت میں فرق ہونا چاہیے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ نعت ایک الگ صنف ہے اور ہجو الگ! دونوں کو الگ الگ ضرور سمجھیں! بعض مقامات پر امام صاحب اچھے ہجو گو ثابت ہوئے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں۔ ہجو گوئی کی بھی اپنی جمالیات ہے لیکن دو اصناف کو ملا کر ایک ہی نام دینا، اس پر مجھے تحفظات ہیں۔ باقی میں اصرار نہیں کرتا کہ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ میرا اپنا ذوقِ نعت ہے۔ میں کم از کم نعت کہتے ہوئے کسی کی ہجو گوئی پہ نہیں اتر سکتا، نہ میرا یہ معیار ہے۔ امام صاحب ظاہر ہمارے مسلکِ اہلسنت کے امام ہیں۔ ان کے کلام پر معترض نہیں ہوں۔ میرے تصورِ نعت کے کچھ معتقدات ہیں، بس وہی ظاہر کر رہا ہوں۔ میرا مدعا یہی ہے کہ وہابیوں، نجدیوں اور فلاں فلاں کو لتاڑنا اور اسے نعت کا حصہ سمجھنا قرینِ انصاف نہیں۔ میں اگر کہتا کہ میر یا غالب کے بعض اشعار گرے ہوئے ہیں، یا عامیانہ ہیں یا ایسے ہیں ویسے ہیں، تو شاید اکثریت اتفاق کرتی، لیکن امام صاحب سے جذباتی عقیدت کا نتیجہ یہ ہوا کہ سرے سے ہی بات کو قبول نہیں کیا جا رہا۔ اصولی بات ہے کہ ہر صنف اپنے علیحدہ تناظر میں پہچانی جاتی ہے۔ اب کوئی ایک ہی کلام میں حمد اور ہجو یکجا کر دے تو اسے ایک ہی صنف نہیں کہا جا سکے گا، بلکہ کہا جائے گا کہ آدھی تیتر آدھی بٹیر۔
تو خیر! یہ عمومی تناظر ہی بات ہوئی۔ جہاں تک امام صاحب کا قضیہ ہے! اس بابت میں اوپر عرض کر چکا ہوں کہ حدائق بخشش نے تخم ریزی کی ہے نعت میں عصری مسالک کے خلاف ہجویہ مضامین کی۔ اس کی دیکھا دیکھی پورا دبستان ایسا تیار ہوا جو نعت کم کہتا ہے اور دیوبندیوں اور وہابیوں اور فلاں فلاں کی ہجو گوئی پہ اتر آتا ہے۔ میں خود الحمد للہ بریلوی مسلک سے تعلق رکھتا ہوں لیکن امام صاحب ہوں یا کوئی بھی شاعر، میں نعت جیسے تقدیسی ادب میں ہجو گوئی کے حد درجہ بڑھتا ہوا رجحان قطعاً پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتا۔
آپ نے لکھا ”حق کون ادا کر سکتا ہے“ تو اس کا سادہ سا جواب ہے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی انسانی بساط میں نعتِ سید الابرار ﷺ کا حق ادا کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ سوال یہ ہونا چاہیے تھا کہ: نعت کہہ سکنا کون کوالیفائی کرتا ہے؟ آگے دو آپشنز دیے جاتے۔ اس متعلق میں اپنی رائے اوپر دے چکا ہوں۔ لیکن دوبارہ ایک نئے تناظر میں جواب دینا چاہتا ہوں۔
نعت کہنے کے لیے بنیادی Qualification عاجزی، شعورِ اُمّتیت، حدّ الوہیت سے ضروری واقفیت، محبتِ رسول اور رضائے الہی۔ یہ صفات؛ ہو سکتا ہے کسی عالم میں تو نہ ہوں لیکن ایک عام انسان میں ہوں، یا ایک عالم میں تو ہوں مگر کسی دوسرے میں نہ ہوں یا دونوں میں بھی ہو سکتی ہیں۔ لہٰذا نعت کہنے کے لیے اس بنیادی Qualification کا ہونا ضروری ہے۔ باقی معیار، مزاج اور لب و لہجے کا انفراد ہر شاعر کا اپنا ہے۔ اس میں کوئی کسوٹی نہیں مقرر کی جا سکتی۔
 

دائم جی

محفلین
سوال: ”مقدّرات“ کا کیا معنی ہے؟ شاعری کی کوئی اصطلاح ہے؟ [عبدالرحمان انیس]
جواب: مقدرات (دال مشدد) جمع ہے مقدر ہے۔ علمِ قواعد میں یہ اصلاً عربی اصطلاح ہے لیکن بلاغت میں بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ اردو لغات میں اس کا اندراج لفظِ ”مقدر“ کے ساتھ ضرور ہے لیکن غیر مفصل، جس سے اردو کا طالب علم اس لفظ کی اصل معنویت اور غرض و غایت سے آگاہ نہیں ہو سکتا۔
کئی مستند اور بڑی لغات میں بھی اس معنی کا اندراج نہیں ملتا سوائے نور اللغات، نسیم اللغات، مہذب اللغات، فرہنگِ آصفیہ وغیرہ کے، ان میں چار لفظوں میں اس کی جتنی وضاحت ملتی ہے اس کی ایک مثال تو ذیل بحوالۂ مہذب اللغات درج کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اردو شعری سرمائے میں اس کا کوئی اطلاقی نمونہ اس لفظ کے حوالے کے ساتھ میرے مشاہدے میں نہیں آیا۔ خطوطِ غالب میں خواجہ غلام غوث خان بےخبرؔ کے نام ایک خط میں اس کی ایک مثال ملتی ہے۔

”رخ بمناسب نقاب مقدر ہے اور یہ تقدیر جائز اور بلیغ ہے۔“
( خطوطِ غالب، مرتب: مولانا غلام رسول مہر، شیخ نیاز احمد پبلشر، بار دوم، صفحہ ۳۴۴)
فرهنگِ ابجدی جو کہ دراصل فواد افرام البستانی کی عربی لغت ”المنجد الابجدی“ کا فارسی ترجمہ ہے؛ ہمارے پیشِ نظر ہے۔ اس میں مترجم (رضا مھیار) کے الفاظ یوں ہیں:
”در اصطلاح نحويان بمعناى حذف كلمه در لفظ و ابقاى آن در باطن“
(فرهنگِ ابجدی، جلد اول، صفحہ ۲۴۷)
محمد علی تھانوی نے فوائدِ ضیائیہ کے حوالے کے ساتھ لکھا ہے کہ:
”و في الفوائد الضيائية التقدير عبارة عن حذف الشيء عن اللفظ و إبقائه في النيّة“ (ترجمہ) ”تقدير سے مراد کسی لفظ کو ترکیبِ معنی میں باقی رکھتے ہوئے ظاہراً حذف کرنا“
(موسوعۃ کشاف اصطلاحات الفنون و العلوم، جلد اول، صفحہ ۴۹۷)
میرزا مہذب لکھنوی نے لکھا کہ:
”تقدیری بات، وہ لفظ جو عبارت میں موجود نہ ہو مگر اس کے معنی لیے جائیں۔“
(مہذب اللغات، نامی پریس، کنگھی والی گلی، لکھنؤ، ۱۹۸۱ء، جلد ۱۲، صفحہ ۲۹۲)
اسی قواعدی پس منظر کی بنیاد پر ماہرینِ نحو مثلاً سیبویہ وغیرہ نے کہا ہے کہ قرآن مجید کے مقدّرات کے لیے لفظِ ”محذوف“ کی بجائے ”مقدّر“ کہنا چاہیے۔
خداے تعالیٰ کا کرمِ بے پایاں ہوا کہ دورانِ تحقیق جناب ساجد حمید کا ایک مضمون بعنوان ”کلام کی ایک اہم خوبی؛ مقدرات“ ساحلِ نظر سے ہم کنار ہوا جسے ماہنامہ اشراق نے دسمبر ۲۰۱۷ء میں شائع کیا۔ مضمون اگرچہ بنیادی طور پر قرآنی مقدّرات کی قبیل سے ہے لیکن اس کے بعض اہم مشمولات کے ہمارے مفیدِ مطلب مقامات کو ذیل میں بہ ترمیم و اختصار نقل کیا جاتا ہے۔
(۱) عرب ایک لفظ بول کرکے ہزار سود حاصل کرنے کے رسیا تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اسلوب میں غزل کا رنگ پایا جاتا ہے۔یعنی غزل کے ہر ایک شعر کی طرح چند الفاظ میں بات کہہ دی جائے اور پوشیدہ الفاظ کی دریافت اور ان کے معانی کے استخراج کی کوشش قاری کے ذہن کو سپرد کر دی جائے۔ اس لیے قرآن مجید کا کلام اسی آفاقی اسلوب میں ہے جس پر تمام بنی نوع انسان کا اجماع اور مسلسل عمل ہے۔
(۲) شدتِ تقدیر (مقدمات کو مقدر کرنا) عربوں کی سنتِ کلام پر ہے۔
(۳) یہ مقدر مقدمات دراصل انسانی ذہن کی ایک مستقل ضرور ت ہیں۔ انسان خواہ وہ عامی ہو یا عارف، اپنے دل میں عرفان کا جذبۂ فراواں رکھتا ہے۔جب وہ کلام کے بولے گئے لفظوں کی روشنی میں مقدر مقدمات کو دریافت کرتا ہے تو اس کا جذبہ معرفت اہتزاز کی لذت پاتا ہے۔ دریافت سے حاصل اہتزاز کی یہ لذت تاثیر سے لے کر جذبۂ عمل تک سب کو جِلا دیتی ہے۔ یہ مقدرات پر مبنی کلام کاشاید سب سے زیادہ دل نواز پہلو ہے۔
(۴) مقدمات کی تقدیر سے اجمال پیدا ہوتا ہے اور اجمال ذریعۂ جمال ہوتا ہے۔ اَدھ کھلا گلاب جس طرح پورے کھلے گلاب سے جمیل تر ہوتا ہے، اسی طرح ادھ کھلا کلام بھی بسیط کلام کے مقابلے میں جمیل تر ہوتا ہے۔
(۵) مجمل کلام میں لفظوں کا جڑاؤ چست ہوتا ہے، اور سامع تک ہرہر لفظ کا اثر پہنچتا ہے۔ طویل کلام بھدا اور بدنما سا محسوس ہونے لگتا ہے۔
(۶) مقدرات کی بنا پر اجمال سے معنی کوپانے کے لیے حسِ تجسس کا سامان کلام میں پیدا ہوجاتا ہے۔
(۷) کلام بسط و کشاد کی بدمزگی سے بچ جاتا ہے۔ طوالت سے پاک کرنے سے چست کلام پیدا ہوتا ہے، جو خود حسن و جمال کا ایک جزو ہے۔
(۸) مقدمات کی تقدیر (یعنی مقدر رکھنا) کلام کی حدت یا حلاوت کو بڑھا دیتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میری والدہ کی سب سے سریع الاثر ڈانٹ یہ ہوتی تھی: ”آفرین پتر آفرین!“ یہ مختصر جملہ گھنٹوں کی تقریر پر بھاری ہوتا تھا۔اب اس میں کیا کیا مقدر ہے، وہ ہر زبان آشنا جان سکتا ہے، بلکہ کہنا چاہیے کہ ڈانٹ کھانے والا بہ خوبی واقف ہوتا ہے۔
حافظ شیرازی کے دیوان کی پہلی غزل کا یہ شعر دیکھیے:
شب تاریک و بیم موج و گردابے چنیں ہائل — کجا دانند حال ما سبک سارانِ ساحل ہا
مفہوم: ”اندھیری رات، اندیشۂ موج، اور ہول ناک گرداب بھی، ساحل کے بے فکرے ہمارا حال کہاں جانتے ہیں۔“
اس شعر اور اس کے ترجمے میں دیکھیے کہ کتنے خلا ہیں ۔ باتیں یا جملے مکمل نہیں ہیں، خاص طور سے پہلا مصرعہ، جس میں کوئی مبتداء اور خبر نہیں ہے۔ بس الفاظ کی فہرست ہے۔ اس شعرمیں دیکھیے کہ موج، گرداب، اور دوسرے مصرعے میں ساحل کی موجودگی نے واضح کیا کہ شاعر خود سمندر میں رات کے وقت سفر کررہا ہے، اور شدید خوف کا شکار ہے۔ان الفاظ کی دلالت کی وجہ سے بظاہر کلام ادھورا چھوڑ دیا گیا ، لیکن بغیر کسی ابہام کے بالکل واضح ہے۔
(کلام کی ایک اہم خوبی؛ مقدرات، مشمولہ: ماہنامہ اشراق، جلد ۲۹، شمارہ ۱۲، دسمبر ۲۰۱۷، صفحات ۳۳ تا ۴۰)
جناب ساجد حمید کے مضمون سے اہم جملے ترمیم و اختصار کے ساتھ اوپر نقل کیے گئے۔ راقم الحروف کے تلاش و استقرا کے بعد ادبی متون میں بعض الفاظ کو مقدّر کرنے کے کچھ بلاغی اور قواعدی اسباب حاصل ہوئے ہیں جنھیں اجمال کے ساتھ ذیل میں تحریر کیا جاتا ہے:
(۱) کلام میں ایجاز پیدا کرنا
(۲) معنی آفرینی کا عمل جاری کرنا تاکہ مقدرات کے غیر متعین ہونے سے متن میں کثیر الابعادیت پیدا ہو
(۳) مقدرات کے بدیہی ہونے کی وجہ سے لفظاً انھیں مضمر رکھنا
(۴) سامع يا قاری کے فہمِ معاملہ کی پرکشا کرنا
(۵) متن میں رمز اور انشائیہ پیدا کرنا
(۶) متن کو یوں حسبِ حال بنانا کہ مخاطَب (قاری يا سامع) کو مقدرات سے غرض نہ رہے
(۷) نفسِ کلام میں مقدرات کا کوئی جُزو موجود ہو اور کُل کو بوجہ شہرت نہ ذکر کرنا
(۸) سیاقِ کلام میں مقدرات کا فہم سابقہ گفتگو یا عبارات سے بداہۃً حاصل ہو چکا ہو
(۹) مقدرات اگر ذو معنی کلام پر مشتمل ہو اور متکلم اس سے گریز کرنا چاہے۔

ان تمام اسباب کی صورت میں کلام سے کچھ الفاظ کو معنی باقی رکھتے ہوئے لفظاً حذف کر دیتے ہیں اور اصطلاح میں اسے ”تقدیر“ يا ”مقدّر کرنا“ کہتے ہیں۔
ڈاکٹر سید عبد اللہ نے حکیم مؤمنؔ کے دیوان (مجلس ترقیِ ادب، لاہور، طبعِ اول ۱۹۶۴ء) کے مقدمے میں جہاں مؤمنؔ کے دیگر محاسن کا ذکر کیا ہے وہیں مؤمنؔ کے ہاں مضمون (لفظ و معنیٰ) کی کچھ کڑیاں محذوف رکھ کر شعر کہنے کا تذکرہ بھی کیا ہے:

”مومن کے طرز کی ایک خصوصیت جو کبھی خرابی بھی بن جاتی ہے، یہ ہے کہ وہ خیال کو اس طرح ظاہر کرتے ہیں کہ قاری کی ذہانت کے لیے اس میں تھوڑا بہت چیلنج ضرور ہوتا ہے۔ وہ بات کو چھپا کر ظاہر کرتے ہیں؛ کبھی حذف سے، کبھی پیچ سے، کبھی نقیض سے، کبھی متضاد حقیقتوں کو بیان کرکے، کبھی اشاروں اور رمزوں میں، کبھی کنابے کے استعمال سے۔ غرض مضمون ادا کرنے کا طریقہ براه راست نہیں، اس میں کچھ نہ کچھ پیچا پیچی ضرور ہوتی ہے۔ اور کچھ نہ ہوا تو فارسی ترکیبوں سے اور ان میں مسلسل اضافتين لا کر ہی بیان میں رعب یا غرابت کا اثر پیدا کرتے ہیں۔ ایک عام صورت یہ ہے کہ مضمون کی کچھ کڑیاں محذوف ہوتی ہیں، سرسری طور سے پڑھنے والے کو پہلی مرتبہ پڑھنے سے بسا اوقات شعر عجیب سا معلوم ہوتا ہے مگر شعری لوازم کی جن لوگوں کو تربیت حاصل ہے وہ بہت آسانی سے تھوڑے ہی تامل سے شعر کے مفہوم تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔“
(کلامِ مؤمن، مشمولہ مقدمہ، کلیاتِ مؤمنؔ، مجلسِ ترقیِ ادب، لاہور، بار اول، جولائی ۱۹۶۴ء، جلد اول، صفحہ ۳۵ تا ۳۶)
 

دائم جی

محفلین
میرے حساب سے یہاں نو خطاں معشوقوں کے لیے استعارہ ہے اور خط اور نبات، زمین اور خاک کی نسبت ظاہر ہے.
بجا فرما رہے ہیں آپ! میں نے اسی شعر کو اگلے شعر سے ملا کر مراد ظاہر کر دی ہے۔ فی الحال لفظوں کی ذاتی معنویت کی جانب اشارہ کیا ہے۔ وہی استعارے ہیں۔ 😊
 
Top