فاتح
لائبریرین
آج وارث صاحب سے گفتگو کے دوران انہیں ایک شعر سنایا جو غالب کے مصرع "اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے" پر قتیل شفائی کی تضمین ہے۔ شعر کچھ یوں تھا:
رقص کرنے کا ملا حکم جو دریاؤں میںجس برہمن نے کہا ہےکہ یہ سال اچھا ہے
اس کو دفناؤ مرے ہاتھ کی ریکھاؤں میں
وارث صاحب کو یہ شعر بے حد پسند آیا اور ان کی جانب سے پذیرائی کو مہمیز جانتے ہوئے ہم نے یہ غزل محفل پر ارسال کرنے کا ارادہ کیا۔ لیجیے قتیل شفائی کی یہ خوبصورت غزل آپ احباب کی بصارتوں کی نذر:اس کو دفناؤ مرے ہاتھ کی ریکھاؤں میں
ہم نے خوش ہو کے بھنور باندھ لئے پاؤں میں
ان کو بھی ہے کسی بھیگے ہوئے منظر کی تلاش
بوند تک بو نہ سکے جو کبھی صحراؤں میں
اے میرے ہمسفرو تم بھی تھکے ہارے ہو
دھوپ کی تم تو ملاوٹ نہ کرو چھاؤں میں
جو بھی آتا ہے بتاتا ہے نیا کوئی علاج
بٹ نہ جائے ترا بیمار مسیحاؤں میں
حوصلہ کس میں ہے یوسف کی خریداری کا
اب تو مہنگائی کے چرچے ہیں زلیخاؤں میں
جس برہمن نے کہا ہےکہ یہ سال اچھا ہے
اس کو دفناؤ مرے ہاتھ کی ریکھاؤں میں
وہ خدا ہے کسی ٹوٹے ہوئے دل میں ہو گا
مسجدوں میں اسے ڈھونڈو نہ کلیساؤں میں
ہم کو آپس میں محبت نہیں کرنے دیتے
اک یہی عیب ہے اس شہر کے داناؤں میں
مجھ سے کرتے ہیں قتیلؔ اس لئے کچھ لوگ حسد
کیوں مرے شعر ہیں مقبول حسیناؤں میں
(قتیل شفائی)