رقیب!

ہزار بار کیا شک تو مل سکا نہ رقیب
پھر اس کے بعد مرا شک سوئے خدا بھی گیا
حجاز
شاعروں کے نزدیک رقیب کا کیا تصور ہوتا ہے؟
 

زبیر مرزا

محفلین
آ کہ وابستہ ہیں اُس حُسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا ہے

فیض صاحب نے رقیب کو مخاطب کرکے تعلق رقیبانہ کو نیا رنگ دیا
 
جناب رقیب کے چند معنی ہیں اور کچھ معنی تو کاملاً متضاد ہیں
میں نے اپنے شعر میں جس معنی کو پہنچایا ہے وہ رقابت سے آیا ہے۔۔۔۔ اور فیض صاحب کے شعر سے جو معنی اخذ ہوتے ہے وہ ہم چشمک یا لنگوٹھیا یار کے ہیں۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
ہزار بار کیا شک تو مل سکا نہ رقیب
پھر اس کے بعد مرا شک سوئے خدا بھی گیا
حجاز
شاعروں کے نزدیک رقیب کا کیا تصور ہوتا ہے؟
غالب فرماتے ہیں
قیامت ہے کہ ہووے مدعی کا ہمسفر غالبؔ
وہ کافر جو خدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مجھ سے

حجاز کا شعر ہے تو حجاز ہی بتائے
 
حجاز کا شعر ہے تو حجاز ہی بتائے

میاں چھوٹے غالب، آج غالب کا ایک شعر ہماری نظروں سے گزرا اس کی تشریح کر دیکھیے تو ہمارے شعر کی بھی خود تشریح ہو جائے گی۔۔۔۔۔
تری طرف ہے بہ حسرت نظارہ
نرگس
بہ کوری دل و چشم رقیب ساغر کھینچ
 
Top