حجاب
محفلین
[align=right:562d03a331]رمضان المبارک دلوں کی صفائی کا مہینہ۔
رمضان المبارک کی اہمیت اور فضیلت ہم شروع سے پڑھتے اور علمائے کرام سے سنتے آئے ہیں،لیکن حقیقت یہ ہے کہ اِس کی فضیلتوں اور برکتوں پر جتنا کچھ لکھا پڑھا اور سُنا جائے کم ہے۔یہ وہ مہینہ ہے جو تمام مہینوں کا سردار کہلاتا ہے اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔اِسے نیکیوں کو موسمِ بہار کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
ہم دن میں روزہ رکھتے ہیں ،رات کو اللہ کے حضور رکوع وسجود کرتے ہیں اور شب و روز کی مختلف ساعتوں میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں ،قرآن پاک پڑھتے اور سنتے ہیں ،صدقہ و خیرات کرتے ہیں،اور جتنا ممکن ہو سکتا ہے برائی سے بچتے ہیں۔اپنا احتساب کرتے ہیں پھر مہینے بھر کی ریاضتوں کے بعد عید کی صبح عیدگاہ پہنچتے ہیں اور اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہیں جس نے ہم کو یہ مبارک مہینہ عنایت فرمایا اور عبادت کی توفیق دی اور اس حال میں جب آپ عید کی نماز پڑھ کر واپس آئیں گے تو اللہ اپنے فرشتوں میں اعلان کرے گا،میں نے ان بندوں کی بخشش فرما دی۔
اور آپ بخشے بخشائے اپنے گھروں کو واپس جائیں گے۔ایک مسلمان کے لئے اس سے بڑی بھلا اور کیا کامیابی ہو سکتی ہے کہ اُس کے گناہ معاف کر دئیے جائیں اور اُس کی ہمیشہ رہنے والی زندگی جنت کے نعمتوں میں گزرے۔
البتہ اس حقیقی کامیابی کے لئے کچھ باتوں کا ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے جو ہم عام طور پر فراموش کردیتے ہیں ۔ہمیں چاہیئے کہ اس مبارک مہینے میں ہم جو بھی عمل کریں خواہ وہ اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہونا ہو ،کسی غریب کو روزہ افطار کرایا جائے ،جو بھی عمل کیا جائے اُس کا شعوری اور پُرخلوص ہونا بڑا ضروری ہے۔آپ اگر قرآن پاک کی تلاوت کریں تو شعور اور سمجھ کے ساتھ،روزہ رکھیں شعور کے ساتھ،اگر اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے تو وہ بھی شعور اور اس سوچ کے تحت کہ یہ سب اللہ کے لئے ہے اور اللہ ہی کے دئیے ہوئے مال سے آپ دوسروں کو دے رہے ہیں۔
ہم شعور کے ساتھ جو بھی عبادت کریں گے اُس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ہم عملاً اپنے نیک کاموں کی برکتیں اور اثرات اپنی زندگی میں محسوس کریں گے ،ہمارے قلب کو اطمینان حاصل ہوگا اس طرح ہمارے لئے نیکیوں کے راستے پر چلنا آسان سے آسان تر ہوتا جائے گا۔
اگر ہم دورانِ تلاوت اس آیت پر پہنچتے ہیں کہ،اے ایمان والو ! تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا ۔
تو سوچیئے ! کہ یہ ہمارا رب ہم سے براہِ راست مخاطب ہے ،یہ اللہ کی آواز ہے ،جو ہم کو پکار رہا ہے ہمارا نام لے کر پکار رہا ہے کیونکہ ہم ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں ،ہم مسلمان ہیں اور ہمیں اپنے مسلمان اور مومن ہونے پر فخر ہے اور ہم ایمان والوں میں شامل ہیں لہذٰا اللہ ہم سے باتیں کر رہا ہے وہ ہم سے مخاطب ہے۔ہم قرآن پاک کے الفاظ پر جتنا غور کریں گے اُسی قدر اُس کی روحانیت ہمارے وجود میں اُترتی جائے گی،آپ اپنے اندر ایک وجدانی کیفیت محسوس کریں گے اور آپ کو لگے گا کہ واقعی ہمارا رب ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے۔
کسی بھی مومن کے لئے یہی کافی ہے کہ اُس کا رب اُسے کسی چیز کا حکم دے رہا ہے باقی تمام باتیں ثانوی ہیں۔جب یہ باتیں ہم شعوری طور پر اپنے اندر محسوس کریں گے تو ہمارے اندر ایمان کی طاقت کئی گناہ بڑھ جائے گی۔
عام طور پر رمضان میں بعض لوگ روزے کے باوجود بہت جلدی اور معمولی معمولی باتوں پر مشتعل ہوجاتے ہیں ۔ٹریفک میں نظم و ضبط آنے کہ بجائے بے ضبطگی بڑھنے لگتی ہے ہر شخص اپنے گھر پر دوسرے سے پہلے پہنچنا چاہتا ہے افطار کے وقت ایک عجیب سی مسابقت اور دوڑ کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ روزہ انسان کی انہی کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے فرض کیا گیا ہے،روزہ کا مطلب ہی انسان کو تحمل ،بردباری،برداشت ،تقویٰ اور پرہیزگاری کا سکھانا ہے۔
ہمیں اپنے ذہن میں یہ بات بٹھا لینا چاہیئے کہ روزہ کوئی بوجھ نہیں ہے ،جو اللہ نے اپنے بندوں پر لاد دیا ہو بلکہ یہ انسانوں کی تعمیر ،تربیت اور تزکیہ نفس کے لئے فرض کیا گیا ہے۔یہ ایسا عمل ہے جو اللہ کو سب سے زیادہ عزیز ہے اسی لئے اللہ نے اسے ہر دور میں ہر نبی کی اُمّت پر فرض کیا۔یہ تربیت اور تزکیہ کے نظام کا ایسا ضروری جزو ہے اور اس قدر موثر عمل ہے کہ اللہ کی کوئی شریعت کبھی اس سے خالی نہیں رہی۔
ہمیں صرف یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ اللہ نے ہم پر روزہ فرض کرکے ہم پر اپنی رحمت اور عنایت کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ہم کو ایسا شجر سایہ دار فراہم کیا جہاں راحت اور سکون ہے۔اللہ کا یہ فرمان کہ ! اسے تم پر ایسے ہی فرض کیا گیا جیسے پہلے لوگوں پر کیا تھا۔
ان الفاظ کے ذریعے اللہ نے روزے کی عظمت،اہمیت اور غیر معمولی برکت بیان فرمائی ہے۔سورۃ بقرہ کے اس آیتِ مبارکہ کے آخری حصّے میں اللہ نے روزے کی وجہ بیان فرمادی ہے۔" تاکہ تم پرہیزگار بن سکو “
یعنی اللہ نے روزے کا حکم ہم انسانوں کے فائدے کے لئے ہی دیا ہے ،پرہیزگاری اختیار کرنے میں یقینناً انسان کا ہی فائدہ ہے ۔اللہ تو بے نیاز ہے ۔
رمضان المبارک کا مہینہ خاص طور پر دلوں کی صفائی ،روح کی ترقی،اور تزکیہ نفس کا مہینہ ہے۔یوں تو اس ماہِ مبارک کی ساری عبادتیں،روزہ،صدقہ و خیرات،تراویح ،تلاوت قرآن پاک،اور اعتکاف اسی لئے ہیں کہ دل ہر طرح کی کدورت اور گناہوں کے زنگ سے صاف ہوکر آئینے کی طرح شفاف ہوجائے مگر خاص طور پر قرآن پاک کی تلاوت (سمجھ کر ) قلب کی صفائی اور جِلا کے لئے موثر ترین اور یقینی ذریعہ ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کا ارشاد ہے کہ : یہ انسانی قلوب بھی زنگ آلود ہوجاتے ہیں جس طرح لوہے کو پانی سے زنگ لگ جاتا ہے ۔پوچھا گیا ،کہ اے اللہ کے رسول پھر دلوں کے زنگ دور کرنے والی اور جِلا بخشنے والی چیز کیا ہے ؟ارشاد فرمایا۔" کثرت سے موت کی یاد اور قرآن پاک کی تلاوت “
ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ : اے قرآن کے ماننے والو ! قرآن کو تکیہ نہ بنا لینا ،شب و روز کی گھڑیوں میں اس کی تلاوت کا حق ادا کرنا ،اس کی اشاعت اور اس کے پڑھنے پڑھانے کو رواج دینا ۔اس کے الفاظ کو صحیح صحیح ادا کرنا اور اس پر غور و فکر کرتے رہنا تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔اور جلد بازی کرکے اس سے دنیا کا صلہ مت چاہنا۔اللہ کی خوشنودی کے لئے اس کی تلاوت کرنا کہ آخرت میں اس کا صلہ لازمی ہے ۔(مشکٰوۃ )
روزہ اس لئے فرض کیا گیا ہے کہ انسان پرہیزگاری اختیار کرے ۔اس کے دل میں وہ غیر معمولی قوت پیدا ہوجائے کہ نیکی کی راہ پر بڑھنا اور دوڑنا اُس کے لئے آسان اور برائی کی راہ پر جانا اُس کے لئے دشوار ہوجائے ۔یہ تقویٰ ہی ہے جو انسان کی دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کی سیڑھی ہے کیونکہ تقویٰ دل کی وہ روشن کیفیت ہے جس کے ذریعے آدمی پر ہدایت کی راہ کُھلتی ہے ۔تقویٰ ہی وہ پسندیدہ جوہر ہے جس کی بنیاد پر اللہ نیک اعمال کو تقویت بخشتا ہے ،غیر متّقی انسان کا عمل اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہے۔
اگرچہ ہر عبادت کا مرکزی نقطہ یہی تقویٰ ہوتا ہے لیکن روزے کو اس معاملے میں بھی دوسرے اعمال پر فضیلت حاصل ہے ،اسی لئے اللہ نے تقویٰ کو روزے کا حاصل قرار دیا ہے ۔یہاں یہ جاننا ضروری ہوگا کہ تقویٰ کیا ہے ؟
اس کے لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کی مناسبت سے بیان کردہ واقع بہت ضروری ہے اس سے بہتر تاریخ میں شائد ہی کوئی تقویٰ سے متعلق مثال ملتی ہو۔
کہتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ اے امیر المومنین تقویٰ کس کو کہتے ہیں ؟
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہُ نے فرمایا ! کہ کیا تیرا گزر کبھی ایسی راہ سے ہوا ہے جہاں کانٹے اور جھاڑیاں ہوں ؟
اُس شخص نے کہا،ہاں ! میں اپنی زندگی میں کئی بار ایسے پُر خار راستوں سے گزرا ہوں۔
تب آپ نے فرمایا کہ تو جب ایسے راستے سے گزر رہا ہوتا ہے تو کیا کرتا ہے ؟
اُس شخص نے جواب دیا کہ اے امیر المومنین ! میں اپنا دامن کانٹوں سے بچا بچا کر چلتا ہوں کہ کہیں میرے کپڑے کانٹوں سے نہ اُلجھ جائیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہُ نے فرمایا کہ دنیا میں برائیوں سے اپنا دامن بچا بچا کر چلنا ہی تقویٰ کہلاتا ہے ۔تو روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ انسان کی اس طرح تربیت کرتا ہے کہ انسان برائیوں سے بچتا ہے۔
ایک بار حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہُ نبی اکرم صلی اللہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی ۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم مجھے وصیت فرمائیے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا۔
میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو ۔اللہ کا تقویٰ تمہارے دین و دنیا کے سارے معاملات سدھارنے اور سنوارنے والی چیز ہے ۔
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہُ نے درخواست کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کچھ اور وصیت فرمائیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا،تلاوتِ قرآن اور اللہ کا ذکر پابندی سے کرتے رہنا اس کے ذریعے آسمان والوں میں تمہارا ذکر اور چرچا ہوگا اور یہ عمل زندگی کی تاریکیوں میں تمہیں روشنی کا کام دے گا (مشکوٰۃ )
ہمیشہ اُنہی لوگوں کے لئے کامیابی لکھی جاتی ہے جو اللہ کے حکم کو آخری اور حرفِ آخر سمجھتے ہیں ،اللہ نے اگر روزے کا حکم دیا ہے تو اس سے انحراف کی کوئی گنجائش نہیں،اللہ کے لئے بھوکے پیاسے رہ کر گویا انسان اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ ہماری زندگی اللہ کے تابع اور اختیار میں ہے ۔
ہماری ساری صلاحیتیں اور جان و مال اللہ کی طرف سے ودیعت کی گئی ہیں۔دن بھر بھوکے پیاسے رہے جبکہ ٹھنڈا پانی بھی میسّر تھا اور کھانا بھی ۔لیکن ہم محض اس لئے اس سے بچے رہے کہ اللہ نے اس کو روزے میں ہمارے لئے حرام قرار دیا ہے۔
اور اگر اللہ نے آپ کو اعتکاف کی توفیق بخشی تو گویا آپ نے دس دن تک اپنی زندگی سے یہ ثبوت دینا چاہا اور یہ عادت ڈالنی چاہی کہ آپ،آپ کی ہر چیز اور آپ کی ساری دوڑ دھوپ صرف اللہ کے لئے ہے۔اس دنیا میں جو کچھ آپ کو کرنا ہے صرف اُس ربِ کائنات کے لئے کرنا ہے کہ باری تعالیٰ ہم سے راضی ہوجائے اور روزے کے اصل مقاصد پرہیزگاری اور تقویٰ آپ کی زندگی کا حاصل بن جائیں۔
اس طرح یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ اگر کوئی روزہ رکھنے کے باوجود تقویٰ سے محروم ہے تو اُسے اپنے روزوں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا محض فاقہ کی مشق ہوگی،ہم سب کی روزے کے دوران یہ کوشش ہونی چاہیئے کہ ہمارا شمار ایسے لوگوں میں نہ ہو جنہیں سوائے بھوک پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
رمضان المبارک کے دن گنتی کے دن ہیں،وقت اپنی رفتار سے چلتا رہتا ہے،یہ نہیں رکتا لیکن کامیاب وہی لوگ ہوتے ہیں جو اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪[/align:562d03a331]
رمضان المبارک کی اہمیت اور فضیلت ہم شروع سے پڑھتے اور علمائے کرام سے سنتے آئے ہیں،لیکن حقیقت یہ ہے کہ اِس کی فضیلتوں اور برکتوں پر جتنا کچھ لکھا پڑھا اور سُنا جائے کم ہے۔یہ وہ مہینہ ہے جو تمام مہینوں کا سردار کہلاتا ہے اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔اِسے نیکیوں کو موسمِ بہار کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
ہم دن میں روزہ رکھتے ہیں ،رات کو اللہ کے حضور رکوع وسجود کرتے ہیں اور شب و روز کی مختلف ساعتوں میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں ،قرآن پاک پڑھتے اور سنتے ہیں ،صدقہ و خیرات کرتے ہیں،اور جتنا ممکن ہو سکتا ہے برائی سے بچتے ہیں۔اپنا احتساب کرتے ہیں پھر مہینے بھر کی ریاضتوں کے بعد عید کی صبح عیدگاہ پہنچتے ہیں اور اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہیں جس نے ہم کو یہ مبارک مہینہ عنایت فرمایا اور عبادت کی توفیق دی اور اس حال میں جب آپ عید کی نماز پڑھ کر واپس آئیں گے تو اللہ اپنے فرشتوں میں اعلان کرے گا،میں نے ان بندوں کی بخشش فرما دی۔
اور آپ بخشے بخشائے اپنے گھروں کو واپس جائیں گے۔ایک مسلمان کے لئے اس سے بڑی بھلا اور کیا کامیابی ہو سکتی ہے کہ اُس کے گناہ معاف کر دئیے جائیں اور اُس کی ہمیشہ رہنے والی زندگی جنت کے نعمتوں میں گزرے۔
البتہ اس حقیقی کامیابی کے لئے کچھ باتوں کا ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے جو ہم عام طور پر فراموش کردیتے ہیں ۔ہمیں چاہیئے کہ اس مبارک مہینے میں ہم جو بھی عمل کریں خواہ وہ اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہونا ہو ،کسی غریب کو روزہ افطار کرایا جائے ،جو بھی عمل کیا جائے اُس کا شعوری اور پُرخلوص ہونا بڑا ضروری ہے۔آپ اگر قرآن پاک کی تلاوت کریں تو شعور اور سمجھ کے ساتھ،روزہ رکھیں شعور کے ساتھ،اگر اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے تو وہ بھی شعور اور اس سوچ کے تحت کہ یہ سب اللہ کے لئے ہے اور اللہ ہی کے دئیے ہوئے مال سے آپ دوسروں کو دے رہے ہیں۔
ہم شعور کے ساتھ جو بھی عبادت کریں گے اُس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ہم عملاً اپنے نیک کاموں کی برکتیں اور اثرات اپنی زندگی میں محسوس کریں گے ،ہمارے قلب کو اطمینان حاصل ہوگا اس طرح ہمارے لئے نیکیوں کے راستے پر چلنا آسان سے آسان تر ہوتا جائے گا۔
اگر ہم دورانِ تلاوت اس آیت پر پہنچتے ہیں کہ،اے ایمان والو ! تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا ۔
تو سوچیئے ! کہ یہ ہمارا رب ہم سے براہِ راست مخاطب ہے ،یہ اللہ کی آواز ہے ،جو ہم کو پکار رہا ہے ہمارا نام لے کر پکار رہا ہے کیونکہ ہم ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں ،ہم مسلمان ہیں اور ہمیں اپنے مسلمان اور مومن ہونے پر فخر ہے اور ہم ایمان والوں میں شامل ہیں لہذٰا اللہ ہم سے باتیں کر رہا ہے وہ ہم سے مخاطب ہے۔ہم قرآن پاک کے الفاظ پر جتنا غور کریں گے اُسی قدر اُس کی روحانیت ہمارے وجود میں اُترتی جائے گی،آپ اپنے اندر ایک وجدانی کیفیت محسوس کریں گے اور آپ کو لگے گا کہ واقعی ہمارا رب ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے۔
کسی بھی مومن کے لئے یہی کافی ہے کہ اُس کا رب اُسے کسی چیز کا حکم دے رہا ہے باقی تمام باتیں ثانوی ہیں۔جب یہ باتیں ہم شعوری طور پر اپنے اندر محسوس کریں گے تو ہمارے اندر ایمان کی طاقت کئی گناہ بڑھ جائے گی۔
عام طور پر رمضان میں بعض لوگ روزے کے باوجود بہت جلدی اور معمولی معمولی باتوں پر مشتعل ہوجاتے ہیں ۔ٹریفک میں نظم و ضبط آنے کہ بجائے بے ضبطگی بڑھنے لگتی ہے ہر شخص اپنے گھر پر دوسرے سے پہلے پہنچنا چاہتا ہے افطار کے وقت ایک عجیب سی مسابقت اور دوڑ کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ روزہ انسان کی انہی کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے فرض کیا گیا ہے،روزہ کا مطلب ہی انسان کو تحمل ،بردباری،برداشت ،تقویٰ اور پرہیزگاری کا سکھانا ہے۔
ہمیں اپنے ذہن میں یہ بات بٹھا لینا چاہیئے کہ روزہ کوئی بوجھ نہیں ہے ،جو اللہ نے اپنے بندوں پر لاد دیا ہو بلکہ یہ انسانوں کی تعمیر ،تربیت اور تزکیہ نفس کے لئے فرض کیا گیا ہے۔یہ ایسا عمل ہے جو اللہ کو سب سے زیادہ عزیز ہے اسی لئے اللہ نے اسے ہر دور میں ہر نبی کی اُمّت پر فرض کیا۔یہ تربیت اور تزکیہ کے نظام کا ایسا ضروری جزو ہے اور اس قدر موثر عمل ہے کہ اللہ کی کوئی شریعت کبھی اس سے خالی نہیں رہی۔
ہمیں صرف یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ اللہ نے ہم پر روزہ فرض کرکے ہم پر اپنی رحمت اور عنایت کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ہم کو ایسا شجر سایہ دار فراہم کیا جہاں راحت اور سکون ہے۔اللہ کا یہ فرمان کہ ! اسے تم پر ایسے ہی فرض کیا گیا جیسے پہلے لوگوں پر کیا تھا۔
ان الفاظ کے ذریعے اللہ نے روزے کی عظمت،اہمیت اور غیر معمولی برکت بیان فرمائی ہے۔سورۃ بقرہ کے اس آیتِ مبارکہ کے آخری حصّے میں اللہ نے روزے کی وجہ بیان فرمادی ہے۔" تاکہ تم پرہیزگار بن سکو “
یعنی اللہ نے روزے کا حکم ہم انسانوں کے فائدے کے لئے ہی دیا ہے ،پرہیزگاری اختیار کرنے میں یقینناً انسان کا ہی فائدہ ہے ۔اللہ تو بے نیاز ہے ۔
رمضان المبارک کا مہینہ خاص طور پر دلوں کی صفائی ،روح کی ترقی،اور تزکیہ نفس کا مہینہ ہے۔یوں تو اس ماہِ مبارک کی ساری عبادتیں،روزہ،صدقہ و خیرات،تراویح ،تلاوت قرآن پاک،اور اعتکاف اسی لئے ہیں کہ دل ہر طرح کی کدورت اور گناہوں کے زنگ سے صاف ہوکر آئینے کی طرح شفاف ہوجائے مگر خاص طور پر قرآن پاک کی تلاوت (سمجھ کر ) قلب کی صفائی اور جِلا کے لئے موثر ترین اور یقینی ذریعہ ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کا ارشاد ہے کہ : یہ انسانی قلوب بھی زنگ آلود ہوجاتے ہیں جس طرح لوہے کو پانی سے زنگ لگ جاتا ہے ۔پوچھا گیا ،کہ اے اللہ کے رسول پھر دلوں کے زنگ دور کرنے والی اور جِلا بخشنے والی چیز کیا ہے ؟ارشاد فرمایا۔" کثرت سے موت کی یاد اور قرآن پاک کی تلاوت “
ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ : اے قرآن کے ماننے والو ! قرآن کو تکیہ نہ بنا لینا ،شب و روز کی گھڑیوں میں اس کی تلاوت کا حق ادا کرنا ،اس کی اشاعت اور اس کے پڑھنے پڑھانے کو رواج دینا ۔اس کے الفاظ کو صحیح صحیح ادا کرنا اور اس پر غور و فکر کرتے رہنا تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔اور جلد بازی کرکے اس سے دنیا کا صلہ مت چاہنا۔اللہ کی خوشنودی کے لئے اس کی تلاوت کرنا کہ آخرت میں اس کا صلہ لازمی ہے ۔(مشکٰوۃ )
روزہ اس لئے فرض کیا گیا ہے کہ انسان پرہیزگاری اختیار کرے ۔اس کے دل میں وہ غیر معمولی قوت پیدا ہوجائے کہ نیکی کی راہ پر بڑھنا اور دوڑنا اُس کے لئے آسان اور برائی کی راہ پر جانا اُس کے لئے دشوار ہوجائے ۔یہ تقویٰ ہی ہے جو انسان کی دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کی سیڑھی ہے کیونکہ تقویٰ دل کی وہ روشن کیفیت ہے جس کے ذریعے آدمی پر ہدایت کی راہ کُھلتی ہے ۔تقویٰ ہی وہ پسندیدہ جوہر ہے جس کی بنیاد پر اللہ نیک اعمال کو تقویت بخشتا ہے ،غیر متّقی انسان کا عمل اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہے۔
اگرچہ ہر عبادت کا مرکزی نقطہ یہی تقویٰ ہوتا ہے لیکن روزے کو اس معاملے میں بھی دوسرے اعمال پر فضیلت حاصل ہے ،اسی لئے اللہ نے تقویٰ کو روزے کا حاصل قرار دیا ہے ۔یہاں یہ جاننا ضروری ہوگا کہ تقویٰ کیا ہے ؟
اس کے لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کی مناسبت سے بیان کردہ واقع بہت ضروری ہے اس سے بہتر تاریخ میں شائد ہی کوئی تقویٰ سے متعلق مثال ملتی ہو۔
کہتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ اے امیر المومنین تقویٰ کس کو کہتے ہیں ؟
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہُ نے فرمایا ! کہ کیا تیرا گزر کبھی ایسی راہ سے ہوا ہے جہاں کانٹے اور جھاڑیاں ہوں ؟
اُس شخص نے کہا،ہاں ! میں اپنی زندگی میں کئی بار ایسے پُر خار راستوں سے گزرا ہوں۔
تب آپ نے فرمایا کہ تو جب ایسے راستے سے گزر رہا ہوتا ہے تو کیا کرتا ہے ؟
اُس شخص نے جواب دیا کہ اے امیر المومنین ! میں اپنا دامن کانٹوں سے بچا بچا کر چلتا ہوں کہ کہیں میرے کپڑے کانٹوں سے نہ اُلجھ جائیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہُ نے فرمایا کہ دنیا میں برائیوں سے اپنا دامن بچا بچا کر چلنا ہی تقویٰ کہلاتا ہے ۔تو روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ انسان کی اس طرح تربیت کرتا ہے کہ انسان برائیوں سے بچتا ہے۔
ایک بار حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہُ نبی اکرم صلی اللہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی ۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم مجھے وصیت فرمائیے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا۔
میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو ۔اللہ کا تقویٰ تمہارے دین و دنیا کے سارے معاملات سدھارنے اور سنوارنے والی چیز ہے ۔
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہُ نے درخواست کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کچھ اور وصیت فرمائیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا،تلاوتِ قرآن اور اللہ کا ذکر پابندی سے کرتے رہنا اس کے ذریعے آسمان والوں میں تمہارا ذکر اور چرچا ہوگا اور یہ عمل زندگی کی تاریکیوں میں تمہیں روشنی کا کام دے گا (مشکوٰۃ )
ہمیشہ اُنہی لوگوں کے لئے کامیابی لکھی جاتی ہے جو اللہ کے حکم کو آخری اور حرفِ آخر سمجھتے ہیں ،اللہ نے اگر روزے کا حکم دیا ہے تو اس سے انحراف کی کوئی گنجائش نہیں،اللہ کے لئے بھوکے پیاسے رہ کر گویا انسان اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ ہماری زندگی اللہ کے تابع اور اختیار میں ہے ۔
ہماری ساری صلاحیتیں اور جان و مال اللہ کی طرف سے ودیعت کی گئی ہیں۔دن بھر بھوکے پیاسے رہے جبکہ ٹھنڈا پانی بھی میسّر تھا اور کھانا بھی ۔لیکن ہم محض اس لئے اس سے بچے رہے کہ اللہ نے اس کو روزے میں ہمارے لئے حرام قرار دیا ہے۔
اور اگر اللہ نے آپ کو اعتکاف کی توفیق بخشی تو گویا آپ نے دس دن تک اپنی زندگی سے یہ ثبوت دینا چاہا اور یہ عادت ڈالنی چاہی کہ آپ،آپ کی ہر چیز اور آپ کی ساری دوڑ دھوپ صرف اللہ کے لئے ہے۔اس دنیا میں جو کچھ آپ کو کرنا ہے صرف اُس ربِ کائنات کے لئے کرنا ہے کہ باری تعالیٰ ہم سے راضی ہوجائے اور روزے کے اصل مقاصد پرہیزگاری اور تقویٰ آپ کی زندگی کا حاصل بن جائیں۔
اس طرح یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ اگر کوئی روزہ رکھنے کے باوجود تقویٰ سے محروم ہے تو اُسے اپنے روزوں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا محض فاقہ کی مشق ہوگی،ہم سب کی روزے کے دوران یہ کوشش ہونی چاہیئے کہ ہمارا شمار ایسے لوگوں میں نہ ہو جنہیں سوائے بھوک پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
رمضان المبارک کے دن گنتی کے دن ہیں،وقت اپنی رفتار سے چلتا رہتا ہے،یہ نہیں رکتا لیکن کامیاب وہی لوگ ہوتے ہیں جو اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪[/align:562d03a331]