ساجد بھائی!آپ سمیت تمام ”معترضین “نے میرے مراسلے میں اٹھائے گئے کسی بھی بات کا جواب دینا تو در کنار، پیش کردہ احادیث کے اس واضح حکم کو بھی سراسر نظر انداز کردیا ہے کہ چاند ”دیکھ“ کر روزہ رکھو اور چاند ”دیکھ“ کر روزہ کھولو اور چاند نظر نہ آئے تو تیس دن پورے کرکے عید مناؤ۔ (کیا آپ لوگ اس حدیث کو نہیں مانتے ہیں، اس حدیث کی سند کو نہیں مانتے ہیں، اس حدیث کو آج ”قابل عمل“ نہیں سمجھتے ہیں یا اس کی کوئی ”نئی تشریح “ کرتے ہیں۔ جو کچھ ذہن میں ہے، اسے مکالمہ اور گفتگو کا حصہ بنائیں تو بات سمجھ میں آئے)ایک اسلامی تہوار کے موضوع پرہونے والی گفتگو میں قرآن و احادیث کو ”نظر انداز“ کرکے ”اندیشہ ہائے دور دراز“ (وہ اور آرائش خم کاکل، میں اور اندیشہ ہائے دور دراز) اور سائنسی علوم پر اپنی توجہ کو ”مرتکز“ کرنا کوئی احسن بات نہیں ہے۔
کیا آپ کے علم میں یہ نہیں ہے کہ خود بیت اللہ شریف میں ماضی ہر فقہ کی الگ الگ با جماعت نمازیں بھی ہوا کرتی تھیں۔ کیا آپ کے علم میں نہیں ہے کہ بلوچستان اور بدین سندھ میں بھی ”حج“ ادا کی جاتی رہی ہے۔ کیا آپ کے علم میں نہیں ہے کہ آج بھی حج کے دوران مسلمانوں کے بعض مسالک کے لوگ امامِ کعبہ کے پیچھے نماز ادا نہیں کرتے بلکہ ”اپنی نماز“ الگ پڑھتے ہیں۔ ان سب ”حقائق“ کے باوجود ”اسلامی احکامات“ اپنی اصل صورت میں آج بھی موجود ہیں۔ اور تا قیامت موجود رہیں گے۔
اب آتے ہیں آپ کے ”اندیشہ ہائے دور دراز“ کی طرف۔ سعودیہ میں دو عیدیں تو ممکن ہیں، لیکن دو حج ”ممکن نہیں“۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ”حج“ وہ واحد عبادت ہے، جو مکہ کے ”حاکم وقت“ کے زیر انتظام اور انہی کی نگرانی میں ”ادا“ کی جاتی ہے۔ دشمنان اسلام کی خواہشوں اور کاوشوں سے موجودہ سعودی عرب میں ایک سے زائد حکمران تو برسر اقتدار آ سکتے ہیں۔ لیکن ایسا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ مکہ مکرمہ جیسے شہر پر اب کبھی ایک سے زائد طبقہ بر سر اقتدار آ سکے۔ اور دونوں حاکم طبقہ الگ الگ دن ”حج“ منا سکیں۔ (لوگوں کی خواہشیں ہونا الگ بات ہے)۔ اس شہر پر کسی بھی ایک ہی طبقہ کی حکمرانی ہوگی۔ اور اسی کے مقرر کردہ دن میں ہی حج ہوگا۔
یہ دھاگہ بنیادی طور پر پاکستان یعنی ایک ہی ملک میں دو عیدوں کے حوالہ سے ہے۔ جب عصری علوم یکساں طور پر تمام پاکستانیوں کو حاصل ہوجائے گا تب ہی یہ ممکن ہوگا کہ ہم سب کے سب سائنسی تربیت کے ساتھ قرآن و حدیث کے احکامات کو ”ایک اینگل“ سے دیکھ سکیں۔ اس وقت صورتحال ایسی نہیں ہے اور سائنسی علم سے بے بہرہ ایک مسلمان صرف قرآن و حدیث کے علم کی روشنی میں روزہ اور عید منانے کوہی ”عبادت“سمجھتا ہے۔ کیا آپ کی رائے یہ ہے کہ جو لوگ سائنسی علم نہیں جانتے، وہ قرآن اور حدیث کو چھوڑ کر سائنس جاننے والوں کی ”امامت“ میں ایک عید منایا کریں؟
امید ہے کہ آپ اپنے جوابی مراسلہ میں پہلے میرے اٹھائے گئے نکات کا جواب ضرور دیں گے، پھر اس کے بعد کوئی نیا ”اندیشہ ہائے دور دراز“ پیش کریں گے۔ مکالمہ کا احسن طریقہ یہی ہوتا ہے کہ آپ جس سے گفتگو کر رہے ہیں پہلے ان کے اٹھائے گئے نکات کا علمی جواب دیں، انہیں علمی انداز میں رَد یا قبول کریں پھر اپنے سوالات یا اندیشے پیش کریں۔ صرف اپنے اپنے سوالات اٹھانے یا اندیشے پیش کرنے کا نام مکالمہ یا بحث و مباحثہ نہیں ہے میرے پیارے بھائی۔