رمضان میں کوئی ہیبت ناک بات ہونوالی ہے

رضا

معطل
السلام علیکم!

رمضان میں کوئی ہیبت ناک بات ہونوالی ہے
سن(سال) کا کنفرم نہیں ہے۔
شب جمعہ کو رمضان کی پندرہ تاریخ ہوگی۔
اس دفعہ بھی شب جمعہ کو پندرہ رمضان ہی ہوگی۔
لیکن حدیث میں جو دوسری نشانیاں بیان ہوئیں کہ اس سال زلزلے کثرت سے ہوں گے اور اولے کثرت سے پڑھیں گے۔۔(اس سال ایسا تو نہيں ہوا۔۔)
42.gif
 

ساجد

محفلین
السلام علیکم!

رمضان میں کوئی ہیبت ناک بات ہونوالی ہے
سن(سال) کا کنفرم نہیں ہے۔
شب جمعہ کو رمضان کی پندرہ تاریخ ہوگی۔
اس دفعہ بھی شب جمعہ کو پندرہ رمضان ہی ہوگی۔
لیکن حدیث میں جو دوسری نشانیاں بیان ہوئیں کہ اس سال زلزلے کثرت سے ہوں گے اور اولے کثرت سے پڑھیں گے۔۔(اس سال ایسا تو نہيں ہوا۔۔)
42.gif
محترم رضا صاحب ،
آپ کی بیان کردہ بات کو رد کئیے بغیر ایک ضمنی سوال پوچھنا چاہوں گا وہ یہ کہ اگر واقعی ایسا ہونے والا ہے یا ہو گا تو ہم دنیا کے کون سے حصے میں رمضان کی 15 تاریخ کا اعتبار کریں ؟
مثال کے طور پر پاکستان اور سعودیہ کے اسلامی کیلنڈر میں ہی ایک دن کا فرق آ جاتا ہے اور گزشتہ برسوں میں تو یہ فرق 2 یا 3 دن تک بھی پھیلا دیا گیا۔
 

عمر میرزا

محفلین
السلام علیکم
ساجد بھائ
رمضان کی شروعات کے بارے میں یہ جو اختلاف ہے آّّّغاز رمضان کے ساتھ ہی شروع جاتا ہے جب کچھ ممالک ایک یا دو دن پہلے روزہ رکھ لیتے ہیں اور کچھ بعد میں اس فرق کی وجہ سے عید میں بھی اختلاف واقعہ ہو جاتا ھے اور ھر ملک اپنی اپنی عید منانے لگ جاتا ھے۔ اور یہ تفریق ملکوں کی سطح پر ہی نظر نہیں آتی بلکہ اکژ ملکوں کے اندر بھی مختلف علاقوں میں الگ الگ عید منائ جاتی ھے، حصوصا پاکستان میں تو اب یہ معمول ہی بن چکا ہے باقی ملک کی نسبت سرحد میں رمضان ایک دن پہلے شروع ہو جاتا ہے ۔
اب سوچنے والی بات یہ ھے کہ دینی مسائل میں اس طرح کی لاپرواہی کا گناہ کس پر ھے ،عوام پر یا ان علمائے اکرام پر جو عید و رمضان جیسے دینی شعائر میں اس قدر غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ کچھ لوگ رمضان میں عید منانے کے مجرم بن جاتے ھیں یا عید کے دن روزہ رکھنے کے گناہ گار ہوتے ھیں۔

حالانکہ شریعت کے مطابق تمام امت کو ایک ساتھ رمضان شروع کرنا چاہیے اور ایک ھی دن عید کرنی چاہیے ۔ حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ والٰہ وسلم کا واضح ارشاد موجود ھے کہ:
" صومو الرویتہ وافطرولرویتہ" (چاند دیکھ کر روزہ رکھا کرو اور چاند دیکھ کر عید کیا کرو)

اس حدیث سے ظاھر ھے کہ رمضان کا چاند نظر آنے پر روزہ رکھنا اور شوال کا چاند نظر آنے پر عید منانا پوری امت مسلمہ پر فرض ہے ۔کیونکہ "صومو" اور " افطروا " کا حطاب تمام مسلمانوں کو ھے حواہ ایک شہر ، ایک علاقے اور ایک ملک میں رہتے ہوں یا محتلف ممالک میں بستے ھوں۔

اور جس طرح ایک شہر یا علاقے میں چاند نظر آنے پر دوسرے شہروں اور علاقوں میں یس کا اتباع ضروری ہے۔اسی طرح ایک ملک میں چاند نظر آنے سے باقی تمام ممالک پر اس کی پیروی لازم ھے۔
جزاک اللہ

والسلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ
 

فاتح

لائبریرین
السلام علیکم
ساجد بھائ
رمضان کی شروعات کے بارے میں یہ جو اختلاف ہے آّّّغاز رمضان کے ساتھ ہی شروع جاتا ہے جب کچھ ممالک ایک یا دو دن پہلے روزہ رکھ لیتے ہیں اور کچھ بعد میں اس فرق کی وجہ سے عید میں بھی اختلاف واقعہ ہو جاتا ھے اور ھر ملک اپنی اپنی عید منانے لگ جاتا ھے۔ اور یہ تفریق ملکوں کی سطح پر ہی نظر نہیں آتی بلکہ اکژ ملکوں کے اندر بھی مختلف علاقوں میں الگ الگ عید منائ جاتی ھے، حصوصا پاکستان میں تو اب یہ معمول ہی بن چکا ہے باقی ملک کی نسبت سرحد میں رمضان ایک دن پہلے شروع ہو جاتا ہے ۔
اب سوچنے والی بات یہ ھے کہ دینی مسائل میں اس طرح کی لاپرواہی کا گناہ کس پر ھے ،عوام پر یا ان علمائے اکرام پر جو عید و رمضان جیسے دینی شعائر میں اس قدر غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ کچھ لوگ رمضان میں عید منانے کے مجرم بن جاتے ھیں یا عید کے دن روزہ رکھنے کے گناہ گار ہوتے ھیں۔

حالانکہ شریعت کے مطابق تمام امت کو ایک ساتھ رمضان شروع کرنا چاہیے اور ایک ھی دن عید کرنی چاہیے ۔ حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ والٰہ وسلم کا واضح ارشاد موجود ھے کہ:
" صومو الرویتہ وافطرولرویتہ" (چاند دیکھ کر روزہ رکھا کرو اور چاند دیکھ کر عید کیا کرو)

اس حدیث سے ظاھر ھے کہ رمضان کا چاند نظر آنے پر روزہ رکھنا اور شوال کا چاند نظر آنے پر عید منانا پوری امت مسلمہ پر فرض ہے ۔کیونکہ "صومو" اور " افطروا " کا حطاب تمام مسلمانوں کو ھے حواہ ایک شہر ، ایک علاقے اور ایک ملک میں رہتے ہوں یا محتلف ممالک میں بستے ھوں۔

اور جس طرح ایک شہر یا علاقے میں چاند نظر آنے پر دوسرے شہروں اور علاقوں میں یس کا اتباع ضروری ہے۔اسی طرح ایک ملک میں چاند نظر آنے سے باقی تمام ممالک پر اس کی پیروی لازم ھے۔
جزاک اللہ

والسلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ

عمر مرزا صاحب،
السلام علیکم!
میں کوئی عالم تو نہیں لیکن جو چیز مجھے حیران کر رہی ہے وہ یہ کہ اگر ہم روزوں کے اس حکم کو اسی انداز میں لیں جیسے آپ نے ذکر فرمایا تو نماز بھی ساری امت مسلمہ کو ایک وقت میں پڑھنی چاہیے یعنی جب ایک شہر یا علاقے میں فجر کا وقت ہو جائے باقی تمام دنیا کے شہروں اور علاقوں میں اس کا اتباع ضروری ہے۔

عمر صاحب! اس میں امت کی تفریق کا عنصر نہیں بلکہ جس علاقے میں جب چاند نظر آئے تب وہاں رمضان یا عید ہو گی بعینہ اسی طرح جس طرح ہر علاقے میں مغرب کی نماز اس علاقے میں سورج غروب ہونے پر ادا کی جاتی ہے۔
 

دوست

محفلین
میرے عزیز آپ کا استدلال میری نظر میں ٹھیک نہیں۔ آپ نے جو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان کی ہے اس کے مطابق چاند کے نظر آنے کو ماہ نو کے آغاز کا پیمانہ بنانے کا حکم ہے۔ یہ آپ اور میں سبھی جانتے ہیں کہ چاند ایک وقت میں پوری دنیا میں کہیں بھی نظر نہیں آسکتا۔ کچھ مخصوص خطوں میں پیدائش (دوبارہ سے روشن حصہ بڑھنے کا عمل) کے بعد پہلے نظر آتا ہے جبکہ باقی حصوں میں ایک دن کا فرق پڑ ہی جاتا ہے۔ آپ ان نظریات کی تصدیق کسی بھی ماہر فلکیات سے کرسکتے ہیں۔ یہاں ماہر فلکیات سے مراد نجومی نہیں۔
اس سلسلے میں انشاءاللہ ماہنامہ سرگذشت میں شائع ہونے والا ایک تفصیلی مضمون جلد پیش کروں گا۔
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
سب دوستوں کو رمضان المبارک کی برکات مبارک ہوں
جی رضا بھائی میرا بھی ایک دوست مفتی ہے جو کہ علامت قیامت پر ایک کتاب لکھ رہا ہے میں نے بھی ان سے درخواست کی ہے فورم کے لیے کہ جب مکمل ہو جائے تو پھر مجھے دے دینا۔ اب مجھے صحیح یاد نہیں پڑھتا لیکن میں نے بھی اس سے سنا تھا کہ جب رمضان کے پہلے دن سورج گرہن اور 14 یا 15 رمضان کو چاند گر ہن ہو تو وہ سال انتہائی خطرناک ہو گا(خون خرابے کے لحاظ سے ) یا اس کے بر عکس یعنی پہلی رات چاند گرہن اور 15 کو سورج لیکن میں نے صرف سنا ہے تصدیق شدہ نہیں ہے
 

ساجد

محفلین
السلام علیکم
ساجد بھائ
رمضان کی شروعات کے بارے میں یہ جو اختلاف ہے آّّّغاز رمضان کے ساتھ ہی شروع جاتا ہے جب کچھ ممالک ایک یا دو دن پہلے روزہ رکھ لیتے ہیں اور کچھ بعد میں اس فرق کی وجہ سے عید میں بھی اختلاف واقعہ ہو جاتا ھے اور ھر ملک اپنی اپنی عید منانے لگ جاتا ھے۔ اور یہ تفریق ملکوں کی سطح پر ہی نظر نہیں آتی بلکہ اکژ ملکوں کے اندر بھی مختلف علاقوں میں الگ الگ عید منائ جاتی ھے، حصوصا پاکستان میں تو اب یہ معمول ہی بن چکا ہے باقی ملک کی نسبت سرحد میں رمضان ایک دن پہلے شروع ہو جاتا ہے ۔
اب سوچنے والی بات یہ ھے کہ دینی مسائل میں اس طرح کی لاپرواہی کا گناہ کس پر ھے ،عوام پر یا ان علمائے اکرام پر جو عید و رمضان جیسے دینی شعائر میں اس قدر غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ کچھ لوگ رمضان میں عید منانے کے مجرم بن جاتے ھیں یا عید کے دن روزہ رکھنے کے گناہ گار ہوتے ھیں۔

حالانکہ شریعت کے مطابق تمام امت کو ایک ساتھ رمضان شروع کرنا چاہیے اور ایک ھی دن عید کرنی چاہیے ۔ حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ والٰہ وسلم کا واضح ارشاد موجود ھے کہ:
" صومو الرویتہ وافطرولرویتہ" (چاند دیکھ کر روزہ رکھا کرو اور چاند دیکھ کر عید کیا کرو)

اس حدیث سے ظاھر ھے کہ رمضان کا چاند نظر آنے پر روزہ رکھنا اور شوال کا چاند نظر آنے پر عید منانا پوری امت مسلمہ پر فرض ہے ۔کیونکہ "صومو" اور " افطروا " کا حطاب تمام مسلمانوں کو ھے حواہ ایک شہر ، ایک علاقے اور ایک ملک میں رہتے ہوں یا محتلف ممالک میں بستے ھوں۔

اور جس طرح ایک شہر یا علاقے میں چاند نظر آنے پر دوسرے شہروں اور علاقوں میں یس کا اتباع ضروری ہے۔اسی طرح ایک ملک میں چاند نظر آنے سے باقی تمام ممالک پر اس کی پیروی لازم ھے۔
جزاک اللہ

والسلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ
وعلیکم السلام ،
عمر بھائی ، آپ کی تحریر کا شکریہ۔
میرے ناقص علم کے مطابق ایسا ممکن نہیں ہے کہ ساری دنیا میں ایک ہی دن عید منائی جا سکے کیوں کہ پہلی تاریخ کے چاند کا ظہور تقریبا آدھ گھنٹہ یا اس سے بھی کچھ کم وقت کے لئیے ہوتا ہے اور دنیا کے ایک کونے سے دوسرے تک وقت کا اختلاف لگ بھگ 12 گھنٹوں تک محیط ہے۔ اپنے اپنے ملک اور علاقے میں موجود مسلمانوں کے لئیے نبی پاک کا یہ واضح فرمان ہے جو آپ نے بیان فرمایا کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید کرو۔
آپ کی بات کو آگے بڑھاتا ہوں ۔ حیرت ہوتی ہے مجھے ان حضرات پہ جو ہر معاملے میں دینی احکام کی پیروی اور اتباع سنت کی بجائے اپنی انا اور گروپ بندی کو افضلیت دیتے ہیں۔ پچھلے سال پاکستان میں تین عیدوں کے متعلق کسی سائٹ پر میں نے ایک مضمون پڑھا تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کہ خود کو مولوی کہلوانے والوں نے کس طرح سے اپنی دھاک برقرار رکھنے کے لئیے لوگوں کو عید کے چاند کے مغالطے میں ڈالا۔ یہ بات تو طے ہے کہ پاکستان اور سعودیہ کے وقت میں دو گھنٹے کا فرق ہونے کی وجہ سے پاکستان میں عید ایک دن بعد ہی ہونی چاہئیے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ ایک ہی ملک میں اگر مختلف علاقوں میں شہروں کے مقامی وقت میں 30 منٹ سے زیادہ کا فرق ہو تو عید اور رمضان کے چاند میں بھی ایک دن کا فرق ہو گا تو تکنیکی طور پر یہ بات درست ہو گی لیکن سعودیہ جو کہ رقبے کے لحاظ سے پاکستان سے کافی وسیع ہے یہاں کبھی دو عیدیں نہیں منائی گئیں۔ وجہ بہت سادہ سی ہے کہ یہاں اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ کی اجازت نہیں ہے اور معاملات خوش اسلوبی سے طے پا جاتے ہیں۔
اب اس قضئیے کا ایک اور پہلو سے بھی جائزہ لیتے ہیں۔ آج ہم اس دور میں جی رہے ہیں کہ جو سائنس اور ٹکنالوجی کا دور کہلاتا ہے۔ اب انسان چاند پر چرخہ کاتتی ہوئی مائی کو دیکھ کر ہی خوش نہیں ہو لیتا بلکہ اس چاند پر اپنے قدم بھی رکھ چکا ہے۔ سورج اور چاند گرہن کی پیش گوئی برسوں پہلے ہی کر دی جاتی ہے نہ صرف اس کی تاریخ بلکہ گھنٹے ، منٹ اور سیکنڈز تک صحیح صحیح وقت بھی بتا دیا جاتا ہے تو کیاہم ایسا نہیں کر سکتے کہ ان سائنسدانوں سے مدد لے کر پورے سال کا اسلامی کیلنڈر ہی تیار کر لیا کریں؟ اس میں تو مذہب یا شریعت کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے نا؟ پھر نہ تو رمضان کا چاند دیکھنے کا جھگڑا پیدا ہو گا اور نہ ہی تین تین عیدیں ہوں گی۔
میں نے یہاں پر ایک عالم دین سے بات کی تھی اس بارے میں تو وہ فرمانے لگے کہ ایسا ممکن نہیں ہے ۔ اس سے نبی پاک کی حدیث مبارکہ پر عمل نہیں ہو گا۔ میرے استفسار پر فرمانے لگے کہ جب تک کوئی مسلمان اپنی (ننگی) آنکھ سے چاند دیکھ کر تصدیق نہ کر دے اس وقت تک کسی کی بات کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ سائنسدانوں کا کیا اعتبار وہ تو کفار میں سے ہیں۔
ان کی بات سن کر میں سر پیٹ کر رہ گیا کہ کس کو دوش دوں اغیار کی علمی ترقی کو یا اپنوں کی جہالت عارفانہ کو۔ اب یہ ہماری بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے۔
کم و بیش 20 دن بعد پھر عید آنے والی ہے دیکھتے ہیں اس عید پر پاکستان میں کتنے چاند چڑھتے ہیں۔
 

دوست

محفلین
یار سیدھی سی بات ہے۔ سائنسی کیلنڈر کو اس بات کے لیے استعمال کریں کہ چاند متعلقہ علاقے میں کس دن نظر آنے کا امکان ہے۔ اس کے بعد چاند کو کئی شہادتوں کے ساتھ دیکھنے کی کوشش کی جائے۔ا س کے لیے دوربین یا جو بھی آلہ استعمال کرنا ہو کریں۔ ایک ملک میں ایک ہی عید ہو جو کہ حکومت کے زیر انتظام کمیٹی ہی طے کرے۔ چاند گرہن اور سورج گرہن کے اوقات کی جہاں تک بات ہے وہ اپنی جگہ درست لیکن جب حدیث کہ چاند دیکھنے پر روزہ رکھو پر عمل کرنا ہے تو یہ سادہ سا نظام ہوسکتا ہے۔ اس سے بس یہ ہی نہیں ہوگا کہ آپ کو عیسوی کیلنڈر کی طرح سال کے بارہ مہینے بنے بنائے ملیں گے۔ ہر ماہ کے آغاز کا پتا لگانا ضروری ہوگا اور یہ ایک مربوط نظام کے تحت بڑے آرام سے ممکن ہے۔ ویسے بھی ہم نے اسلامی کیلنڈر کا کیا کرنا ہے۔ ہر کام تو ہمارا انگریزی کیلنڈر کے حساب سے ہوتا ہے۔
 

ساجد

محفلین
یار سیدھی سی بات ہے۔ سائنسی کیلنڈر کو اس بات کے لیے استعمال کریں کہ چاند متعلقہ علاقے میں کس دن نظر آنے کا امکان ہے۔ اس کے بعد چاند کو کئی شہادتوں کے ساتھ دیکھنے کی کوشش کی جائے۔ا س کے لیے دوربین یا جو بھی آلہ استعمال کرنا ہو کریں۔ ایک ملک میں ایک ہی عید ہو جو کہ حکومت کے زیر انتظام کمیٹی ہی طے کرے۔ چاند گرہن اور سورج گرہن کے اوقات کی جہاں تک بات ہے وہ اپنی جگہ درست لیکن جب حدیث کہ چاند دیکھنے پر روزہ رکھو پر عمل کرنا ہے تو یہ سادہ سا نظام ہوسکتا ہے۔ اس سے بس یہ ہی نہیں ہوگا کہ آپ کو عیسوی کیلنڈر کی طرح سال کے بارہ مہینے بنے بنائے ملیں گے۔ ہر ماہ کے آغاز کا پتا لگانا ضروری ہوگا اور یہ ایک مربوط نظام کے تحت بڑے آرام سے ممکن ہے۔ ویسے بھی ہم نے اسلامی کیلنڈر کا کیا کرنا ہے۔ ہر کام تو ہمارا انگریزی کیلنڈر کے حساب سے ہوتا ہے۔
جی ہاں شاکر ،
اسلامی کیلنڈر سے یہی مراد ہے کہ ہر مہینے کے آغاز کا دن معلوم کر لیا جائے تا کہ اختلافات پیدا نہ ہوں۔ مسئلہ تو ان شہادتوں پر ہی آ کر پیدا ہو جاتا ہے نا!!! ایک کہتا ہے کہ آج میں نے چاند دیکھا تو عید کر لو اور اگلے ہی دن اسی شہر کے کوئی اور صاحب پھر سے چاند چڑھا دیتے ہیں۔ یہ معاملہ حکومت کی توجہ اور علمائے کرام کے تعاون سے ہی ٹھیک ہو سکتا ہے۔
 

عمر میرزا

محفلین
السلام علیکم عزیز بھائیوں
امت مسلمہ ایک ہی دن رمضان شروع اور ایک ہی دن عید کرے یہ نہ تو کوئی کسی محلصانہ جذبے کے تحت ذہن میں آیا ھوا کوئی حیال ہےاور نہ ھی کوئی ممکن اور نا ممکن والی بحث ہے بلکہ شریعت نے یہ بات ہم پر فرض کی ھے۔

پچھلی پوسٹ میں یہ بات ھوئی کہ "اگر امت میں سے کوئی ایک شحص چاند دیکھ کر گواھی دے دے تو وہ تمام امت کے لے کافی ہو گی۔اوراپنے اپنے علاقے کا چاند نظر آنے کا انتظار نہیں کیا جائے گا مسلمان ایک ہی دن رمضان شروع کریں گے اور ایک ہی دن عید کرے گے" اس کی دلیل میں ایک حدیث یہ بھی ھے۔

امام سرخسی نے المبسوط میں ابن عباس سے مروی یہ حدیث بیان کی ھے کہ
" مسلمانوں نے صبح روزہ نہ رکھا کیونکہ انہیں چاند نظر نہ آیا ۔پھر ایک بدو پہنچا اور اس بات کی شہادت دی کہ اس نے چاند دیکھا ھے ۔تو رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ والٰہ وسلم نے فرمایا :کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں بدو نے کہا ہاں ! آپ صلٰی اللہ علیہ والٰہ وسلم نے فرمایا ! اللہ اکبر تمام مسلمانوں کے لئے ایک شحص (کی گواہی) ہی کافی ھے ۔پس آپ صلٰی اللہ علیہ والٰہ وسلم نے روزہ رکھا اور تمام لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔

اب اپ دیکھیں کہ اس روایت سے ھمیں دو حکم ملتے ہیں
1) علاقے سے باھر چاند نظر آنے کا حکم واضح ہوتا ہے ،کیونکہ وہ بدو مدینہ کے باھر سے آیا تھا۔
2) تمام مسلمانوں کے لئے ایک شحص (کی گواہی) ہی کافی ھے ۔( ایک مسلمان کا چاند دیکھ لینا تمام مسلمانون کے لئے کافی ھے۔

اور جو لوگ اس بات پر مصر ہیں کا ھر حظے کا اپنااپنا چاند ھوتا ھے تو ان سے میرا سوال ھے کہ کیا آفغانستان میں واقع جلال آباد پاکستان کے پشاور سے محتلف ھے یا دوبئی اور کراچی کے علاقے میں کیا فرق ھے۔ میرے بہت سے بھائی اس بات سے بھی آگاہ ہوں گے جب مغربی اور مشرقی پاکستان ایک تھے تو گواھی بنگلہ دیش سے آتی تھی مگر اب ایسا نھیں
کیا ھم کہہ سکتے ھیں یہ سرحدیں جو استعماری کفار نے مسلمان علاقوں کے درمیان کھینچ رکھی وہ مسلمانوں کو محتلف حطوں میں تقسیم کرنے کی بنیاد پر ہونی چاہیے اور پھر انہی کی بنیاد پر ھمیں اپنے شرعی فیصلے کرنے چاہیے۔۔۔یقینٰٰا نہیں
آئے دن کفار مسلمانوں کے علاقوں کو اپنے منصوبوں کے تحت انہیں تقسیم اور ان میں ردو بدل کرنے کے ارادوں کو ظاھر کرتے رھتے ھیں جیسا کہ پچھلے سال امریکی تھنک ٹینک کی طرف سے مسلم علاقوں کی نئی تقسیم پر مشتمل نقشہ منظرعام پر آیا۔تو کیاایسی صورتحال میں یہ سرحدیں مسلمانوں کو مزید تقسیم کرنے کی بنیاد بن سکتی ھیں۔۔۔۔ ہرگز نہیں
آج ٹیلی کمیونیکیشن کے ذرائع کی وجہ سے اس حکم کو بجا لانا بہت آسان ہو گیا ھے
اور کفر طاقتوں کی کھنچی گئی ان مصنوعی سرحدیں کے علاوہ اور کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ امت اپنے خوشی کے دن منانے میں متحد ہو جایے۔

(للہ سبحان وتعٰالی ھمیں حق کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے) آمین
والسلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ
 

نبیل

تکنیکی معاون
عمر مرزا، میری گزارش ہے کہ موضوع پر رہ کر بات کیا کریں۔ حزب التحریر کے فلسفے کے بیان کے لیے ایک تھریڈ کافی ہے۔
 

دوست

محفلین
میاں‌ جی ہوسکتا ہے جو آپ بیان کررہے ہوں‌ ویسے ہی ہوا ہو۔ لیکن جس زمانے کی آپ بات کررہے ہیں‌ اس وقت آج ہم جسے مضافات بولتے ہیں‌ سے آنے میں بھی اچھا خاصا وقت لگتا تھا۔ وہ بدو جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ آیا اور چاند دیکھنے کا اعلان کیا اس سے تو لگتا ہے کہ وہ کہیں‌ قریب سے ہی آیا تھا۔ اس حدیث‌ سے یہ قطعی پتا نہیں‌ چلتا کہ اس نے کل کا چاند دیکھا ہوا آج آکر بتایا تو لوگوں‌ نے روزہ رکھا۔
آخر ہمارے ذہن اس بات پر ہی کیوں اڑ‌ جاتے ہیں کہ تہوار ایک دن منا کر ہی ہم اتحاد کا اظہار کرسکتے ہیں‌ باقی اتحاد کیا ہوئے؟
 

عمر میرزا

محفلین
میاں جی کی جان:cool:

ذہن ا ڑنے کی بات نہیں جب ایک بھائی نے 15 رمضان کے متعلق استفسار کیا تو میں نے اپنے محدود علم اور سمجھ کے مطابق یہ الجھن دور کرنی چاہی مگر اس پر آپ بھی ناراض نظر آتے ہیں اور منتظم آعلٰی صاحب بھی
معذرت چاہتا ہوں آپ دونوں بھائیوں سے۔
ًمیں تو اس سلسلے میں مذید لکھنا چاہتا تھا مگر آپ حضرات کے‌ تیور دیکھ کر منسوخ کرنا پڑا
والسلام
 

فرید احمد

محفلین
جمعہ کو رمضان کی ابتدا والی بات سن 2000 میں بھی تھی ، اور اس وقت ہمارے یہاں انڈیا میں ، خاص کر گجرات میں تو بڑا زلزلہ بھی ہوا تھا ، سردی بھی اس وقت زیادہ تھی، عالمی حالات اس وقت اور زیادہ خراب تھے ، وغیرہ ، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا، اور اس سال بھی ایسا کچھ نہ ہوا ۔

خیر

اپنی بات سناوں تو ۔ ۔ ۔ ۔
سن 2000 میں ابتداء رمضان میں کسنی مذکورہ روایت والی بات ذکر کرے ایک سوال اس مدرسہ میں بھیجا ، جہاں اس وقت میں مدرس تھا ( جامعہ ڈابھیل ،انڈیا )اور رمضان کی مناسبت سے میں مدرسہ ہی میں تھا ، ہم سب دس پندرہ آدمی ،( کچھ اساتذہ اور کچھ طلبہ ) اپنے استاذ مولانا مفتی احمد خانپوری صاحب کے ساتھ مدرسہ کے کتب خانے میں گئے ، اور اس روایت کو کتب میں تلاش کیا ، تو یہ علامہ سیوطی ( 911 ہجری) کی کتاب ’ الللآئی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ ‘‘ میں ایک اور محدث ’ نعیم بن حماد ‘ کی کتاب ’ کتاب الفتن ‘ کے حوالہ سے ملی ، اس کتاب میں انہوں نے موضوع ( گھڑی ہوئی ) اور ضعیف احادیث کو جمع کیا ہے ۔ مذکورہ روایت پر انہوں نے موضوع یا ضعیف ہونے کا کوئی حکم نہیں لگایا ہے ، اس وقت 2000 میں نعیم بن حماد کی کتاب الفتن بازار میں مطبوع دستیاب نہ تھی ، مخطوطے بعض جگہوں پر تھے، مگر ہمارے پاس نہ تھا ۔ اس وقت تو ہماری طرف سے مذکورہ روایت کا ترجمہ مقامی زبان میں لکھ کر یہ جواب دے دیا گیا کہ علامات قیامت کی احادیث میں کوئی سال متعین نہیں ہوتا ، اس سال ہونا ضروی نہیں ، مگر آدمی کا ہر وقت رجوع الی اللہ ہو یہ ہمیشہ ضروری ہے ، لہذا اس پر زیادہ توجہ دی جائے ۔

یار لوگوں نے امسال وہ جواب کہیں سے نکالا اور اس کو عوام میں تقسیم کرنا شروع کر دیا ، اس غرض سے جواب میں مفتی صاحب نے لکھا ہے کہ ہو بھی سکتا ہے اور نہ بھی ہو ۔

خیر جب اس بہت چرچا ہوا تو پھر سے اس روایت کی تحقیق کی گئی ، اب گذشتہ سال سے نعیم بن حماد کی کتاب الفتن طبع ہو چکی تھی اور وہ بھی راویوں کی تحقیق کے ساتھ ۔ جب اس میں تلاش کیا تو اس کے روایت کے تین اہم راوی ضعیف ہیں ۔ چناچنہ اوپر والی اصولی بات کہ ’ علامات قیامت میں کوئی سال متعین حدیث میں بیان نہیں کیا گیا ‘ لکھ کر مذکور روایت کی حقیقت بھی بتا دی گئی ،
اور پندرہ رمضان آئی بھی
اور گذر گئی ۔
چونکہ رمضان بھر میں موجود نہ تھا ، آج اس کو پڑھا تو وضاحت مناسب سمجھی ۔
 
Top