جمہوریت کے حوالے سے یہاں عارف کریم نے بھی کئی بار اپنا راگ الاپا ہے ۔ مگر جب ان سےکہا جائے کہ جمہوریت کا متبادل پیش کرو تو جواب ندارد ۔ ایسا بارہا کئی دھاگوں پر مختلف فورمز پر ہوا ہے ۔ اب پھر سے ایک اعتراض سامنے آگیا ہے ۔ مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ جب جمہوریت کو برا کہا جاتا ہے تو اس نظام کی ان تیکنکی خامیوں کو سامنے کیوں نہیں لایا جاتا جو جمہوریت کی اساس ہے ۔ مگر اس کے برعکس ان لوگوں اور ذرائع کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ جو جمہوریت کو اس کے نظم کے ساتھ چلنے نہیں دیتے ۔ یہاں جتنی بھی مثالیں دی گئیں ہیں ۔ وہ سب انسٹیٹوشن سے متعلق ہیں ۔ جہاں یہ ساری خرابیاں پائی جاتیں ہیں ۔ اور جمہوریت کو کسی معاشرے میں پنپنے کے لیئے ضروری ہے کہ آپ کی انسٹیٹوشن مضبوط ہو ۔ اگر آپ کی انسٹیٹوشن مضبوط اور ایماندار ہوگی تو جمہوریت کا نظام کسی بھی معاشرے میں کبھی انارکی پھیلنے نہیں دیگا ۔ لہذا جن " تعلیم یافتہ " ملکوں میں بعض انسٹیٹوشنز میں کبھی کوئی کرپشن کا واقع پیش بھی آجاتا ہے تو انسٹیٹوشن کے مضبوطی کے باعث وہ گرفت میں آجاتا ہے ۔ جسے عموما" چیک ایند بیلنس " بھی کہا جاتا ہے ۔ جمہوریت انسانوںکا بنایا ہوا ایک نظام ہے ۔ اس میں اگر کوئی بات اسلام کے خلاف ہوگی تو اس سے انحراف کرکے کوئی اور ردوبدل کیا جاسکتا ہے ۔ تحقیق کرکے مذید مفید بنایا جاسکتا ہے ۔
جمہوریت کے حوالے سے یہاں اکثر اس نظام کو یہود و نصاریٰ کا ایجاد کردہ نظام کہہ کر اس کو رد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ مگر ہم کو یہود و نصاری کے ایجاد کردہ کمپوٹرز پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ جس کی وجہ سے آج ہم اس وقت ایک دوسرے تک اپنے خیالات پہنچا رہے ہیں ۔ ہم کو ان کے ایجاد کردہ جہازوں پر بھی اعتراض نہیں ہے ، جن پر بیٹھ کر ہم دور دراز علاقوں میں جاکر اپنی خاندانوں کی کفالت کا انتظام کرتے ہیں ۔ ان کے بنائے ہوئے ائیرکینڈشنز پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے جن کی ٹھنڈی ہواؤں میں بیٹھ کر سلگتی ہوئی گرمی کو شکست دیتے ہیں ۔ اسی طرح ان کی فراہم کردہ سینکڑوں چیزیں ہیں جن سے ہم مستفید ہورہے ہیں ، ان پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ اگر اعتراض ہے تو صرف ان کے ایک پیش کردہ طرزِ حکومت کے نظام پر ہے ۔
اصل میں جمہوریت کیا چیز ہے ۔ ؟ دنیا میں اقتدار و حکومت حاصل کرنے کی جہدوجہد اور خواہش کی جبلت انسان میں قدرتی طور پر موجود ہے ۔ تاریخ میں اس کے حصول کے لیئے افراد اور گروہ لڑتے مرتے رہے ہیں ۔ تاریخ کا مطالعہ کرکے دیکھ لجیئے کہ اگر کسی جگہ کوئی حکومت قائم ہوگئی ہے تو اس میں مسلسل بغاوتیں ہوتیں رہیں ہیں ۔ غیر مسلموں کو چھوڑیں ۔ مسلمانوں میں دیکھ لجیئے ۔ بابر ہندوستان آکر ابراہیم لودھی کی گردن اتارتا ہے ۔ شیر شاہ سوری ، ہمایوں کو ایران بھاگنے پر مجبور کردیتا ہے ۔ امیر تیمور ، یلدرم کو تہہ نہس کردیتا ہے ۔ خلافت راشدہ کودیکھ لیں تین خلفاء کو شہید کیا گیا ۔اس کے بعد بنو امیہ ، بنو عباس کے دور میں کیسی کیسی بغاوتیں ہوتیں رہیں ہیں ۔ اس اقتدار کی جنگ میں کتنے لوگ مرتے تھے ۔ اور یہی حال کم و بیش مغرب کا بھی تھا ۔ چنانچہ اس خونریزی سے بچنے کے لیئے لوگوں نے بہت سوچ بچار کے بعد انتقالِ اقتدار کا یہ طریقہ ایجاد کیا کہ چلو ۔۔۔۔ لوگوں سے پوچھ لیتے ہیں ۔سو ایک پرامن انتقالِ اقتدار کا طریقہ ایجاد ہوا ۔ پھر یہ طریقہ قرآن مجید میں بھی بیان ہوا کہ " امرھم شوری بینھم " یعنی مسلمان اپنا نظام رائے سے قائم کریں ۔ استبداد سے قائم نہ کریں ۔ یہ ایک اصول ہے اور اس اصول کے اطلاق کے لیئے ہم ایک نظام مرتب کرتے ہیں ۔ اور یہ نظام ظاہر ہے انسانوں کا تخلیق کردہ ہوتا ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ اس میں خامیاں ہوں ۔ جو بتدریج وقت اور تجربے کیساتھ دور کی جاسکتیں ہیں ۔ مثال کے طور پر آج کمپوٹر جس شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے ۔ دو تین دہائیوں قبل اس کی کیا حالت تھی ۔ بتدریج یہ تبدیلیوں اور تجربے کیساتھ آج اس مقام پر پہنچا ہے ۔ کل اس کی اور کیا خامیاں دریافت ہونگیں اور مذید اس میں کیا مفید تبدیلیاں آئیں گی وہ تو وقت اور تجربے پر منحصر ہے ۔
لہذا یہ سب علم ہے اور یہ سب انسانوںکی میراث ہے ۔ اس کو یہود و نصاری کے تناظر میں دیکھنا کوئی صحتمندانہ رویہ نہیں ہے ۔ اگر اس نظام میں کوئی خامی ہے تو اس کو ہم اپنی کاہلی ترک کرکے اسے دور کرنے کی کوشش کریں اور انتقالِ اقتدار کو مذید بہتر بنائیں ۔بصورتِ دیگر اس وقت دنیا میں اقتدار کے حصول کے جو تین طریقے رائج ہیں وہ ملکویت " بادشاہت " ، طبقاتی نظام یا پھر جمہوریت ہے ۔ اگر جمہوریت نہیں پسند تو ان دونوں نظاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلجیئے ۔ یہ کوئی اتنا پیچیدہ مسئلہ تو نہیں ۔۔۔۔۔ !!!
یار دنیا کے تین اصولوں کو چھوڑ دیں اگر دنیا کی بقاء ہے تو صرف خلافت میں ہے اور وہ بھی خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے طرز کی خلافت۔ آپ جو اداروں کی مضبوطی کی بات کرتے ہیں کہاں ہیں وہ ادارے وہ تو اندر سے دیمک نےایسے کھوکھلے کر دیئے ہیں کہ صرف اس کا ڈھانچہ رہ گیا ہے۔ ان اداروں میں ہمارے جیسے ہی لوگ تو ہیں لیکن پھر بھی یہ کیوں مضبوط نہیں ہیں ؟ لارڈ میکالے کا کالا قانون بھی لاگو ہے پھر بھی انصاف نہیں ہے ۔ انصاف کے لئے بھی وکیل کو نوٹوں کی گڈیاں دینی پڑتی ہیں کیوں؟ ایک چھوٹی سی ایف آئی آر لکھنے کے لئے بھی ہزاروں روپے دینے پڑتے ہیں کیوں؟ ہونہار طالب علم کی بجائے ڈوگر حمید کی بیٹی جیسے طلباء کا مستقبل سنوار کر اصل حقدار کی زندگی برباد کی جاتی ہے کیوں؟ پاسپورٹ دفاتر میں ویری فیکیشن کے نام پر ہزاروں روپے لوٹے جاتے ہیں کیوں؟ ۔ہمارے جیسے ہی لوگ ہیں وہی ذخیرہ اندوزی کو کاروبار سمجھ کا اپنے لئے حلال کر رہے ہیں کیوں؟ ایکسائز کے دفتر میں ایک غریب آدمی اپنی پرانی کھٹارا موٹر سائیکل کے کاغذات بنوانے جاتا ہے تو اس کی فائل غآئب ہوجای ہے کیوں؟ ایک چھوٹا آدمی براہ راست انسپکٹر سے نہیں مل سکتا تو وہ وزیراعلیٰ اور وزیر اعظم سے کیسے مل سکتا ہے کیوں؟ زناکار کو عدالت میں چار پانچ ہزار کے عوض چھوڑ دیا جاتا ہے کیوں؟ چور کا ہاتھ کاٹنے کی بجائے اسے قید کردیا جاتا ہے اور جب وہ نکلتا ہے تو اس سے بھی بڑا چور بن جاتا ہے کیوں؟
کیوں کہ جمہوری نظام انسان کی بقاء کے الٹ ہے۔ اگر ہم یورپ میں جمہوری نظام کی بات کریں تو وہاں تو جرائم کی شرح سب سے زیادہ ہے۔کوئیgayرائٹس دے رہا ہے تو کوئی مرد سے مرد کی شادی کے قوانین بنارہا ہے جمہوری نظام میں اگر جمہور کی رائے غیر شرعی ہوگی تو اس کی اجازت دی جائیگی جو بلکل غلط ہے
برادرم معاف کیجئے گا میں ایسی جمہوریت نہیں چاہتا۔
اور ایک بات کہی آپ نے کے ان کی بنائی ہوئی اشیاء ہم استعمال کر سکتے ہیں تو ہمارے سامنے آپ صلعم کی زندگی کا نمونہ موجود ہے ۔ یہودیوں کو خط و کتابت کے لئے یہودی مامور تھا جس پر آپ صلعم نے صحابہ سے فرمایا کہ تم ان کی زبان سیکھ لو کیا پتہ یہ کیا لکھ رہا ہے۔
تو اسی طرح ٹیکنالوجی میں بھی اس جمہوری نظام کی وجہ سے ہم پیچھے رہ گئے ہیں ۔ کہ انہیں بروقت اپنایا نہیں جاتا ہے