انیس رنجِ دُنیا سے کبھی چشم اپنی نم رکھتے نہیں - میر ببر علی انیس

کاشفی

محفلین
مرثیہ
(میر ببر علی انیس)

رنجِ دُنیا سے کبھی چشم اپنی نم رکھتے نہیں
جُز غمِ آلِ عبا ہم اور غم رکھتے نہیں

کربلا پُہنچے زیارت کی ہمیں پروا ہے کیا؟
اب ارم بھی ہاتھ آئے تو قدم رکھتے نہیں

در پہ شاہوں کے نہیں جاتے فقیر اللہ کے
سر جہاں رکھتے ہیں سب، ہم واں قدم رکھتے نہیں

دیکھنا کل ٹھوکریں کھاتے پھریں گے اُنکے سر
آج نخوت سے زمین پر جو قدم رکھتے نہیں

کہتے تھے اعدا کہ بچے بھی علی کے شیر ہیں
جب بڑھاتے ہیں تو پھر پیچھے قدم رکھتے نہیں

چادریں جب چھینیں رانڈوں کی تو عابد نے کہا
کچھ حیا و شرم یہ اہلِ ستم رکھتے نہیں

مرثیے اِک دن میں کیا سب کہہ کے اُٹھو گے انیس
ہاتھ سے کیوں آج قرطاس و قلم رکھتے نہیں
 
Top