رنگ روڈ۔۔دوسرا پاناما اسکینڈل

جاسم محمد

محفلین
رنگ روڈ۔۔دوسرا پاناما اسکینڈل
جاوید چوہدری منگل 18 مئ 2021

راولپنڈی رنگ روڈ کی کہانی وزیراعظم عمران خان کے دفتر سے شروع ہوئی‘ وزیراعظم کو کسی دوست نے بتایا آپ کے خلاف بھی پاناما اسکینڈل بن چکا ہے۔

آج آپ کی حکومت ختم ہو جاتی ہے تو آپ کے لیے راولپنڈی رنگ روڈ کافی ہو گی‘ آپ باقی زندگی فائلیں اٹھا کر ایک عدالت سے دوسری عدالت دھکے کھاتے رہیں گے‘ وزیراعظم کے لیے یہ انکشاف پریشان کن تھا‘ وزیراعظم کو دوست نے چند اکاؤنٹ نمبرز‘ چند فون نمبرز‘ چار اعلیٰ سرکاری افسروں کے عہدے اور 10 ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے نام دیے اور وزیراعظم کو کمشنر راولپنڈی کیپٹن(ر) محمد محمود سے چند سوال پوچھنے کا مشورہ دیا۔

وزیراعظم نے خفیہ تحقیقات کرائیں‘ الزام سچ نکلا‘ وزیراعظم نے کمشنر راولپنڈی کیپٹن محمود کو بلایا اور ان سے صرف ایک سوال پوچھا ’’آپ کو راولپنڈی رنگ روڈ کا روٹ بدلنے اور اٹک لوپ کو اس میں شامل کرنے کا مشورہ کس نے دیا تھا‘‘ کیپٹن محمود نے فوراً جواب دیا ’’مجھے کسی نے نہیں کہا تھا‘‘ وزیراعظم نے دوبارہ پوچھا ’’کیا آپ کو کسی وفاقی وزیر یا اسپیشل ایڈوائزر ٹو پی ایم نے سفارش نہیں کی؟‘‘ کمشنر نے صاف انکار کر دیا۔

یہ انکار وزیراعظم کو برا لگا‘ کیوں؟ کیوں کہ وزیراعظم کے پاس سارا ریکارڈ موجود تھا‘ یہ جانتے تھے وفاقی وزیر غلام سرور خان اور وزیراعظم کے معاون خصوصی ذلفی بخاری کمشنر راولپنڈی پر اثرانداز ہوئے تھے اور اس اثرورسوخ کی وجہ سے 10 ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے چند ماہ میں اربوں روپے کمائے تھے۔

کمشنر کے انکار نے وزیراعظم کے خدشات کو مضبوط بنا دیا اور انھوں نے راولپنڈی کی ساری انتظامیہ کمشنرکیپٹن ریٹائرڈ محمد محمود‘ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی محمد انوار الحق‘ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیوکیپٹن (ر) شعیب علی اور اسسٹنٹ کمشنر صدر غلام عباس کو عہدوں سے ہٹا دیا اور چیئرمین چیف منسٹر انسپکشن ٹیم گلزارحسین شاہ کو کمشنر راولپنڈی لگایا اور انھیں راولپنڈی رنگ روڈ کی انکوائری کا حکم دے دیا‘ کمشنر گلزارحسین شاہ نے کام شروع کیا اور 11مئی کو انکوائری رپورٹ آ گئی۔

بیوروکریسی میں گلزار حسین شاہ کی شہرت اچھی نہیں‘ یہ ڈسکہ میں این اے 75کے الیکشن کے دوران کمشنر گوجرانوالہ تھے اور ان پر الیکشن میں اثرانداز ہونے کا الزام لگا تھا مگر اس کے باوجود گلزار حسین کی انکوائری رپورٹ نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا‘ میں نے اپنے 28 سال کے صحافتی کیریئر میں کسی سرکاری افسر کی تیار کردہ اتنی تگڑی اور جامع رپورٹ نہیں دیکھی‘ اس رپورٹ نے ثابت کر دیا اگر سرکاری افسر کام کرنا چاہے تو یہ ایک ہفتے میں تمام تحقیقاتی اداروں اور جے آئی ٹیز کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔

یہ رپورٹ ہمارے پورے سسٹم کا نوحہ بھی ہے اور یہ ثابت کرتی ہے سیاست دان‘ بیوروکریٹس اور طاقتور اداروں کے ریٹائرڈ افسر کس طرح مل کر پورے نظام کو توڑ مروڑکر ایک ایک رات میں عوام کی جیب سے کھربوں روپے نکال لیتے ہیں‘ میں عمران خان کا ناقد ہوں‘ میں چھ سال سے ان پر تنقید کر رہا ہوں لیکن یہ رپورٹ پڑھ کر پہلی مرتبہ مجھے ان پر ترس آیا‘ یہ شخص واقعی ہر طرف سے مفاد پرستوں میں گھرا ہوا ہے‘ سرکاری افسر‘ وزیراعظم کے دوست اورحکمران پارٹی کے عہدیدار ملک کو لوٹ رہے ہیں اور یہ ملک اور اپنے آپ کو ان سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن سوال یہ ہے یہ کس کس سے بچے گا؟ اس ملک میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔

کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ میں انکشاف ہوا پنجاب حکومت نے 2017 میں راولپنڈی پر ٹریفک کا دباؤ کم کرنے کے لیے 40کلومیٹر کی رنگ روڈ بنانے کا فیصلہ کیا‘ پلان بھی بن گیا اور بینک آف چائنہ سے 400 ملین ڈالر لون بھی منظور ہو گیا لیکن منصوبہ شروع ہونے سے پہلے میاں شہباز شریف کی حکومت ختم ہو گئی اوریہ منصوبہ بھی دوسرے بے شمار منصوبوں کی طرح ٹھپ ہو گیا لیکن پھر یہ اچانک نہ صرف ایکٹو ہو گیا بلکہ اس میں 26کلومیٹر کا اضافہ بھی ہو گیا‘ اس میں اٹک لوپ بھی شامل ہو گئی۔

اسلام آباد کے دو سیکٹر بھی اس میں ڈال دیے گئے اور حکومت کو یہ تاثر بھی دیا جانے لگا ہمیں غیرملکی قرضوں کی ضرورت نہیں‘ ہمارے پاس ایسی کمپنیاں موجود ہیں جو اپنی جیب سے 66کلو میٹر لمبی سڑک بنائیں گی اور ٹول ٹیکس شیئرنگ کے ذریعے اپنی سرمایہ کاری واپس لے لیں گی‘ یہ منصوبہ بظاہر شان دار لگتا تھا لیکن اس کامقصد رنگ روڈ بنانا نہیں تھا‘ اس کے ذریعے 10 ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مالکان نے لوگوں سے کھربوں روپے جمع کرنا تھے‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ کے مطابق نوا سٹی کے نام سے راتوں رات ایک ہاؤسنگ سوسائٹی رجسٹرڈ ہوئی۔

سوسائٹی کے پاس 970 کنال زمین تھی لیکن سوسائٹی کے مالک جنید چوہدری نے 20 ہزار فائلیں بنائیں اور مارکیٹ میں ایک ماہ میں یہ ساری فائلیں بیچ دیں‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ کے بعد مزید تحقیقات ہوئیں تو پتا چلا فائلیں صرف 20 ہزار نہیں تھیں ان کی تعداد 30 ہزار ہے اور اس میں ہوا بازی کے وفاقی وزیر غلام سرور خان کے صاحب زادے منصور خان پارٹنر ہیں‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ نے سول ایوی ایشن کی طرف سے نوا سٹی کے فوری این او سی پر بھی سوال اٹھایا‘ یہ این او سی حیران کن اسپیڈ سے جاری ہوا تھا‘ جنید چوہدری نے یہ فائلیں رئیل اسٹیٹ مارکیٹنگ کمپنیوں کو بلک میں دیں‘ پراپرٹی ڈیلروں نے سوشل میڈیا پر اشتہارات دیے اور ایک ماہ میں 20 ہزار فائلیں بیچ دیں۔

تحقیقاتی اداروں نے تحقیقات کیں تو پتا چلا صرف ایک ایجنٹ نے ایک ماہ میں 34 کروڑ روپے کمائے‘ آپ باقی کا اندازہ خود لگا لیجیے‘ یہ بھی پتا چلا نیو ائیرپورٹ سوسائٹی کے مالک راجہ سجاد حسین نے بھی رنگ روڈ کے نام پر اندھا دھند سرمایہ کمایا‘ اس کی کمپنی کا نام الآصف ڈویلپر ہے جب کہ لائف اسٹائل کے نام سے جنوری 2020 میں جنید چوہدری نے ایک دوسری کمپنی بھی بنائی اور اس کمپنی نے کمشنر آفس کی معلومات پر تھوڑی سی زمینیں خریدیں اور ہاؤسنگ اسکیموں نے اس زمین کی بنیاد پر دھڑا دھڑ فائلیں بیچنا شروع کر دیں۔

حبیب رفیق گروپ نے رنگ روڈ میں مورت انٹرچینج ڈال کر اسمارٹ سٹی کو بوسٹ دیا اور اپنی سیل میں اضافہ کر لیا‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ٹاپ سٹی ہاؤسنگ اسکیم میں کمشنر کیپٹن محمود بے نامی حصے دار ہیں‘ رنگ روڈ سے اس کو بھی بوسٹ ملا اور اس کے مالکان بھی اربوں روپے کھا گئے‘ بلیو ورلڈ سوسائٹی نے بھی بوسٹ لی اور اسلام آباد کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی (ICHS) بھی پیچھے نہ رہی‘ رپورٹ میں میجر جنرل ریٹائرڈ سلیم اسحاق‘ کرنل ریٹائرڈ عاصم ابراہیم پراچہ اور کرنل ریٹائرڈ مسعود کا نام بھی شامل ہے‘ اتحاد ہاؤسنگ سوسائٹی‘ میاں شہباز شریف کے سابق پرنسپل سیکریٹری توقیر شاہ اور وزیراعظم کے معاون خصوصی ذلفی بخاری کے رشتے داروں کی زمینوں کا ذکر بھی ہے۔

یہ لوگ پسوال زگ زیگ کے بینی فشریز ہیں‘ یہ انکشاف بھی کیا گیا کمشنر کیپٹن(ر) محمد محمود نے گریڈ 17 کے افسر وسیم علی تابش کو غیرقانونی طور پر اٹک میں پوسٹ کیا‘ اسے رنگ روڈ کے لیے زمینیں خریدنے کی ذمے داری سونپ دی اور اس نے پانچ ارب روپے کی لینڈ ایکوزیشن کر دی۔

رپورٹ میں قرطبہ سٹی اور کمشنر کیپٹن محمود کے دو بھائیوں کا ذکر بھی ہے‘ یہ ہاؤسنگ سوسائٹیز میں پارٹنر بھی تھے اور بے نامی دار بھی‘ وسیم علی تابش بھی ٹاپ سٹی کے مالک کے دوست اور رشتے دار ہیں‘ کیپیٹل اسمارٹ سٹی رنگ روڈ میں تبدیلی کا سب سے بڑا ’’بینی فشری‘‘ تھا‘ کمشنر نے رپورٹ کے آخر میں درخواست کی نیب اور ایف آئی اے کے ذریعے نوا سٹی‘ نیو ائیرپورٹ سوسائٹی‘ بلیو ورلڈ سٹی‘ اتحاد سٹی‘ میاں رشیدہ گاؤں میں موجود 300 بے نامی زمینوں‘ گاؤں تھالیاں میں 200 کنال بے نامی زمین‘ جاندو اور چھوکر گاؤں میں ملٹی پروفیشنل ہاؤسنگ اسکیم کی زمین‘ گاؤں راما میں لائف ریزیڈینشیا‘ اڈیالہ روڈ پر موجود روڈن انکلیو‘ ایس اے ایس ڈویلپرز‘ کیپیٹل اسمارٹ سٹی اور ٹاپ سٹی کے خلاف تحقیقات کی جائیں جب کہ کمشنر راولپنڈی کیپٹن(ر) محمد محمود سمیت اسکینڈل میں ملوث تمام سرکاری افسروں کو نوکری سے فارغ کیا جائے اور ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے۔

مجھے کل دوپہر پتا چلا ملزمان کے خلاف خفیہ تحقیقات شروع ہو چکی ہیں‘ نوا سٹی کے مالک جنید چوہدری کے دو وفاقی وزراء اور وزیراعظم کے اسپیشل اسسٹنٹ سے روابط بھی نکل آئے ہیں‘ تحائف کی تفصیلات کا علم بھی ہو چکا ہے‘ نوا سٹی کے ایجنٹوں کے اکاؤنٹس‘ فون ڈیٹا‘ جائیدادوں اور بے نامی پراپرٹیز کی فہرستیں بھی بن رہی ہیں‘ کیپیٹل اسمارٹ سٹی‘ نیو ائیرپورٹ سوسائٹی‘ بلیو ورلڈ‘ اتحاد سٹی اور روڈن کے خلاف بھی ثبوت جمع ہو رہے ہیں اور وزیراعظم نے تمام ملزموں کو گرفتار کرنے اور عوام کی رقم واپس دلوانے کا حکم بھی دے دیا ہے‘ وزیراعظم اور ذلفی بخاری کے تعلقات میں بھی دراڑ آ چکی ہے‘ وزیراعظم ان سے یہ توقع نہیں رکھتے تھے‘ ان کی وزارت کے اندر بھی چند فائلیں کھل رہی ہیں اور وہ انکشافات بھی حیران کن ہوں گے۔

یہ ملک کس طرح چل رہا ہے؟ آپ صرف گلزار حسین کی رپورٹ پڑھ لیں‘ آپ کو مزید کچھ پڑھنے کی ضرورت نہیں رہے گی‘ آپ ظلم دیکھیے‘ ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالکان سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کے ساتھ مل کر کس طرح فضا بناتے ہیں‘ پورے پورے شہر کاغذوں میں بناتے اور پلاٹوں کی فائلیں بنا کر مہینے میں اربوں روپے جمع کر لیتے ہیں اور عوام سستے پلاٹوں اور گھروں کے لالچ میں اپنی عمر بھر کی کمائی سے محروم ہو جاتے ہیں‘ یہ کیسے لوگ ہیں؟ کیا ان کے دل رحم سے بالکل خالی ہو چکے ہیں؟ عمران خان سچ کہتے ہیں اس ملک میں مافیاز کی حکومت ہے اور یہ مافیاز ہر حکومت کو مفلوج کر کے رکھ دیتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ رپورٹ ہمارے پورے سسٹم کا نوحہ بھی ہے اور یہ ثابت کرتی ہے سیاست دان‘ بیوروکریٹس اور طاقتور اداروں کے ریٹائرڈ افسر کس طرح مل کر پورے نظام کو توڑ مروڑکر ایک ایک رات میں عوام کی جیب سے کھربوں روپے نکال لیتے ہیں‘ میں عمران خان کا ناقد ہوں‘ میں چھ سال سے ان پر تنقید کر رہا ہوں لیکن یہ رپورٹ پڑھ کر پہلی مرتبہ مجھے ان پر ترس آیا‘ یہ شخص واقعی ہر طرف سے مفاد پرستوں میں گھرا ہوا ہے‘ سرکاری افسر‘ وزیراعظم کے دوست اورحکمران پارٹی کے عہدیدار ملک کو لوٹ رہے ہیں اور یہ ملک اور اپنے آپ کو ان سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن سوال یہ ہے یہ کس کس سے بچے گا؟ اس ملک میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔
ناقدین کو عمران خان کی حالت پر ترس آگیا۔ بغض عمران والوں کو کب آئے گا؟
 

الف نظامی

لائبریرین
سب سسٹم کی خرابی ہے۔ طاہر القادری ٹھیک کہتا تھا۔
پانی پینے سے قبل فلٹریشن کریں یعنی الیکشن سے قبل انتخابی اصلاحات ہوں نہ یہ کہ کرپٹ لوگ اقتدار میں آ جائیں تو پھر اپنی مرضی کی اصلاحات کریں
"یہ قانون بنائیں کہ کسی سیاسی جماعت کو چھوڑ کر دوسری سیاسی جماعت میں شامل ہونے والا فرد پانچ سال تک الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتا"

---
جاوید چوہدری (ناقد) نے ۷ ستمبر ۲۰۱۲ میں اپنے کالم میں لکھا تھا:
میں سمجھتا ہوں اگر عمران خان اس قوم کو قطار بنانے کا طریقہ سکھا دیں ، یہ اپنی پارٹی کے کارکنوں کو قائل کر لیں ، ہمارا ہر کارکن قطار میں کھڑا ہوگا خواہ یہ قطار ایک آدمی پر ہی مشتمل کیوں نہ ہو اور ہم بارشوں اور بہار کے موسم میں پورے ملک میں کروڑوں پودے لگائیں گے اور ان پودوں کی حفاظت بھی کریں گے اور ہم میں سے ہر شخص گلی محلے میں صفائی رکھے گا تو یقین کیجیے عمران خان واقعی ملک میں سوشل سونامی لے آئیں گے

---

اندھی تقلید اور غیر مشروط حمایت کرنے والوں کے لیے خصوصی تحفہ (از عامر خاکوانی)
ہمارے بعض دوستوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ میری کسی سیاسی، مسلکی، لسانی، قوم پرست جماعت سے کبھی کسی قسم کی وابستگی نہیں رہی۔ ممکن ہے کسی خاص ایشو پر میں کسی جماعت ، گروہ یا تنظیم کو سپورٹ کر دوں، مگر وہ صرف اس ایشو کی حد تک ہوا ہوگا اور جیسے ہی وہ تنظیم، جماعت میرے نظر میں کوئی غلط پالیسی اپنائے گی، میں اس پر تنقید کروں گا۔
احباب کو یہ بات آسانی سے سمجھ نہیں آتی کہ شائد یہ رویہ آج کل اجنبی سا ہوگیا۔ یار لوگ غیر مشروط حمایت، غیر مشروط اطاعت اور غیر مشروط وابستگی کے عادی ہوگئے ہیں۔
میں چونکہ اسلامی تحریکوں کو سپورٹ کرتا ہوں، ان کے لئے ہمدردی رکھتا ہوں، اس لئے کئی لوگوں کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ شائد اس کا جمعیت یا جماعت اسلامی سے تنظیمی تعلق ہے یا ماضی میں کبھی ان کا رکن، رفیق، ہمدرد وغیرہ رہا ہے۔ چونکہ ایسا نہیں اور ان شااللہ ہوگا بھی نہیں تو میرے لئے کسی قسم کا بوجھ نہیں بنتا۔ بعض احباب مجھے جماعت اسلامی کے کسی سینئر رہنما کی کتاب کا حوالہ دیتے ہیں یا تحریر کا۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ جماعت کے قائدین کی بات سے یہ کیسے انحراف کر سکتے ہیں۔ انہیں علم نہیں کہ اپنی طالب علمانہ کم علمی کے باوجود ہم بانی جماعت سید مودودی کی کئی آرا سے اختلاف رکھتے ہیں اور وقت پڑنے پر برملا اس کا اظہار بھی کر دیتے ہیں۔
اسی طرح جماعت کے کئی رہنمائوں کا ایک دیانت دار مڈل کلاس رہنما کے طور پر احترام ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی کہی یا لکھی گئی کسی بات کو پتھر کی لکیر سمجھ لیں گے۔ ہم اسے بھی ویسے ہی جانچیں گے جیسے کسی غیر جماعت کے شخص کی بات کا جائزہ لیتے ہیں۔ درست لگے گی تو خوب ورنہ اس پر بھی نقد ہوگا۔
یہی معاملہ مسلک کا ہے۔ اکثر صاحبان کو اس حوالے سے بھی کنفیوژن ہے۔ میں صوفیا کا بہت احترام کرتا ہوں اور تصوف میں دلچسپی رکھتا ہوں، اسی لئے بریلوی تصور کر لیا جاتا ہے، جب میں اس قسم کی مسلکی عصبیت کو لے کر نہیں چلتا تو بہت سوں کو دھچکا پہنچتا ہے۔
میں مولانا تھانوی،مولانا لاہوری اور مولانا مناظر احسن گیلانی سمیت بعض دیگر دیوبندی اہل علم کا مداح ہوں، مولانا شبیر احمد عثمانی کے تحریک پاکستان میں کردار پر مجھے ان سے محبت ہے، تو کبھی اس کا اظہار ہونے پر دیوبندی تصور کر لیا جاتا ہے۔ جب مولانا فضل الرحمن ، وفاق المدارس وغیرہ کی کسی پالیسی سے اختلاف کیا جائے تو یار لوگوں کو دھچکا پہنچتا ہے کہ یہ کم بخت کیسا دیوبندی ہے۔
یہی معاملہ ایک آدھ کسی دوسرے مسلک کا بھی ہے۔ ہم لوگ خود کو صرف مسلمان کے طور پر شناخت کرانا ہی نہیں چاہتے، ہمیشہ ساتھ بریکٹ میں لکھا ہوا بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث،شیعہ، غامدی، پرویزی وغیرہ لکھا ہونا لازمی سمجھتے ہیں۔ کم از کم یہ خاکسار کسی مسلکی بوجھ کو اٹھانے کا قائل نہیں۔ زیادہ سے زیادہ سنی حنفی کا لیبل ہی قبول کرتے ہیں کہ فقہی رہنمائی کے لئے یہ ضروری ہے
سرائیکی ہونے کے ناتے بعض احباب کے خیال میں مجھے سرائیکی قوم پرست جماعتوں کا حصہ ہونا چاہیے اور ان کے تمام تر زہریلے متعصبانہ بیانیہ کو بھی لے کر چلنا چاہیے، ان کے خیال میں مجھے پنجاب اور پنجابیوں کو گالی دینی چاہیے ، چونکہ میں ایسا نہیں کرتا، اس لئے سرائیکی قوم پرستوں کے نزدیک خاکسار سرائیکیوں کے نام پر دھبا ہے ۔ بات یہ بھی غلط ہے۔
اب دوسرا معاملہ یہ دیکھیں کہ جہاں کہیں سرائیکی قوم کے مسائل، محرومیوں کی بات ہو، میں اس پر ڈٹ کر لکھتا ہوں، جنوبی پنجاب صوبے کا معاملہ ہو، ہمیشہ اس پر کالموں کی سیریز لکھتا ہوں، اپنی جانب سے مقدمہ پیش کرتا اور دلیل سے بات کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس پر ہمارے پنجابی شاونسٹ دوست بڑے تلملاتے ہیں۔ وہ طعنے دیتے اور زہر اگلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تحریک انصاف کی میں نے پچھلے الیکشن میں سپورٹ کی تھی، ن لیگ پر تنقید کرتا رہا اور پانامہ کیس کے دوران ن لیگی میڈیا سیل کے تشکیل کردہ مقدمہ کے تاروپود بکھیرنے کی کوشش میں اپنا سا حصہ ڈالتا رہا ۔ اس پر انصافین مجھے غیر مشروط قسم کا عمران خان فین اور شریف خاندان پر ہر قسم کا گند اچھالنے والا تصور کر لیتے ہیں۔یہ بات چونکہ میں نہیں کر پاتا، اس لئے یہ بھی مایوس ہوجاتے ہیں۔
تحریک انصاف کی پچھلے الیکشن میں سپورٹ کا مطلب یہ نہیں کہ ہم عمران خان کو کلین چٹ دے دیں۔ پچھلے ڈھائی پونے تین سال کی بدترین حکومتی کارکردگی کا کون دفاع کر سکتا ہے، میں اس پر کھل کر تنقید کرتا ہوں، عمران خان کی ہر اہم تقرری پر تنقید کرتا ہوں، عثمان بزدار اور محمود خان دونوں نے عمران خان کے ایجنڈے کو سخت نقصان پہنچایا، ان کے کئی وزرا کو حکومت سے باہر ہونا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان اب تک بری طرح ناکام ہوئے ہیں اور اب بہت ہی کم چانسز رہ گئے ہیں کہ وہ ڈیلیور کر سکیں۔ میں یہ بات کھل کر بارہا کہہ چکا ہوں۔ مین عمران خان کے دھرنوں کا ہمیشہ ناقد رہا، اس دوران ان پر کالم بھی لکھتا رہا۔ مگر چونکہ عمران خان کو منہ بھر کا گالی نہیں دیتا، اسے نیازی، کوکینی، نشئی وغیرہ نہیں کہتا، اس لئے ن لیگی یا مولانا فضل الرحمن کے حامیوں کے نزدیک میری تنقید قابل قبول نہیں۔
میں یہ لکھتا ہوں کہ عمران خان کی ذاتی دیانت داری ابھی تک بچی ہوئی ہے اگرچہ ان کے گرد نالائق اور کرپٹ لوگ آ چکے ہیں اور اسکا خمیازہ اسے ہی بھگتنا پڑے گا۔ اس بات میں تیس فیصد تعریف مگر ستر فی صد تنقید ہے، مگر ہم لوگ سو فی صد اور غیر مشروط مذمت یا حمایت کے اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ بیلنس یا متوازن بات یا جو چیز جتنی ہے، اتنا ہی اسے بیان کرنا برداشت نہیں کر سکتے۔
خیر اس تنقید کا مجھ پر ذرہ برابر بھی اثر نہیں پڑتا۔ میں جسے درست سمجھتا ہوں وہی کہتا اور لکھتا ہوں، ایسا ان شااللہ کرتا رہوں گا۔
کہنا البتہ یہ تھا کہ یوں لیبل لگانے اور انسان کو خانوں میں بانٹنے کے بجائے اپنی تنقید میں توازن لائیں، تعریف کو بھی بیلنس کریں، اپنی آرا میں عدل اور انصاف سے کام لیں ۔ اپنے سے مختلف نقطہ نظر کو برداشت کرنا سیکھیں اور دو انتہائوں کے درمیاں موجود سپیس کو کم نہ ہونے دیں۔ یہ درمیانی سپیس جتنی کشادہ ہوگی، اتنا ہی معاشرے میں برداشت، رواداری اور تحمل ہوگا۔
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
رنگ روڈ۔۔دوسرا پاناما اسکینڈل
جاوید چوہدری منگل 18 مئ 2021

راولپنڈی رنگ روڈ کی کہانی وزیراعظم عمران خان کے دفتر سے شروع ہوئی‘ وزیراعظم کو کسی دوست نے بتایا آپ کے خلاف بھی پاناما اسکینڈل بن چکا ہے۔

آج آپ کی حکومت ختم ہو جاتی ہے تو آپ کے لیے راولپنڈی رنگ روڈ کافی ہو گی‘ آپ باقی زندگی فائلیں اٹھا کر ایک عدالت سے دوسری عدالت دھکے کھاتے رہیں گے‘ وزیراعظم کے لیے یہ انکشاف پریشان کن تھا‘ وزیراعظم کو دوست نے چند اکاؤنٹ نمبرز‘ چند فون نمبرز‘ چار اعلیٰ سرکاری افسروں کے عہدے اور 10 ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے نام دیے اور وزیراعظم کو کمشنر راولپنڈی کیپٹن(ر) محمد محمود سے چند سوال پوچھنے کا مشورہ دیا۔

وزیراعظم نے خفیہ تحقیقات کرائیں‘ الزام سچ نکلا‘ وزیراعظم نے کمشنر راولپنڈی کیپٹن محمود کو بلایا اور ان سے صرف ایک سوال پوچھا ’’آپ کو راولپنڈی رنگ روڈ کا روٹ بدلنے اور اٹک لوپ کو اس میں شامل کرنے کا مشورہ کس نے دیا تھا‘‘ کیپٹن محمود نے فوراً جواب دیا ’’مجھے کسی نے نہیں کہا تھا‘‘ وزیراعظم نے دوبارہ پوچھا ’’کیا آپ کو کسی وفاقی وزیر یا اسپیشل ایڈوائزر ٹو پی ایم نے سفارش نہیں کی؟‘‘ کمشنر نے صاف انکار کر دیا۔

یہ انکار وزیراعظم کو برا لگا‘ کیوں؟ کیوں کہ وزیراعظم کے پاس سارا ریکارڈ موجود تھا‘ یہ جانتے تھے وفاقی وزیر غلام سرور خان اور وزیراعظم کے معاون خصوصی ذلفی بخاری کمشنر راولپنڈی پر اثرانداز ہوئے تھے اور اس اثرورسوخ کی وجہ سے 10 ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے چند ماہ میں اربوں روپے کمائے تھے۔

کمشنر کے انکار نے وزیراعظم کے خدشات کو مضبوط بنا دیا اور انھوں نے راولپنڈی کی ساری انتظامیہ کمشنرکیپٹن ریٹائرڈ محمد محمود‘ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی محمد انوار الحق‘ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیوکیپٹن (ر) شعیب علی اور اسسٹنٹ کمشنر صدر غلام عباس کو عہدوں سے ہٹا دیا اور چیئرمین چیف منسٹر انسپکشن ٹیم گلزارحسین شاہ کو کمشنر راولپنڈی لگایا اور انھیں راولپنڈی رنگ روڈ کی انکوائری کا حکم دے دیا‘ کمشنر گلزارحسین شاہ نے کام شروع کیا اور 11مئی کو انکوائری رپورٹ آ گئی۔

بیوروکریسی میں گلزار حسین شاہ کی شہرت اچھی نہیں‘ یہ ڈسکہ میں این اے 75کے الیکشن کے دوران کمشنر گوجرانوالہ تھے اور ان پر الیکشن میں اثرانداز ہونے کا الزام لگا تھا مگر اس کے باوجود گلزار حسین کی انکوائری رپورٹ نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا‘ میں نے اپنے 28 سال کے صحافتی کیریئر میں کسی سرکاری افسر کی تیار کردہ اتنی تگڑی اور جامع رپورٹ نہیں دیکھی‘ اس رپورٹ نے ثابت کر دیا اگر سرکاری افسر کام کرنا چاہے تو یہ ایک ہفتے میں تمام تحقیقاتی اداروں اور جے آئی ٹیز کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔

یہ رپورٹ ہمارے پورے سسٹم کا نوحہ بھی ہے اور یہ ثابت کرتی ہے سیاست دان‘ بیوروکریٹس اور طاقتور اداروں کے ریٹائرڈ افسر کس طرح مل کر پورے نظام کو توڑ مروڑکر ایک ایک رات میں عوام کی جیب سے کھربوں روپے نکال لیتے ہیں‘ میں عمران خان کا ناقد ہوں‘ میں چھ سال سے ان پر تنقید کر رہا ہوں لیکن یہ رپورٹ پڑھ کر پہلی مرتبہ مجھے ان پر ترس آیا‘ یہ شخص واقعی ہر طرف سے مفاد پرستوں میں گھرا ہوا ہے‘ سرکاری افسر‘ وزیراعظم کے دوست اورحکمران پارٹی کے عہدیدار ملک کو لوٹ رہے ہیں اور یہ ملک اور اپنے آپ کو ان سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن سوال یہ ہے یہ کس کس سے بچے گا؟ اس ملک میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔

کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ میں انکشاف ہوا پنجاب حکومت نے 2017 میں راولپنڈی پر ٹریفک کا دباؤ کم کرنے کے لیے 40کلومیٹر کی رنگ روڈ بنانے کا فیصلہ کیا‘ پلان بھی بن گیا اور بینک آف چائنہ سے 400 ملین ڈالر لون بھی منظور ہو گیا لیکن منصوبہ شروع ہونے سے پہلے میاں شہباز شریف کی حکومت ختم ہو گئی اوریہ منصوبہ بھی دوسرے بے شمار منصوبوں کی طرح ٹھپ ہو گیا لیکن پھر یہ اچانک نہ صرف ایکٹو ہو گیا بلکہ اس میں 26کلومیٹر کا اضافہ بھی ہو گیا‘ اس میں اٹک لوپ بھی شامل ہو گئی۔

اسلام آباد کے دو سیکٹر بھی اس میں ڈال دیے گئے اور حکومت کو یہ تاثر بھی دیا جانے لگا ہمیں غیرملکی قرضوں کی ضرورت نہیں‘ ہمارے پاس ایسی کمپنیاں موجود ہیں جو اپنی جیب سے 66کلو میٹر لمبی سڑک بنائیں گی اور ٹول ٹیکس شیئرنگ کے ذریعے اپنی سرمایہ کاری واپس لے لیں گی‘ یہ منصوبہ بظاہر شان دار لگتا تھا لیکن اس کامقصد رنگ روڈ بنانا نہیں تھا‘ اس کے ذریعے 10 ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مالکان نے لوگوں سے کھربوں روپے جمع کرنا تھے‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ کے مطابق نوا سٹی کے نام سے راتوں رات ایک ہاؤسنگ سوسائٹی رجسٹرڈ ہوئی۔

سوسائٹی کے پاس 970 کنال زمین تھی لیکن سوسائٹی کے مالک جنید چوہدری نے 20 ہزار فائلیں بنائیں اور مارکیٹ میں ایک ماہ میں یہ ساری فائلیں بیچ دیں‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ کے بعد مزید تحقیقات ہوئیں تو پتا چلا فائلیں صرف 20 ہزار نہیں تھیں ان کی تعداد 30 ہزار ہے اور اس میں ہوا بازی کے وفاقی وزیر غلام سرور خان کے صاحب زادے منصور خان پارٹنر ہیں‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ نے سول ایوی ایشن کی طرف سے نوا سٹی کے فوری این او سی پر بھی سوال اٹھایا‘ یہ این او سی حیران کن اسپیڈ سے جاری ہوا تھا‘ جنید چوہدری نے یہ فائلیں رئیل اسٹیٹ مارکیٹنگ کمپنیوں کو بلک میں دیں‘ پراپرٹی ڈیلروں نے سوشل میڈیا پر اشتہارات دیے اور ایک ماہ میں 20 ہزار فائلیں بیچ دیں۔

تحقیقاتی اداروں نے تحقیقات کیں تو پتا چلا صرف ایک ایجنٹ نے ایک ماہ میں 34 کروڑ روپے کمائے‘ آپ باقی کا اندازہ خود لگا لیجیے‘ یہ بھی پتا چلا نیو ائیرپورٹ سوسائٹی کے مالک راجہ سجاد حسین نے بھی رنگ روڈ کے نام پر اندھا دھند سرمایہ کمایا‘ اس کی کمپنی کا نام الآصف ڈویلپر ہے جب کہ لائف اسٹائل کے نام سے جنوری 2020 میں جنید چوہدری نے ایک دوسری کمپنی بھی بنائی اور اس کمپنی نے کمشنر آفس کی معلومات پر تھوڑی سی زمینیں خریدیں اور ہاؤسنگ اسکیموں نے اس زمین کی بنیاد پر دھڑا دھڑ فائلیں بیچنا شروع کر دیں۔

حبیب رفیق گروپ نے رنگ روڈ میں مورت انٹرچینج ڈال کر اسمارٹ سٹی کو بوسٹ دیا اور اپنی سیل میں اضافہ کر لیا‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ٹاپ سٹی ہاؤسنگ اسکیم میں کمشنر کیپٹن محمود بے نامی حصے دار ہیں‘ رنگ روڈ سے اس کو بھی بوسٹ ملا اور اس کے مالکان بھی اربوں روپے کھا گئے‘ بلیو ورلڈ سوسائٹی نے بھی بوسٹ لی اور اسلام آباد کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی (ICHS) بھی پیچھے نہ رہی‘ رپورٹ میں میجر جنرل ریٹائرڈ سلیم اسحاق‘ کرنل ریٹائرڈ عاصم ابراہیم پراچہ اور کرنل ریٹائرڈ مسعود کا نام بھی شامل ہے‘ اتحاد ہاؤسنگ سوسائٹی‘ میاں شہباز شریف کے سابق پرنسپل سیکریٹری توقیر شاہ اور وزیراعظم کے معاون خصوصی ذلفی بخاری کے رشتے داروں کی زمینوں کا ذکر بھی ہے۔

یہ لوگ پسوال زگ زیگ کے بینی فشریز ہیں‘ یہ انکشاف بھی کیا گیا کمشنر کیپٹن(ر) محمد محمود نے گریڈ 17 کے افسر وسیم علی تابش کو غیرقانونی طور پر اٹک میں پوسٹ کیا‘ اسے رنگ روڈ کے لیے زمینیں خریدنے کی ذمے داری سونپ دی اور اس نے پانچ ارب روپے کی لینڈ ایکوزیشن کر دی۔

رپورٹ میں قرطبہ سٹی اور کمشنر کیپٹن محمود کے دو بھائیوں کا ذکر بھی ہے‘ یہ ہاؤسنگ سوسائٹیز میں پارٹنر بھی تھے اور بے نامی دار بھی‘ وسیم علی تابش بھی ٹاپ سٹی کے مالک کے دوست اور رشتے دار ہیں‘ کیپیٹل اسمارٹ سٹی رنگ روڈ میں تبدیلی کا سب سے بڑا ’’بینی فشری‘‘ تھا‘ کمشنر نے رپورٹ کے آخر میں درخواست کی نیب اور ایف آئی اے کے ذریعے نوا سٹی‘ نیو ائیرپورٹ سوسائٹی‘ بلیو ورلڈ سٹی‘ اتحاد سٹی‘ میاں رشیدہ گاؤں میں موجود 300 بے نامی زمینوں‘ گاؤں تھالیاں میں 200 کنال بے نامی زمین‘ جاندو اور چھوکر گاؤں میں ملٹی پروفیشنل ہاؤسنگ اسکیم کی زمین‘ گاؤں راما میں لائف ریزیڈینشیا‘ اڈیالہ روڈ پر موجود روڈن انکلیو‘ ایس اے ایس ڈویلپرز‘ کیپیٹل اسمارٹ سٹی اور ٹاپ سٹی کے خلاف تحقیقات کی جائیں جب کہ کمشنر راولپنڈی کیپٹن(ر) محمد محمود سمیت اسکینڈل میں ملوث تمام سرکاری افسروں کو نوکری سے فارغ کیا جائے اور ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے۔

مجھے کل دوپہر پتا چلا ملزمان کے خلاف خفیہ تحقیقات شروع ہو چکی ہیں‘ نوا سٹی کے مالک جنید چوہدری کے دو وفاقی وزراء اور وزیراعظم کے اسپیشل اسسٹنٹ سے روابط بھی نکل آئے ہیں‘ تحائف کی تفصیلات کا علم بھی ہو چکا ہے‘ نوا سٹی کے ایجنٹوں کے اکاؤنٹس‘ فون ڈیٹا‘ جائیدادوں اور بے نامی پراپرٹیز کی فہرستیں بھی بن رہی ہیں‘ کیپیٹل اسمارٹ سٹی‘ نیو ائیرپورٹ سوسائٹی‘ بلیو ورلڈ‘ اتحاد سٹی اور روڈن کے خلاف بھی ثبوت جمع ہو رہے ہیں اور وزیراعظم نے تمام ملزموں کو گرفتار کرنے اور عوام کی رقم واپس دلوانے کا حکم بھی دے دیا ہے‘ وزیراعظم اور ذلفی بخاری کے تعلقات میں بھی دراڑ آ چکی ہے‘ وزیراعظم ان سے یہ توقع نہیں رکھتے تھے‘ ان کی وزارت کے اندر بھی چند فائلیں کھل رہی ہیں اور وہ انکشافات بھی حیران کن ہوں گے۔

یہ ملک کس طرح چل رہا ہے؟ آپ صرف گلزار حسین کی رپورٹ پڑھ لیں‘ آپ کو مزید کچھ پڑھنے کی ضرورت نہیں رہے گی‘ آپ ظلم دیکھیے‘ ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالکان سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کے ساتھ مل کر کس طرح فضا بناتے ہیں‘ پورے پورے شہر کاغذوں میں بناتے اور پلاٹوں کی فائلیں بنا کر مہینے میں اربوں روپے جمع کر لیتے ہیں اور عوام سستے پلاٹوں اور گھروں کے لالچ میں اپنی عمر بھر کی کمائی سے محروم ہو جاتے ہیں‘ یہ کیسے لوگ ہیں؟ کیا ان کے دل رحم سے بالکل خالی ہو چکے ہیں؟ عمران خان سچ کہتے ہیں اس ملک میں مافیاز کی حکومت ہے اور یہ مافیاز ہر حکومت کو مفلوج کر کے رکھ دیتے ہیں۔
اس منصوبے کا ایک دوسرا رُخ بھی ہے۔ اگر ایک پراجیکٹ کا سن کر مختلف گروہوں نے بنجر زمینوں کو بھی آباد کرنے کا فیصلہ کیا اور سرمائے کو گردش میں لانے کا سوچا تو اگر اس حوالے سے واقعی کوئی بڑی بے ضابطگی (یہاں بے ضابطگی سے مراد حکومتی رقم ہڑپ کرنا ہے) نہیں ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ شہر کو ایک بار پھر میگا پراجیکٹ سے محروم کر دیا گیا اور شہر سے ہٹ کر جو زمینیں آباد ہو سکتی تھیں، انہیں واپس ازمنہ قدیم میں لے جایا گیا۔ جہاں تک 25 ارب روپے اضافی بجٹ کا معاملہ ہے تو، بہتر یہ ہے کہ یہ رقم ان سوسائٹیوں سے ہی وصول کی جائے، اگر وہ اس پر آمادہ ہوں تو پراجیکٹ شروع کرنے میں حرج نہیں کہ اگر وہ مبینہ طور پر مختلف افراد کو نواز سکتی ہیں تو یہ رقم مل کر حکومتی پراجیکٹ میں بھی ڈال سکتی ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ سچ ہے کہ کوئی بھی میگا پراجیکٹ پاکستان میں شروع ہوتا ہے تو اس کو پلان کرنے والے، اس کے ٹھیکوں کی منظوری دینے والے، مختلف الزامات کے تحت اپنی زندگی کورٹ کچہری میں دھکے کھاتے گزارتے ہیں اور اسی وجہ سے نیب اور دیگر احتساب کرنے والے ادارے بدنام ہیں۔ کوئی بھی میگا پراجیکٹ شروع کرنے میں یہ حکومت لیت و لعل سے کام لے رہی ہے اور اس کی ایک وجہ سرمائے کی کمی اور دوسری وجہ یہی خوف ہے کہ کل ہم بھی گھیرے میں آ جائیں گے۔ بہرصورت، یہ پراجیکٹ اب کم از کم ایک دو سال تک تو شروع ہونے سے رہا اور اس طرح جو سرمایہ گردش میں آیا تھا، وہ واپس جیبوں میں چلا جائے گا اور راولپنڈی شہر میں زندگی اسی طرح جمود کا شکار رہے گی۔

اس تبصرے کا یہ مطلب نہیں کہ میں کرپشن کا حامی ہوں، اس کا مطلب یہ ہے کہ سرمایہ لگانے والے کو بہرصورت خوف سے آزاد کرنا ہو گا اور قواعد و ضوابط ایسے بنانے ہوں گے کہ وہ کسی 'رینج'میں رہے مگر وہ خوف کا شکار نہ ہو۔ آپ یقین کریں کہ اس طرح ملک ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکے گا جب تک سرمایہ کارکو آپ خوف کے شکنجے میں جکڑے رکھیں گے۔ فرض کریں کہ یہ سرمایہ کار یہاں سے سرمایہ نکال لیتے ہیں تو آپ کے پاس نیب کے کیس اور بنجر زمینوں کے علاوہ کچھ نہیں بچے گا۔ جو قیادتیں ہوشیار اور بردبار ہوتی ہیں، وہ مواقع سے محروم بھی نہیں ہوتی ہیں اور قواعد و ضوابط ایسے ترتیب دیتی ہیں کہ سرمایہ کار کرپشن سے ہٹ کر اپنے لیے امکانات تلاش کرتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسرت جاوید

محفلین
"یہ قانون بنائیں کہ کسی سیاسی جماعت کو چھوڑ کر دوسری سیاسی جماعت میں شامل ہونے والا فرد پانچ سال تک الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتا"
قانون وہ ہو جو ہر ممکنہ لوپ ہولز سے آزاد ہو۔ اگر کوئی پابندی کی وجہ سے خود الیکشن نہ لڑ سکا تو اپنی جگہ اپنے بیٹے کو یا اپنی برادری میں سے کسی کو نومینیٹ کر دے گا۔ اس طرح کی اصلاحات پہ سخت محنت کی ضرورت ہے تاکہ کرپشن کا ہر ممکنہ راستہ بند ہو۔
 
آخری تدوین:
Top