[align=justify:fdfb12d7f4]باپ چھچھورا نہ تھا کہ لڑنے لگتا۔ خاموش ہوگیا اور ایک ٹھنڈا سانس بھر کر بیٹی کو ڈولی میں بٹھا کر گھر کا راستہ لیا۔[/align:fdfb12d7f4]
آفتاب لاتعداد مرتبہ طلوع ہو کر غروب ہوا ۔ چاند بے شمار بار چمک کر ماند پڑا ۔ مگر وہ آفتاب جو بچہ کی مفارقت میں ڈھلا اور ڈوبا بدنصیب عطیہ کے واسطے میکے میں ایسا درد چھوڑگیا جس کی ٹیسوں اور چَمکوں نے مُردہ کر دیا ۔ میکے کی ماما ، حقیقی چچا ، رشتے کے ماموں سب ہی گئے اور کوشش کی مگر حَسن نے بچہ نہ بھیجا ، دُکھیاری کلیجہ پر گھونسے مارنے لگی ۔ دنیا آنکھوں میں اندھیر تھی اور کوئی اتنا نہ تھا کہ چار پَہر بچھڑے ہوئے بچہ کی صُورت دکھا دے ۔ تڑپ رہی تھی کہ حَسن کا یہ پیغام آ پہنچا۔
” بچہ اپنی پُھوپھی کے پاس گاؤں میں ہے لیکن تُم ابھی آجاؤ، اگر فورا ً نہ آئیں تو صُبح ہی زوجیت کا دعوٰی دائر کر دوں گا اور عدالت کا حُکم لے کے چوٹی پکڑ کر گھر میں سے گھسیٹ لاؤں گا۔“
عطیہ کے باپ نے یہ الفاظ سنے ، بیٹی کو بلا کر گلے سے لگایا اور کہا،
” جا خدا کے سُپرد کیا۔“
اتنا کہہ کر بدنصیب باپ کی ہچکی بندھ گئی ۔ اُس نے کمرہ میں گُھس کر دروازہ بند کر لیا۔
عطیہ کی حالت خراب تھی جب یہ سُنا کہ بچہ بھی وہاں نہیں ہے اُس وقت سے بخار اور تیز ہوگیا تھا ۔ خدمت کی مُصیبت آنکھ کے سامنے تھی ۔ ماں ، بہنیں ، سہیلیاں سب کھڑی آٹھ آٹھ آنسُو رو رہی تھیں۔ ڈولی موجود تھی ۔ سوار ہونے سے پہلے عطیہ نے کہا ،
” مرض کی حالت مریض سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا ۔ میں اب اِس دُنیا میں چند ساعت کی مہمان ہوں اور قریب ہے وہ وقت کہ ماں میری موت اور باپ فراقِ ابدی پر خُون کے آنسو گرائیں اور میری نامُراد آنکھیں معصُوم بچہ کی صُورت کو پھڑکتی ہمیشہ کی نیند سو جائیں ، مگر مجھے ماں کے صَدمہ ، باپ کے رنج اور عزیزوں کے افسوس سے زیادہ اس مُصیبت کا دھڑکا ہے ، جس کے خیال سے میرے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں ۔ بہنو ! جن کانوں نے کُوار پنے میں ماں اور باپ کی جھڑکی تک نہ سُنی ، نکاح نے اُن کو سخت سے سخت اور بَد سے بَدتر کلمے سُنوا دیئے ۔ جس جسم پر پُھول کی چھڑی نہ لگی تھی اب اُس پر بیدیں پڑنے کا وقت آپہنچا!!“
” میرا سانس اُکھڑ رہا ہے اور وقتِ آخر ہے ۔ میرا پیام مُسلمانوں تک پہنچا دینا۔ بزرگو! اگر صداقتِ اسلام کی روشنی دِلوں میں اور انصاف کی جھلک آنکھوں میں موجود ہے تو کبھی بُھولے بِسرے ، سوتے جاگتے اِن بَدنصیب ہستیوں پر بھی غور کرو جو نازونعم سے پَل کر ہاتھوں چھاؤں بڑھ کر سنگدل شوہروں کے قبضے میں جا پَھنسیں ۔ مُسلمانوں کی حالت کا قیاس اپنے اُوپر نہ کرو۔ اِس بَدنصیب قوم کی حالتِ زار کی داستان گھر کی ماماؤں اور پڑوس کی بدنصیبوں سے سُنو۔ زندگی آپ کو مُصیبت اور دُنیا اُن کے واسطے دوزخ۔ ظالم شوہروں نے اُٹھتے جُوتی اور بیٹھتے لات سے اُن کو کائنات کی بدترین ہستی بنا دیا۔ للہ ایمان سے کام لو اور بتاؤ اگر ہم نے حُکمِ طلاق کے آگے کبھی اُف کی ہو! تُم نے بے گُناہ ، بے قصُور طلاقیں دیں اور ہم نے گردنیں جُھکا دیں ! مگر اُسی نبی اور اُسی مذہب نے ہم کو خلع کا حق دیا تھا مگر ہے کوئی مُسلمان جو آج کہہ سکے کہ اُس نے ایک بدنصیب بیوی کو خلع دلوا کر ظالم شوہر سے چُھٹکارا دلوایا ہو؟“
”ہم نے خاکِ عرب سے اُٹھنے والے رسُول کے احکام سر اور آنکھوں پر اور اسلام کی لاج رکھی ، مگر تُم نے اُس پاک ہستی اور مکمل انسان کا ارشاد ٹھکرا دیا۔ بے شُمار ماں کی جائیاں مُصیبت پیٹتی اور آفت بُھگتتی قبروں میں پہنچا دیں اور خلع نہ ہونے دیا !!“
عورتوں کی ہچکی بندھی ہوئی تھی اور کوئی ایسی نہ تھی جو اُس کی صُورت پر لبیک نہ کہہ رہی ہو ۔ اب عطیہ کی آواز رُک گئی، وہ ڈولی میں بیٹھنا چاہتی تھی کہ کھانسی اُٹھی ، صرف اتنا کہا۔
”ہائے میرا بچہ!“
اور وہیں ٹھنڈی ہوگئی !!
--×-------- اختتام --------×--