صاحب، محفل میں ٹیگ کرنے کا نظام اس لحاظ سے بے حد مفید ہے کہ آپ جیسے اہل علم اصحاب کے خیالات عالیہ کے ذریعے ہم جیسےتلامذہ کو سیکھنے کے لئےبہت کچھ مل جاتا ہے۔ اگر ناگوار گذرا ہے تو آئندہ یہ جسارت نہیں کی جائے گی۔
نہیں نہیں ایسی بات نہیں ہے جناب انجانے میں شائد کچھ سخت الفاظ لکھ گیا ہوں جو کہ آپ کو ناگوار گزرے ہیں
دراصل یہ دونوں کالم نویس عام سے بندے ہیں اور جناب پروفیسررفیق اختر صاحب بھی میرے خیال سے ایک عام سے بندے سے ذرا سے بڑھ کر ہیں جس کی میں تعریف اس لیئے نہیں کرسکتا ہوں کہ آپ لوگوں کو علوم ولایت کی سمجھ نہیں ہے پروفیسر صاحب کے جاہلانہ کشف اور کوتاہ بینی کے تو
محمود احمد غزنوی صاحب بھی گواہ ہیں
جہاں تک سرفراز شاہ صاحب کی بات ہے تو مجھے تو وہ ایک عام سے بندے لگتے ہیں لیکن میں نے ان کے لیکچرر سنے ہیں ایک لیکچر میں انہوں نے کچھ ایسی بات کی ہے جو کہ ایک ولی اللہ ہی کرسکتا ہے ۔۔۔۔۔ سرفراز شاہ صاحب صاحب اسم اعظم ہیں
جناب جہاں تک روحانیت کی بات ہے تو روحانیت روح سے نکلا ہے کوئی بھی عمل کرنے یا اس ک مشق بہم پہنچانے سے اس کے ثمرات مل جاتے ہیں ۔۔۔۔۔ ایک ہندو جوگی یا بدھ بھکشو بہت بڑا صاحب روحانیت ہوتا ہے اور موجودہ دور میں روحانیت کے بلند درجہ پر اس وقت یہودی رِبی فائز ہیں اس مقصد کے لیئے آپ کو تھوڑا سا ذائقہ الکھ نگری میں مل سکتا ہے۔
دیکھیں صاحب یہ ترتیب یاد رکھیں ۔۔۔۔۔ شریعت طریقت روحانیت معرفت اور حقیقت اور صرف روحانیت کے درجہ پر پہنچنے ہی انسان صاحب تصرف ہوجاتا ہے جیسا قرآن شریف میں آتا ہے کہ جس کا مفہوم کچھ یہ بنتا ہے کہ عفریت نے کہا کہ دربار برخواست ہونے سے پیشتر تخت حاضر کرتا ہوں لیکن ایک شخص کے جس کے پاس کتاب کا علم تھا اس نے کہا کہ پلک جھپکنے سے پہلے تخت حاضر کرونگا اور اس نے حاضر کردیا
سائنس یہ کہتی ہے کہ جو چیز روشنی کی رفتار سے زیادہ تیزی سے سفر کرے تو وہ راستے میں ہی جل کر ختم ہوجاتی ہے جیسا ک بڑے بڑے کروڑوں ایٹم بم جتنے شہابے زمین سے ٹکرانے سے پہلے ہی فضا میں جل کر ختم ہوجاتے ہیں لیکن چونکہ اس صاحب تصرف کا تصرف عالم مثال تک تھا اس لیئے جناب آصف بن برخیاء نے اوپر عالم مثام میں جگہ تبدیل کردی ۔۔۔۔۔ پتہ نہیں آپ اس مثال سے کچھ سمجھے بھی ہونگے یا نہیں لیکن میں نے بیان کردیا ہے شائد کہ سمجھ سکیں ۔۔۔۔۔۔