روزمرہ کی گفتگو میں مبالغہ

رانا

محفلین
بعض احباب کو روزمرہ گفتگو میں مبالغہ کی عادت ہوتی ہے۔ بعض مبالغے تو زبان و بیان کا حصہ بن جاتے ہیں اور انہیں برا نہیں سمجھا جاتا۔ مثلا کسی سرکاری دفتر میں آپ کے آٹھ دس چکر لگ جائیں تو کسی کو بتاتے ہوئے بندہ لاشعوری طور پر کہہ دیتا ہے کہ یار پچاس چکر لگا چکا ہوں لیکن یہ کام ہی نہیں کرکے دے رہے۔ لیکن بعض اوقات یہ گفتگو کا مبالغہ بڑی دلچسپ صورتحال پیدا کردیتا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ پرسوں عید والے روز ہوا۔

ہوا یہ کہ عید سے دو دن پہلے ایک دوست سلیم سے ملاقات ہوئی۔ وہ شکوہ کرنے لگے کہ یار آج کل لوگوں میں انسانی ہمدردی ختم ہوگئی ہے میری شادی میں کوئی تعاون ہی نہیں کررہا۔ ہم نے کہا کہ بھائی یہ تو واقعی پریشانی والی بات ہے لیکن کچھ اس میں آپ کا بھی قصور ہے کہ آپ لوگوں سے ملتے ہیں نہیں تو لوگ آپ کے قریب کیسے آئیں گے اور جب تک قریبی تعلق پیدا نہ ہو ایسے کام نہیں ہوا کرتے۔ خیر یہ بات آئی گئی ہوگئی۔
عید والے روز عید کی نماز پڑھ کر عید وغیرہ مل کر جب واپس آنے لگا تو گیٹ کے پاس چارپائی پر تین چار بابے بیٹھے ہوئے تھے۔ اتفاق سے سب کے سب بابے وہی تھے جو خاکسار کی شادی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں۔ جب سامنا ہو کسی نہ کسی بہانے ہماری شادی کا تذکرہ نکال بیٹھتے ہیں۔ اس مرتبہ پھر وہی ہوا اور ایک بابا جی نے ہمیں دیکھتے ہی آواز لگائی ۔۔ او رانا تو کدوں کرانا اے ویاہ؟ (او رانا تم نے شادی کب کرنی ہے) ہمیں بھی موقع مل گیا ہم نے کہا کہ جو شادی کے لئے تیار بیٹھا ہے اس کا آپ کچھ سوچتے نہیں۔ پھر ہم نے سلیم کا ذکر کیا کہ وہ بےچارہ شکوہ کررہا تھا کہ اس کا رشتہ کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہا۔ وہ بابا جی جن کا نام افضل سمجھ لیں، بڑے جذباتی اور جوشیلے لہجے میں کہنے لگے کہ اونوں میں چالی رشتے وخائے نے اونوں کوئی پسند ای نئیں آوندا۔ (یعنی اسے میں نے چالیس رشتے دکھائے ہیں لیکن اسے کوئی پسند ہی نہیں آتا۔) اب حیران ہونے کی باری ہماری تھی۔ ہم نے سوچا کہ سلیم سے کہیں گے کہ چالیس رشتے تمہیں دکھادئیے اور تم کیا چاہتے ہو۔ اتنے میں افضل صاحب باہر جانے لگے تو ہم نے کہا کہ میں سلیم سے بات کروں گا مجھے تو اس بات کا پتہ ہی نہیں تھا۔ وہ چلتے چلتے مڑے اور کہنے لگے ۔۔ آہو اودی مرضی ای نئیں وی رشتے اونوں وخائے نے میں۔۔ (یعنی ہاں اسکی مرضی ہی نہیں بیس رشتے اس کو دکھائے ہیں میں نے) ہم حیران کہ یہ چالیس سے ایک دم بیس پر آگئے ہیں۔ ہم اپنے دوست اکرم کے ساتھ باہر نکلے اور اس سے ذکر کیا کہ افضل صاحب پہلے چالیس کہہ رہے تھے اب ایک دم بیس پر آگئے۔ اکرم ہنستے ہوئے کہنے لگا کہ یار گیٹ تک پہنچتے پہنچتے وہ بیس پر آگئے تھے اگر تم گیٹ سے باہر جاکر دوبارہ بات کرتے تو لازما وہ دس پر آجاتے۔
خیر عید کے اگلے دن اکرم اور ایک اور دوست روفی ہمارے گھر آئے۔ باتوں باتوں میں سلیم کی شادی کا تذکرہ چل پڑا۔ روفی کہنے لگے کہ ہاں یار کل افضل صاحب عشاء پر بتارہے تھے کہ انہوں نے سلیم کو تین چار رشتے دکھائے ہیں لیکن اسے کوئی پسند نہیں آرہا۔ یہ سن کر ہم تو حیران ہوئے اور اکرم ہنسنے لگا کہ دیکھو گیٹ تک پہنچتے پہنچتے چالیس سے بیس رہ گئے تھے اور عشاء تک تین چار رہ گئے۔ اگر تم ابھی دوبارہ پوچھ لو تو شائد ایک دو ہی رہ جائیں۔ بہرحال ہم جو اس معاملے پر سلیم کی کلاس لینے کا سوچ رہے تھے شکر کرنے لگے کہ سلیم سے ملاقات سے پہلے ہی اصل صورتحال واضح ہوگئی ورنہ خدا جانے ملاقات کیا گل کھلاتی۔:)

دیگر محفلین بھی اپنے تجربات شئیر کریں کیونکہ اس طرح کے واقعات تو عموما ہر کسی کے ساتھ کسی نہ کسی رنگ میں پیش آئے ہوں گے۔:)
 

محمدظہیر

محفلین
میں بھی ایسی باتوں کو بڑی سنجیدگی سے لیتا رہا ہوں. اس کا آسان حل مجھے یہ لگا کہ جو بے فکرہ منہ پھٹ بندہ ایسی بات کہے اس پر یقین ہی نہیں کرنا چاہیے اور اگر کسی کی بات میں مبالغہ آرائی کا شک گزرے تو تبھی پوچھ کر تصدیق کر لینی چاہیے، دوبارہ پوچھنے پر بندہ صحیح واقعہ بتانے پر مجبور ہو جاتا ہے :)
 
ہمارے ایک ماموں اور میرے ایک بھائی کی مبالغہ آرائی خاندان میں مشہور ہے۔
ان کے لیے ابو نے یہ کلیہ بتایا تھا کہ (ماموں) کی بات کو ۵ سے تقسیم کر لیا کرو اور (بھائی) کی بات کو ۱۰ سے تقسیم۔
اس فارمولے کے بعد خاندان والے سکون میں ہیں۔
 

یونس

محفلین
وہ مبالغہ بلکہ مبالغہ جات ۔ ۔ ۔ جو یار لوگ موبائل فون پر بات کرتے وقت کرتے ھیں، بھی اسی لڑی میں شامل کئے جاسکتے ھیں ؟؟؟
 
Top