واہ واہ واہ
ایمان تازہ کر دیا آپ نے
نظامی صاحب! ہمارے محسن قبلہ فرخ صاحب ہماری "بے ایمان" رمزوں سے واقف ہیں اور اسی واقفیت کی بنا پر مزاحاً عرض کیا تھا۔بھلا اس سے ایمان کی تازگی سے کیا تعلق، محضسادہ سی منطق ہے۔
رگ غالبیت پھڑکی ہوگی جسے ایمان کی تازگی کہہ دیا فاتح۔
اے رمز آشنائے دیر ،کبھی کعبہ کی طرف۔
لگتا ہے اس معاملے میں آپ غالب کے پیرو کار ہیں۔ روزہ رکھا بھی تو روزے کو بہلاتے ہوں گے
بھلا اس سے ایمان کی تازگی سے کیا تعلق، محضسادہ سی منطق ہے۔
رگ غالبیت پھڑکی ہوگی جسے ایمان کی تازگی کہہ دیا فاتح۔
اول تو کریم کا بابِ کرم بند ہو ہی نہیںسکتا۔نظامی آپ کے لئے ایک داغ کا اور ایک غالب کا شعر عرض ہے۔
کعبے کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے
مجھ کو خبر نہیں مری مٹی کہاں کی ہے
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خودبیں ہیں، کہ ہم
الٹے پھر آئے، درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا
اس سے پہلے کہ بحث کا دائرہ وسیع ہو، اس کو سمیٹتے ہوئے:
غالب کیا، بہت سارے اُدبا اور شعرا کی، ایسی باتیں مشہور ہیں جن پر اسلامی عدالت میں تو مقدمہ چلایا جا سکتا ہے لیکن 'محفلِ ادب' میں نہیں جیسا کہ عام اصول ہے اور عام رواج ہے، اور جیسا کہ خود متشرع اہلِ دل بھی ان سے چشم پوشی کرتے ہیں، جوش نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ کسطرح ایک علی اعلان شرابی نے جب 'منبرِ امام' پر بیٹھ کر مرثیہ پڑھا تو لکھنؤ کے شیعہ علما میں کہرام مچ گیا اور وفد کی صورت جب لکھنؤ کے مجتہدِ اعظم کے پاس شکایت کیلیے گئے تو انہوں نے جوش کو گھر سے بلایا اور پھر استدعا کی میرے مصلے پر بیٹھ کر وہ مرثیہ پھر سے پڑھ دیں۔
کہنے کا مطلب یہ کہ "مٹی پاؤ" یا "اہلِ غالب" کیلیے ذوق کا ایک شعر
رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تُو
تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تُو
شکریہ فرخ بھائی شئیر کرنے کیلئے ، اب یہ تو نہیں کہہ سکتی کہ "بہت خوب "
تو پھر یہ ہی کہہ دو کہ نہایت بیکار چیز شئیر کی ہے۔