فرخ منظور
لائبریرین
دیکھیں چچا نے خود ہی کہا ھے ۔
کیا بیاں کر کے مرا روئیں گے یار
مگر آشفتہ بیانی میری
اچھی بات یہ ہے کہ تمہیں چچا کے اشعار کی واقعی سمجھ آنا شروع ہو گئی ہے۔ مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے۔
دیکھیں چچا نے خود ہی کہا ھے ۔
کیا بیاں کر کے مرا روئیں گے یار
مگر آشفتہ بیانی میری
اور میں تو بھولتی جا رہی ہوں غالب کے اشعار۔۔۔ غالب کو عشق نے نکما کر دیا تھا اور مجھے رمضان نے۔۔۔ ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
حضور ایسے ہنگامے تو ہوتے رہیں گے کہ یہی زندگی کی اساس ہیں۔
اقبال نے کہا تھا۔
گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے
قصۂ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو!
اور بقول غالب کے
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟
اور پھر اقبال یاد آگیا
اگر مقصود کل میں ہوں تو مجھ سے ماورا کیا ہے
مرے ہنگامہ ہائے نو بہ نو کی انتہا کیا ہے؟
اچھی بات یہ ہے کہ تمہیں چچا کے اشعار کی واقعی سمجھ آنا شروع ہو گئی ہے۔ مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے۔
اول تو کریم کا بابِ کرم بند ہو ہی نہیںسکتا۔
اور بالفرض غالبِ خستہ کے ساتھ ایسا ہو جائے تو یہ کیوںنہیںکہتا
"تو کریم مطلق اور میں فقیر ہوں، اگر تیرے در نہ آوںتو یہ بتا کہ کس کے در پر جاوں"
محی الدین عبد القادر جیلانی کے ایک فارسی شعر کا مفہوم