حسیب نذیر گِل
محفلین
روزیٹو کا اَسرار از شیخ جابر
’روزیٹو وال فورٹر‘‘ ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ یہ روم کے جنوب مشرق میں 100 مِیل کی دوری پر واقع ہے۔ اٹلی کے، ’’فورجیا‘‘ صوبے میں ’’ایلپنائن‘‘ کی سر سبز و شاداب ترائیوں میں واقع یہ ایک خوبصورت گاؤں ہے۔ گاؤں کے مرکز میں قرونِ وُسطی کی طرز پر ایک پتھریلی عمارت تعمیر کی گئی تھی۔ جس سے مختلف راستے نکل کر آگے کو جاتے تھے۔
پہاڑی راستوں کے ساتھ پتھر کے مکانات تعمیر کیے گئے تھے۔ گاؤں کے راستے چھوٹی بل کھاتی پگڈنڈیوں کی شکل کے تھے۔ صدیوں سے یہاں کے افراد یا تو نیچے وادی میں جا کر کھیتی باڑی کیا کرتے تھے یا قریب کے پہاڑوں میں جا کر سنگِ مر مر کھودتے تھے۔ صدیوں سے یہ ہی سلسلہ جاری تھا۔ یہاں تک کہ 19 ویں صدی میں مواقعے کی سر زمین امریکا نے یہاں کے کچھ افراد کی توجہ حاصل کی۔ جنوری 1882ء میں ’’روزیٹو‘‘ کے 11 افراد نے نیویارک کا قصد کیا۔10 مرد اور ایک لڑکا۔ انھوں نے اپنی پہلی رات ’’ملبیری اسٹریٹ، مین ہٹن‘‘ کے فرش پر گزاری۔ کام کی تلاش انھیں مغرب کی طرف لے گئی۔
’’پینسلوانیا‘‘ میں ’’بنگور‘‘ کے قصبے کے قریب انھیں کان کنی کا کام ملا۔ یہ اطلاعات جب روزیٹو پہنچیں تو وہاں کے افراد میں نقل مکانی کا جذبہ بیدار ہوا۔ اُسی برس روزیٹو کے 15مزید افراد اپنے ’’گِرائیوں‘‘ سے آن ملے۔ پھر تو گویا روزیٹو والوں نے سیلاب کی طرح امریکا کا رُخ کیا۔ یہاں تک ہوا کہ صرف 1894ء میں امریکا جانے کے لیے روزیٹو کے 1200 افراد نے پاسپورٹ کے لیے درخواستیں جمع کروائیں۔ کچھ عرصے بعد تو کیفیت یہ تھی کہ اس قدیم گاؤں کی ایک پوری کی پوری گلی لوگوں کی امریکا ہجرت کے باعث ویران ہو گئی تھی۔ روزیٹو کے زیادہ تر افراد نے بنگور کے قریبی علاقے کا رخ کیا جہاں ان کے ہم وطن آباد تھے۔ وہاں ان لوگوں نے زمینیں خریدنا شروع کر دیں۔ بنگور کو جانے والے پہاڑی راستے کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے سنگی (پتھروں سے) گھر تعمیر کرنا شروع کر دیے۔
دیکھتے ہی دیکھتے یہاں بھی اٹلی کے روزیٹو کی طرز پر مکانات تعمیر ہوتے چلے گئے۔ مکانات کی چھت بھی عموماً کان سے نکالے گئے پتھر ہی کی بنائی جانے لگی۔ ہمارے شمالی علاقہ جات میں بھی آپ کو پہاڑی راستوں کے ساتھ گھر ملیں گے۔ ان گھروں کے حوالے سے ایک دل چسپ بات یہ بھی ہے کہ آپ گھر میں چھت کے راستے داخل ہوتے ہیں۔ بنتے بنتے گھر ایک چھوٹے گاؤں کی شکل اختیار کر گئے۔ وہاں ایک چرچ بھی تعمیر کر لیا گیا۔ اس چرچ کا نام انھوں نے اپنے اٹلی والے گاؤں کے چرچ کے نام پر ’’لیڈی اوف ماؤنٹ کیرمل‘‘ رکھا۔ ابتداء میں اس نئے قصبے کا نام نیو اٹلی رکھا گیا لیکن پھر اسے جلد ہی’’روزیتو‘‘ سے تبدیل کر دیا گیا۔ اس نام پر کسی کو بھی اعتراض نہ تھا۔ اس لیے بھی کے وہاں کے سب ہی افراد روزیٹو ہی سے تو آئے ہوئے تھے۔ انھیں تو اس نام سے البتہ ایک خاص اُنسیت تھی۔
یوں امریکا میں بھی ایک نیا روزیٹو آباد ہو گیا۔ وہی چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیوں والی گلیاں، وہی زبان، وہی ماحول۔ 1896ء میں ایک نوجوان پادری فادر پاسکل ڈی نِسکو نے ’’لیڈی اوف ماؤنٹ کیرمل‘‘ چرچ کی ذمے داریاں سنبھالیں۔ آپ نے قصبے کے افراد کی توجہ اناج اور پھلوں کی کاشت کی جانب مبذول کروائی۔ آپ نے یہاں کئی فلاحی خدمت کی انجمنیں تشکیل دیں۔ فادر کی حوصلہ افزائی، تنظیم اور دعاؤں سے لوگوں نے کام کا آغاز کر دیا۔ جلد ہی کایا کلپ ہو گئی۔ روزیٹو کے افراد کی زندگی تبدیل ہو گئی۔ ایک معاشی انقلاب آ گیا۔ لوگ آسودہ حال ہو گئے۔ لیکن یہ ایک الگ تھلگ قصبہ تھا۔ آس پاس کے علاقوں میں اگرچہ جرمن اور انگریز آباد ہوئے لیکن پینسلوانیا کے روزیٹو میں صرف اٹلی کے روزیٹو سے آئے ہوئے افراد ہی بسے۔ 1900ء میں اگر کوئی اس قصبے کا رخ کرتا تو یقیناً ایک لمحے کے لیے تو وہ ضرور حیران رہ جاتا کہ وہ اٹلی میں ہے یا امریکا میں۔ منفرد اور الگ رہنے والا یہ گاؤں شاید ہی کبھی کسی کے علم میں آتا اگر ’’اسٹارٹ وولف‘‘ یہاں کا رخ نہ کرتے۔
’’ڈاکٹر اسٹارٹ وولف‘‘ ایک معالج تھے۔ آپ کا خاص شعبہِ تحقیق انسان کا نظامِ ہضم اور معدہ تھا۔ آپ ’’اوکلو ہاما یونی ورسٹی‘‘ کے کلیہ طب میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے تھے۔ آپ کی گرمیاں پنسلوانیا کے ایک فارم میں گزرا کرتی تھیں۔ قسمت سے یہ فارم ’’روزیٹو‘‘ سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔ یہ 1950ء کی بات ہے۔ مقامی سطح پر موجود ایک طبی انجمن نے اسٹارٹ وولف کی موجودگی کو غنیمت جانتے ہوئے ایک طبی مذاکرے کا اہتمام کیا۔ مذاکرے کے بعد ایک مقامی ڈاکٹر نے اسٹارٹ وولف کو روزیٹو کے بارے میں ایک حیرت ناک خبر سنائی۔ اُس نے کہا کہ میں یہاں 17 برس سے مطب کر رہا ہوں۔ ہر طرح کے مریض آتے ہیں، لیکن روزیٹو سے آج تک دل کے مرض میں مبتلا ایک بھی ایسا مریض نہیں آیا جس کی عمر65 برس سے کم ہو۔ یہ 1950ء تھا۔
امریکا میں اُس وقت بھی امراضِ قلب وبا کی طرح پھوٹے پڑ رہے تھے۔ دل کا دورہ 65 برس سے کم عمر افراد کے موت کی سب سے بڑی وجہ بنا ہوا تھا۔ ایسے میں ایک ڈاکٹر کا یہ بیان ناقابلِ یقین تھا۔بس یہاں سے تحقیق کا ایک دروازہ کھل گیا۔ یونی ورسٹی اوکلو ہاما سے ماہرین اور طلبہ بلوائے گئے۔ تحقیق شروع ہو گئی۔ حیرت انگیز نتائج سامنے آئے۔ دیکھا یہ گیا کہ 55 برس سے کم عمر ایک فرد بھی ایسا نہیں تھاجو کسی دل کی بیماری کی وجہ سے کبھی مرا ہو ۔ 65 برس سے زیادہ عمر کے افراد میں بھی دل کے امراض کا تناسب حیرت انگیز طور پر کم تھا۔ مزید برآں وہاں کے افراد کی عمریں دیگر امریکیوں کے مقابلے میں زیادہ تھیں۔ ان حقائق کو جان لینے کے بعد اگلا سوال یہ تھا کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ آس پاس کے علاقے میں اور سارے امریکا میں لوگ دل کے امراض کا شکار ہو کر مرے چلے جا رہے ہیں جب کہ روزیٹو کے افراد ہیں کہ ان پر کچھ اثر ہی نہیں ہو رہا، آخر کیوں؟ سب سے پہلے ان کی غذا اور ورزش کی طرف دھیان دیا گیا۔ نتیجہ یہ سامنے آیا کہ یہ تو بہت چکنائی کھاتے ہیں۔
بہت سے امریکیوں سے بھی زیادہ۔ یہاں کے بہت سے افراد موٹاپے کا بھی شکار ہیں۔ غرض غذا کے بارے میں کی گئی تحقیق سے پتہ یہ چلا کہ ان کی غذا میں کوئی خاص بات نہیں۔ رہی مشقت اور ورزش تو ایسی بھی کوئی بات نظر نہ آئی جو انھیں عام امریکیوں سے ممیز کرتی ہو۔ اب اگلا سوال یہ تھا کہ کیا ان کے ’’جِینز‘‘ میں کچھ ایسا ہے جو انھیں امراضِ قلب سے بچائے رکھتا ہو اور طویل عمر دیتا ہو۔ اس مفروضے پر ایک طول طویل اور بھرپور تحقیق کی گئی۔ اٹلی سے لے کر وہاں سے آئے ہوئے افراد کا جائزہ لیا گیا۔ خاص کر روزیٹو سے اُن افراد کا جو آس پاس کے علاقوں یا امریکا کے دیگر مقامات پر آباد تھے۔ کہیں کوئی کلیو نہیں ملا۔ روزیٹو کے افراد کی صحت کا اَسرار ہر تحقیق کے بعد گنجلک ہوتا گیا۔
اس دوران اسٹارٹ وولف یونی ورسٹی سے تحقیق میں معاونت کے لیے اپنے ماہر سماجیات دوست ’’براہن‘‘ کو بھی بلوا چکے تھے۔ ایک دن اسٹارٹ اور براہن روزیٹو کی گلیوں میں اسی اَسرار کی عقدہ کُشائی میں غلطاں و پیچاں گھوم رہے تھے کہ اچانک اُن پر ایک حیرت انگیز انکشاف ہوا۔ انھوں نے روزیٹو کے افراد کی صحت کا راز پا لیا۔ اگر میں اُسے دو لفظوں میں بیان کروں تو وہ ہے ’’سماجی بندھن‘‘ اور ’’کچہری‘‘ ۔ انھوں نے دیکھا کہ روزیٹو کے افراد انتہائی حد تک ایک دوسرے کے ساتھ رہنے والے اور ایک دوسرے کا خیال کرنے والے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک ایک گھر میں تین تین نسلیں ساتھ رہ رہی ہیں۔ دوسرے وہ ’’کچہری‘‘ یعنی گپ شپ کے عادی ہیں۔ گھر، گلیاں، ہوٹل، کام، کارخانے، کھیتی باڑی کام بھی ہو رہا ہے لیکن ہر جگہ لوگ فالتو کھڑے گپیں لڑا رہے ہیں۔
طبی تاریخ میں پیش کیا جانے والا یہ حیرت انگیز ترین نتیجہ تھا، جو ’’روزیٹو ایفیکٹ‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔جان، جی براہن اور اسٹارٹ وولف نے یہ تمام تحقیق اپنی کتاب ’’دی روزیٹو اسٹوری-این اناٹمی اوف ہیلتھ‘‘ میں پیش کی ہے۔ معروف لکھاری ’’میلکلم گلیڈ ویل‘‘ نے اپنی ’’بیسٹ سیلر‘‘ کتاب ’’آؤٹ لائر‘‘ کا آغاز روزیٹو افراد کی کہانی سے کیا ہے۔ یہ کتاب نیویارک ٹائم کے علاوہ ’’گلوبل اینڈ سیل‘‘ کی بیسٹ سیلر کی فہرست میں بھی رہی ہے۔
بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس
’روزیٹو وال فورٹر‘‘ ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ یہ روم کے جنوب مشرق میں 100 مِیل کی دوری پر واقع ہے۔ اٹلی کے، ’’فورجیا‘‘ صوبے میں ’’ایلپنائن‘‘ کی سر سبز و شاداب ترائیوں میں واقع یہ ایک خوبصورت گاؤں ہے۔ گاؤں کے مرکز میں قرونِ وُسطی کی طرز پر ایک پتھریلی عمارت تعمیر کی گئی تھی۔ جس سے مختلف راستے نکل کر آگے کو جاتے تھے۔
پہاڑی راستوں کے ساتھ پتھر کے مکانات تعمیر کیے گئے تھے۔ گاؤں کے راستے چھوٹی بل کھاتی پگڈنڈیوں کی شکل کے تھے۔ صدیوں سے یہاں کے افراد یا تو نیچے وادی میں جا کر کھیتی باڑی کیا کرتے تھے یا قریب کے پہاڑوں میں جا کر سنگِ مر مر کھودتے تھے۔ صدیوں سے یہ ہی سلسلہ جاری تھا۔ یہاں تک کہ 19 ویں صدی میں مواقعے کی سر زمین امریکا نے یہاں کے کچھ افراد کی توجہ حاصل کی۔ جنوری 1882ء میں ’’روزیٹو‘‘ کے 11 افراد نے نیویارک کا قصد کیا۔10 مرد اور ایک لڑکا۔ انھوں نے اپنی پہلی رات ’’ملبیری اسٹریٹ، مین ہٹن‘‘ کے فرش پر گزاری۔ کام کی تلاش انھیں مغرب کی طرف لے گئی۔
’’پینسلوانیا‘‘ میں ’’بنگور‘‘ کے قصبے کے قریب انھیں کان کنی کا کام ملا۔ یہ اطلاعات جب روزیٹو پہنچیں تو وہاں کے افراد میں نقل مکانی کا جذبہ بیدار ہوا۔ اُسی برس روزیٹو کے 15مزید افراد اپنے ’’گِرائیوں‘‘ سے آن ملے۔ پھر تو گویا روزیٹو والوں نے سیلاب کی طرح امریکا کا رُخ کیا۔ یہاں تک ہوا کہ صرف 1894ء میں امریکا جانے کے لیے روزیٹو کے 1200 افراد نے پاسپورٹ کے لیے درخواستیں جمع کروائیں۔ کچھ عرصے بعد تو کیفیت یہ تھی کہ اس قدیم گاؤں کی ایک پوری کی پوری گلی لوگوں کی امریکا ہجرت کے باعث ویران ہو گئی تھی۔ روزیٹو کے زیادہ تر افراد نے بنگور کے قریبی علاقے کا رخ کیا جہاں ان کے ہم وطن آباد تھے۔ وہاں ان لوگوں نے زمینیں خریدنا شروع کر دیں۔ بنگور کو جانے والے پہاڑی راستے کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے سنگی (پتھروں سے) گھر تعمیر کرنا شروع کر دیے۔
دیکھتے ہی دیکھتے یہاں بھی اٹلی کے روزیٹو کی طرز پر مکانات تعمیر ہوتے چلے گئے۔ مکانات کی چھت بھی عموماً کان سے نکالے گئے پتھر ہی کی بنائی جانے لگی۔ ہمارے شمالی علاقہ جات میں بھی آپ کو پہاڑی راستوں کے ساتھ گھر ملیں گے۔ ان گھروں کے حوالے سے ایک دل چسپ بات یہ بھی ہے کہ آپ گھر میں چھت کے راستے داخل ہوتے ہیں۔ بنتے بنتے گھر ایک چھوٹے گاؤں کی شکل اختیار کر گئے۔ وہاں ایک چرچ بھی تعمیر کر لیا گیا۔ اس چرچ کا نام انھوں نے اپنے اٹلی والے گاؤں کے چرچ کے نام پر ’’لیڈی اوف ماؤنٹ کیرمل‘‘ رکھا۔ ابتداء میں اس نئے قصبے کا نام نیو اٹلی رکھا گیا لیکن پھر اسے جلد ہی’’روزیتو‘‘ سے تبدیل کر دیا گیا۔ اس نام پر کسی کو بھی اعتراض نہ تھا۔ اس لیے بھی کے وہاں کے سب ہی افراد روزیٹو ہی سے تو آئے ہوئے تھے۔ انھیں تو اس نام سے البتہ ایک خاص اُنسیت تھی۔
یوں امریکا میں بھی ایک نیا روزیٹو آباد ہو گیا۔ وہی چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیوں والی گلیاں، وہی زبان، وہی ماحول۔ 1896ء میں ایک نوجوان پادری فادر پاسکل ڈی نِسکو نے ’’لیڈی اوف ماؤنٹ کیرمل‘‘ چرچ کی ذمے داریاں سنبھالیں۔ آپ نے قصبے کے افراد کی توجہ اناج اور پھلوں کی کاشت کی جانب مبذول کروائی۔ آپ نے یہاں کئی فلاحی خدمت کی انجمنیں تشکیل دیں۔ فادر کی حوصلہ افزائی، تنظیم اور دعاؤں سے لوگوں نے کام کا آغاز کر دیا۔ جلد ہی کایا کلپ ہو گئی۔ روزیٹو کے افراد کی زندگی تبدیل ہو گئی۔ ایک معاشی انقلاب آ گیا۔ لوگ آسودہ حال ہو گئے۔ لیکن یہ ایک الگ تھلگ قصبہ تھا۔ آس پاس کے علاقوں میں اگرچہ جرمن اور انگریز آباد ہوئے لیکن پینسلوانیا کے روزیٹو میں صرف اٹلی کے روزیٹو سے آئے ہوئے افراد ہی بسے۔ 1900ء میں اگر کوئی اس قصبے کا رخ کرتا تو یقیناً ایک لمحے کے لیے تو وہ ضرور حیران رہ جاتا کہ وہ اٹلی میں ہے یا امریکا میں۔ منفرد اور الگ رہنے والا یہ گاؤں شاید ہی کبھی کسی کے علم میں آتا اگر ’’اسٹارٹ وولف‘‘ یہاں کا رخ نہ کرتے۔
’’ڈاکٹر اسٹارٹ وولف‘‘ ایک معالج تھے۔ آپ کا خاص شعبہِ تحقیق انسان کا نظامِ ہضم اور معدہ تھا۔ آپ ’’اوکلو ہاما یونی ورسٹی‘‘ کے کلیہ طب میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے تھے۔ آپ کی گرمیاں پنسلوانیا کے ایک فارم میں گزرا کرتی تھیں۔ قسمت سے یہ فارم ’’روزیٹو‘‘ سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔ یہ 1950ء کی بات ہے۔ مقامی سطح پر موجود ایک طبی انجمن نے اسٹارٹ وولف کی موجودگی کو غنیمت جانتے ہوئے ایک طبی مذاکرے کا اہتمام کیا۔ مذاکرے کے بعد ایک مقامی ڈاکٹر نے اسٹارٹ وولف کو روزیٹو کے بارے میں ایک حیرت ناک خبر سنائی۔ اُس نے کہا کہ میں یہاں 17 برس سے مطب کر رہا ہوں۔ ہر طرح کے مریض آتے ہیں، لیکن روزیٹو سے آج تک دل کے مرض میں مبتلا ایک بھی ایسا مریض نہیں آیا جس کی عمر65 برس سے کم ہو۔ یہ 1950ء تھا۔
امریکا میں اُس وقت بھی امراضِ قلب وبا کی طرح پھوٹے پڑ رہے تھے۔ دل کا دورہ 65 برس سے کم عمر افراد کے موت کی سب سے بڑی وجہ بنا ہوا تھا۔ ایسے میں ایک ڈاکٹر کا یہ بیان ناقابلِ یقین تھا۔بس یہاں سے تحقیق کا ایک دروازہ کھل گیا۔ یونی ورسٹی اوکلو ہاما سے ماہرین اور طلبہ بلوائے گئے۔ تحقیق شروع ہو گئی۔ حیرت انگیز نتائج سامنے آئے۔ دیکھا یہ گیا کہ 55 برس سے کم عمر ایک فرد بھی ایسا نہیں تھاجو کسی دل کی بیماری کی وجہ سے کبھی مرا ہو ۔ 65 برس سے زیادہ عمر کے افراد میں بھی دل کے امراض کا تناسب حیرت انگیز طور پر کم تھا۔ مزید برآں وہاں کے افراد کی عمریں دیگر امریکیوں کے مقابلے میں زیادہ تھیں۔ ان حقائق کو جان لینے کے بعد اگلا سوال یہ تھا کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ آس پاس کے علاقے میں اور سارے امریکا میں لوگ دل کے امراض کا شکار ہو کر مرے چلے جا رہے ہیں جب کہ روزیٹو کے افراد ہیں کہ ان پر کچھ اثر ہی نہیں ہو رہا، آخر کیوں؟ سب سے پہلے ان کی غذا اور ورزش کی طرف دھیان دیا گیا۔ نتیجہ یہ سامنے آیا کہ یہ تو بہت چکنائی کھاتے ہیں۔
بہت سے امریکیوں سے بھی زیادہ۔ یہاں کے بہت سے افراد موٹاپے کا بھی شکار ہیں۔ غرض غذا کے بارے میں کی گئی تحقیق سے پتہ یہ چلا کہ ان کی غذا میں کوئی خاص بات نہیں۔ رہی مشقت اور ورزش تو ایسی بھی کوئی بات نظر نہ آئی جو انھیں عام امریکیوں سے ممیز کرتی ہو۔ اب اگلا سوال یہ تھا کہ کیا ان کے ’’جِینز‘‘ میں کچھ ایسا ہے جو انھیں امراضِ قلب سے بچائے رکھتا ہو اور طویل عمر دیتا ہو۔ اس مفروضے پر ایک طول طویل اور بھرپور تحقیق کی گئی۔ اٹلی سے لے کر وہاں سے آئے ہوئے افراد کا جائزہ لیا گیا۔ خاص کر روزیٹو سے اُن افراد کا جو آس پاس کے علاقوں یا امریکا کے دیگر مقامات پر آباد تھے۔ کہیں کوئی کلیو نہیں ملا۔ روزیٹو کے افراد کی صحت کا اَسرار ہر تحقیق کے بعد گنجلک ہوتا گیا۔
اس دوران اسٹارٹ وولف یونی ورسٹی سے تحقیق میں معاونت کے لیے اپنے ماہر سماجیات دوست ’’براہن‘‘ کو بھی بلوا چکے تھے۔ ایک دن اسٹارٹ اور براہن روزیٹو کی گلیوں میں اسی اَسرار کی عقدہ کُشائی میں غلطاں و پیچاں گھوم رہے تھے کہ اچانک اُن پر ایک حیرت انگیز انکشاف ہوا۔ انھوں نے روزیٹو کے افراد کی صحت کا راز پا لیا۔ اگر میں اُسے دو لفظوں میں بیان کروں تو وہ ہے ’’سماجی بندھن‘‘ اور ’’کچہری‘‘ ۔ انھوں نے دیکھا کہ روزیٹو کے افراد انتہائی حد تک ایک دوسرے کے ساتھ رہنے والے اور ایک دوسرے کا خیال کرنے والے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک ایک گھر میں تین تین نسلیں ساتھ رہ رہی ہیں۔ دوسرے وہ ’’کچہری‘‘ یعنی گپ شپ کے عادی ہیں۔ گھر، گلیاں، ہوٹل، کام، کارخانے، کھیتی باڑی کام بھی ہو رہا ہے لیکن ہر جگہ لوگ فالتو کھڑے گپیں لڑا رہے ہیں۔
طبی تاریخ میں پیش کیا جانے والا یہ حیرت انگیز ترین نتیجہ تھا، جو ’’روزیٹو ایفیکٹ‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔جان، جی براہن اور اسٹارٹ وولف نے یہ تمام تحقیق اپنی کتاب ’’دی روزیٹو اسٹوری-این اناٹمی اوف ہیلتھ‘‘ میں پیش کی ہے۔ معروف لکھاری ’’میلکلم گلیڈ ویل‘‘ نے اپنی ’’بیسٹ سیلر‘‘ کتاب ’’آؤٹ لائر‘‘ کا آغاز روزیٹو افراد کی کہانی سے کیا ہے۔ یہ کتاب نیویارک ٹائم کے علاوہ ’’گلوبل اینڈ سیل‘‘ کی بیسٹ سیلر کی فہرست میں بھی رہی ہے۔
بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس