چودھری مصطفی
محفلین
روز خوں ہوتے ہیں دو چار ترے کوچے میں
ایک ہنگامہ ہے اے یار ترے کوچے میں
شعر بس اب نہ کہوں گا کہ کوئی پڑھتا تھا
اپنے حالی مرے اشعار ترے کوچے میں
تو ہے اور غیر کے گھر جلوہ طرازی کی ہوس
ہم ہیں اور حسرتِ دیدار ترے کوچے میں
کیا تجاہل سے یہ کہتا ہے کہاں رہتے ہو
ترے کوچے میں! ستم گار ترے کوچے میں
شیفتہ ایک نہ آیا تو نہ آیا کیا ہے
روز آتے ہیں دو چار ترے کوچے میں
ایک ہنگامہ ہے اے یار ترے کوچے میں
شعر بس اب نہ کہوں گا کہ کوئی پڑھتا تھا
اپنے حالی مرے اشعار ترے کوچے میں
تو ہے اور غیر کے گھر جلوہ طرازی کی ہوس
ہم ہیں اور حسرتِ دیدار ترے کوچے میں
کیا تجاہل سے یہ کہتا ہے کہاں رہتے ہو
ترے کوچے میں! ستم گار ترے کوچے میں
شیفتہ ایک نہ آیا تو نہ آیا کیا ہے
روز آتے ہیں دو چار ترے کوچے میں