نسیم حجازی اور انکے قبیل کے مؤرخ نما مصنفین کا اردو ادب میں کوئی مستقل اور نمایاں مقام نہیں ہے، نیم تاریخی، نیم مذہبی، نیم جذباتی اور نیم رومانوی ناولوں کے ذریعے فقط جذبات کو برانگیختہ کرنا اور ناولوں کو بیچنا ہی ایسے ناول نگاروں کا کام ہے۔ حجازی صاحب سے پہلے یہی کام شرر کرتے تھے، پھر ایم۔ اسلم اور اب شاید ایم۔ اے۔ راحت وغیرہ ٹائپ مصنفین کرتے ہیں۔ تاریخی ناول اردو ادب میں معدودے چند ہی ہیں جن میں قرۃ العین حیدر کا 'آگ کا دریا' اور مستنصر کا 'بہاؤ' واقعتاً ماسٹر پیس ہیں۔
یوسفی اور حجازی کا اول تو کوئی موازنہ ہے ہی نہیں کہ دونوں کے دائرہ کار علیحدہ علیحدہ ہیں، لیکن اگر موازنہ کر ہی لیا جائے اردو کو مشترک بنیاد بنا کر تو پھر کہنا پڑھے گا کہ چہ نسبت خاک را بہ عالمِ پاک۔
۔