محسن وحدانی
محفلین
میں محسن وحدانی کہلاتا ہوں۔اِنسانوں کی وحدت کا قائل ہوں۔ایک سادہ مزاج، گمنام سا شاعر اور صحافی ہوں۔ ۱۹۸۵ میں روزنامہ جنگ، کراچی میں سب ایڈیٹر تھا اب فری لانسر ہوں۔ اِی مارکٹر بھی ہوں۔ متحدہ قومی موومنٹ کی آرٹیکل کمیٹی کا رکن ہوں۔تحریک کا آزاد ماحول بہت پسند ہے۔ یہاں سوچنے اور بولنے پر کوئی پابندی نہیں، بس مذہبی دل آزاری نہیں ہونی چاہیے۔
اِنٹرنیٹ کی دنیا سے ۱۹۹۸ سے کسی نہ کسی حد تک وابستہ ہوں۔ کمپیوٹر اس زمانے سے استعمال کر رہا ہوں جب ماؤس نہیں ہوتا تھا بلکہ ہارڈ ڈسک بھی نہیں ہوتی تھی۔ فلاپی ڈسک استعمال کرتے تھے۔
میں جیکب آباد میں پیدا ہوا اور میں نے ۱۹۷۵ میں میٹرک کیا، ۱۹۷۷ میں اِنٹرمیڈیٹ، ۱۹۷۹ میں بی اے، ۱۹۸۱ میں ایم اے (بین الاقوامی تعلقات) اور ۱۹۸۳ میں ایم اے اردو میں فرسٹ کلاس اورسندھ یونیورسٹی میں دوسری پوزیشن تھی۔ ساتھ ہی ساتھ پاسکو نامی ایک سرکاری کارپوریشن میں پرچیز انسپکٹر بھی تھا۔ یہ ملازمت میں ۱۹۷۸ سے کر رہا تھا۔ اس طرح میری تعلیم ملازمت کے دوران ہی مکمل ہوئی۔ والدین صاحبِ حیثیت تھے مگر مجھے خود مختاری کا ولولہ تھا لہٰذا اپنے اِخراجات کے لیےخودکماتا رہا اور والدہ کو بھی کچھ نہ کچھ دیا کرتا تھا۔
۱۹۸۵ میں ملازمت پر لات مار کر کراچی آگیا اور روزنامہ جنگ میں سب ایڈیٹر ہوگیا۔ اِس سال سندھ پبلک سروس کمیشن سے لیکچرر منتخب ہوگیا مگر گورنمنٹ کالج لاڑکانہ میں پوسٹنگ ہونے کی وجہ سے ۱۷ گریڈ کی اس عمدہ ملازمت کو بھی چھوڑ دیا کیونکہ جنگ میں ملازمت کے ساتھ ساتھ میں نے کاروبار بھی شروع کر دیا تھاجس میں محنت اور لگن کے باعث بہت جلد میں محض ۲۸ سال کی عمر میں کروڑپتی ہوگیا۔ بعد میں کئی مرتبہ تباہ ہو کر صفر سے شروع کرنا پڑا اور کئی مرتبہ دوبارہ کروڑپتی بنا۔ اب پھر سے صفر سے شروع کرنا پڑ رہا ہے مگر جلد ہی پھر تاریخ دہراؤں گا۔
آپ کو یہ سب اِس لیے بتا رہا ہوں کہ آپ کو حوصلہ ملے کہ ناکامیاں اور کامیابیاں سب مایا ہیں۔ انسان کو اپنے اعصاب پر کنٹرول ہونا چاہیے، مستقل مزاجی سے محنت کرتے رہنا چاہیے، حالات پھر سےمرضی کے مطابق ہو جاتے ہیں۔
اِنٹرنیٹ کی دنیا سے ۱۹۹۸ سے کسی نہ کسی حد تک وابستہ ہوں۔ کمپیوٹر اس زمانے سے استعمال کر رہا ہوں جب ماؤس نہیں ہوتا تھا بلکہ ہارڈ ڈسک بھی نہیں ہوتی تھی۔ فلاپی ڈسک استعمال کرتے تھے۔
میں جیکب آباد میں پیدا ہوا اور میں نے ۱۹۷۵ میں میٹرک کیا، ۱۹۷۷ میں اِنٹرمیڈیٹ، ۱۹۷۹ میں بی اے، ۱۹۸۱ میں ایم اے (بین الاقوامی تعلقات) اور ۱۹۸۳ میں ایم اے اردو میں فرسٹ کلاس اورسندھ یونیورسٹی میں دوسری پوزیشن تھی۔ ساتھ ہی ساتھ پاسکو نامی ایک سرکاری کارپوریشن میں پرچیز انسپکٹر بھی تھا۔ یہ ملازمت میں ۱۹۷۸ سے کر رہا تھا۔ اس طرح میری تعلیم ملازمت کے دوران ہی مکمل ہوئی۔ والدین صاحبِ حیثیت تھے مگر مجھے خود مختاری کا ولولہ تھا لہٰذا اپنے اِخراجات کے لیےخودکماتا رہا اور والدہ کو بھی کچھ نہ کچھ دیا کرتا تھا۔
۱۹۸۵ میں ملازمت پر لات مار کر کراچی آگیا اور روزنامہ جنگ میں سب ایڈیٹر ہوگیا۔ اِس سال سندھ پبلک سروس کمیشن سے لیکچرر منتخب ہوگیا مگر گورنمنٹ کالج لاڑکانہ میں پوسٹنگ ہونے کی وجہ سے ۱۷ گریڈ کی اس عمدہ ملازمت کو بھی چھوڑ دیا کیونکہ جنگ میں ملازمت کے ساتھ ساتھ میں نے کاروبار بھی شروع کر دیا تھاجس میں محنت اور لگن کے باعث بہت جلد میں محض ۲۸ سال کی عمر میں کروڑپتی ہوگیا۔ بعد میں کئی مرتبہ تباہ ہو کر صفر سے شروع کرنا پڑا اور کئی مرتبہ دوبارہ کروڑپتی بنا۔ اب پھر سے صفر سے شروع کرنا پڑ رہا ہے مگر جلد ہی پھر تاریخ دہراؤں گا۔
آپ کو یہ سب اِس لیے بتا رہا ہوں کہ آپ کو حوصلہ ملے کہ ناکامیاں اور کامیابیاں سب مایا ہیں۔ انسان کو اپنے اعصاب پر کنٹرول ہونا چاہیے، مستقل مزاجی سے محنت کرتے رہنا چاہیے، حالات پھر سےمرضی کے مطابق ہو جاتے ہیں۔