روضئہ رسول اعہد بعہد تاریخی جائزہ

یہ قیمتی تاریخی مضمون جو میرے آقا میرے مولا رحمۃ للعالمین خاتم النبیین محبوب رب العالمین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ اطہر کے بارے میں ہے،ماہنامہ بینات،ذوالحجہ۱۴۲۸ھ جنوری۲۰۰۸ء, جلد 70, شمارہ 12 میں چھپا تھا، اس کے تحریر کرنے والے جناب فیروزالدین احمد فریدی صاحب ہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضور اکرم اآج جہاں آرام فرما ہیں،وہاں سوا چودہ سو سال قبل آپ کی زوجہٴ محترمہ امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کا حجرہٴ مبارک تھا۔اس کی لمبائی تقریباً ۱۶ فٹ اور چوڑائی ۱۲ فٹ تھی۔ آج کے کمروں کی لمبائی چوڑائی بھی عموماً یہی ہوتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ ہمارے گھروں میں ایسے کمرے ایک سے زیادہ ہوتے ہیں، جن کے ساتھ غسل خانہ ، باورچی خانہ اورکھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے اور مہمانوں کے لیے الگ جگہیں بھی ہوتی ہیں۔ آئندہ سطور پڑھتے وقت یہ خیال رہے کہ مدینے میں قبلے کا رخ جنوب کی جانب ہے۔ رسول کریم اکی سب سے چھوٹی بیٹی حضرت فاطمہ کا حجرہ ،آپ کی زوجہٴ محترمہ حضرت عائشہ کے حجرے کے ساتھ،اس کے شمال کی سمت میں تھا۔ان دونوں حجروں کے دروازے مسجد نبوی میں کھلتے تھے۔ اب یہ دونوں گنبد خضرا کے سائے تلے ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ کے حجرے کے مشرق اور اس سے متصل، رسول کریم اکی دوسری زوجہٴ محترمہ حضرت سودہ کا حجرہ تھا۔ مسجد نبوی کی تعمیر سے فارغ ہوتے ہی رسول کریم انے ان دونوں کو بیک وقت اور ایک ہی طرز پر تعمیر کرایا تھا۔ محل وقوع کو مزید سمجھنے کے لیے یاد رہے کہ مسجد نبوی کے مشرق میں جنّت البقیع ہے۔حضرت عائشہ کے حجرے کے جنوب، یعنی قبلے کی سمت اور حضرت عائشہ کے حجرے سے گز بھر آگے، حضرت حفصہ کا حجرہ تھا۔ پچھلے چودہ سو برسوں کے دوران جب اربوں کلمہ گو رسول اللہ کی قبراطہر کے سامنے کھڑے ہوکر، گداز دل اور تر آنکھوں سے، آپ پر درود و سلام بھیجتے رہے ہیں تو ان میں سے بیش تر کو یہ علم نہ ہوگا کہ وہ جہاں کھڑے ہیں، وہ جگہ چالیس برس سے زیادہ حضرت حفصہ کی رہائش گاہ کا ایک حصہ رہی ہے۔ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ کے حجروں کے درمیان ایک انتہائی تنگ گلی تھی، جس میں ایک وقت میں ایک ہی آدمی گزر سکتا تھا۔ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ اپنے اپنے حجروں میں بیٹھی ہوئی ایک دوسرے سے باتیں کرلیا کرتی تھیں۔ حضرت فاطمہ اور ازواج مطہرات میں سے حضرت سودہ ، حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ کے علاوہ صرف ایک اور حجرے کا صحیح محل وقوع معلوم ہے۔ اس میں آپ کی پانچویں بیوی حضرت زینب بنتِ خزیمہ صرف چند ماہ رہیں۔ جب ا ن کا انتقال ہوگیا تو آپ انے حضرت امّ سلمہ سے شادی کی، جو اگلے چھپّن برس یہاں رہائش پزیر رہیں۔ ازواج مطہرات میں سے حضرت امّ سلمہ کا انتقال سب سے آخر میں ہوا۔ حضرت امّ سلمہ کے حجرے کے بعد، شمال کی جانب، پانچ مزید حجرات تقریباً ایک قطار میں، وقتاً فوقتاً بنتے گئے، جو رسول کریم ا کی پانچ دیگر ازواج مطہرات کی رہائش گاہیں تھیں۔ بالائی سطور سے یہ نقشہ سامنے آتا ہے کہ مسجد نبوی کے مشرق میں، قبلے یا جنوب کی سمت، سب سے پہلا حجرہ حضرت حفصہ کا تھا،اس کے نیچے یا شمال میں، دو دو حجروں کی دو قطاریں تھیں۔ پہلی قطار میں مغرب، یا مسجد نبوی کی جانب پہلا حجرہ حضرت عائشہ کا تھا، جو حضرت حفصہ کے حجرے کے تقریباً سامنے تھا، دوسرا حضرت سودہ کا تھا، جو حضرت عائشہ کے حجرے سے متصل، مشرق یعنی جنت البقیع کی جانب تھا، دوسری قطار میں، مغرب یعنی مسجد نبوی کی جانب پہلا حجرہ حضرت فاطمہ اور حضرت علی کا تھا، جو حضرت عائشہ کے حجرے کے متصل تھا اور اس کا دروازہ بھی حضرت عائشہ کے حجرے کی طرح، مسجد نبوی میں کھلتا تھا۔حضرت فاطمہ کے حجرے کے ساتھ دوسرا حجرہ حضرت امّ سلمہ کا تھا، جو حضرت سودہ کے حجرے کے مشرق یا جنّت البقیع کی جانب تھا۔ اب یہ واضح ہوگیا ہے کہ زمین کا وہ خوش نصیب ٹکڑا جسے آج گنبدِ خضرا نے ڈھانپ رکھا ہے، سوا چودہ صدیوں پہلے، حضرت عائشہ ، حضرت سودہ ، حضرت فاطمہ ، حضرت امّ سلمہ کے حجروں اور حضرت حفصہ کے حجرے کے ایک حصے کی جگہ تھا ۔حضرت امّ سلمہ کے حجرے کے نیچے یا شمال کے رخ پراس طرح کے پانچ اور حجرے تھے، جو دوسری ازواج مطہرات کی رہائش گاہیں تھیں۔ یہ تھے دو دو سو مربع فٹ کے وہ نو حجرے جن میں اللہ کے آخری رسول ا نے اپنی زندگی کیآخری دس سال یہاں گزارے۔ یہ تھیں وہ اقامت گاہیں، جن میں آپ سوئے، اٹھے، بیٹھے، محو گفتگو اور سجدہ ریز ہوئے۔ ان میں سے بعض میں آپ پر وحی اتری اور ان میں سے ایک میں آپ دنیا سے رخصت ہوئے اور اب آرام فرما ہیں۔ جب کوئی زائر مسجدِ نبوی میں، ریاض الجنّہ کے قریب، جنوب کی جانب جالیوں کی وسطی جالی میں نصب، تین گول دائروں میں سے پہلے گول دائرے کے بالمقابل کھڑا ہوتا ہے تو اس کے اور رسول کریم اکے درمیان، ظاہری طور پر صرف چند گز کا فاصلہ ہوتا ہے۔ اس جانب کی جالیوں کے پیچھے، سب سے پہلے حضرت حفصہ کے حجرے کا ایک حصہ ہے اور پھر گز بھر چوڑی وہ گلی جو کبھی حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ کے حجروں کے درمیان ہوا کرتی تھی۔ اس کے بعد حضرت عائشہ کا حجرہ ہے، جس میں جنوب مغرب یا قبلے اور ریاض الجنّہ کی اطراف سے پہلی قبر رسول اکر م ا کی ہے۔ اس سے ذرا نیچے یا شمال کی جانب پہلے آپ کے خسر اور خلیفہٴ اول حضرت ابو بکر صدیق اور اس کے بعد ذرا نیچے آپ کے دوسرے خسر اور خلیفہٴ دوم، حضرت عمر فاروق کی قبریں ہیں۔ رسول کریم اکا سر مبارک مغرب یعنی مسجد نبوی کی طرف، پاؤں مشرق یا جنت البقیع کی طرف اور چہرہٴ انور کا رخ قبلے یا جنوب کی طرف ہے۔ تدفین کے وقت یہی ترتیب آپ کے ان دو اصحاب کی رکھی گئی جو زندگی میں بھی آپ کے ساتھی تھے اور اب بھی آپ کے ساتھ آرام فرما ہیں۔ رسول کریم ا کے سینے (اور بعض روایات کے مطابق کندھے) کے سامنے حضرت ابوبکر کا سر، اور حضرت ابوبکر کے سینے (اور بعض روایات کے مطابق کندھے) کے سامنے حضرت عمر کا سر ہے۔ یہ تینوں قبریں تقریباً مربع شکل کی ایک مہر بند چار دیواری میں ہیں جو کبھی حضرت عائشہ کا حجرہ تھا، اس چار دیواری کے گرد ایک ”پانچ دیواری“ ہے۔ اس پانچ دیواروں والے کمرے کو ہی آج کل ”حجرہ شریفہ“ کہا جاتا ہے۔ یہ ”پانچ دیواری“ بھی مہر بند ہے اور اس کے اوپر سبز غلاف چڑھا ہوا ہے۔ اس ”پانچ دیواری“ کی تفصیلات اگلی سطور میں دی گئی ہیں۔ یہاں صرف یہ بتانا ضروری ہے کہ تین گول دائروں والی جالی کے اندر سے زائر کو جو نظر آتا ہے، وہ اس ”پانچ دیواری“ کا جنوبی یا قبلے کے رخ والا حصہ ہے۔ رسول کریم اکے وصال کے تقریباً اسّی برس بعد، اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں مدینے کے گورنر حضرت عمر بن عبدالعزیز کو مسجد نبوی کی مزید توسیع کا حکم دیاگیا۔ مسجدِ نبوی کا رقبہ، جس میں پہلی توسیع رسول اکرم ا دوسری توسیع خلیفہٴ دوم حضرت عمر فاروق اور تیسری توسیع خلیفہٴ سوم حضرت عثمان نے کرائی تھی، اب اسلامی مملکت کے محیّر العقل پھیلاؤ اور مسلمانوں کی آبادی میں کثرت کے باعث یہ چھوٹا پڑ گیا تھا۔یہ بات تقریباً ۹۱ھ (مطابق (۷۱۰ء) کی ہورہی ہے۔ اس وقت تک تمام ازواج مطہرات وفات پاچکی تھیں۔ خلیفہ کی ہدایت پر حضرت عائشہ کے حجرے کے علاوہ باقی تمام حجرات گرا کر، ان کی زمین مسجد نبوی کی توسیع کے لیے استعمال کی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ جس روز یہ تقریباً سو سال قدیم حجرے گرائے گئے، اس دن مدینے میں ہر آنکھ اشک بار تھی۔ لوگ کہہ رہے تھے اور مدتوں کہتے رہے کہ یہ حجرے جوں کے توں رہنے چاہیے تھے،تاکہ آنے والی نسلوں کو معلوم ہوتا کہ ان کے آقا اور مولا نے اپنی زندگی کے آخری دس برس فقیرانہ شان سے گزارے، حالاں کہ فتح خیبر کے بعد اگر آپ اچاہتے تو اپنے، اپنی بیٹی اور بیویوں کے لیے پختہ وسیع اور آرام دہ مکانات بنوا سکتے تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے حضرت عائشہ کے حجرے کی چار دیواری کی ازسرنو تعمیر کی اور اس کے بعد، اس کے گرد، تقریباً سات میٹر، یا ساڑھے سات گز، اونچی ایک بیرونی دیوار کا بھی اضافہ کیا۔ تعمیر نو اور توسیع کے دوران جب یہ حجرے گرائے گئے تو مدینے کی ایک بھیگی رات میں جو کچھ بیتی، وہ ایک معاصر عبداللہ بن محمد بن عقیل کی زبانی سنیے: ”اس رات مدینے میں بارش ہورہی تھی۔ میرا معمول تھا کہ رات کے آخری پہر مسجدِ نبوی میں حاضری دیتا۔ پہلے رسول اللہ پر درود و سلام بھیجتا اور پھر نماز فجر تک مسجدِ نبوی میں رہتا۔ اس رات بھی میں حسب معمول نکلا۔ ابھی حضرت مغیرہ بن شعبہ کے مکان تک پہنچا تھا (جو جنت البقیع کے بالکل پاس تھا) کہ اچانک ایسی خوش بو آئی جو میں نے کبھی محسوس نہ کی تھی۔ مسجدِ نبوی پہنچا تو دیکھا کہ حضرت عائشہ کی کوٹھڑی کی ایک دیوار (مشرقی دیوار جو جنت البقیع کی جانب ہے) گری ہوئی ہے۔ میں اندر گیا اور رسول کریم اکی خدمت میں درود وسلام پیش کیا۔ ابھی وہیں تھا کہ مدینے کے گورنر حضرت عمر بن عبدالعزیز آگئے۔ ان کے حکم پر کوٹھڑی کو ایک بڑے کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا۔ علی الصباح مستری کو کوٹھڑی کے اندر جانے کے لیے کہا گیا۔ اس نے کہا کہ اس کے ساتھ کوئی اور بھی چلے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کے ساتھ دو اور حضرات بھی تیار ہوگئے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے یہ دیکھا تو کہا کہ ہمیں اس مقدس مقام کے مکینوں کے سکون میں خلل اندازی سے گریز کرنا چاہیے۔ انہوں نے صرف اپنے آزاد کردہ غلام مزاحم کو اندر جانے کے لیے کہا۔ جس نے بعد میں بتایا کہ پہلی قبر دوسری دو قبروں کے مقابلے میں تھوڑی سی نیچی تھی۔“ اس واقعے کے کم از کم ۳۵ برس قبل، حضرت ابوبکر صدیق کے ایک پوتے نے جب اپنی پھوپھی حضرت عائشہ کی زندگی میں یہ تینوں قبریں دیکھیں تو وہ سطح زمین سے نہ بہت بلند تھیں اور نہ زمین کے ساتھ لگی تھیں۔ تینوں پر سرخ مٹی نظر آرہی تھی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے ایک اور ہم عصر کا بیان ہے کہ انہوں نے جب یہ تینوں قبریں دیکھیں تو وہ سطح زمین سے تقریباً چار انچ اوپر تھیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے حضرت عائشہ کے حجرے کے گرد جو چار دیواری کھنچوائی،اس میں سیاہ رنگ کے ویسے ہی پتھر استعمال کیے گئے، جیسے خانہٴ کعبہ کی دیواروں میں ہیں۔ اس کی تصدیق صدیوں بعد ان لوگوں نے کی، جنہیں مرمّت کے دوران یہ مہر بند چوکور کمرہ دیکھنے کا موقع نصیب ہوا۔ اس چار دیواری کے گرد ”پانچ دیواری“ بنوانے کا ایک مقصد یہ تھا کہ اللہ کے رسول ا کی آخری آرام گاہ کا طرزِ تعمیر اللہ کے گھر کے طرزِ تعمیر سے مختلف رہے جو چار دیواروں پر مشتمل ہے۔ اس پانچ دیواری کا نقشہ کچھ یوں ہے کہ جب آپ تین گول دائروں والی جالی کے سامنے کھڑے ہوں تو جالیوں کے درمیان میں سے آپ کو جو نظر آتا ہے، وہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی بنوائی ہوئی بیرونی دیوار کا جنوبی حصہ ہے، جو ساڑھے آٹھ میٹر لمبا اور خط مستقیم میں ہے۔ جالیوں میں سے آپ کو عربی تحریر سے مزیّن جو سبز کپڑا اندر نظر آئے گا، وہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی بنوائی ہوئی بیرونی دیوار کے جنوبی حصے پر چڑھا ہوا ہے، نہ کہ حضرت عائشہ کے حجرے کی دیوار پر۔مشرق میں، یا جنّت البقیع کی جانب، بیرونی دیوار (جو ظاہر ہے کہ سبز جالیوں کے اندر ہے) خط مستقیم میں نہیں، بلکہ دو حصوں میں ہے۔ جنوب (یا قبلے کی جانب) سے شمال کو جاتے ہوئے، بیرونی دیوار کا ایک حصہ، جو تقریباً چھے میٹر لمبا ہے، خط مستقیم میں ہے، لیکن آگے جاکر اس دیوار کا دوسرا حصہ وتر کا زاویہ بناتا ہوا شمال مغرب کی سمت مڑ جاتا ہے۔ اس دوسرے حصے کی لمبائی تقریباً سات میٹر ہے۔ اسی طرح مغرب یا ریاض الجنّہ کی جانب بھی بیرونی دیوار خط مستقیم میں نہیں۔ ریاض الجنّہ میں جنوب سے شمال کو جاتے ہوئے، سبز جالیوں میں تین ستونوں کے نام نظر آئیں گے جو بالترتیب ”السّریر“ ”الحرس“ اور ”الوفود“ ہیں۔ السّریر سے الوفود کو جاتے ہوئے، سبز جالیوں کے اندر، بیرونی دیوار کا ایک حصہ، جو تقریباً آٹھ میٹر لمبا ہے، خط مستقیم میں ہے، لیکن آگے جاکر اسی دیوار کا دوسرا حصہ، جس کی لمبائی چھ میٹر ہے، وتر کا زاویہ بناتے ہوئے، شمال مشرق کی طرف مڑ جاتا ہے اور پھر شمال میں اپنے بالمقابل دیوار سے مل جاتا ہے۔ اس طرح بیرونی دیوار کی مجموعی لمبائی ساڑھے پینتیس میٹر ہے۔ قبلے یعنی جنوب کی جانب ساڑھے آٹھ میٹر لمبی دیوار خط مستقیم میں ہے۔ مشرق اور مغرب کی سمت یہ دیوار دو حصوں میں منقسم ہے۔ جنوب سے شمال کو جاتے ہوئے ان دیواروں کا ایک حصہ خط مستقیم میں اور دوسرا وتر کا زاویہ لیے ہوئے ہے۔ شمال کی سمت مشرقی اور مغربی دیواروں کا نقطہٴ اتصال ہے اور کوئی دیوار نہیں۔ ان پانچ دیواروں کے گرد وہ گوشہ اورسبز جالی ہے جو ہر زائر کی آنکھوں کو ٹھنڈک بخشتی ہے۔ اس کی لمبائی جنوب یا قبلے کی سمت سے شمال تک تقریباً سولہ میٹر اور مشرق سے مغرب (ریاض الجنّہ) تک تقریباً پندرہ میٹر ہے۔ اس جالی میں چار دروازے ہیں جو شمال، جنوب، مشرق اور مغرب میں ہیں۔ مشرقی دروازے کے علاوہ باقی تینوں دروازے بند رکھے جاتے ہیں۔مشرقی دروازہ بھی اسی وقت کھولا جاتا ہے،جب کسی خصوصی مہمان یا وفد کو اندر لے جانا ہو۔ یہ خصوصی مہمان سبز جالی کے اندر داخل ہوجاتے ہیں، لیکن اس مہر بند بیرونی ”پانچ دیواری“ کے اندر نہیں جاسکتے، جس کی اولین تعمیر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے سوا تیرہ صدی قبل کرائی تھی اور ظاہر ہے کہ اس اندرونی مہر بند ”چار دیواری“ کے اندر جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جس میں رسول اللہ آرام فرما ہیں۔ اس مقدس اور قدیم چار دیواری کے اوپر ایک چھوٹا گنبد اور اس چھوٹے گنبد کے اوپر وہ بڑا سبز گنبد ہے جو۱۲۵۳ھ (مطابق ۱۸۳۷ء) سے اپنے رنگ کی نسبت سے، دنیا بھر میں ”گنبدِ خضرا“ کے نام سے مشہور ہے۔ ان دونوں گنبدوں میں، قبلے یعنی جنوب کی جانب، ایک دوسرے کے متوازی، ایک ایک سوراخ اس طرح رکھا گیا ہے کہ جب سورج کی کرنیں گنبدِ خضرا کے سوراخ پر پڑتی ہیں، تو وہ اندرونی گنبد کے متوازی سوراخ سے ہوتی ہوئی روضہٴ اقدس میں بھی پہنچتی ہیں اور جب تیز بارش ہوتی ہے، تو وہ بھی اس طرح روضے میں پہنچتی ہے۔ رسول اکرم ا نے حضرت علی اور حضرت فاطمہ کے حجرے کے باہر شمال کی سمت میں واقع کھلی جگہ میں نمازِتہجد ادا کی ہے۔ یہاں ایک محراب ہے جو ”محرابِ تہجد“ کہلاتی ہے لیکن سبز جالیوں سے نظر نہیںآ تی۔ اس کے آگے آج ایک پتلا سا چبوترہ بنا ہوا ہے جس کے سامنے پیتل کی ایک دیدہ زیب منقش جالی نصب ہے۔ چبوترے پر ایک لمبی اور اونچی الماری ہے جس میں قرآن کے سیکڑوں نسخے رکھے ہیں۔ اس پیتل کی جالی کے سامنے وہ گزرگاہ ہے جو مشرق کی سمت باب جبریل اور مغرب کی سمت ریاض الجنّہ کی طرف جاتی ہے۔ اگر آپ باب جبریل سے مسجدِ نبوی میں داخل ہوں، جو ہر زائر کی ترجیح ہوتی ہے، چند گز بعد آپ کے بائیں جانب پیتل کی منقش جالی اور دائیں جانب قالینوں سے مزیّن ایک بڑا سا چبوترہ ہے، جسے اکثر زائرین غلطی سے ”اہل صفّہ“ کا چبوترہ سمجھ کر، اس پر جگہ حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں۔ اصحاب صفّہ کے قیام کا وہ مقام جہاں دور رسالت میں رسول کریم ا کے ساٹھ ستّر اصحاب بیک وقت قیام کرتے تھے، یہ نہیں ہے۔ ”اہل صفّہ“ کی جگہ موجودہ چبوترے سے خاصی آگے مغرب کی جانب تھی۔ اگر آپ ”اسطوانہٴ عائشہ “ سے شمال کی سمت یعنی قبلے کے مخالف رخ چلیں تو پانچواں ستون آج جہاں ہے، وہاں ۷ ھ سے پہلے اصحابِ صفّہ کا چبوترہ اور سائبان ہوتا تھا۔ ۷ ھ سے قبل مسجد نبوی کی شمال مغربی حد بھی یہیں تک تھی۔ موجودہ چبوترہ رسول کریم اکے وصال کے تقریباً ساڑھے پانچ صدیوں بعد، بالفاظ دیگر آج سے تقریباً ساڑھے آٹھ سوسال قبل، مصر اور شام کے حکمراں سلطان نور الدین زنگی نے ۵۵۷ھ (مطابق۱۱۶۲ء) میں اس سنگین واقعے کے بعد بنوایا، جس کا ذکر اگلی سطور میں ہے۔ یہ چبوترہ مسجد نبوی کے خادموں اور محافظوں کے بیٹھنے کے لیے بنوایا گیا تھا اور اب یہاں زائرین کی نشست ہوتی ہے۔ مذکورہ بالاسنہ یعنی ۵۵۷ھ میں، وہ افسوس ناک اور سنگین واقعہ پیش آیا جب مراکش کے دو عیسائیوں نے رسول کریم اکے جسد اطہر کو نکالنے کی ناپاک اور ناکام کوشش کی۔ اس کا ذکر مدینے کی مشہور اور مختصر تاریخ ”وفا الوفاء“ کے مصنف علّامہ نور الدین ابو الحسن سمہودی نے اپنی اس کتاب میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ: ”ایک رات، نمازِ تہجّد کے بعد، سلطان نور الدین زنگی نے خواب میں دیکھا کہ رسول کریم ا دو سرخی مائل رنگت کے آدمیوں کی طرف اشارہ کر کے سلطان سے کہہ رہے ہیں کہ مجھے ان کے شر سے بچاؤ۔ سلطان ہڑبڑا کر اٹھا، وضو کیا، نفل ادا کیے اور پھر اس کی آنکھ لگ گئی۔ دوبارہ وہی خواب دیکھا۔ اٹھا وضو کیا۔ نفل پڑھے اور سوگیا۔ تیسری بار وہی خواب دیکھا۔اب اس کی نیند اڑ گئی۔اس نے رات کو ہی اپنے مشیر جمال الدین موصلی کو بلاکر پورا واقعہ سنایا۔ مشیر نے کہا: ”سلطان یہ خواب تین بار دیکھنے کے بعد آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ اس کا اب کسی سے ذکر نہ کریں اور فوراً مدینے روانہ ہوجائیں۔“ اگلے روز سلطان نے بیس مخصوص افراد اور بہت سے تحائف کے ساتھ مدینے کے لیے کوچ کیا اور سولہویں روز شام کے وقت وہاں پہنچ گیا۔ سلطان نے روضہٴ رسول پر حاضری دی اور مسجدِ نبوی میں بیٹھ گیا۔ اعلان کیا کہ اہل مدینہ مسجد نبوی میں پہنچ جائیں، جہاں سلطان ان میں تحائف تقسیم کرے گا۔ لوگ آتے گئے اور سلطان ہر آنے والے کو باری باری تحفہ دیتا رہا۔اس دوران وہ ہر شخص کو غور سے دیکھتا رہا، لیکن وہ دو چہرے نظر نہ آئے جو اسے ایک رات میں تین بار خواب میں دکھائے گئے تھے۔سلطان نے حاضرین سے پوچھا: ”کیا مدینے کا ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے؟“ جواب اثبات میں تھا۔ سلطان نے پھر پوچھا: ”کیا تمہیں یقین ہے کہ ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے؟“ اس بار حاضرین نے کہا: ”سوائے دو آدمیوں کے“۔ راز تقریباً فاش ہوچکا تھا۔ سلطان نے پوچھا: ”وہ کون ہیں؟ اور اپنا تحفہ لینے کیوں نہیں آئے؟“ بتایا گیا کہ یہ مراکش کے صوم و صلوٰة کے پابند دو متقی باشندے ہیں، دن رات رسول کریم ا پر درود سلام بھیجتے ہیں اور ہر ہفتے مسجدِ قبا جاتے ہیں۔ فیاض اور مہمان نواز ہیں۔ کسی کا دیا نہیں لیتے۔سلطان نے کہا: ”سبحان اللہ“ اور حکم دیا کہ ان دونوں کو بھی اپنے تحائف وصول کرنے کے لیے فوراً بلایا جائے۔ جب انہیں یہ خصوصی پیغام ملا تو انہوں نے کہا: ”الحمدللہ، ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے اور ہمیں کسی تحفے تحائف یا خیر خیرات کی حاجت نہیں۔“ جب یہ جواب سلطان تک پہنچایا گیا تو اس نے حکم دیا کہ ان دونوں کو فوراً پیش کیا جائے۔ حکم کی فوری تعمیل ہوئی۔ ایک جھلک ان کی شناخت کے لیے کافی تھی، تاہم سلطان نے اپنا غصہ قابو میں رکھا اور پوچھا : ”تم کون ہو؟“ یہاں کیوں آئے ہو؟“ انہوں نے کہا، ”ہم مراکش کے رہنے والے ہیں۔ حج کے لیے آئے تھے اور اب روضہٴ رسول کے سائے میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔“ سلطان نے سختی سے کہا: ”کیا تم نے جھوٹ بولنے کی قسم کھا رکھی ہے؟“ اب وہ چپ رہے۔ سلطان نے حاضرین سے پوچھا: ”یہ کہاں رہ رہے ہیں؟“ بتایا گیا کہ روضہٴ نبوی کے بالکل نزدیک ایک مکان میں (جو مسجدِ نبوی کے جنوب مغرب میں دیوار کے ساتھ تھا) سلطان فوراً اٹھا اور انہیں ساتھ لے کر اس مکان میں داخل ہوگیا۔ سلطان مکان میں گھومتا پھرتا رہا۔ اچانک نئے اور قیمتی سامان سے بھرے ہوئے اس مکان میں، اس کی نظر فرش پر پڑی ہوئی ایک چٹائی پر پڑی۔نظر پڑنی تھی کہ دونوں مراکشی باشندوں کی ہوائیاں اڑ گئیں۔ سلطان نے چٹائی اٹھائی۔ اس کے نیچے ایک تازہ کھدی ہوئی سرنگ تھی۔ سلطان نے گرج کر کہا: ”کیا اب بھی سچ نہ بولو گے؟“ ان کے پاس سچ کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ عیسائی ہیں اور ان کے حکمراں نے انہیں بہت سا مال و زر اور ساز و سامان دے کر حاجیوں کے روپ میں مراکش سے اس منصوبے پر حجاز بھیجا تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح رسول کریم اکا جسدِ اقدس روضہٴ مبارک سے نکال کر لے آئیں۔ اس ناپاک منصوبے کی تکمیل کے لیے، انہوں نے حج کا بہانہ کیا اور اس کے بعد روضہٴ رسول سے نزدیک ترین جو مکان کرائے پر مل سکتا تھا، وہ لے کر اپنا مذموم کام شروع کردیا۔ ہر رات وہ سرنگ کھودتے، جس کا رخ روضہٴ مبارک کی طرف تھا اور ہر صبح کھدی ہوئی مٹی چمڑے کے تھیلوں میں بھر کر جنّت البقیع لے جاتے اور اسے قبروں پر بکھیر دیتے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی ناپاک مہم بالکل آخری مراحل میں تھی کہ ایک رات موسلادھار بارش کے ساتھ ایسی گرج چمک ہوئی جیسے زلزلہ آگیا ہو اور اب جب کہ ان کا کام پایہٴ تکمیل کو پہنچنے والا تھا تو سلطان نہ جانے کیسے مدینے پہنچ گئے۔ سلطان نور الدین زنگی نے حکم دیا کہ ان دونوں کو قتل کردیا جائے۔ روضہٴ مبارک کے گرد ایک خندق کھودی جائے اور اسے پگھلے ہوئے سیسے سے پاٹ دیا جائے، تاکہ آئندہ کوئی بدبخت ایسی مذموم حرکت کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔ مذکورہ بالا واقعہ ۵۵۷ھ (مطابق ۱۱۶۲ء) کا ہے۔ تین صدیوں بعد ۸۸۱ھ (مطابق۷۶،۱۴۷۷ء) میں، حضرت عائشہ کے حجرے کی چار دیواری اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کی بنوائی ہوئی ”پانچ دیواری“ دونوں کی ازسرنو تعمیر کی ضرورت پڑ گئی۔ تاریخِ مدینہ ”وفا الوفاء“ کے مصنف علامہ سمہودی کو تعمیر نو کے اس کام میں رضا کارانہ طور پر حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں: ۱۴ شعبان ۸۸۱ھ (مطابق ۲ دسمبر ۷۶،۱۴۷۷ء) کو پانچ دیواری مکمل طور پر ڈھا دی گئی۔ دیکھا تو اندرونی چار دیواری میں بھی دراڑیں پڑی ہوئی تھیں، چناں چہ وہ بھی ڈھا دی گئی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اب مقدس حجرہ تھا۔ مجھے داخلے کی سعادت ملی۔ میں پچھلی طرف (یعنی شمالی سمت سے جو قبلے کے مخالف سمت ہے) سے داخل ہوا۔خوشبو کی ایسی لپٹ آئی جو زندگی میں کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ میں نے رسول اللہ اورآپ کے دونوں خلفاء کی خدمت میں ادب سے سلام پیش کیا۔ مقدس حجرہ مربع شکل کا تھا۔ اس کی چار دیواری سیاہ رنگ کے پتھروں سے بنی تھی، جیسے خانہٴ کعبہ کی دیواروں میں استعمال ہوئے ہیں۔ چار دیواری میں کوئی دروازہ نہ تھا۔ میری پوری توجہ تین قبروں پر مرکوز تھی۔ تینوں سطح زمین کے تقریباً برابر تھیں۔ صرف ایک جگہ ذرا سا ابھار تھا۔ یہ شاید حضرت عمر کی قبر تھی۔ قبروں پر عام سی مٹی پڑی تھی۔ میں تعمیر نو کے کام میں مشغول ہوگیا جو (سات ہفتوں میں) سات شوال ۸۸۱ھ (مطابق۲۳ جنوری۱۴۷۷ء) کو مکمل ہوا۔ اس بات کو پانچ صدیاں بیت چکی ہیں، جن کے دوران کوئی انسان ان مہر بند اور مستحکم دیواروں کے اندر داخل نہیں ہوا۔ آج کل بعض لوگ رسول کریم ا کی قبر کی شبیہ دکھاتے ہیں یا اس کی طباعت، اشاعت اور تشہیر کرتے ہیں۔ ان تصویروں پر کچھ لکھا نہیں ہوتا۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ پچھلی صدی میں لیا ہوا فوٹو ہے۔ کوئی یہ کہتا ہے کہ صدیوں قبل کے کسی مصور کی نقاشی کا شکار ہے۔ بات افراد تک محدود نہیں بلکہ بعض اوقات اخبارات بھی، پوری نیک نیتی سے، یہ تصاویر چھاپ دیتے ہیں۔ عقیدت مند مسلمان یہ تصاویر احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انہیں دیدہ زیب فریموں میں لگا کر کسی اونچی یا مرکزی جگہ پر رکھا، یا لٹکایا جاتا ہے۔ بعض عقیدت مند، جن میں بعض بہت تعلیم یافتہ اشخاص بھی شامل ہوتے ہیں، ان تصاویر کا عقیدت سے بوسہ لیتے ہیں، انہیں آنکھوں سے لگاتے اور سر پر رکھتے ہیں۔ اب تک یہ کام خاموشی سے اور محدود پیمانے پر ہوتا رہا۔ انٹرنیٹ کے بعد ان تصاویر کی تشہیر و اشاعت میں ناقابل یقین حد تک اضافہ ہوسکتا ہے اور اب اگر کوئی چاہے تو یہ کروڑوں گھروں میں ایک ساتھ ایک لمحے میں پہنچ سکتی ہیں۔ انٹرنیٹ زیادہ تر اس نوجوان نسل کے زیر استعمال ہے جسے ان حقائق کا علم نہیں جو اس مضمون میں بیان کیے گئے ہیں۔ یہ نوجوان ان تصاویر پر آسانی سے یقین کرلیں گے۔ ان جعلی تصاویر یا نقاشی کے شاہکاروں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر سطح زمین سے کافی اونچی دکھائی دیتی ہے۔ اس پر ایک چادر تنی ہوئی ہے۔ اور سرہانے عمامہ نظر آتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ جن مہر بند دیواروں کے اندر کوئی انسان پانچ صدیوں سے داخل نہ ہوا ہو، وہاں کسی قبر کا فوٹو کیسے لیا جاسکتا ہے؟ علاوہ ازیں کیمرے کی ایجاد ۱۸۲۰ء سے ۱۸۳۰ء کے عشرے میں دو فرانسیسی موجدوں نے کی، گویا کیمرہ ایجاد ہوئے ابھی پوری دو صدیاں بھی نہیں گزریں۔ جہاں تک مصوری کا تعلق ہے تو اولاً نقاشی کے ان شاہکاروں پر نہ مصور کا نام درج ہوتا ہے اور نہ یہ لکھا ہوتا ہے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی شبیہ ہے۔ ثانیا خواہ پہلی صدی ہجری ہو یا نویں صدی ہجری، ان قبروں کو جب بھی دیکھا گیا، وہ سطح زمین سے بلند تھیں، نہ پکی تھیں، نہ ان کے گرد کوئی کٹہرا تھا، نہ ان کے اوپر کوئی چادر تھی اور نہ ان کے سرہانے کوئی عمامہ تھا۔ اکیسویں صدی عیسویں میں، جہاں ہر انسان کا یہ حق ہے کہ اسے سچائی کا علم ہو، وہاں اس کا یہ فرض بھی بنتا ہے کہ وہ جھوٹ کو رد کرے۔ غلط فہمی دور کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنی غلط بیانی۔ اگر فہم یا بیان کی ان غلطیوں کا تعلق اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے ہو تو ہر مسلمان کا، انسان اور مسلمان ہونے کے ناطے، یہ دہرا فرض بنتا ہے کہ وہ سچ کا بلا تاخیر اظہار کرے اور اس کی حسب توفیق تشہیر و اشاعت کرے۔
 
Top