سید شہزاد ناصر
محفلین
روندے ہے نقش پا کي طرح خلق ياں مجھے
اے عمر رفتہ چھوڑ گئي تو کہاں مجھے
اے گل تو رخت باندہ، اٹھا ؤں ميں آشياں
گل چيں تجھے نہ ديکھ سکے باغباں مجھے
رہتي ہے کوئي بن کيے ميرے تئيں تمام
جوں شمع چھوڑنے کي نہيں يہ زباں مجھے
پتھر تلے کا ہاتھ ہے غفلت کے ہاتھ دل
سنگ گراں ہوئي ہے يہ خواب گراں مجھے
کچھ اور کنج غم کے سوا سوجھتا نہيں
آتا ہے جب کہ ياد وہ کنج دہاں مجھے
جاتا ہوں خوش دماغ جو سن کر اسے کبھو
بدلے ہے دونوں ہي نظريں وہ، ديکھا جہاں مجھے
جاتا ہوں بس کہ دم بہ دم اب خاک ميں ملا مجھے
ہے خضر راہ درد يہ ريگ رواں مجھے