حمیرا حیدر
محفلین
تین خبریں میرے سامنے ہیں اور تینوں پریشان کن ہیں ۔
پہلی خبر بتا رہی کہ کہ اسلام آباد سے گلگت جانے والے فلائٹ pk-605 کے لینڈنگ گیئر کا بولٹ غائب پایا گیا جس کی وجہ سے اس کو واپس اڑنے سے روک دیا گیا۔
دوسری خبر ریاض سعودی عرب سے آنے والے پی آئی اے کی فلائٹ pk-8726 کے بارے میں ہے جس نے ملتان جانا تھا مگر ایمرجنسی میں کراچی اتارا گیا۔ وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ جہاز کا دروازہ ٹھیک طرح سے بند نہیں ہوا تھا اور مسئلہ کر رہا تھا۔
اور تیسری خبر اس بدقسمت جہاز کی ہے جس سے اپ سب واقف ہیں ۔جو عید سے قبل کراچی میں گر کر تباہ ہوا۔ جس کے لینڈنگ گیئر نہیں کھل سکے تھے۔
میں کوئی فضائی ماہر نہیں ہوں نا مجھے ان سب باتوں کی فنی حقائق کا کچھ علم ہے۔ کچھ سال قبل تک مجھے گاڑی میں چابی لگانا بھی نہیں آتا تھا۔ میں ان سب واقعات پر کوئی ماہرانہ تجزیہ کرنے کی اہلیت قطعی نہیں رکھتی۔
یہاں ان واقعات کا ذکر کرنا چہ معنی دارد؟؟؟
بچپن مین سکول کے ابتدائی زمانے کی بات ہے، اپنے گاوں سے قصبے تک سکول جانے کے لئے لوکل ٹرانسپورٹ سوزوکی کا استعمال کیا ہے۔ جس میں آمنے سامنے پانچ پانچ افراد کی گنجائش ہوتی تھی۔ چھوٹے بچے ٹھونس ٹھونس کر درمیان میں کھڑے کئے جاتے تھے۔ آمنے سامنے مرد و زن کے گھٹنے الگ ٹکرا رہے ہوتے تھے۔ سردیوں کی تو خیر ہے مگر تپتی گرمیوں میں سوزوکی کے اندر سانس لینے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔ سوزوکی کے باہر افراد ایسے چپکے ہوتے تھے کہ گڑ کے اوپر بے تحاشا مکھیاں چپکی ہوتی تھیں۔ جیسے ہی قصبے سے گاڑی نکلتی تو ایک بہت سخت چڑھائی آتی تھی۔ جس میں گاڑی کا اتنے لوڈ کے ساتھ چڑھنا ناممکن ہوتا تھا سو ڈرائیور کافی زور لگانے کے بعد سوزوکی کے اطراف میں کھڑے لوگوں کو اترنے اور پیدل چڑھائی چڑھنے کا کہتا اور یوں گاڑی اس مشکل چڑھائی کو سر کر سکتی۔ ہمارا گاوں چونکہ قصبے کے آخری گاوں میں آتا تھا جہان تک اس سوزوکی کا روٹ تھا۔ تو آخر تک آتے آتے بیٹھنے کو سیٹ مل ہی جایا کرتی تھی۔
کالج کے زمانے میں مجھے اسلام آباد کی لوکل ٹرانسپورٹ 121 اور 1c میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ جو لوگ لوکل ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان گاڑیوں کی حالت کس قدر ناگفتہ بہ ہوتی ہے۔ اکثر رش اس قدر ہوتا ہے کہ کنڈیکٹر کو کھڑا ہونے کے بجائے کبا ہونا پڑتا ہے۔ اور وہ بلا تکلف خواتین پسنجر کے اوپر کمان ہوا ہوتا ہے۔ عموما فرنٹ سیٹ خواتین کے لئے مختص ہوتی ہے۔ جس پر بیٹھتے اور اترتے وقت کنڈیکٹر خود دروازہ کھولتا بند کرتا ہے( جو اعزاز و اکرام کے لئے ہرگز نہیں ہوتا بلکہ دروازے کو خاص اینگل سے بند کرنے کی ٹریک ہوتی ہے جس سے وہی واقف ہوتا ہے)۔ ہم تو اکثر دروازے پر ٹیک لگانے سے بھی ڈرتے تھے۔ خیر۔۔۔
آپ سب حیران ہوں گے کہ میں نے بات پی آئی اے کے جہازوں سے شروع کی اور اب لوکل ٹرانسپورٹ کی باتیں کر رہی ہوں۔ تو جناب بات ہی کچھ ایسی ہے ان خبروں کو پڑھنے کے بعد مجھے پہلا خیال ان لوکل ٹرانسپورٹ کی گاڑیوں کی ناگفتہ بہ حالت کا خیال آیا۔ پی آئی اے کا حال بھی اب 1c کی ویگنوں جیسا ہوتا جا رہا ہے۔ مجھے یاد ہے ایک بار ہم کچھ سہیلیاں اپنے مدرسے سے واپس آ رہی تھیں جس ٹیکسی کو روکا وہ بہت ہی خستہ حال تھی( جو ہمارے ملک میں عمومی نظارہ ہے) مگر مجبوری تھی سو بیٹھنے لگے۔ ڈرائیور نے خود اتر کر دروازہ کھولا اور کہا اس طرف سے آپ لوگ بیٹھیں ہم اس اعزاز پر کچھ حیران ہوئے مگر بیٹھ گئیں کچھ دور جانے کے بعد وہ دروازہ کھل گیا نا صرف کھل گیا بلکہ لٹک گیا اگر پہلے ہی ڈرائیور ہوشیار نا کرتا تو ہم سڑک پر پڑے ہوتے۔ اب اس ٹیکسی ڈرائیور نے کہا کہ دروازہ بند نہیں ہو سکتا آپ لوگ اسے پکڑ کر بیٹھیں۔ اور باقی سفر ہم نے دروازے کو پکڑے اور ہنسی کو دباتے گزارا۔
پی آئی اے کے جہاز بھی اب کچھ ایسے ہی ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک سنہری دور تھا پی آئی اے کا مگر اب اقربا پروری اور پروفیشنلزم کے فقدان کی وجہ سے بدترین صورت اختیار کر رہی ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ پی آئی اے یہ ماننے کو تیار نہیں ہے۔ کبھی یہ الزام پچھلی انتظامیہ اور کبھی پائلٹ کی غفلت پر لگا کر بری الذمہ ہونا چاہتی ہے۔
ہم تو ٹھہرے خاتون خانہ ہمیں تو سلائی مشین چلانا ہی آتی ہے تو اسی کے تجربے کی بنیاد پر درخواست ہے کہ پرزوں کو تھوڑا تیل دیں تاکہ نٹ بولٹ دروازے سب ٹھیک سے کام کر سکیں۔
ایک اور درخواست ہے جہاز کو جہاز سمجھا جائے روٹ کی ویگن یا سوزوکی نا سمجھا جائے۔
پہلی خبر بتا رہی کہ کہ اسلام آباد سے گلگت جانے والے فلائٹ pk-605 کے لینڈنگ گیئر کا بولٹ غائب پایا گیا جس کی وجہ سے اس کو واپس اڑنے سے روک دیا گیا۔
دوسری خبر ریاض سعودی عرب سے آنے والے پی آئی اے کی فلائٹ pk-8726 کے بارے میں ہے جس نے ملتان جانا تھا مگر ایمرجنسی میں کراچی اتارا گیا۔ وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ جہاز کا دروازہ ٹھیک طرح سے بند نہیں ہوا تھا اور مسئلہ کر رہا تھا۔
اور تیسری خبر اس بدقسمت جہاز کی ہے جس سے اپ سب واقف ہیں ۔جو عید سے قبل کراچی میں گر کر تباہ ہوا۔ جس کے لینڈنگ گیئر نہیں کھل سکے تھے۔
میں کوئی فضائی ماہر نہیں ہوں نا مجھے ان سب باتوں کی فنی حقائق کا کچھ علم ہے۔ کچھ سال قبل تک مجھے گاڑی میں چابی لگانا بھی نہیں آتا تھا۔ میں ان سب واقعات پر کوئی ماہرانہ تجزیہ کرنے کی اہلیت قطعی نہیں رکھتی۔
یہاں ان واقعات کا ذکر کرنا چہ معنی دارد؟؟؟
بچپن مین سکول کے ابتدائی زمانے کی بات ہے، اپنے گاوں سے قصبے تک سکول جانے کے لئے لوکل ٹرانسپورٹ سوزوکی کا استعمال کیا ہے۔ جس میں آمنے سامنے پانچ پانچ افراد کی گنجائش ہوتی تھی۔ چھوٹے بچے ٹھونس ٹھونس کر درمیان میں کھڑے کئے جاتے تھے۔ آمنے سامنے مرد و زن کے گھٹنے الگ ٹکرا رہے ہوتے تھے۔ سردیوں کی تو خیر ہے مگر تپتی گرمیوں میں سوزوکی کے اندر سانس لینے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔ سوزوکی کے باہر افراد ایسے چپکے ہوتے تھے کہ گڑ کے اوپر بے تحاشا مکھیاں چپکی ہوتی تھیں۔ جیسے ہی قصبے سے گاڑی نکلتی تو ایک بہت سخت چڑھائی آتی تھی۔ جس میں گاڑی کا اتنے لوڈ کے ساتھ چڑھنا ناممکن ہوتا تھا سو ڈرائیور کافی زور لگانے کے بعد سوزوکی کے اطراف میں کھڑے لوگوں کو اترنے اور پیدل چڑھائی چڑھنے کا کہتا اور یوں گاڑی اس مشکل چڑھائی کو سر کر سکتی۔ ہمارا گاوں چونکہ قصبے کے آخری گاوں میں آتا تھا جہان تک اس سوزوکی کا روٹ تھا۔ تو آخر تک آتے آتے بیٹھنے کو سیٹ مل ہی جایا کرتی تھی۔
کالج کے زمانے میں مجھے اسلام آباد کی لوکل ٹرانسپورٹ 121 اور 1c میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ جو لوگ لوکل ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان گاڑیوں کی حالت کس قدر ناگفتہ بہ ہوتی ہے۔ اکثر رش اس قدر ہوتا ہے کہ کنڈیکٹر کو کھڑا ہونے کے بجائے کبا ہونا پڑتا ہے۔ اور وہ بلا تکلف خواتین پسنجر کے اوپر کمان ہوا ہوتا ہے۔ عموما فرنٹ سیٹ خواتین کے لئے مختص ہوتی ہے۔ جس پر بیٹھتے اور اترتے وقت کنڈیکٹر خود دروازہ کھولتا بند کرتا ہے( جو اعزاز و اکرام کے لئے ہرگز نہیں ہوتا بلکہ دروازے کو خاص اینگل سے بند کرنے کی ٹریک ہوتی ہے جس سے وہی واقف ہوتا ہے)۔ ہم تو اکثر دروازے پر ٹیک لگانے سے بھی ڈرتے تھے۔ خیر۔۔۔
آپ سب حیران ہوں گے کہ میں نے بات پی آئی اے کے جہازوں سے شروع کی اور اب لوکل ٹرانسپورٹ کی باتیں کر رہی ہوں۔ تو جناب بات ہی کچھ ایسی ہے ان خبروں کو پڑھنے کے بعد مجھے پہلا خیال ان لوکل ٹرانسپورٹ کی گاڑیوں کی ناگفتہ بہ حالت کا خیال آیا۔ پی آئی اے کا حال بھی اب 1c کی ویگنوں جیسا ہوتا جا رہا ہے۔ مجھے یاد ہے ایک بار ہم کچھ سہیلیاں اپنے مدرسے سے واپس آ رہی تھیں جس ٹیکسی کو روکا وہ بہت ہی خستہ حال تھی( جو ہمارے ملک میں عمومی نظارہ ہے) مگر مجبوری تھی سو بیٹھنے لگے۔ ڈرائیور نے خود اتر کر دروازہ کھولا اور کہا اس طرف سے آپ لوگ بیٹھیں ہم اس اعزاز پر کچھ حیران ہوئے مگر بیٹھ گئیں کچھ دور جانے کے بعد وہ دروازہ کھل گیا نا صرف کھل گیا بلکہ لٹک گیا اگر پہلے ہی ڈرائیور ہوشیار نا کرتا تو ہم سڑک پر پڑے ہوتے۔ اب اس ٹیکسی ڈرائیور نے کہا کہ دروازہ بند نہیں ہو سکتا آپ لوگ اسے پکڑ کر بیٹھیں۔ اور باقی سفر ہم نے دروازے کو پکڑے اور ہنسی کو دباتے گزارا۔
پی آئی اے کے جہاز بھی اب کچھ ایسے ہی ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک سنہری دور تھا پی آئی اے کا مگر اب اقربا پروری اور پروفیشنلزم کے فقدان کی وجہ سے بدترین صورت اختیار کر رہی ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ پی آئی اے یہ ماننے کو تیار نہیں ہے۔ کبھی یہ الزام پچھلی انتظامیہ اور کبھی پائلٹ کی غفلت پر لگا کر بری الذمہ ہونا چاہتی ہے۔
ہم تو ٹھہرے خاتون خانہ ہمیں تو سلائی مشین چلانا ہی آتی ہے تو اسی کے تجربے کی بنیاد پر درخواست ہے کہ پرزوں کو تھوڑا تیل دیں تاکہ نٹ بولٹ دروازے سب ٹھیک سے کام کر سکیں۔
ایک اور درخواست ہے جہاز کو جہاز سمجھا جائے روٹ کی ویگن یا سوزوکی نا سمجھا جائے۔