رُوداد ایک سنگھاڑے کی

دائم

محفلین
میں نے ایک مفروضہ سنا ھے کہ سنگھاڑا بے ذائقہ ) tasteless ( ھوتا ھے اور اگر اسے دندانِ تیز دھار سے ہم کنار کیا جائے تو محسوس نہیں ھوتا کہ کچھ کھایا ھے بلکہ یوں لگتا ھے کہ پانی ایک لمحے کے لیے ٹھوس حالت میں متشکل ھو گیا ھے اور دانتوں سے کتر کتر کے پیا جا رھا ھے

ابھی چند ایام پہلے کی بات ھے کہ مذکورہ قاعدہ کلیہ میری بہن نے پہلے میرے گوش گزار کیا اور پھر ایک
نیم عدد سنگھاڑا میرے دستِ لرزاں میں تھمایا

سنگھاڑا میرے ہاتھ میں یوں لگ رہا تھا جیسے میں نے کسی زہریلے سانپ کا کٹا ھوا سر ہتھیلی پر رکھا ھوا ہے اور مجھے اس
انگارۂ سرد کو کھانے کا ، بلکہ جمے ہوئے پانی کو نوش کرنے کا حکم ملا ھے

سنگھاڑے سے زندگی میں میرا پہلا واسطہ پڑ رہا تھا ، اس بلا کے بے ذائقہ ہونے پر میں
صدقِ دل سے ایمان بھی لا چکا تھا اس لیے اس انوکھی چیز کو حلق سے اتارنے کا شوق میرے دل میں پیدا ھوا لیکن ہائے افسوس کہ وہ شوق مجھے لے ڈوبا

میں نے اس کے متعلق
مفروضے کو سچ ثابت کرنے کے لیے آخر اسے زبان کے حوالے كر ہی ديا ، ہونٹوں سے زبان تک کا سفر تو بآسانی طے ھو گیا لیکن جونہی وہ مینڈک نما چیز میرے دندان سے باہم پنجہ آزما ہوئی اس نے اپنے بے ذائقہ ہونے کی بجائے با ذائقہ ہونے کا ثبوت دینا شروع كر ديا

جوں جوں وہ چیز اپنا وجود اجزاء میں تقسیم کرتی گئی ، میرے ذہن میں ترتیب شدہ تمام مفروضات کی مالا بھی بڑی بے دردی کے ساتھ
شکستہ تر ھوتی گئی

میری اوسان تو خطا ہونے تھے ہی ، ساتھ میری روح کا بال بال پکار كر سنگھاڑے کے با ذائقہ ہونے پر دلائل دے رہا تھا ، میرا منہ اس وقت یہ منظر پیش كر رہا تھا کہ گویا کوئی سمندر اچانک خشک ہو گیا ہو اور اس میں جابجا انواع و اقسام کی
مچھلیاں اپنی مظلومیت پر بے حس و حرکت دھرنا دے رہی ہوں

خیر ! مرتا کیا نه کرتا؟ جوں توں کر کے وہ
عجیب مخلوق میں نے اپنے حلق سے چار و ناچار اتار ہی دی ، فی الوقت تو اسے پیٹ کے حوالے کیا لیکن رہ رہ کے اپنے مظلوم شکم پر ترس بھی آتا رہا کہ اس بیچارے نے ایسا کیا گناہ کیا ہوگا جو اسے سنگھاڑے سے دوچار ھونا پڑ رہا ھے .. خدا بخشے رات کے چاولوں کو کہ انھوں نے میرے منہ سے اس بے ذائقہ چیز کے عجیب و غریب ذائقے سے چھٹکارا دلایا اور اس پر اپنا خوش نما اور پرکشش ذائقہ مسلط کیا

اس وقت وہ سنگھاڑا میں نے اپنی بہن کا خلوص اور پیار دیکھتے ہوئے
آشنائے لب كر تو لیا مگر آج میں یہ حلفیہ و قسمیہ کہتا ہوں کہ اگر زندگی میں پھر کبھی اس عجیب الخلقت چیز سے واسطہ پڑا تو پہلے تو میں راستہ تبدیل کرنے کو ترجیح دوں گا لیکن اگر کوئی صورت نه نکلے اس سے معرکہ آراء ہوئے بغیر تو پھر میری اولین شرط یہ ہوگی کہ پہلے اسے نمک ، مرچ اور تڑکا وغیرہ کے مراحل سے گزارا جائے پھر اسے ھم سے ملاقات کا شرف بخشا جائے ، ورنہ ھم وہ قوم ھیں جو ایک سوراخ سے بار بار نہیں ڈسی جاتی ، جبکہ دوسری شرط یہ ہوگی کہ اگر براہ راست حلق سے نیچے اتر جائے تو ٹھیک ، ورنہ درمیان میں کسی بھی چیز سے منہ لگانے کی کوشش کی تو پھر ذمہ دار وہ سنگھاڑا خود ہوگا

اس صورت حال کو حقیقت ہی تصور کیا جائے ، کیوں کہ یہ میری زندگی کا ہی ایک تلخ مگر
بے ذائقہ باب ھے


غلام مصطفیٰ دائم اعوان
 

حاجی حنیف

محفلین
لگتا ہے دائم صاحب سنگھاڑے کو باوردی نگلنے کی کوشش کرتے رہے
شکر ہے کہ وہ ایک بھلا مانس سنگھاڑا تھا جس سے آپ کو واسطہ پڑا
 
Top