رہنے لگے ہیں میز پہ صفحات منتشر
ہیں بعدِ عشق اپنے خیالات منتشر
//’رہنے لگے‘کچھ اچھا فعل نہیں ہے یہاں۔ پائے گئے ہیں‘ بہتر ہے۔ دوسرا مصرع درست
اگر اس کو اسطرح کر دوں کیسا رہے گا؟
رہتے ہیں میری میز پہ صفحات منتشر
ہیں بعد عشق اپنے خیالات منتشر
یعنی عشق کے بعد خیالات میں انتشار ہے جس کی وجہ سے یہ انتشار میری زندگی میں بھی در آیا ہے۔ "رہتے ہیں" سے یہ مقصود ہے کہ پہلے ایسے نہیں ہوتا تھا۔
ممکن اگر ہو ایسا، بیاں حالِ دل کروں
نہ ہونگے پھر یہ اپنے جوابات منتشر
//سمجھ میں نہیں آیا۔ یعنی اب بیان نہیں کیا تو خیالات منتشر ہو جائیں گے؟ تکنیکی طور پر ’نہ‘ کا تلفظ ہہ غلط ہے، یوں ہو سکتا ہے
کب ہوں گے پھر یہ اپنے جوابات منتشر
یا
ہو جائیں ورنہ / ہوں گے وگرنہ اپنے جوابات۔۔۔
پہلا مصراع کچھ مبہم ہے اس کو یوں کر دیا ہے:
گر حالِ دل بیان کے قابل مِرا ہوا
اور دوسرے مصرعے میں آپ کی اصلاح بہت پسند آئی-
گر حالِ دل بیان کے قابل مِرا ہوا
کب ہونگے پھر یہ اپنے جوابات منتشر
کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ اگر میں اپنا حالِ دل بیان کر سکتا تو میرے جوابات ایسے منتشر نا ہوتے۔ ایک سیدھا سا جواب دے دیتا۔
مجھ کو جلا کے: "اب تو کہانی خَتَم ہوئی!"
دل کے ہَوا سے پھر ہوئے ذرات منتشر
//ختم کا تلفظ غلط ہے۔ ’دل کے ذرات‘ میں ’دل کے‘ اور ’ذرات‘ کے درمیان لمبا فاصلہ آ گیا ہے۔ یوں بہتر ہو سکتا ہے:
میں جل چکا تو ختم کہانی ہوئی، مگر
آندھی چلی تو دل کے ہیں ذرات منتشر
یہ محبوب کا خیال تھا کہ کہانی ختم ہو گئی ہے- لیکن اصل میں نہیں ہوئی۔ اس لئے دوسرے مصرعے میں "اور پھر" لگانا ضروری ہے۔ اگر اسطرح کر دوں تو ٹھیک ہے؟
مجھ کو جلا کے:"دیکھ، کہانی کا اختتام!"
اور پھر ہوا سے دل کے ہیں ذرات منتشر
یک سمت چل رہا تھا جب ہم آشنا نہ تھے
حرکت کی پھر ہوئی ہے مساوات منتشر
//یک سمت کیوں؟ ’اک سمت‘ ہی رواں فٹ ہوتا ہے۔ باقی درست
جی ایسا ہی کر دیا۔
اک سمت چل رہا تھا جب ہم آشنا نہ تھے
حرکت کی پھر ہوئی ہے مساوات منتشر
سمجھا دیارِ عشق کو رضواں، عجب کیا!
دیکھے جو واں پہ ہر سو خرابات منتشر
//دیارِ عشق یہاں بھی دہرایا گیا ہے، اسے بدل دو۔ ’عجب کیا‘ سمجھ میں نہیں آیا۔ اگر مطلب وہی ہے جو پچھلے شعر کا ہے، تو وہی رہنے دو، اس کی ضرورت نہیں۔
مضمون تھوڑا سا مختلف ہے۔ واضح کرنے کے لئے تبدیل کر دیا ہے۔
حیرت کہ دشت عشق کو رضواں گماں کیا
دیکھے جو واں پہ ہر سو خرابات منتشر
خالق جو نہ ہو ایک تو وحدت نہ ان میں ہو
ہوں دنیا اپنی، ارض و سماوات منتشر
//یہاں بھی ’نا‘ دو حرفی آ رہا ہے، دوسرے مصرع میں دنیا اور ارض کو الگ الگ کیوں لیا گیا ہے؟ یوں کیا جا سکتا ہے:
خالق ہو صرف ایک، تو وحدت سبھی میں ہو
ہو جائیں ورنہ ارض و سماوات۔۔
آپ کی اصلاح پسند آئی۔ اس کو اسی طرح کر دیا ہے:
خالق ہو صرف ایک، تو وحدت سبھی میں ہو
ہوجائیں ورنہ ارض و سماوات منتشر
مرکوز تب ہی اپنے خیالات کی ہو رو
نہ ہو جو سب کی غایتِ غایات منتشر
//یہاں بھی ’نہ‘ کا تلفظ اور روانی کی کمی ہے۔
مرکوز ہو گی اپنے خیالوں کی رو تبھی
ہو جب نہ سب کی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
اس میں آپکی اصلاح پسند آئی ہے۔
مرکوز ہوگی اپنے خیالوں کی رو تبھی
ہو جب نہ سب کی غایتِ غایات منتشر