حفیظ تائب رہی عمر بھر جو انیسِ جاں

الف نظامی

لائبریرین
رہی عمر بھر جو انیسِ جاں وہ بس آرزوئے نبی رہی
کبھی اشک بن کے رواں ہوئی ، کبھی درد بن کے دبی رہی

شہ دیں کے فکر و نگاہ سے مٹے نسل و رنگ کے فلسفے
نہ رہا تفاخرِ منصبی ، نہ رعونتِ نسبی رہی

سرِ دشتِ زیست برس گیا ، جو سحابِ رحمتِ مصطفے
نہ خرد کی بے ثمری رہی ، نہ جنوں کی جامہ دری رہی

تھی ہزار تیرگی فتن ، نہ بھٹک سکا مرا فکر و فن
مری کائناتِ خیال میں نظرِ شہِ عربی رہی

وہ صفا کا مہرِ منیر ہے ، طلب اس کی نورِ ضمیر ہے
یہی روزگارِ فقیر ہے ، یہی التجائے شبی رہی

وہی ساعتیں تھیں سرور کی ، وہی دن تھے حاصل زندگی
بحضور شافع ِامتاں مری جن دنوں طلبی رہی
از حفیظ تائب​
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top