حسان خان
لائبریرین
رہے مصروف گو منعم بنائے قصر و ایواں میں
مقام اس کا ہے آخر ایک دن گورِ غریباں میں
رہا سر اپنا سنگِ آستاں پر کوئے جاناں میں
رہا آوارہ کوئی شہر میں کوئی بیاباں میں
کہاں ہے زندگئ ہر دو عالم آبِ حیواں میں
یہ جوہر ہے مگر قاتل کے آبِ تیغِ براں میں
نظر آتا ہے جلوہ یار کا حسنِ حسیناں میں
بلاشک روشنی پھونکی ہے اپنی ذاتِ انساں میں
نہ جذبِ جلوۂ معشوق گر عاشق کا رہبر ہو
نہ پروانہ ہو محفل میں، نہ بلبل ہو گلستاں میں
جو ہیں مقبول ہم جنسوں میں ان کو ہے شرف لازم
وہی قطرہ ہے دریا میں وہی قطرہ ہے نیساں میں
ترے ایمائے لب سے جملہ عالم ہو گیا پیدا
نہ ہو گا اور نہ تھا یہ معجزہ لعلِ بدخشاں میں
ملی ہم کو حیاتِ جاودانی اے کماں ابرو
ملا تھا آبِ حیواں تیرے شاید آبِ پیکاں میں
الٰہی کیسے موزوں طبع دیوانے کو ہے شورش
مذاقِ نغمہ ہے شورِ سلاسل ہائے زنداں میں
نہ تھی تابِ ضیائے حسنِ آدم زاد، اسی باعث
نہاں جنت میں حوریں ہو گئیں، پریاں پرستاں میں
تعجب کیا ہے خالِ مصحفِ رخسارِ جاناں کا
نشاں جائز ہے اور آیت ہے لازم خطِ قرآں میں
بذوقِ بوسۂ دستِ حنائی دل ہوا حیراں
جو دیکھا پنجۂ رنگیں کا عالم شاخِ مرجاں میں
بقائے نقشِ آبی غیر ممکن ہم تو سنتے تھے
تصور یار کا رہتا ہے کیونکر چشمِ گریاں میں
یقیں آئی ہمیں کیفیتِ جامِ جم اے ساقی
نظر آئی دو عالم کی حقیقت جامِ خنداں میں
جو وہ آیا بتِ ترسا تحیر سے ہوا سکتہ
ہوئی کیفیتِ بت خانہ ظاہر بزمِ خوباں میں
کرے معشوق کو محکوم لیکن عشق صادق ہو
فقط حکمِ زلیخا سے ہے یوسف قیدِ زنداں میں
پئے حسنِ حسیناں زیب و آرایش بھی لازم ہے
نہ دیکھا سرمے کا ڈورا کبھی چشمِ غزالاں میں
ہوئے گو قتل لاکھوں پر کھنچے جاتے ہیں سب عاشق
نئی تسخیر دیکھی ہم نے اپنے دشمنِ جاں میں
کرو گے ذکر میرا غیر کے آگے تو کیا ہو گا
ہے ذکرِ آدم و شیطاں بہم آیاتِ قرآں میں
مری دیوانگی کا شور ہے ہنگامہ برپا ہے
معلم ڈھونڈتے پھرتے ہیں لڑکوں کو گلستاں میں
خلافت جب اسے بخشی ہوا اس کو شرف سب پر
دیے بہرام خالق نے یہ جوہر ذاتِ انساں میں
(بہرام جی جاماسپ جی)