ریاست سوات، تاریخ کا ایک ورق

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سندباد

لائبریرین
قبائلی دور​
سید اکبر شاہ کی شرعی حکومت سے پہلے بھی سوات میں افراتفری کا دور دورہ تھا اور جب سید اکبر شاہ کی شرعی حکومت کا خاتمہ ہوا تو سوات کا قبائلی دور پھر لوٹ آیا۔ سوات ایک بار پھر انتشار کا شکار ہوا۔ ہر طرف افراتفری مچ گئی اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق ہر زور آور کم زور کو دبانے اور ختم کرنے پر تُلا ہوانظر آتا تھا۔ کسی کو تحفظ حاصل نہیں تھا۔ خان خوانین عام لوگوں کے لئے دردِ سر بنے ہوئے تھے۔ ہرقبیلے کے خان کو اپنے اپنے زیرِ اثر علاقے میں بالادستی حاصل تھی۔ سارا سوات دوگروہوں میں بٹا ہوا تھا۔ معمولی معمولی باتوں کووجۂ نزاع بناکر آئے دن لڑائی جھگڑوں کاسلسلہ جاری رہتا تھا۔ یہ معلوم کئے بغیر کہ لڑائی کا سبب کیا ہے یا زیادتی کس فریق کی ہے۔ فائرنگ کی آواز سنتے ہی ہر قبیلہ اپنے اپنے حلیف قبیلہ کی مدد کے لئے پہنچ جاتا اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کی لڑائی میں لاشوں کے ڈھیر لگ جاتے۔ شکست خوردہ فریق کو اپنے گھربار اور تیار فصل سے ہاتھ دھونا پڑتے اور کسی اور جگہ اپنے حلیف قبیلہ کے ہاں پنا ہ لینے پر مجبور ہوناپڑتا۔ سوات کے قبائل کی خانہ جنگیوں کے باعث نوابِ دیر کو اپنے توسیعی عزائم کی تکمیل کے لئے ریاستِ دیر سے ملحقہ سوات کے علاقہ نیک پی خیل پر بار بار حملہ کرنے کاحوصلہ ملتا اور لوُٹ مار کرکے واپس چلا جاتا تھا۔ ان حملوں کا دائرہ کبھی کبھی بالائی سوات (مٹہ سب ڈویژن) تک پھیل جاتا۔
 

سندباد

لائبریرین
اخوند صاحب کا اعلانِ جہاد​
1863ء میں اخوند صاحبِ سوات (سیدوبابا) نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔ کونڑ،باجوڑ،دیر، جندول،بونیر اور سوات کے لشکر اخون صاحب کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے اور انگریزوں پر حملہ کردیا گیا۔ انگریزوں نے بونیر پر لشکر کشی کی۔ بونیر میں امبیلہ کے مقام پر انگریزی فوج اور مجاہدین کے لشکر کے درمیان خون ریزجنگ ہوئی۔ جنگ کے بعد انگریز امبیلہ سے واپس چلے گئے۔ یہ جنگ امبیلہ کمپین 1863ء کے نام سے مشہور ہے۔
 

سندباد

لائبریرین
اخوند صاحبِ سوات کے حالاتِ زندگی​
حضرت اخوند صاحب سوات کا اصلی نام عبدالغفور اور والد کا نام عبدالواحد تھا۔ آپ کا سلسلۂ نسب مہمندوں کے قبیلہ صافی سے جاملتا ہے۔ آپ علاقہ شامیزئ (سوات) کے موضع جبڑئ میں 1794ء کو پیدا ہوئے۔ بچپن ہی سے حصولِ علم کا شوق اور زہد و تقویٰ سے رغبت رہی۔ تعلیم کے ابتدائی مدارج طے کرنے کے بعدآپ گھر سے نکل کرگوجر گڑھی (ضلع مردان) میں اس وقت کے مشہور عالم دین مولانا عبدالحکیم سے حصولِ تعلیم کرتے رہے۔ کچھ عرصہ آپ نے چمکنی(پشاور) اور زیارت کاکا صاحب (نوشہرہ) میں گزارا۔ پھر پشاور میں حضرت جی صاحب کی صحبت سے فیض یاب ہوئے اور آخرمیں طور ڈھیری (ضلع مردان) میں کچھ عرصہ مولانا محمد شعیب کی خدمت میں گزارا۔ ان کی وفات کے بعد 1816ء میں آپ نے دریائے سندھ کے کنارے موضع بیکی میں قیام کیا اور وہیں عبادت میں مشغول رہے۔ 1828ء میں بیکی سے نکل کرنمل اور پھر موضع سلیم خان پہنچے۔ جہاں انہیں پہلی بار اخوند پکارے جانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ سکھوں اور درانیوں کی جنگ میں آپ نے دوست محمد خان فرمان روائے افغانستان کا ساتھ دیا۔ اس طرح اپنی عمر کے چوبیس سال گزارنے کے بعد ستمبر 1835ء میں وہ اپنے وطن کو واپس لوٹ آئے۔ پہلے پہل انہوں نے علاقہ ملوچ (سوات) کی ایک مسجدمیں قیام کیا۔ وہاں سے موضع رنگیلا منتقل ہوئے۔پھر سوات کے اوڈی گرام نامی تاریخی گاؤں کے قریب غازی بابا(پیر خوشحال) کے مزار میں قیام پذیر رہے اور بعدازاں مرغزار کی خوب صورت وادی کی راہ لی۔ وہاں سے مرغزارکے قریب سپل بانڈی نامی گاؤںمیں مقیم ہوگئے۔ وہاں شادی کی اور 1845 میں اس جگہ سے نکل کر سیدو میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ جو اس وقت صرف سیدو کے نام سے پہچانا جاتا تھا لیکن ان کے مستقل قیام کی وجہ سے سیدو، سیدو شریف کہلانے لگا۔ سیدومیںمقیم ہو جانے کے بعد آپ نے مخلوقِ خدا کی فلاح وبہبود کی طرف توجہ دی۔آپ نے 12 جنوری1877ء میں داعئ اجل کو لبیک کہا۔ آپ کوسیدو شریف میں سپردِ خاک کیا گیا۔ جہاں ایک بڑی مسجد میں آپ کا عالی شان مزار عوام و خواص کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ آپ کے مزار پر دور درازکے علاقوں سے آنے والے ہزاروں زائرین کا تانتا بندھا رہتا ہے۔
 

سندباد

لائبریرین
اخوند صاحب کے بعد​
اخوند صاحب(سیدو بابا) کی وفات کے بعدان کے دونوں بیٹے عبدالمنان اور عبدالخالق ایک جنگ کے سلسلہ میں نوابِ دیر کے ساتھ موضع تالاش میں مقیم تھے۔ وفات کی خبر ملتے ہی عبدالمنان واپس لوٹ آئے لیکن عبدالخالق کو بروقت اطلاع نہ مل سکی۔ جلدی میں وہاں سے نکل کر عبدالمنان نے حصولِ اقتدار کی کوشش کی۔ اگرچہ انہیں یہ اقتدارحکمران کی حیثیت سے نہ مل سکا لیکن اس نے اپنے گرد طاقت جمع کرلی اور ایک قائد یا سردار کی حیثیت سے زندگی بسر کرنے لگا۔ اس کے برعکس عبدالخالق نے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چل کر عوام کے دلوں پر قبضہ کرلیا۔ علاقہ بھر میں شریعتِ اسلامیہ کے نفاذ کے سلسلہ میں دورے شروع کئے۔ بڑی تعدادمیںمرید اور شیوخ ان کے گرد جمع ہوگئے۔ اس طرح انہیں مذہبی اقتدار حاصل ہوگیا۔ حضرت اخوند کی وفات کے کوئی دس سال بعد ان کے بڑے بیٹے عبدالمنان وفات پا گئے۔ 1892ء میں پینتیس سال کی عمر میں عبدالخالق بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
 

سندباد

لائبریرین
میاں گل عبدالودود کا ظہور​
حضرت اخوندکے بیٹے میاں گل عبدالخالق کی وفات پر ان کے دوکم سن بیٹے رہ گئے تھے۔ بڑے بیٹے میاں گل عبدالودود کی عمر دس سال تھی جبکہ چھوٹا بیٹا میاں گل شیرین جان بہت کم عمر تھا۔ ان دونوں کو ہی باپ کا جانشین تسلیم کرلیا گیا۔ وہ سجادہ نشین کی حیثیت سے دکھائی دینے لگے۔ اس طرح گویا بچپن ہی سے انہیں مذہبی اقتدار حاصل ہوگیا۔ ایک عرصہ تک تو یہ سجادہ نشین اور ان کے دو چچا زاد بھائی یعنی عبدالمنان کے بیٹے آپس میں اتحاد و اتفاق سے رہے۔ پھر اختلافات نے سراٹھایا ۔ دونوں نے اپنی اپنی جماعتیںمنظم کرنا شروع کیں۔ کش مکش بڑھنے لگی۔ سازشیں شروع ہوئیں، نتیجتاً حالات اس حد تک بگڑ گئے کہ ایک دن جب یہ دو چچا زاد بھائی راستہ میں ایک دوسرے کے سامنے آئے تو ایک بھائی 1904ء میں گولی کا نشانہ بنا اور دوسرا بھائی 1907ء میاں گل عبدالودود کی گولی سے ہلاک ہوا۔
اب دونوں بھائی میاں گل عبدالودود اور میاں گل شیرین جان اتفاق و اتحاد سے رہنے لگے۔ انہوں نے جائداد تقسیم کرلی۔ اس دوران میاں گل عبدالودود فریضۂ حج ادا کرنے چلے گئے۔ واپسی پر دونوں بھائیوں میں بھی اختلافات پیدا ہوا۔ شیرین جان نے سیدو پر حملہ کردیا لیکن شکست کھائی۔ پھر میاں گل عبدالودود نے غالیگی پر حملہ کرتے ہوئے اس پر قبضہ کرلیا۔ بعد ازاں دونوں بھائی چھ ماہ تک قمبر کے مقام پر ایک د وسرے کے خلاف صف آراء رہے
 

سندباد

لائبریرین
سوا ت پر نوابِ دیر کا حملہ​
1908ء میں نوابِ دیر نے سوات پر حملہ کیا۔ دریائے سوات کو پار کرکے سوات کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ یہ جنگ سوات میں مقیم دو قبیلوں نیک پی خیل اور شموزئ میں اختلافات کی بناء پر رونما ہوئی۔ کمزور پارٹی نے نوابِ دیر سے امداد طلب کی تھی جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے لشکر کشی کی اور نیک پی خیل اور شموزئ کے علاقوں پر قابض ہوگیا۔
 

سندباد

لائبریرین
سنڈاکئی ملا
سوات کے باشندوں کو جلد ہی اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ انہوں نے خواہ مخواہ اپنے گھریلو جھگڑے میں نوابِ دیر کو دعوت دے کر خود ہی اپنی غلامی کی تدبیر کی۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ’’سنڈاکئی ملا‘‘ نامی شخص، جو انگریزوں کے خلاف صف آراء تھا، وہ اہلِ سوات کی مدد پر آمادہ ہوگیا اور یوں 1915ء میں سوات کے قبیلوں نے سنڈاکئی ملا( جو تاریخ میں کوہستان ملاکے نام سے بھی مشہور ہیں) کی سرکردگی میں جلد ہی اپنے تمام مقبوضہ علاقے وا گزار کرالئے۔
 

سندباد

لائبریرین
سید عبدالجبار شاہ کی حکومت​
آئے دن کے لڑائی جھگڑوں اور نوابِ دیر کی فوجوں کی لوٹ مار سے تنگ آکر خوانین سوات مختلف قبائل کو ایک ریاست کی شکل دینے پر متفق ہو گئے۔ قبائلِ سوات کو متحد کرنے میں سنڈاکئی ملا صاحب نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ سنڈاکئی ملا ایک عالِم باعمل تھے۔ دیوبند کے فارغ التحصیل تھے اور انگریزوں کے خلاف جہاد کا جذبہ دل میں رکھتے تھے اور اسی مقصد کے پیشِ نظر ایک قبائلی منظم ریاست کے قیام کے لئے کوشاں تھے تاکہ انگریزوں کے خلاف مؤثر طور پر جہاد جاری رکھا جا سکے۔ ریاست کی سربراہی کے لئے حضرت پیر بابا کی اولاد سے سید عبدالجبار شاہ کا نام تجویز کیا گیا جو ریاستِ امب سے متصل ستھانہ کے رہنے والے تھے۔ اپنی علمی قابلیت اور نوابِ امب سے قریبی روابط رکھنے کی بناء پر ریاستِ امب کے وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے تھے۔ معززین سوات کے ایک وفد نے جاکر انہیں سوات آنے کی دعوت دی جوانہوں نے قبول کرلی اور سوات آکر بحیثیتِ حکمران اپنے فرائض کا آغازکیا۔موضع کبل علاقہ نیک پی خیل کو اپنا دارالخلافہ بنایا۔ عشر وصول کرنے کا طریقہ رائج کیا۔ عشرکی آمدنی سے گھوڑے اور اسلحہ خریدااور رضا کاروں کے علاوہ کچھ تنخواہ دار فوج کا اہتمام بھی کیا گیا۔ لوگوں کے مقدمات نبٹانے کے لئے قاضی کورٹس قائم کئے اور ایک قلیل عرصہ کے دوران قبائل کو ایک منظم ریاست کی شکل دے دی۔
سنڈاکئی ملاکو اس ریاست کا قاضی القضاۃ بنایا گیا ۔ جب انہوں نے اپنا عہدہ سنبھالا تو اسی سال انگریزو ں کے خلاف جہاد کا اعلان کردیا۔ سوات،بونیر وغیرہ کے قبیلوں نے ان کے اعلان پر لبیک کہا اور سب ان کے ساتھ جہاد میں شریک ہو گئے۔ مجاہدین نے چک درہ اور ملاکنڈ پر حملہ کیا۔ صوبہ سرحد کے چیف کمشنر روس کیپل اپنی فوج کے ساتھ مجاہدین کے لشکر کے مقابلہ کے لئے خود ملاکنڈ گیا۔ مجاہدین نے جواں مردی سے انگریزی فوج کا مقابلہ کیا لیکن آخر میں رسد کی کمی کی وجہ سے پسپا ہو گئے اور روس کیپل نے سوات کے قبیلوں کی ناکہ بندی کردی۔
1916ء میں نوابِ دیر نے انگریزوں کے ایماء پر سوات پر حملہ کیا۔ دریائے سوات کو پار کرتے ہوئے سوات کا بہت سا علاقہ قبضہ کرلیا لیکن آخر میں سید عبدالجبار شاہ نے دیر کے نواب کو بزورِ شمشیر مغلوب کیا۔
دو سال حکمرانی کے بعد سید عبدالجبار شاہ کے بارے میں یہ افواہ پھیلی کہ وہ قادیانی مسلک کے پیروکار ہیں۔ تحقیق حال کے لئے سنڈاکئی ملا کی سرکردگی میں علماء کا ایک وفد ان سے ملا۔ انہوں نے قادیانی مسلک کے پیروکار ہونے کا اعتراف کیا۔ چنانچہ علماء کے وفد کے ارکان نے خوانینِ سوات کا جرگہ طلب کیا اور انہیں صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ جرگہ نے متفقہ طور پر انہیں معزول کرنے اور سوات چھوڑنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے کسی لیت و لعل کے بغیر جرگہ کا فیصلہ تسلیم کرلیا اور انہیں نہایت احترام سے ستھانہ واپس پہنچا دیا گیا۔
 

سندباد

لائبریرین
گل شہزادہ عبدالودود
بحیثیتِ حکمرانِ سوات​
اس وقت حالات یہ تھے کہ ایک طرف نوابِ دیر ہر وقت جنگ و جدل کے لئے تیار نظر آتا تھا اور دوسری جانب انگریز قبائلی علاقہ میں کسی منظم ریاست کے قیام کا روادارنہ تھا۔ اس کے ساتھ ہی ریاستِ امب کا حکمران بھی یہ برداشت نہ کر سکتا تھا کہ اس کے پہلو میں کوئی جدید ریاست جنم لے۔اندرونِ ملک کی حالت بھی کسی طرح اطمینان بخش نہ تھی۔رسد ورسائل کے ذرائع مفقود تھے اورباہر کی دُنیا سے رابطہ کٹا ہوا تھا۔ سب سے زیادہ مایوس کن بات یہ تھی کہ عام لوگوں میں قبائلی دور کی باغیانہ خصلت موجود تھی اور ان کی وفاداری پر مکمل بھروسہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ان حالات میں حقیقتاً حکومت کا تاج ایسے کانٹوں کا تاج تھا جس کے قیام و بقا کی کوئی ضمانت نہ تھی۔ لیکن اس دور 1917ء میں اُمید کی کرن صرف ایک تھی ۔ یعنی عام لوگ، علماء اور اولیائے کرام سے بہت عقیدت اور محبت رکھتے تھے ۔میاں گل عبدالودود جو اس دور کے مشہور پیر اخوند عبدالغفور (سیدو بابا) کے پوتے تھے، لہٰذا نئے حکمرانِ سوات کے سلسلے میں عمائدینِ سوات نے ایک جرگہ بُلا لیا۔ جس نے علماء کے مشورہ سے گل شہزادہ عبدالودود کے نام پر اتفاق کیا۔ اُن کے نام کے انتخاب میں سنڈاکئی ملا صاحب نے اہم کردار ادا کیا۔ گل شہزادہ عبدالودود ان دنوں چک درہ کے قریب موضع دربار میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ خوانینِ سوات نے ایک وفد ان سے ملاقات کے لئے بھیجا اور جرگہ کے متفقہ فیصلے سے انہیں آگاہ کیا۔ گل شہزادہ عبدالودود نے سیدو شریف آکر بحیثیتِ سربراہِ ریاست اپنا منصب سنبھال لیا۔ ذاتی طور پر میاں گل عبدالودود (المعروف بادشاہ صاحب) بہت خوبیوں کے مالک تھے۔ چوں کہ قبائلی سیاست میں وہ ایک اہم فریق کی حیثیت سے حصہ لیتے رہے تھے اور متعدد قبائلی جنگوں میں اپنے حلیفوں کے شانہ بشانہ لڑ چکے تھے، لہٰذا قبائلی سیاست کے خوب ماہر تھے۔ غیر معمولی قوتِ ارادی کے مالک جرات مند اور نڈر تھے۔ خود اعتمادی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اخلاقی لحاظ سے مضبوط کردار کے مالک تھے۔ نہ صرف نماز، روزہ کے پابند تھے بلکہ تہجد گزار بھی تھے۔کثرت سے نفلی روزہ رکھتے تھے۔
دستار بندی کے بعد انہوں نے ریاست کے نظم و نسق اور امن و امان کی طرف توجہ مبذول کی۔ نظم و نسق کی ذمے داری انہوں نے اپنے جان نثار دوست حضرت علی خان کے سپرد کردی اور انہیں اپنا وزیر بنایا۔ معمولی تعلیم کے باوجود حضرت علی خان بڑے ذہین اور مُدبّر انسان تھے۔ خوانینِ سوات سے معاملات طے کرنے میں ان کی عزت و احترام کا بہت خیال رکھتے تھے اور اپنی کامیاب ڈپلومیسی سے تھوڑے عرصہ میں بادشاہ صاحب کے خلاف مزاحمتی قوتوں کا قلع قمع کردیا۔ چوروں اور ڈاکوؤں کے لئے قتل کی سزا تھی اور تھوڑے عرصہ میں مکمل امن و امان قائم ہوگیا۔ بعد میں بادشاہ صاحب نے اپنی صاحب زادی ان کے عقد میں دے دی۔ حضرت علی خان کی طرح ان کے چھوٹے بھائی احمد علی خان بادشاہ صاحب کے بڑے وفادار تھے۔ ان کی دیرینہ خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں ریاستی فوج کا سربراہ مقرر کردیا گیا۔ ریاستی فوج اور خوانین کے رضا کاروں کی مدد سے احمد علی خان نے ریاستی حدود میں بڑی توسیع کی۔
بادشاہ صاحب کی حکومت کے ابتدائی ایام1918) ئ)میں نوابِ دیر نے حسبِ سابق علاقہ نیک پی خیل پر حملہ کردیا۔ بادشاہ صاحب نے دیر کے لشکر کے مقابلہ کے لئے اپنے بھائی میاں گل شیرین شہزادہ کو بھیجا۔ شیرین شہزادہ نے دیر کے لشکر پر بڑی بہادری سے حملہ کیا لیکن خود قتل ہو گئے۔ شیرین شہزادہ کے شہید ہونے کے بعد سوات اورباجوڑ کے لوگوں کا غصہ نوابِ دیر کے خلاف حد سے زیادہ بڑھ گیا اور وہ سوات کے لشکر میں جوق در جوق شامل ہونے لگے۔
1919ء میں نوابِ دیر کے لشکر کو بادشاہ صاحب نے سخت شکست دی اور ریاستِ دیر کے علاقہ ادینزئی کے نصف حصہ پر قبضہ کرلیا۔ یہ بادشاہ صاحب کی اولین شاندار کامیابی تھی جس نے اس علاقہ پر ان کا سکہ بٹھا دیا۔
1921ء میں ایک دفعہ پھر خطرات کے بادل اُمنڈ آئے تو جدید ریاست کو ایک مشکل ترین دور سے گزرنا پڑا۔ ریاست کے اندر چند قبائل نے بغاوت کردی۔ دوسری طرف علاقہ بونیر میں نواب امب نے گوکند کے مقام پر حملہ کردیا۔ کوہستان کے لشکر نے نوابِ دیر کے ایماء پر مدین کے مقام پر اجتماع کیا۔ خود امب کا لشکر کوہِ کڑاکڑ تک پہنچ گیا اور دیر کے جس علاقہ ادین زئی پر سوات کے لشکر نے قبضہ کیا تھا، اس میں بھی بغاوت کے آثار نمودار ہونے لگے۔ نوابِ دیر کو انگریز کی حمایت حاصل تھی۔ اس طرح گویا بہ یک وقت بادشاہ صاحب کی حکومت سخت مشکلات میں گھر گئی۔ لیکن بادشاہ صاحب نے ہمت نہ ہاری۔ بڑی جواں مردی سے تمام محاذوں پر توجہ دی اور اپنی عقل اور تدبر سے کام لیتے ہوئے مسلسل پانچ ماہ تک جنگ و جدل میں مصروف رہنے کے بعد انہوں نے مشکلات پر قابو پا لیا اور تمام محاذوں پر اُنہیں کامیابی نصیب ہوئی۔
 

سندباد

لائبریرین
انگریز کی مداخلت​
سوات کے لشکر نے ادین زئی کے نصف علاقہ پر قبضہ کرلیا تھا۔ نوابِ دیر جب طاقت سے اس پر دوبارہ قبضہ نہ کر سکا تو اس نے انگریز کی طرف دیکھنا شروع کیا۔ حکومت انگلیشیہ سے اس کے تعلقات خوش گوار تھے، اس وجہ سے انگریز نے حکمرانِ سوات بادشاہ صاحب سے مشورہ کئے بغیر ، نوابِ دیر سے وعدہ کیا کہ وہ ادین زئی کا علاقہ اُسے واپس دلا دے گا اور یہ شرط لگا دی کہ آئندہ جب تک نوابِ دیر کو حکمرانِ سوات بادشاہ صاحب کے مقابل دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہو جائے وہ سوات پر لشکر کشی نہیں کرے گا۔ ساتھ ہی یہ شرط بھی عائد کردی کہ ایسی حالت میںبھی نوابِ دیر کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ حملہ کرنے سے قبل پولیٹیکل ایجنٹ سے اجازت حاصل کرے گا۔
بادشاہ صاحب پر جب یہ حقیقت کھلی اور پولیٹیکل ایجنٹ نے اُسے مذکورہ معاہدہ یا اقرار نامہ کی اطلاع دی تو وہ بے بس نظر آنے لگے۔ ان کے پاس اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ بہ یک وقت دیر اورانگریز کی مشترکہ طاقت کا مقابلہ کرتے۔ پھر ایسی حالت میں کہ سوات کے باشندے اپنی ضروریاتِ زندگی کے لئے انگریزی علاقہ کے دست نگر تھے۔ انہوں نے خاموشی سے سر تسلیم خم کردیا اور علاقہ ادین زئی جو حقیقت میں ریاستِ دیر کا ہی حصہ تھا، کو واپس کرنے کا اقرار کرلیا۔ اس طرح یہ علاقہ 1922ء میں نوابِ دیر کے سپرد کردیا گیا۔
 

سندباد

لائبریرین
ریاست میں توسیع و استحکام​
1923ء میں میاں گل عبدالودود(بادشاہ صاحب) نے بونیر، بحرین اور چکیسر پر قبضہ کرلیا اور مفتوحہ علاقوں کی تنظیم نو کی اور ہر طرف مکمل طور پر امن و امان قائم کیااور اسی سال(1923ء ) میں بادشاہ صاحب نے اپنے فرزند میاں گل محمد عبدالحق جہان زیب کو اپنا ولی عہد مقرر کردیا۔
مارچ 1926ء میں حکومت انگلیشیہ نے بادشاہ صاحب میاں گل عبدالودود کو والئی سوات تسلیم کیا۔ 3 مئی 1926ء کو چیف کمشنر صوبہ سرحد نے سیدو میں ایکبڑی تقریب منعقد کیجس میں بادشاہ صاحب میاں گل عبدالودود گل شہزادہ کے فرمان روائے سوات ہونے کا اعلان کیااور ان کا دس ہزار روپے سالانہ الاؤنس مقرر کیا۔ بادشاہ صاحب نے حلف وفاداری کی رسم ادا کی۔
اکتوبر 1926ء میں وائسرائے ہند نے ملاکنڈ ایجنسی کا دورہ کیا تو پہلی بار والئی سوات کو اس سے ملاقات کرنے کا موقع ملا۔ یکم جنوری 1930ء کو حکومتِ انگلیشیہ نے بانئی ریاستِ سوات میاں گل عبدالودود کو کے ۔بی۔ ای کا خطاب دیا اور اسی سال اپریل میں وائسرائے ہند نے سوات میں سیدو شریف کے مقام پر ایک تقریب میں اس اعزاز کی سند یا تمغہ میاں گل عبدالودود کو عطا کیا۔ اس موقع پر حکمران کے لقب کا مسئلہ درپیش ہوا تو میاں گل نے صاف الفاظ میں واضح کیا کہ قوم اسے’’بادشاہ‘‘ کا خطاب دے چکی ہے۔ اس وجہ سے وہ کوئی ایسا لقب پسند نہیں کر سکتے جو اس مذکورہ خطاب کے وقار پر اثر انداز ہو سکے۔ انگریزبادشاہ ہزمجسٹی کا خطاب اپنے آئین کے تحت تو دے نہ سکتا تھا۔ البتہ لفظی تغیر و تبدل سے بادشاہ کی بجائے رولر(Ruler) یعنی حکمران یا والی کا لقب تجویز ہوا ۔ چنانچہ سرکاری کاغذات اور عام بول چال میں بادشاہ صاحب ’’والئی سوات‘‘ پکارے جانے لگے۔
بانئی ریاستِ سوات مستقبل کی فکر میں اپنا ولی عہد مقرر کر چکے تھے۔ حکومتِ انگلیشیہ سرکاری حیثیت میں اسے تسلیم کرنے سے پہلو تہی کر رہی تھی اور 1926ء میں ریاست کو تسلیم کرنے کے باوجود ولی عہد کو تسلیم نہ کیا گیا تھا۔ لیکن بانئی ریاستِ سوات اپنی سعی میں لگا رہا اور بالاآخر کامیاب ہوا تو 15 مئی 1933ء میں گورنر صوبہ سرحد کے نمائندہ کی حیثیت سے پولیٹیکل ایجنٹ ملاکنڈ نے سیدو شریف میں ایک تقریب کا اہتمام کیا اور اس میں شہزادہ محمد عبدالحق جہانزیب کو ولی عہد تسلیم کرنے کا باقاعدہ اعلان کیاگیا۔
1926ء میں انگریز کے اس ریاست کو تسلیم کرلینے کے بعد بادشاہ صاحب کو جب یہ اطمینان ہو گیا کہ اب اس ریاست پر دیر یا امب کی طرف سے حملہ نہیں ہو سکتا تو انہوں نے ریاست کو امن اور مزید وسعت دینے کی کوشش کی۔ چنانچہ کوہستان کی طرف اقدام ہوا اور شدید لڑائی کے بعد کوہستان کو ریاستِ سوات کی حدود میں شامل کرلیا گیا۔
1931ء میں ریاستِ سوات میں صدیوں سے رائج تقسیم اراضیات(ویش) کا جو دستور چلا آرہا تھا، اُسے یک دم موقوف کردیا گیا۔ ریاستِ سوات کی سرزمین پر جہاں جہاں بھی لوگ قابض تھے، ان کو ان اراضی کا مالک تصور کیا گیا۔
1947ء میں واد[L:4 R:183] کالام کے باشندوں نے سوات کی روز افزوں ترقی کو دیکھتے ہوئے الحاق کی درخواست کی تو یہ علاقہ بھی ریاست میں شامل کردیا گیا لیکن حکومت پاکستان نے اُسے ریاست سوات میں شامل کرنے کی بجائے اسے قبائلی علاقہ کا درجہ دے دیا اور اس کے نظم و نسق کی نگرانی کے لئے والئی سوات کو اس کا نگران مقرر کردیا۔
1947ء ہی میں پاکستان بننے کے بعد ریاستِ سوات کا پاکستان سے الحاق کردیا گیا۔ پاکستانی ریاستوں کے مرکز پاکستان سے الحاق کے سلسلہ میں ریاستِ سوات کو اولیت کا فخر حاصل رہا اور اعلانِ الحاق کے ساتھ والئی سوات نے اس وظیفہ سے بھی، جو کہ انگریز کے وقت سے مل رہا تھا، دست برداری کا اعلان کردیا اور ساتھ ہی ایک لڑاکا ہوائی جہاز بھی خرید کر حکومتِ پاکستان کی نذر کیا۔
 

سندباد

لائبریرین
بانئی سوات میاں گل عبدالودود
کی خدمات​

بانئی ریاستِ سوات میاں گل عبدالودود(المعروف بادشاہ صاحب) اپنے وقت کے کامیاب ترین حکمران ثابت ہوئے۔ انہوں نے صدیوں کے غیر منظم ، غیر تعلیم یافتہ اور کسی کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنے والی قوم کو اتحاد وتنظیم کا سبق پڑھایا۔ ان کی اپنی ریاست قائم کی۔ پشتو کو سرکاری زبان کی حیثیت دی۔ ملک کو تعمیر و ترقی کے راستہ پر گامزن کیا۔ ریاست کے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کیں ۔ ان کے تعلیم و صحت کا انتظام کیا اور ریاستِ سوات کو تاریخ کے اوراق میں ایسا مقام دلایا کہ دوسری کوئی ہم عصر ریاست اس کا مقابلہ نہ کر سکی۔ پھر اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ سب کا مرانی اور کامیابی، دُور اندیشی ، تدبر اور نظم و نسق اس شخص نے قائم کیا جو جدید تعلیم کا تو ذکر ہی کیا قدیم تعلیم سے بھی بہرہ ور نہ تھا اور جسے اپنے ذاتی خطوط اور کاروبارِ مملکت چلانے کے سلسلے میں بھی دوسرے لکھنے والوں پر بھروسہ کرنا پڑتا تھا۔ اپنی مصروف اور جنگ و جدل سے بھرپور زندگی میں وہ خود تو تعلیم حاصل نہ کر سکے لیکن اپنے خاندان اور قوم کو اس نعمت سے محروم نہ رہنے دیا۔ اپنی اولاد کو تعلیم دلائی اور قوم کے لئے ریاست میں مدرسوں کا جال بچھا دیا اور وہ سب کچھ کردکھایا جو دورِ حاضرکا کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ حکمران ہی کر سکتا ہے۔ تعلیم کی تشنگی کو وہ خود بھی محسوس کرتے رہے اور جب حکومت سے دست بردار ہوئے تو انہوں نے اپنی اولین فرصت میں تعلیم کی طرف توجہ دی چنانچہ خود تریسٹھ سال کی عمر میں تعلیم حاصل کرنا شروع کی تھی۔
ریاستِ سوات کے قیام و ترقی میں بادشاہ صاحب کی ہمت و استقلال اور جرات و دلیری کے ساتھ عقل و تدبر نے کارہائے نمایاں کردکھائے۔ انہوں نے جس طرف کا رُخ کرنا چاہا ،پہلے اس علاقہ میں اپنے طرف دار پیدا کئے۔ اس طرح جس علاقہ کو اس نے ریاست میں شامل کیا ، وہیں کے افراد کو اچھے عہدے دیئے اور جب اس علاقہ کے افراد کبھی ریاست کے مرکزی مقام سیدو شریف آتے تو وہ ان سے بڑی محبت اور شفقت سے پیش آتے۔
انہوں نے ریاست میں عدالتیں قائم کیں، فوج اور پولیس کا انتظام کیا، ڈاک خانوں کا اجراء ہوا، تجارت کی طرف توجہ دی گئی اور علاقہ سے جاہلانہ رسوم اور دشمنیوں کا خاتمہ کردیا۔
 

سندباد

لائبریرین
میاں گل جہانزیب بحیثیتِ والئی سوات​
ایک طویل عرصہ کے تگ و دو کے بعد جب ایک مستقل اور پائیدار ریاست ترقی کی جانب گامزن نظر آنے لگی تو تریسٹھ سال کی عمر میں بانئی ریاست میاں گل عبدالودود بادشاہ صاحب نے خود حکومت سے دست بردار ہونے کا فیصلہ کیا اور عنانِ سلطنت شہزادہ محمد عبدالحق جہانزیب کو سونپ دیئے۔12 دسمبر 1949ء کو خان لیاقت علی خان، وزیر اعظم پاکستان نے مع اپنی بیگم رعنا لیاقت علی خان، سیدو شریف تشریف لاکر ایک پروقار تقریب میں ولی عہد جہانزیب خان کے والئی سوات ہونے کاباقاعدہ اعلان کیا۔ خان لیاقت علی خان نے اپنی تقریر میں کہا۔
’’گل شہزادہ عبدالودود والئی سوات نے حکومت پاکستان سے درخواست کی تھی کہ بڑھاپے کی وجہ سے میں اُمور ریاست بہتر طور پر نہیں چلا سکتے، لہٰذا میری جگہ میرے ولی عہد جہان زیب کو والئی سوات مقرر کیا جائے۔ حکومتِ پاکستان نے ان کی درخواست منظور کی اور ان کی مرضی کے مطابق میاں گل جہانزیب کو والئی سوات مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ آج کے بعد میاں گل جہانزیب کو بحیثیت والئی سوات اختیارات حاصل ہوںگے۔‘‘
رسمی طور پر بادشاہ صاحب نے اپنی ٹوپی اتار کر ان کے سرپر رکھ دی اور بحیثیتِ والئی سوات معززینِ سوات نے انہیں مبارک باد پیش کی اور یوں یہ تقریب اختتام کو پہنچی۔
بادشاہ صاحب نے والئی سوات جہان زیب کو اختیاراتِ حکومت ایسے ماحول میں سپرد کردیئے جب ریاست میں مکمل امن و امان تھا۔ سرکش قوتیں دم توڑ چکی تھیں، بادشاہ صاحب نے خوانینِ سوات کی عزت کا خیال رکھتے ہوئے نہایت حکیمانہ طریقے سے ان کا خوش دلانہ تعاون حاصل کیا تھا۔ خوش دلانہ تعاون کا اس سے بڑھ کر اور ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ بادشاہ صاحب کی اپیل پر انہوں نے اپنا سارا ذاتی اسلحہ بادشاہ صاحب کے حوالہ کردیا تھا۔ بادشاہ صاحب نے اپنے زیر نگرانی میاں گل جہان زیب کو، جب وہ ولی عہد تھے، کاروبار حکومت کی تربیت دے دی تھی۔خوانین سوات اور دوسرے بااثر لوگوں سے انہیں فرداً فرداً متعارف کرایا۔ جن لوگوں نے ریاست کی تشکیل میں اہم حصہ لیا تھا، ان کی نشان دہی کی اور جن لوگوں نے مخالفت کی تھی، ان سے بھی آگاہ کیا اور آئندہ کے لئے مناسب طرزِ عمل اختیار کرنے کی خاص ہدایات دیں۔ گویا گھوڑے پر سازوسامان ڈال کر انہیں اس پر بٹھا دیا اور باگیں انہیں تھما دیں۔ مگر افسوس والئی سوات بادشاہ صاحب جیسے اوصاف اپنے اندر پیدا نہ کر سکا۔ بعض خوبیوں کے باوجود وہ نہ تو ان کی طرح مضبوط کردار کا مظاہرہ کر سکا، نہ ان کی طرح مضبوط قوتِ ارادی کا مالک ثابت ہوا اور نہ ہی غیر معمولی طور پر خود اعتمادی سے متصف تھا۔ شک مزاجی کی وجہ سے ریاست میں ہر اس شخص کو اپنے اقتدار کے لئے خطرہ سمجھتا تھا جو ان کی خواہش اور مرضی کے برعکس انہیں مشورے دیتا اور اپنی قابلیت اور صلاحیت کی بدولت ریاست میں نمایاں ہونے کی کوشش کرتا۔ یہی وجہ تھی کہ والئی سوات کی ان کمزوریوں سے بعض اوقات چُغل خور، خوشامدی اور خود ساختہ جاسوس فائدہ اُٹھاتے اور وہ ان کو مخلص لوگوں سے بد ظن کرتے۔
بادشاہ صاحب کی حیثیت ایک قائد کی تھی،جبکہ والئی سوات کی مثال ایک بیوروکریٹ کی سی تھی، ریاست کے اندرونی معاملات کے لئے ان کی پالیسی Divide and Rule کی آئینہ دار تھی۔ جب کہ پاکستان کے حکمرانوں کی کمزوریوں سے بھی وہ واقف تھے اور انہیں رام کرنا ان کے لئے کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ ہر شخص کی قیمت معلوم تھی۔ آج کل کی طرح گرانی نہ تھی کہ اب کروڑوں میں سودا طے پاتا ہے۔ وہ زمانہ ارزانی کا تھا،ہزاروں میں معاملات طے ہوتے تھے اور شاذ و نادر ہی لاکھوں تک بات پہنچتی تھی۔ ان کمزوریوں کے باوجود والئی سوات ریاست کی تعمیر و ترقی میں دلچسپی لیتے تھے۔ انہوں نے جگہ جگہ سکول قائم کئے تھے۔ سڑکوں کا جال بچھایا تھا۔ عوام کو طبی سہولتوں کی فراہمی کے سلسلے میں ہسپتال بنوائے تھے اور سوات کو ایک جدید اور فلاحی ریاست بنانے کے لئے سرگرمِ عمل تھے۔ اکثر تعمیراتی کاموں کی نگرانی خود کرتے تھے۔ آخری سالوں میں جب ریاست کی کل آمدنی ڈیڑھ کروڑ روپے تھی، اس میں یہ سارے تعمیراتی کام انجام پاتے تھے۔ آج کل صرف میونسپل کمیٹی اور ڈسٹرکٹ کونسل کی آمدنی چار کروڑ روپے کے لگ بھگ ہے لیکن ہمارے سرکاری چوہے یہ رقم اس طرح غائب کردیتے ہیں جس کا پتہ تک نہیں چلتا۔
 

سندباد

لائبریرین
ریاست کی ایڈمنسٹریشن​
نظم و نسق کے لحاظ سے ریاستِ سو ات کو آٹھ یونٹوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ہر یونٹ کو حاکمئی کہا جاتا تھا اور یونٹ کے سربراہ کو حاکم۔ ہر یونٹ دو سے لے کر چھ تحصیلوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ بعض تحصیلوں کی آبادی زیادہ ہوتی تھی۔ لہٰذا ایک تحصیل کو یونٹ کا درجہ حاصل ہوتا تھا مثلاً مٹہ، طوطالئی وغیرہ۔
تحصیل کا سربراہ تحصیلدار کہلاتا تھا اور وہ ایک تحصیل کے متعلق کُل اُمور کا ذمہ دار ہوتا تھا۔ بحیثیتِ مجسٹریٹ مقدمات کا تصفیہ تحصیلدار کرتا تھا اور مُدّعی علیہ کسی وکیل کی وساطت کے بغیر عدالت میں پیش ہو جاتے تھے۔ فریقین کے دلائل سننے کے بعد تحصیلدار اپنی فہم کے مطابق فیصلہ سنا دیتا۔ اگر ایک فریق تحصیلدار کی عدالت سے مطمئن نہ ہوتا تو حاکم کی عدالت میں تحصیلدار کے فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کردیتا تھا اگر وہاں بھی تشفی نہ ہوتی تو وزیر کے پاس اس کے خلاف اپیل دائر کردیتا۔ اگر وزیر بھی اس کو مطمئن نہ کر سکتا تو والئی سوات کی عدالت میں استغاثہ کرتا اور والئی سوات کا فیصلہ حتمی ہوا کرتا تھا۔ کسی عدالت میں بھی اپنا کیس لے جانے پر کسی قسم کا کوئی کورٹ فیس وصول نہیں کیا جاتا تھا اور یہ سب کچھ ہفتوں میں طے پاجاتا۔
اگر علاقہ میں کسی قسم کی واردات کی اطلاع مل جاتی تو تحصیلدار پولیس بھیج کر ملزمان گرفتار کرا لیتا اور معاملہ کی تحقیق کرکے مناسب سزا سناتا۔ موجودہ نظام میں پولیس سے جو عام شکایت کی جاتی ہے یہ صورتِ حال نہ تھی کیونکہ نہ تو پولیس کے پاس رپورٹ درج کرانے کی ضرورت پیش آتی تھی اور نہ پولیس کو تفتیش کے اختیارات حاصل تھے۔ عشر کی وصولی اور گوداموں میں حفاظت سے غلہ رکھنے کی ذمہ داری تحصیلدار کی تھی۔ سڑکوں کی دیکھ بھال اور عوام کے جان و مال اور آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری بھی تحصیلدار کی تھی۔ غرض یہ کہ ایک تحصیلدار کو اپنی تحصیل میں وہی اختیارات حاصل تھے جو والئی سوات کو ریاست میں ۔ البتہ والئی سوات کسی کے سامنے جواب دہ نہ تھا اور تحصیلدار بالا افسروں کے سامنے جواب دہ ہوتا تھا۔ ایک حاکم کو ماتحت تحصیلداروں کی کار گزاری کی نگرانی کے علاوہ اپنی تحصیل میں وہی فرائض انجام دینا پڑتے تھے جو تحصیلدار کو تحصیل میں انجام دینا پڑتے تھے۔
 

سندباد

لائبریرین
قاضی کورٹس​
مرکزی قاضی کورٹ سیدو شریف میں تھی۔ جس کے چار پانچ ممبر ہوا کرتے تھے۔ قاضی کورٹ میں براہِ راست کسی کو اپیل دائر کرنے کا حق حاصل نہ تھا۔ وہ صرف ان مقدمات کی سماعت کر سکتے تھے جو والئی سوات ان کے پاس بھیج دیتے تھے۔ اس سلسلہ میں بھی کورٹ کا قابلِ اعتماد ممبر والئی سوات کے پاس جاکر بالمشافہ ہدایات حاصل کرتا تھا یا بذریعہ فون انہیں خاص ہدایات ملتی تھیں۔
حاکمئی میں قاضی کورٹ کے دو ممبر ہوا کرتے تھے اور تحصیل میں ایک۔ وہاں بھی قاضی صاحبان صرف ان مقدمات کی سماعت کر سکتے تھے جو حاکم یا تحصیلدار ان کے پاس بھیج دیتے تھے۔
 

سندباد

لائبریرین
ریاستِ سوات کا فوجی نظام​
ریاستی فوج دس بارہ ہزار نفری پر مشتمل تھی۔ یہ ایک قسم کا قبائلی لشکر تھا۔ فوجی عہدوں کے لئے کوئی معیار نہ تھا بلکہ والئی سوات کا نظرِ انتخاب سب سے بڑا میرٹ تھا۔ فوج کے اعلیٰ عہدے عام طور پر خوانین یا دوسرے بااثر افراد کے لئے مخصوص تھے۔ عموماً اعلیٰ عہدوں کا انتخاب براہِ راست کسی سابقہ خدمت (فوجی خدمت) کے بغیر کیا جاتا۔ کمانڈر انچیف جسے مقامی اصطلاح میں سپہ سالار کہا جاتاتھا، کی تقرری کے لئے کسی قسم کی تعلیم یا ٹریننگ یا فوج میں سابقہ خدمات کی کوئی ضرورت نہیں سمجھی جاتی تھی بلکہ والئی سوات کی ذاتی پسند اس عہدے کا معیار تھا۔
فوج کے اعلیٰ عہدیدار اور سپاہی سب کے سب اپنے گھروں میں سرکاری اسلحہ سمیت رہتے تھے۔ فوج کے یہ عہدیدار مقامی گروہی سیاست میں والئی سوات کی مرضی کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے حصہ لیتے تھے اور والئی سوات کے ناپسندیدہ افراد پر کڑی نظررکھتے تھے۔ چند اعلیٰ عہدیداروں کے علاوہ باقی افسروں اور سپاہیوں کوتنخواہ عشر جسے پشتو میں برات کہتے تھے، کے اجناس سے ملتی تھیں۔ اجناس، گندم اور جوار کی صورت میں فصل خریف اورفصلِ ربیع کے موقعوں پر ملتی تھیں۔ فوج کے سپاہیوں کی کوئی خاص ڈیوٹی نہیں تھی۔ سال بھر میں دس بارہ دن کے لئے کسی قلعہ کی مُرمّت ، دریاکے کناروں پر پُشتوں کی تعمیر یا سڑکوں کی مُرمّت کے لئے نمبروار جایا کرتے تھے۔ باقی اپنے ذاتی کام کاج کرتے تھے۔ فوج سے علاحدگی کے لئے وائی سوات کا عتاب کافی تھا۔
 

سندباد

لائبریرین
ریاست کا مالی نظام​
جنگلات،محصولات، عشر جو کہ کاشت کار طبقے سے لی جاتی تھی۔ انکم ٹیکس جسے حیثیت ٹیکس کہا جاتا تھا تجارت پیشہ برداری سے نہایت معمولی رقم کی شکل میں لیا جاتا تھا اور ریاستی دور کے آخری دس بارہ برس میں زمّرد کی آمدنی ایک معقول ذریعہ تھا۔ مجموعی آمدنی ڈیڑھ کروڑ روپے بنتی تھی جس میں ملازمین کی تنخواہیں،سڑکیں، سکول، ہسپتال وغیرہ جیسے ترقیاتی کام انجام پاتے تھے۔
اس میں شک نہیں ہے کہ محدود آمدنی میں والئی سوات نے بہت سارے ترقیاتی کام انجام دیئے ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ترقیاتی کام ضمیر کی آزادی، تحریر کی آزادی، تقریر کی آزادی اور اجتماع کی آزادی کے نعم البدل نہیں ہو سکتے۔ ریاستی نظام میں یہ تمام آزادیاں مفقود ہوتی ہیں۔

٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
ریاستِ سوات کا پاکستان میں ادغام
اوراہلِ سوات کے احساسات​


1969ء میں پاکستان کی دیگر ریاستوں کی طرح ریاستِ سوات بھی پاکستان میں ایک ضلع کی حیثیت سے مدغم کی گئی اور پہلی دفعہ سوات میں ڈپٹی کمشنر اور ضلعی انتظامیہ پر مشتمل دیگر سرکاری اہلِ کاروں کی تعیناتی عمل میں لائی گئی۔
ریاست کا پاکستان میں ادغام کے بعد عام لوگوں کاخیال تھاکہ اب سوات ایک ضلع کے طور پر تیز رفتار ترقی کرکے ایک نئے دور میں داخل ہوگا اور نہ صرف یہاں کے گونا گوں مسائل حل ہوں گے بلکہ عوام کو ریاستی دور سے بھی بڑھ کر امن و امان حاصل ہوگا۔ لیکن ادغام کے بعد یہاں کے مسائل کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گئے اور اہلِ سوات پر ایسا غیر منصفانہ نظام مسلط کر دیا گیا جس میں عوامی زندگی پہلے سے حاصل شدہ خوشیوں سے بھی محروم ہو گئی۔
ریاستی دور میں شخصی نظامِ حکومت کی معروف خرابیوں کے باوجود لوگ سوات کو سواتیوں کے لئے سمجھتے تھے اور خود کو ایک آزاد اور خود مختار ملک کے شہری سمجھتے تھے کیونکہ حکومتی مشینری کے تمام عہدیدار اور اہل کار شناسا چہرے تھے۔ ان کا برتاؤ لوگوں سے شریفانہ اور اپنائیت کا مظہر تھا لیکن ریاست کے صوبہ میں ادغام کے بعد لوگوں کو زمین و آسمان بدلتے ہوئے محسوس ہونے لگے۔ گویاانہیں کسی نوآبادیاتی نظام سے واسطہ پڑگیا ہو اوروہ اپنے علاقہ میں اپنے آپ کو اجنبی سمجھنے لگے ۔کیونکہ انسانیت وعزت کا ناپ تول صرف دولت ہی سے ہے۔ دراصل سوات کے لوگوں کے لئے یہ ایک قسم کا جنریش گیپ ہے کیونکہ سوات کے لوگ خود بھی سیدھے سادے تھے اور پچاس سال سے ان کا واسطہ بھی ایک سیدھے سادے اور مانوس نظام سے چلا آرہا تھا لیکن پیشگی طور پر ان کی ذہنی تیاری کے بغیر اچانک انہیں ایک ایسے نظام سے دوچار ہونا پڑا جو ان کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ قدم قدم پر ان کی عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچتی ہے اور ان کے مسائل حل ہونے کی بجائے روز بروز پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں ان کی پریشانی ایک قدرتی امر ہے۔
پاکستان میں حقیقی معنوں میں اگر جمہوریت ہوتی ، دیانتدار، مُحّبِ وطن اور قومی خدمت کے جذبہ سے سرشار لوگ برسرِاقتدار ہوتے تو پھر یہاں کے عوام اس قدر بے چین نہ ہوتے کیونکہ جمہوریت کے مفہوم میں عوام کی فلاح و بہبود اور خوشحالی کے مساوی مواقع فراہم کرنا مضمر ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے باون سالہ دور میں کوئی ایسی قیادت برسرِاقتدار نہیں آئی، جس کے دل میں پاکستانی عوام کے لئے کسی قسم کی خیر خواہی کا جذبہ ہو بلکہ ہر آنے وال کل، گزرے ہوئے کل سے بدتر ہے۔ ہر دور میں برسرِاقتدار گروہ لوٹ مار میں سابقہ حکومتوں کا ریکارڈ توڑنے کی کوشش کرتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ موجودہ نظام سے عوام نالاں ہیں کیونکہ پچاس سال تک ایک سیدھے سادے نظام سے عوام مانوس رہ چکے ہیں۔ لیکن ریاستی دور میں نظام کی سادگی کی طرح عوام بھی سادہ تھے۔ تعلیم کی کمی اور سیاسی شعور کا فقدان تھا۔ ہر سال جو معدودے چند افراد تعلیم سے فارغ ہو جاتے، والئی سوات انہیں کسی نہ کسی محکمہ میں کھپا دیتے تھے اور بیروزگاری کا کوئی مسئلہ درپیش نہ تھا۔ تمام ملازمتیں سواتیوں کے لئے مخصوص تھیں اور ریاست کی خالی آسامیاں ان کے لئے کفالت کرتی تھیں لیکن ریاست کے صوبے میں ادغام کو اکتیس سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ تعلیم یافتہ افراد کی تعداد کہیں بڑھ گئی ہے اور انہیں روزگار نہیں ملتا۔ اس کے علاوہ تعلیم اور سیاسی آزادی کی وجہ سے عوام کا سیاسی شعور بیدار ہو چکا ہے۔ نوجوان سیاسی سرگرمیوںمیں حصہ لیتے رہتے ہیں۔ زندہ باد، مُردہ
باد کے نعروں سے فضا گونجتی رہتی ہے۔ آزادئ تقریر اور جلسے جلوسوں سے لوگ لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔ ایسی صورت میں والئی سوات جیسا ریاستی اُمور کا ماہر حکمران اگر ہوتا تب بھی اس کے لئے ایک ماہ تک نظامِ ریاست چلانا ممکن نہ ہوتا۔ ملاکنڈ ڈویژن بہر حال صوبہ سرحد کا ایک حصہ ہے۔ پورے ملک میں تعمیری انقلاب کے بغیر یہاں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ ملاکنڈ ڈویژن کے لوگوں کو اپنے آپ کو موجودہ نظام سے ایڈجسٹ کرنا ہوگا اور دوسرے پاکستانی بھائیوں کے کندھوں سے کندھا ملا کر تعمیری انقلاب کے لئے اپنی صلاحیتوں اور قوتوں کو کام میں لانا ہوگا۔
زمانہ آگے کی طرف بڑھتا ہے پیچھے کی طرف سفر کرنا مشکل ہوتا ہے مایوس ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔ ہمیں یہ فرسودہ نظام کو جڑ سے اکھیڑنا ہوگا۔ ورنہ ہم مکافاتِ عمل سے ہرگز بچ نہیں سکیں گے۔

٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
کتابیات​
اس کتابچہ کی تالیف و تدوین کے سلسلے میں درج ذیل کتب سے مدد لی گئی ہے۔

(1) یوسف زئے اللہ بخش یوسفی
(2) تاریخِ ریاستِ سوات اللہ بخش یوسفی
(3) دی پٹھان سر اُولف کیرو
(4) اٹک کے اس پار مرتبین: فارغ بخاری، رضا ہمدانی
مضمون:ریاستِ سوات نصر اللہ خان نصر
(5) تاریخِ ریاست سوات آصف خان
(6) تواریخ حافظ رحمت خانی پیر معظم شاہ
(7) سوات تاریخ کے آئینے میں فضلِ ربی راہی

٭٭٭​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top