ریاست میں توسیع و استحکام
1923ء میں میاں گل عبدالودود(بادشاہ صاحب) نے بونیر، بحرین اور چکیسر پر قبضہ کرلیا اور مفتوحہ علاقوں کی تنظیم نو کی اور ہر طرف مکمل طور پر امن و امان قائم کیااور اسی سال(1923ء ) میں بادشاہ صاحب نے اپنے فرزند میاں گل محمد عبدالحق جہان زیب کو اپنا ولی عہد مقرر کردیا۔
مارچ 1926ء میں حکومت انگلیشیہ نے بادشاہ صاحب میاں گل عبدالودود کو والئی سوات تسلیم کیا۔ 3 مئی 1926ء کو چیف کمشنر صوبہ سرحد نے سیدو میں ایکبڑی تقریب منعقد کیجس میں بادشاہ صاحب میاں گل عبدالودود گل شہزادہ کے فرمان روائے سوات ہونے کا اعلان کیااور ان کا دس ہزار روپے سالانہ الاؤنس مقرر کیا۔ بادشاہ صاحب نے حلف وفاداری کی رسم ادا کی۔
اکتوبر 1926ء میں وائسرائے ہند نے ملاکنڈ ایجنسی کا دورہ کیا تو پہلی بار والئی سوات کو اس سے ملاقات کرنے کا موقع ملا۔ یکم جنوری 1930ء کو حکومتِ انگلیشیہ نے بانئی ریاستِ سوات میاں گل عبدالودود کو کے ۔بی۔ ای کا خطاب دیا اور اسی سال اپریل میں وائسرائے ہند نے سوات میں سیدو شریف کے مقام پر ایک تقریب میں اس اعزاز کی سند یا تمغہ میاں گل عبدالودود کو عطا کیا۔ اس موقع پر حکمران کے لقب کا مسئلہ درپیش ہوا تو میاں گل نے صاف الفاظ میں واضح کیا کہ قوم اسے’’بادشاہ‘‘ کا خطاب دے چکی ہے۔ اس وجہ سے وہ کوئی ایسا لقب پسند نہیں کر سکتے جو اس مذکورہ خطاب کے وقار پر اثر انداز ہو سکے۔ انگریزبادشاہ ہزمجسٹی کا خطاب اپنے آئین کے تحت تو دے نہ سکتا تھا۔ البتہ لفظی تغیر و تبدل سے بادشاہ کی بجائے رولر(Ruler) یعنی حکمران یا والی کا لقب تجویز ہوا ۔ چنانچہ سرکاری کاغذات اور عام بول چال میں بادشاہ صاحب ’’والئی سوات‘‘ پکارے جانے لگے۔
بانئی ریاستِ سوات مستقبل کی فکر میں اپنا ولی عہد مقرر کر چکے تھے۔ حکومتِ انگلیشیہ سرکاری حیثیت میں اسے تسلیم کرنے سے پہلو تہی کر رہی تھی اور 1926ء میں ریاست کو تسلیم کرنے کے باوجود ولی عہد کو تسلیم نہ کیا گیا تھا۔ لیکن بانئی ریاستِ سوات اپنی سعی میں لگا رہا اور بالاآخر کامیاب ہوا تو 15 مئی 1933ء میں گورنر صوبہ سرحد کے نمائندہ کی حیثیت سے پولیٹیکل ایجنٹ ملاکنڈ نے سیدو شریف میں ایک تقریب کا اہتمام کیا اور اس میں شہزادہ محمد عبدالحق جہانزیب کو ولی عہد تسلیم کرنے کا باقاعدہ اعلان کیاگیا۔
1926ء میں انگریز کے اس ریاست کو تسلیم کرلینے کے بعد بادشاہ صاحب کو جب یہ اطمینان ہو گیا کہ اب اس ریاست پر دیر یا امب کی طرف سے حملہ نہیں ہو سکتا تو انہوں نے ریاست کو امن اور مزید وسعت دینے کی کوشش کی۔ چنانچہ کوہستان کی طرف اقدام ہوا اور شدید لڑائی کے بعد کوہستان کو ریاستِ سوات کی حدود میں شامل کرلیا گیا۔
1931ء میں ریاستِ سوات میں صدیوں سے رائج تقسیم اراضیات(ویش) کا جو دستور چلا آرہا تھا، اُسے یک دم موقوف کردیا گیا۔ ریاستِ سوات کی سرزمین پر جہاں جہاں بھی لوگ قابض تھے، ان کو ان اراضی کا مالک تصور کیا گیا۔
1947ء میں واد[L:4 R:183] کالام کے باشندوں نے سوات کی روز افزوں ترقی کو دیکھتے ہوئے الحاق کی درخواست کی تو یہ علاقہ بھی ریاست میں شامل کردیا گیا لیکن حکومت پاکستان نے اُسے ریاست سوات میں شامل کرنے کی بجائے اسے قبائلی علاقہ کا درجہ دے دیا اور اس کے نظم و نسق کی نگرانی کے لئے والئی سوات کو اس کا نگران مقرر کردیا۔
1947ء ہی میں پاکستان بننے کے بعد ریاستِ سوات کا پاکستان سے الحاق کردیا گیا۔ پاکستانی ریاستوں کے مرکز پاکستان سے الحاق کے سلسلہ میں ریاستِ سوات کو اولیت کا فخر حاصل رہا اور اعلانِ الحاق کے ساتھ والئی سوات نے اس وظیفہ سے بھی، جو کہ انگریز کے وقت سے مل رہا تھا، دست برداری کا اعلان کردیا اور ساتھ ہی ایک لڑاکا ہوائی جہاز بھی خرید کر حکومتِ پاکستان کی نذر کیا۔