ابن رضا
لائبریرین
ہمیں یہ سیکھنا ہو گا
کہ مٹھی کھول دینی ہے۔۔۔۔
وہ گیلی ریت ہوتی ہے
جسے مٹھی میں بھرنے سے
ہمیں لگتا ہے شاید یہ
سمٹ جائے گی ہاتھوں میں
ٹھہر جائے گی مٹھی میں
وہ جب تک نم سی رہتی ہے
رکی رہتی ہے ہاتھوں میں
ہمیں اپنی سی لگتی ہے
ہمارے ہاتھ کا حصہ
ہماری ذات کا حصہ
وہ بن کر ساتھ رہتی ہے
ہمیں محسوس ہوتا ہے
کہ جیسے ہم اسی کے ہیں
کہ جیسے وہ ہماری ہے
مگر کب وقت رکتا ہے
ہوائیں کب نمی اس کی
دبے پاوں چراتی ہیں
ہمیں کب ہوش رہتا ہے
وہ ہر لمحہ سرکتی ہے
کہ جب تک بند مٹھی سے
روانہ ہو نہیں جاتی
وہ اپنے عزم پختہ سے
گریزاں تو نہیں ہوتی
رواں رہتی ہے ہر لمحہ
نہ جب تک ختم ہوجائے
عجب جنگ و جدل سی اک
اسے پھر روک لینے کی
بپا رہتی ہے سینے میں
ہم ایسا کر نہیں پاتے
بہت بے بس سے ہوتے ہیں
اسے کرتے ہوئے رخصت
لہو کے اشک پیتے ہیں
ہماری سب توانائی
ہماری سب ہی رعنائی
وہ ایسے صرف کرتی ہے
پرایا مال ہو جیسے
ہمیں اس خرچ ہونے میں
بہت تکلیف ہوتی ہے
بہت بے چین رہتے ہیں
سرکنا جس کی فطرت ہے
مچلنا جس کی عادت ہے
اسے کب روک سکتے ہیں
ہمیں یہ سیکھنا ہو گا
کہ مٹھی کھول دینی ہے
اسے جب کھول دیتے ہیں
تو ہم یہ مان لیتے ہیں
کہ جب جانا ٹھہر جائے
تو پھر روکا نہیں جاتا
تو مٹھی کھول دینے کے
سوا چارہ نہیں کوئی
ہمیں یہ جاننا ہوگا
ہمیں یہ سیکھنا ہوگا
کہ مٹھی کھول دینی ہے
کہ مٹھی کھول دینا ہی
ہمیں آزاد کرتا ہے
ہمیں بے خوف رکھتا ہے
کوئی خواہش نہیں رہتی
تعلق ٹوٹ جانے سے
کسی کے پاس آنے سے
کسی کے دور جانے سے
کسی کے مان جانے سے
کسی کے روٹھ جانے سے
کوئی تسکین ہوتی ہے
نہ دل بے چین رہتا ہے
کسی امید مبہم پر
نہ آنسو جھلملاتے ہیں
ہمیں یہ سیکھنا ہوگا
کہ مٹھی کھول دینی ہے
ابن رضا
کہ مٹھی کھول دینی ہے۔۔۔۔
وہ گیلی ریت ہوتی ہے
جسے مٹھی میں بھرنے سے
ہمیں لگتا ہے شاید یہ
سمٹ جائے گی ہاتھوں میں
ٹھہر جائے گی مٹھی میں
وہ جب تک نم سی رہتی ہے
رکی رہتی ہے ہاتھوں میں
ہمیں اپنی سی لگتی ہے
ہمارے ہاتھ کا حصہ
ہماری ذات کا حصہ
وہ بن کر ساتھ رہتی ہے
ہمیں محسوس ہوتا ہے
کہ جیسے ہم اسی کے ہیں
کہ جیسے وہ ہماری ہے
مگر کب وقت رکتا ہے
ہوائیں کب نمی اس کی
دبے پاوں چراتی ہیں
ہمیں کب ہوش رہتا ہے
وہ ہر لمحہ سرکتی ہے
کہ جب تک بند مٹھی سے
روانہ ہو نہیں جاتی
وہ اپنے عزم پختہ سے
گریزاں تو نہیں ہوتی
رواں رہتی ہے ہر لمحہ
نہ جب تک ختم ہوجائے
عجب جنگ و جدل سی اک
اسے پھر روک لینے کی
بپا رہتی ہے سینے میں
ہم ایسا کر نہیں پاتے
بہت بے بس سے ہوتے ہیں
اسے کرتے ہوئے رخصت
لہو کے اشک پیتے ہیں
ہماری سب توانائی
ہماری سب ہی رعنائی
وہ ایسے صرف کرتی ہے
پرایا مال ہو جیسے
ہمیں اس خرچ ہونے میں
بہت تکلیف ہوتی ہے
بہت بے چین رہتے ہیں
سرکنا جس کی فطرت ہے
مچلنا جس کی عادت ہے
اسے کب روک سکتے ہیں
ہمیں یہ سیکھنا ہو گا
کہ مٹھی کھول دینی ہے
اسے جب کھول دیتے ہیں
تو ہم یہ مان لیتے ہیں
کہ جب جانا ٹھہر جائے
تو پھر روکا نہیں جاتا
تو مٹھی کھول دینے کے
سوا چارہ نہیں کوئی
ہمیں یہ جاننا ہوگا
ہمیں یہ سیکھنا ہوگا
کہ مٹھی کھول دینی ہے
کہ مٹھی کھول دینا ہی
ہمیں آزاد کرتا ہے
ہمیں بے خوف رکھتا ہے
کوئی خواہش نہیں رہتی
تعلق ٹوٹ جانے سے
کسی کے پاس آنے سے
کسی کے دور جانے سے
کسی کے مان جانے سے
کسی کے روٹھ جانے سے
کوئی تسکین ہوتی ہے
نہ دل بے چین رہتا ہے
کسی امید مبہم پر
نہ آنسو جھلملاتے ہیں
ہمیں یہ سیکھنا ہوگا
کہ مٹھی کھول دینی ہے
ابن رضا
آخری تدوین: