غدیر زھرا
لائبریرین
ہم دھرتی کے پہلے کیڑے ہم دھرتی کا پہلا ماس
دل کے لہو سے سانس ملا کی سُچا نور بناتے ہیں
اپنا آپ ہی کھاتے ہیں اور ریشم بُنتے جاتے ہیں
خواب نگر کی خاموشی اور تنہائی میں پلتے ہیں
صاف مصفّا اُجلا ریشم تاریکی میں بُنتے ہیں
کس نے سمجھا کیسے بُنے ہیں چاندی کی کرنوں کے تار
کُنجِ جگر سے کھینچ کے لاتے ہیں ہم نُور کے ذرّوں کو
شرماتے ہیں دیکھ کے جن کو نیل گگن کے تارے بھی
ہم کو خبر ہے ان کاموں میں جاں کا زیاں ہو جاتا ہے
لیکن فطرت کی مجبوری ہم ریشم کے کیڑوں کی
سُچا ریشم بُنتے ہیں اور تار لپٹتے جاتے ہیں
آخر گُھٹ کے مر جاتے ہیں ریشم کی دیواروں میں
کوئی ریشم بُن کے دیکھے ریشم بُننا کھیل نہیں
(علی اکبر ناطق)