ریمنڈ ڈیوس۔ اصل حقائق ۔ از جاوید چوہدری

ساقی۔

محفلین
1102166038-1.jpg

1102166038-2.gif


روزنامہ ایکسپریس​
 
اس کی باتوں میں کتنا سچ ہے اور سب سے اہم بات اتنے عرصے بعد یہ واقعہ بیان کرنے کا اس وقت کیا مقصد ہے اس کٹھ پتلی کی ڈوریاں کون ہلا رہا ہے نواز شریف یا سیاستدانوں کو ناقابل اعتبار قرار دینا مقصد ہے؟کیا نواز شریف اور آرمی میں کوئی نئی ڈیل ہونے جا رہی ہے
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ہم نے ہميشہ يہ بات کہی ہے کہ وہ ايک افسوس ناک واقعہ تھا اور زندگيوں کا ضياع المناک تھا۔ لیکن امريکہ نے پہلے دن سے ہی کہا تھا کہ ريمنڈ ڈيوس کو رائج بین الاقوامی معاہدوں کے تحت سفارتی استثنی حاصل تھی۔ اس کيس کا فيصلہ پاکستانی قانون کے عين مطابق اور پاکستانی خودمختاری سے متعلق احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے کيا گيا۔

امريکہ سميت دنيا بھر ميں ايسی کئ مثالیں موجود ہيں جب سفارت کاروں نے اپنے سفارتی عہدے کی بنياد پر کاميابی سے سفارتی استثنی جاصل کی ہے۔

سفارتی استثنی ايک قانونی استثنی ہوتی ہے جو کہ بین الاقوامی طور پر حکومتوں کے مابين ايک معاہدہ ہوتا ہے، جس کا مقصد دوسرے ملک کے سفارت کاروں کے خلاف میزبان ملک کے قوانین کے تحت مقدمہ نہیں چلايا جا سکتا ہے اور نہ ہی پراسیکیوشن کی جا سکتی ہے چاہے جتنا بڑا جرم کيوں نہ ہو البتہ ان کو ملک سے نکالا جا سکتا ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
یہ بات تو پہلے بھی خبروں میں آچکی ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی جنرل پاشا کے ذریعے ہوئی تھی۔ اور ایوان صدر اس معاملے کو ہینڈل کر رہا تھا۔ اور ڈیوس کی رہائی کے بعد پیپلز پارٹی نے یہ معاملہ پنجاب حکومت کے گلے ڈال کر اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی یہ بھی ریکارڈ پر موجود ہے۔
ڈیوس کے دو جرائم تھے ایک تو بے گناہوں کا قتل اور دوسرا پاکستان کے خلاف جاسوسی ۔
پہلا جرم تو لواحقین نے معاف کر دیا۔ لیکن دوسرے جرم کا مقدمہ ہی درج نہیں کرایا گیا جو کہ اسوقت کی وفاقی حکومت کی ذمہ داری تھی۔
 
یہ بات تو پہلے بھی خبروں میں آچکی ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی جنرل پاشا کے ذریعے ہوئی تھی۔ اور ایوان صدر اس معاملے کو ہینڈل کر رہا تھا۔ اور ڈیوس کی رہائی کے بعد پیپلز پارٹی نے یہ معاملہ پنجاب حکومت کے گلے ڈال کر اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی یہ بھی ریکارڈ پر موجود ہے۔
ڈیوس کے دو جرائم تھے ایک تو بے گناہوں کا قتل اور دوسرا پاکستان کے خلاف جاسوسی ۔
پہلا جرم تو لواحقین نے معاف کر دیا۔ لیکن دوسرے جرم کا مقدمہ ہی درج نہیں کرایا گیا جو کہ اسوقت کی وفاقی حکومت کی ذمہ داری تھی۔
لئیق احمدبھائی آپ فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ کے مراسلہ کا جواب دے سکتے ہیں کیا؟ تضادات ان کے رویے میں اور جس قانون کی یہ بات کرتے ہیں وہ اسکی حدود اور شرائط کیا ہیں؟
 
لئیق احمدبھائی آپ فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ کے مراسلہ کا جواب دے سکتے ہیں کیا؟ تضادات ان کے رویے میں اور جس قانون کی یہ بات کرتے ہیں وہ اسکی حدود اور شرائط کیا ہیں؟
مجھے مشکل یہ ہے کہ مجھے اتنا تو اخبارات کے ذریعے علم ہے کہ ڈیوس کو مکمل سفارتی استثناء نہیں تھا ، مگر کس حد تک تھا اس کامجھے علم نہیں۔ اور اسکے مطابق قانون کیا کہتا ہے اسکا میں اندازہ نہیں کر سکتا۔
 
لئیق احمدبھائی آپ فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ کے مراسلہ کا جواب دے سکتے ہیں کیا؟ تضادات ان کے رویے میں اور جس قانون کی یہ بات کرتے ہیں وہ اسکی حدود اور شرائط کیا ہیں؟
ناصر علی مرزا صاحب آج آپ نے یہ مسئلہ حل کرہی دیا کہ لئیق احمد گنجوں کے بےضابطہ وکیل صفائی ہیں
 
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ہم نے ہميشہ يہ بات کہی ہے کہ وہ ايک افسوس ناک واقعہ تھا اور زندگيوں کا ضياع المناک تھا۔ لیکن امريکہ نے پہلے دن سے ہی کہا تھا کہ ريمنڈ ڈيوس کو رائج بین الاقوامی معاہدوں کے تحت سفارتی استثنی حاصل تھی۔ اس کيس کا فيصلہ پاکستانی قانون کے عين مطابق اور پاکستانی خودمختاری سے متعلق احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے کيا گيا۔

امريکہ سميت دنيا بھر ميں ايسی کئ مثالیں موجود ہيں جب سفارت کاروں نے اپنے سفارتی عہدے کی بنياد پر کاميابی سے سفارتی استثنی جاصل کی ہے۔

سفارتی استثنی ايک قانونی استثنی ہوتی ہے جو کہ بین الاقوامی طور پر حکومتوں کے مابين ايک معاہدہ ہوتا ہے، جس کا مقصد دوسرے ملک کے سفارت کاروں کے خلاف میزبان ملک کے قوانین کے تحت مقدمہ نہیں چلايا جا سکتا ہے اور نہ ہی پراسیکیوشن کی جا سکتی ہے چاہے جتنا بڑا جرم کيوں نہ ہو البتہ ان کو ملک سے نکالا جا سکتا ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
ناصر علی مرزا صاحب آج آپ نے یہ مسئلہ حل کرہی دیا کہ لئیق احمد گنجوں کے بےضابطہ وکیل صفائی ہیں
محترم روحانی بابا آپ بھی سچے ہیں کہ آپ کی کوئی ذاتی دشمنی تھوڑی ہے ان سے اور واقعی اس دفعہ یہ لوگ ٹھیک زرداری کے نقش قدم پر ہیں ،آپ لئیق احمد بھائی کو ہمنوا بنا لیں باقی یہ حق نمک والے کے حوالے سے کام کر رہا ہوں آپ کچھ مدد کر سکیں تو نوازش ہو گی
 
میرے پاس تو ریمنڈ ڈیوس کے مسئلے کا بہت اچھا حل تھا لیکن اس پر عمل نہیں ہوا۔ حل یہ تھا کہ
کرزئی کے انعام یافتہ دہشت گرد پاکستانی طالبان ڈیوس کو اغوا کر کے وزیرستان لے جاتے اور وہاں وہ امریکی ڈرون کے میزائل حملے میں جہنم رسید ہوجاتا۔ ٖقصہ ختم
پھر یہ فواد صاحب بھی اعتراض نا کرتے بلکہ فرینڈلی فائر کا بہانہ کر کے افسوس سے کام چلا لیتے :p
 

ساقی۔

محفلین
اور یہ ساقی صاحب نے بھی سانپ چھوڑ دیا ہے مے خانے میں اور خود کدھر ٹن ہو گئے ہیں
:?
جناب میں تو ابھی آپ کے تبصروں سے سیکھ رہا ہوں ۔ جب کچھ پلے پڑے گا تو سانپ کو بھی سدھ کر لیں گے۔ ابھی دوستوں کو ہاتھ کھولنے کا موقع مزید ملنا چاہیے۔ے بھائی قیصرانی پتا نہیں کدھر ہیں آج۔
 
:?
جناب میں تو ابھی آپ کے تبصروں سے سیکھ رہا ہوں ۔ جب کچھ پلے پڑے گا تو سانپ کو بھی سدھ کر لیں گے۔ ابھی دوستوں کو ہاتھ کھولنے کا موقع مزید ملنا چاہیے۔ے بھائی قیصرانی پتا نہیں کدھر ہیں آج۔
سوہنیوں سانوں تے اک تجربہ کار بندے نے دسیا اے کے میفل نوں سیرئس نی لینا تہ فیر جو دل چ آ یا کہہ دتا ، ویسے ہون لگدا اے اونے ٹھیک ای کہیا اے
بابا جی نے تے کہیا اے چھڈوں اے گلاں باتاں فیدا کی ،
 

ساقی۔

محفلین
سوہنیوں سانوں تے اک تجربہ کار بندے نے دسیا اے کے میفل نوں سیرئس نی لینا تہ فیر جو دل چ آ یا کہہ دتا ، ویسے ہون لگدا اے اونے ٹھیک ای کہیا اے
بابا جی نے تے کہیا اے چھڈوں اے گلاں باتاں فیدا کی ،

او جناب اس محفل چوں جیہڑا نکل دا اے ہیرا بن کے نکل دا اے۔ مذہب تے سیاست اہدی رگ رگ وچ رچ بس جاندے نے ۔ فیر او کدرے وی ہار نئیں سکدا۔ پاویں رحمان ملک مقابلے وچ ہوئے یا مولانا فضل الرحمن !
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
میرے پاس تو ریمنڈ ڈیوس کے مسئلے کا بہت اچھا حل تھا لیکن اس پر عمل نہیں ہوا۔ حل یہ تھا کہ
کرزئی کے انعام یافتہ دہشت گرد پاکستانی طالبان ڈیوس کو اغوا کر کے وزیرستان لے جاتے اور وہاں وہ امریکی ڈرون کے میزائل حملے میں جہنم رسید ہوجاتا۔ ٖقصہ ختم
پھر یہ فواد صاحب بھی اعتراض نا کرتے بلکہ فرینڈلی فائر کا بہانہ کر کے افسوس سے کام چلا لیتے :p
خود آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
 
او جناب اس محفل چوں جیہڑا نکل دا اے ہیرا بن کے نکل دا اے۔ مذہب تے سیاست اہدی رگ رگ وچ رچ بس جاندے نے ۔ فیر او کدرے وی ہار نئیں سکدا۔ پاویں رحمان ملک مقابلے وچ ہوئے یا مولانا فضل الرحمن !
جئے محفل مہاراج دی
بس اے مہاراج چنگا نہ لگا ، وجہ وی سن لو ہوسکدا میں غلط ہی ہواں تے مہاراج دا مطلب چنگا ہی ہوے فیر وی جرات کر ریا واں ، ویسے بھی یہ رائے ہے رائے تو ہر کوئی دے سکتا ہے
اسلام نے کفریہ اصلاحات کے استعمال سے منع فرمایا ہے کیونکہ ان کے زبان زد عام ہونے سے نہ صرف عدو کے افکار کی ترویج ہوتی ہے بلکہ مسلمانوں اور عوام الناس میں اِن اصطلاحات سے الجھنیں بھی پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صحابہ کرام ؓ کو ”راعنا“ کی ذو معنی اصطلاح استعمال کرنے سے منع فرمادیا۔ یہودی راعنا(ہماری طرف توجہ فرمائیں) کی اصطلاح رسول اﷲ ﷺ کے لیے استعمال کرتے تھے ۔ یہ درست ہے کہ مسلمان اس اصطلاح سے ”ہماری رعیت کرنے والے“ مراد لیتے تھے لیکن چونکہ اس سے ”گڈریے“ کے معنی بھی نکلتے تھے جو یہودی اپنی شرارت پر مبنی فطرت سے مراد لیتے تھے، اس لیے اسلام نے اسے استعمال کرنے سے ہی منع فرما دیا۔ چنانچہ آزادی کی اصطلاح کو ”اسلامی آزادیاں“ یا ”اسلام کے تحت آزادیاں“ کے سابقوں اور لاحقوں کے ساتھ استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کہنا کہ ہم بھی آزادیوں پر ایمان رکھتے ہیں ایک فاش غلطی ہوگی کیونکہ چاہے ہم ان آزادیوں کی کوئی بھی نئی تعریف کر لیں ہمارا ایسا کہنا درحقیقت عدو کے معیاراور کسوٹیوں کوتسلیم کرنا ہو گااور اس کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کے مترادف ہوگا ۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ آج ہم اگر دہشت گردی کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے اس کی مذمت میں بیان جاری کریں تو یہ لامحالہ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کی حمایت میں تصور ہوگا چاہے فائن پرنٹمیں ہم دہشت گردی کی کوئی بھی تعریف پیش کرتے رہیں۔ چنانچہ وہ تمام مغربی اصطلاحیں جن کے مخصوص معنی و مطالب رواج پا گئے ہیں اور وہ اسلام کے احکامات سے متصادم بھی ہیں مثلاً آزادی، بنیادی انسانی حقوق، سوشل جسٹس، جمہوریت وغیرہ انہیں مسلمان شرعاً استعمال نہیں کر سکتے چاہے مسلمان ان کو اپنی مرضی و منشاءکے مطابق کوئی دوسرے معانی میں استعمال کر رہے ہوں کیونکہ یہ سب ”لا تقولوا راعنا“ کے حکم کے زمرے میں آئے گا۔ ہاں جہاں تک دوسری علمی اصطلاحات کا تعلق ہے مثلاً آئین، آئیڈیالوجی وغیرہ انہیں ہم بھی استعمال کرسکتے ہیں کیونکہ مغرب انہیں جن معانی میں استعمال کرتا ہے ان کا اسلام سے کوئی تناقض نہیں ہے۔
عبدالجبار مسلم
 
Top