1984 اولمپک گیمز کے دوران ہمارے گھر کے ساتھ موجود میدان میں ہاکی کھیلی جاتی تھی، مجھے یاد ہے کہ میں نے شہتوت کی ایک پتلی لیکن مضبوط سی چھڑی کو اس طرح کاٹا تھا کہ وہ ہاکی جیسی بن گئی تھی اور میں اسی سے ہاکی کھیلا کرتا تھا۔ پچیس تیس لڑکے بالے بیک وقت میدان میں ہاکی کھیل رہے ہوتے تھے اور صرف دو تین کے پاس ہی صحیح والی ہاکی سٹک ہوتی تھی۔
ان ہی دنوں میں میرے سب سے بڑے خالہ زاد بھائی کھاریاں سے گاڑی خریدنے پنڈی آئے تو ہمارے گھر بھی ان کا چکر لگا۔ مجھے اس شہتوت کی چھڑی سے ہاکی کھیلتے دیکھ کر انھیں تھوڑا دکھ ہوا کہ وہ اپنے کالج کی ہاکی ٹیم کے کپتان رہے تھے۔ انھوں نے پوچھا کہ کس پوزیشن پر کھیلتے ہو تو مجھے کہاں اتنی سمجھ تھی، میں نے کہا جہاں بال چلی جائے وہاں پہنچ جاتا ہوں۔ انھوں نے سمجھایا کہ کسی ایک جگہ پر کھیلو۔ حسن سردار، کلیم اللہ، حنیف خان وغیرہ آگے کھیلا کرتے تھے تو میں نے لیفٹ فارورڈ (لیفٹ ونگ) والی پوزیشن منتخب کر لی۔
انھوں نے ہی بتایا کہ فل بیکس اور فارورڈز کی ہاکی سٹک میں فرق ہوتا ہے۔ پھر انھوں نے واپس گاؤں جا کر اپنے کالج کے زمانے کی پڑی تین چار ہاکیوں میں سے ایک فارورڈ والی ہاکی گاؤں کے ایک آدمی کو دے کر واہ بھیج دی۔ اس ہاکی کا مالک بن کر جو فخر محسوس کیا وہ ان گولوں سے زیادہ قیمتی تھا جو کھیل کے دوران کیے تھے۔